نور وجدان
لائبریرین
فیس بک شادی ۔۔۔!!!
ٹی وی پر '' شادی آن لائن '' کا پروگرام چل رہا تھا ۔ بیس سالہ زنیرہ محوِ حیرت سے لڑکی اور لڑکے کے مابین ہونے والی دلچسپ گفتگو سُن رہی تھی ۔شادی آن لائن والوں نے آفیشل ویب سائٹ کے ساتھ ایک فیس گروپ کا ایڈریس اسکرین پر آن ائیر کیا ہوا تھا۔ پروگرام دیکھتے ہوئے اک دوست کا فون آگیا ۔
کچھ دیر بعد زنیرہ ، حمیرہ آپس میں محو گفتگو تھیں ۔
کیا خیال ہے؟ پھر کریں کسی کو مجنوں ؟
دونوں نے فیس بک کھولی کر ''شادی آن لائن '' گروپ کے ممبرز میں پیغامات بھیجنا شروع کردئے ۔ آخر کار ! آخر کار ایک شکار پھنس گیا۔بے چارہ عاشق ! دو پل کی عاشقی کا خواہاں !!! زنیرہ نے اپنی ایک تصویر آگے فارورڈ کردی۔ولی نے شوخ حسینہ کی تصویر دیکھی اور کمپیوٹر کی اسکرین پر ''جلوہ گرتصویر ' کو فرطِ جذبات میں چومنا شروع کردیا۔ ''پل دو پل کی شاعری'' ولی کی زندگی کی غزل بن گئی۔اس غزل کو 'ہزل ' بنانے والی شوخ حسینہ اپنے انجام سے بے خبر فتح کے نشاط میں گُم تھی ۔
ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد زنیرہ کا ولی سے دل بھرگیا۔ کسی اور نہج پر سوچنے کا موقع ہی نہ ملا اور ان باکس میں کسی اجنبی کا میسج آیا۔اس کو ''سپام '' کر ہی دیتی مگر پیغام عجیب و غریب نوعیت کا تھا۔
کسی عورت کی دکھ بھری داستان سن کر دل میں ہمدردی کا اُبال اٹھا۔ اس کے دکھ میں اضافہ ہوا جب معلوم ہوا کہ وہ اس کی ہم عمر ہے ۔انسانیت کا حق ادا کرنے کی خاطر اس کو دلاسہ دئے اور بات دکھ سکھ سے چلتی مشائخ دین تک آپہنچی۔ زنیرہ اب اس ''عورت'' سے متاثر ہوگئی کہ اس کے پاس جہاں بھر کے صوفی علماء کا علم تھا۔یوں دونوں ایک ہی تار میں بندھے دوستی کے رشتے میں جُڑے ، ہر حجاب سے عاری ، دل کی باتیں کرتے رہتے ۔ زنیرہ کو حمیرہ کی یاد تک نہ رہی ۔ دکھیاری عورت نے زنیرہ کی سٹائلڈ تصاویر دیکھ کر ''پیار بھرے '' تبصروں سے شائقین کو محظوظ کرنا شروع کردیا۔زنیرہ کے لیے ان تبصروں سے نکلنا طلسم ٹوٹ جانے کے مترادف تھا۔
اب کہ دونوں میں قربتوں کے فاصلوں نے دُکھیاری عورت کے راز کو عیاں کردیا۔ یوں ملک عبد الولی نے زنیرہ کو پروفائل میں ایڈ کرلیا۔ دونوں میں سمٹتے فاصلوں کو عبور کرنے کے لیےفیس بک کی جگہ موبائل فون نے لے لی۔ آواز سے عمر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے مگر کبھی کبھی آواز دھوکہ دے جاتی ہے یا محبت اندھا کر دیتی ہے اور عمروں کے بھید چھپ جاتے ہیں ۔ پینتالیس کی سن کا ولی پچیس سال کا نوجوان بنا زنیرہ کو دلکش جنت کی سیر کرواتا رہا۔
کہتے ہیں کہ :لوہا گرم ہو تو چوٹ لگاؤ۔۔
عبد الولی نے پرانی ادھوری محبت کا قصہ اور تنہائی کی کتھا سنا کر دامِ فریب کا جال وسیع کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد دو پیارے بچوں کی تصویر دیکھنے کو ملی جو ہو بہو عبدالولی کی شکل تھے ۔ یتیم بچوں کی محبت ۔۔۔۔! ماں کے ہوتے ہوئے یتیم بچے ۔۔۔! زنیرہ نے ماں بننے کا فیصلہ کرلیا۔ اس فیصلے کو ماں باپ کی صدا نہ التجائیں روک سکیں ۔ یوں بابل کے گھر سے زنیرہ کا جنازہ رخصت ہوگیا۔
'سوت'' کے بندھن میں بچے غیر کو قبول کیسے کرتے ؟
ولی شاید اس کو باندی بنا کر لایا تھا۔ یوں ایک ماہ تلخ یادوں کا رقم ہوگیا ۔دنیا میں ایک فرشتہ آنے والا تھا ۔ ولی کیوں باندی کو بیوی کا درجہ دیتا۔ شادی تو محض اپنے پیاسے اور سابقہ عشق کو ستانے کا بہانہ تھی ۔۔۔''آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا '' کے مصداق زنیرہ کو ''آگے کھائی اور پیچھے کنواں'' دکھائی دیتا،۔چارو ناچار خواہشات کا گلا گھونٹ کر زندہ رہنا سیکھ لیا کہ قدرت اس پر کسی طرح سے تو مہربان ہے ۔ خود زنیرہ کی حالت خراب رہتی تھی مگر کون جانے اس کا سبب کیا تھا ۔ ڈاکڑز کے مطابق viral infection اس بیماری کا سبب تھا .زنیرہ اس بات سے یکثر لا علم کہ اس کا سبب کیا ہوسکتا ہے ؟ ہوسکتا ہے کہ ڈاکڑز جھوٹ کہتے ہوں . ایک بیوی حقیقت کو جھٹلا سکتی ہے مگر ایک ماں ایسا کبھی نہیں کرسکتی . مامتا کہاں بچے میں خامی برداشت کرسکتی ہے.شاید یہاں بھی قدرت مہربان ہوگئی اور مامتا کو تسلی ہوئی کہ حقیقت سے پردہ اٹھنا مقصودِ حق تھا
کچھ عرصہ ولی اور زنیرہ میں'' فرشتے'' کے موضوع پر گرما گرم بحث ہوئی اور اس .بحث نے کردار کشی کو جنم دیا۔. اور ولی نے اپنی سابقہ محبت کو پانے کے لیے بچے کا ''ولی '' بننے سے انکار کردیا. ایک جائز بات محبت نے ناجائز کر دی . مامتا ڈٹ گئی اور ڈی این اے ٹیسٹ سے ثبوت حاصل ہونے کے بعد رسوائی کا طوق پھر عورت کا نصیب بنا ۔۔. زنیرہ کو طلاق ہوگئی مگر خودادری نے مانگنے کے بجائے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھ لیا. در در کی ٹھوکروں اور تجربات سے گزر کا زنیرہ نے جینا سیکھ لیا. وہ آج کی جدید عورت تھی جس کو مرد کے پاؤں کی جوتی بن کے رہنے کے بجائے اپنے بھروسے پر جینا تھا. جب ایک لڑکی پہلا فیصلہ اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے تو تب ہر فیصلہ اس کو خود کرنا پڑتا ہے . پہلا فیصلہ انسان کی زندگی بناتا یا بگاڑتا ہے
ٹی وی پر '' شادی آن لائن '' کا پروگرام چل رہا تھا ۔ بیس سالہ زنیرہ محوِ حیرت سے لڑکی اور لڑکے کے مابین ہونے والی دلچسپ گفتگو سُن رہی تھی ۔شادی آن لائن والوں نے آفیشل ویب سائٹ کے ساتھ ایک فیس گروپ کا ایڈریس اسکرین پر آن ائیر کیا ہوا تھا۔ پروگرام دیکھتے ہوئے اک دوست کا فون آگیا ۔
کچھ دیر بعد زنیرہ ، حمیرہ آپس میں محو گفتگو تھیں ۔
کیا خیال ہے؟ پھر کریں کسی کو مجنوں ؟
دونوں نے فیس بک کھولی کر ''شادی آن لائن '' گروپ کے ممبرز میں پیغامات بھیجنا شروع کردئے ۔ آخر کار ! آخر کار ایک شکار پھنس گیا۔بے چارہ عاشق ! دو پل کی عاشقی کا خواہاں !!! زنیرہ نے اپنی ایک تصویر آگے فارورڈ کردی۔ولی نے شوخ حسینہ کی تصویر دیکھی اور کمپیوٹر کی اسکرین پر ''جلوہ گرتصویر ' کو فرطِ جذبات میں چومنا شروع کردیا۔ ''پل دو پل کی شاعری'' ولی کی زندگی کی غزل بن گئی۔اس غزل کو 'ہزل ' بنانے والی شوخ حسینہ اپنے انجام سے بے خبر فتح کے نشاط میں گُم تھی ۔
ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد زنیرہ کا ولی سے دل بھرگیا۔ کسی اور نہج پر سوچنے کا موقع ہی نہ ملا اور ان باکس میں کسی اجنبی کا میسج آیا۔اس کو ''سپام '' کر ہی دیتی مگر پیغام عجیب و غریب نوعیت کا تھا۔
کسی عورت کی دکھ بھری داستان سن کر دل میں ہمدردی کا اُبال اٹھا۔ اس کے دکھ میں اضافہ ہوا جب معلوم ہوا کہ وہ اس کی ہم عمر ہے ۔انسانیت کا حق ادا کرنے کی خاطر اس کو دلاسہ دئے اور بات دکھ سکھ سے چلتی مشائخ دین تک آپہنچی۔ زنیرہ اب اس ''عورت'' سے متاثر ہوگئی کہ اس کے پاس جہاں بھر کے صوفی علماء کا علم تھا۔یوں دونوں ایک ہی تار میں بندھے دوستی کے رشتے میں جُڑے ، ہر حجاب سے عاری ، دل کی باتیں کرتے رہتے ۔ زنیرہ کو حمیرہ کی یاد تک نہ رہی ۔ دکھیاری عورت نے زنیرہ کی سٹائلڈ تصاویر دیکھ کر ''پیار بھرے '' تبصروں سے شائقین کو محظوظ کرنا شروع کردیا۔زنیرہ کے لیے ان تبصروں سے نکلنا طلسم ٹوٹ جانے کے مترادف تھا۔
اب کہ دونوں میں قربتوں کے فاصلوں نے دُکھیاری عورت کے راز کو عیاں کردیا۔ یوں ملک عبد الولی نے زنیرہ کو پروفائل میں ایڈ کرلیا۔ دونوں میں سمٹتے فاصلوں کو عبور کرنے کے لیےفیس بک کی جگہ موبائل فون نے لے لی۔ آواز سے عمر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے مگر کبھی کبھی آواز دھوکہ دے جاتی ہے یا محبت اندھا کر دیتی ہے اور عمروں کے بھید چھپ جاتے ہیں ۔ پینتالیس کی سن کا ولی پچیس سال کا نوجوان بنا زنیرہ کو دلکش جنت کی سیر کرواتا رہا۔
کہتے ہیں کہ :لوہا گرم ہو تو چوٹ لگاؤ۔۔
عبد الولی نے پرانی ادھوری محبت کا قصہ اور تنہائی کی کتھا سنا کر دامِ فریب کا جال وسیع کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد دو پیارے بچوں کی تصویر دیکھنے کو ملی جو ہو بہو عبدالولی کی شکل تھے ۔ یتیم بچوں کی محبت ۔۔۔۔! ماں کے ہوتے ہوئے یتیم بچے ۔۔۔! زنیرہ نے ماں بننے کا فیصلہ کرلیا۔ اس فیصلے کو ماں باپ کی صدا نہ التجائیں روک سکیں ۔ یوں بابل کے گھر سے زنیرہ کا جنازہ رخصت ہوگیا۔
'سوت'' کے بندھن میں بچے غیر کو قبول کیسے کرتے ؟
ولی شاید اس کو باندی بنا کر لایا تھا۔ یوں ایک ماہ تلخ یادوں کا رقم ہوگیا ۔دنیا میں ایک فرشتہ آنے والا تھا ۔ ولی کیوں باندی کو بیوی کا درجہ دیتا۔ شادی تو محض اپنے پیاسے اور سابقہ عشق کو ستانے کا بہانہ تھی ۔۔۔''آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا '' کے مصداق زنیرہ کو ''آگے کھائی اور پیچھے کنواں'' دکھائی دیتا،۔چارو ناچار خواہشات کا گلا گھونٹ کر زندہ رہنا سیکھ لیا کہ قدرت اس پر کسی طرح سے تو مہربان ہے ۔ خود زنیرہ کی حالت خراب رہتی تھی مگر کون جانے اس کا سبب کیا تھا ۔ ڈاکڑز کے مطابق viral infection اس بیماری کا سبب تھا .زنیرہ اس بات سے یکثر لا علم کہ اس کا سبب کیا ہوسکتا ہے ؟ ہوسکتا ہے کہ ڈاکڑز جھوٹ کہتے ہوں . ایک بیوی حقیقت کو جھٹلا سکتی ہے مگر ایک ماں ایسا کبھی نہیں کرسکتی . مامتا کہاں بچے میں خامی برداشت کرسکتی ہے.شاید یہاں بھی قدرت مہربان ہوگئی اور مامتا کو تسلی ہوئی کہ حقیقت سے پردہ اٹھنا مقصودِ حق تھا
کچھ عرصہ ولی اور زنیرہ میں'' فرشتے'' کے موضوع پر گرما گرم بحث ہوئی اور اس .بحث نے کردار کشی کو جنم دیا۔. اور ولی نے اپنی سابقہ محبت کو پانے کے لیے بچے کا ''ولی '' بننے سے انکار کردیا. ایک جائز بات محبت نے ناجائز کر دی . مامتا ڈٹ گئی اور ڈی این اے ٹیسٹ سے ثبوت حاصل ہونے کے بعد رسوائی کا طوق پھر عورت کا نصیب بنا ۔۔. زنیرہ کو طلاق ہوگئی مگر خودادری نے مانگنے کے بجائے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھ لیا. در در کی ٹھوکروں اور تجربات سے گزر کا زنیرہ نے جینا سیکھ لیا. وہ آج کی جدید عورت تھی جس کو مرد کے پاؤں کی جوتی بن کے رہنے کے بجائے اپنے بھروسے پر جینا تھا. جب ایک لڑکی پہلا فیصلہ اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے تو تب ہر فیصلہ اس کو خود کرنا پڑتا ہے . پہلا فیصلہ انسان کی زندگی بناتا یا بگاڑتا ہے
آخری تدوین: