فیس بک شادی ۔۔۔نور شیخ

نور وجدان

لائبریرین
کیا انسان اپنی مرضی سے اچھا ہو سکتا ھے؟؟؟؟
اپنی مرضی سے ضمیر کو سُلا یا جگا سکتا ھے؟؟؟
مرضی سے ہو سکتا ہے ۔۔
ضمیر کو سلا بھی دیتا ہے۔۔
مگر مکمل مرضی نہیں کر سکتا ہے ۔ جو راستہ و قدم اختیار کرتا ہے اس کی راہ پر چلتے چلتے وہ برا یا اچھا ہوجاتا ہے ۔ اس لیے انسان برا یا اچھا ہوتا ہے ۔ باقی جو اچھے برے ہوتے ہیں وہ بہروپ ہوتے ہیں،
 

نایاب

لائبریرین
کیا انسان اپنی مرضی سے اچھا ہو سکتا ھے؟؟؟؟
اپنی مرضی سے ضمیر کو سُلا یا جگا سکتا ھے؟؟؟
محترم بھائی جب کبھی میں نے رستہ چلتے کوئی پتھر کوئی تکلیف دہ شئے " راہ " سے ہٹائی تو
میں نے ثابت کیا کہ انسان اپنی مرضی سے اچھوں کی صفت اپناتے خود کو اپنی مرضی پہ چلاتے اچھا ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
جب کبھی میں نے کوئی جھوٹ بولا اپنی کوئی ضرورت پوری کی میرے ضمیر نے صدا اٹھائی مجھے پریشان کیا
تومیں نے اپنے ضمیر کو " مصلحت " کی تھپکی لگا " ضرورت " کی لوری سنا سونے پر مجبور کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

محمد امین

لائبریرین
آپ نے دوشیزہ ڈائجسٹ میں چل پانے والے لمبےےےےےےے قسط وار ناول کو چند پیراگراف میں لکھ کر خون کر دیا ناول کا۔۔۔۔ ہاہا
 

نور وجدان

لائبریرین
آپ نے دوشیزہ ڈائجسٹ میں چل پانے والے لمبےےےےےےے قسط وار ناول کو چند پیراگراف میں لکھ کر خون کر دیا ناول کا۔۔۔۔ ہاہا

یہ کون سا ڈائجسٹ ہے ؟ پہلی دفعہ نام سنا میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کی اس کی قسطیں چاہیں تھیں ؟ ہا ہا
وہاں پر بھی فیس بک سے متعلق کہانیاں لکھی جاتی ہیں؟
 

محمد امین

لائبریرین
یہ کون سا ڈائجسٹ ہے ؟ پہلی دفعہ نام سنا میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کی اس کی قسطیں چاہیں تھیں ؟ ہا ہا

دوشیزہ ڈائجسٹ مشہور ہے کافی۔ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اس طرح کے پلاٹ کو ہمارے لکھاری خواتین و حضرات کئی کئی سالوں تک چلا سکتے ہیں ڈائجسٹوں میں
 

نور وجدان

لائبریرین
دوشیزہ ڈائجسٹ مشہور ہے کافی۔ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اس طرح کے پلاٹ کو ہمارے لکھاری خواتین و حضرات کئی کئی سالوں تک چلا سکتے ہیں ڈائجسٹوں میں
کافی عرصہ لکھنے کا ارادہ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقت گزاری کے لیے لکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہانی لکھنے کو دل نہیں تھا وجہ : عجلت کہ لیں اس میں آدھا تو سچ ہے ۔یہ سچ ادھر ادھر کا ہے
 

آوازِ دوست

محفلین
فیس بک شادی ۔۔۔!!!
ٹی وی پر '' شادی آن لائن '' کا پروگرام چل رہا تھا ۔ بیس سالہ زنیرہ محوِ حیرت سے لڑکی اور لڑکے کے مابین ہونے والی دلچسپ گفتگو سُن رہی تھی ۔شادی آن لائن والوں نے آفیشل ویب سائٹ کے ساتھ ایک فیس گروپ کا ایڈریس اسکرین پر آن ائیر کیا ہوا تھا۔ پروگرام دیکھتے ہوئے اک دوست کا فون آگیا ۔
کچھ دیر بعد زنیرہ ، حمیرہ آپس میں محو گفتگو تھیں ۔

کیا خیال ہے؟ پھر کریں کسی کو مجنوں ؟

دونوں نے فیس بک کھولی کر ''شادی آن لائن '' گروپ کے ممبرز میں پیغامات بھیجنا شروع کردئے ۔ آخر کار ! آخر کار ایک شکار پھنس گیا۔بے چارہ عاشق ! دو پل کی عاشقی کا خواہاں !!! زنیرہ نے اپنی ایک تصویر آگے فارورڈ کردی۔ولی نے شوخ حسینہ کی تصویر دیکھی اور کمپیوٹر کی اسکرین پر ''جلوہ گرتصویر ' کو فرطِ جذبات میں چومنا شروع کردیا۔ ''پل دو پل کی شاعری'' ولی کی زندگی کی غزل بن گئی۔اس غزل کو 'ہزل ' بنانے والی شوخ حسینہ اپنے انجام سے بے خبر فتح کے نشاط میں گُم تھی ۔

ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد زنیرہ کا ولی سے دل بھرگیا۔ کسی اور نہج پر سوچنے کا موقع ہی نہ ملا اور ان باکس میں کسی اجنبی کا میسج آیا۔اس کو ''سپام '' کر ہی دیتی مگر پیغام عجیب و غریب نوعیت کا تھا۔


کسی عورت کی دکھ بھری داستان سن کر دل میں ہمدردی کا اُبال اٹھا۔ اس کے دکھ میں اضافہ ہوا جب معلوم ہوا کہ وہ اس کی ہم عمر ہے ۔انسانیت کا حق ادا کرنے کی خاطر اس کو دلاسہ دئے اور بات دکھ سکھ سے چلتی مشائخ دین تک آپہنچی۔ زنیرہ اب اس ''عورت'' سے متاثر ہوگئی کہ اس کے پاس جہاں بھر کے صوفی علماء کا علم تھا۔یوں دونوں ایک ہی تار میں بندھے دوستی کے رشتے میں جُڑے ، ہر حجاب سے عاری ، دل کی باتیں کرتے رہتے ۔ زنیرہ کو حمیرہ کی یاد تک نہ رہی ۔ دکھیاری عورت نے زنیرہ کی سٹائلڈ تصاویر دیکھ کر ''پیار بھرے '' تبصروں سے شائقین کو محظوظ کرنا شروع کردیا۔زنیرہ کے لیے ان تبصروں سے نکلنا طلسم ٹوٹ جانے کے مترادف تھا۔

اب کہ دونوں میں قربتوں کے فاصلوں نے دُکھیاری عورت کے راز کو عیاں کردیا۔ یوں ملک عبد الولی نے زنیرہ کو پروفائل میں ایڈ کرلیا۔ دونوں میں سمٹتے فاصلوں کو عبور کرنے کے لیےفیس بک کی جگہ موبائل فون نے لے لی۔ آواز سے عمر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے مگر کبھی کبھی آواز دھوکہ دے جاتی ہے یا محبت اندھا کر دیتی ہے اور عمروں کے بھید چھپ جاتے ہیں ۔ پینتالیس کی سن کا ولی پچیس سال کا نوجوان بنا زنیرہ کو دلکش جنت کی سیر کرواتا رہا۔

کہتے ہیں کہ :لوہا گرم ہو تو چوٹ لگاؤ۔۔

عبد الولی نے پرانی ادھوری محبت کا قصہ اور تنہائی کی کتھا سنا کر دامِ فریب کا جال وسیع کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد دو پیارے بچوں کی تصویر دیکھنے کو ملی جو ہو بہو عبدالولی کی شکل تھے ۔ یتیم بچوں کی محبت ۔۔۔۔! ماں کے ہوتے ہوئے یتیم بچے ۔۔۔! زنیرہ نے ماں بننے کا فیصلہ کرلیا۔ اس فیصلے کو ماں باپ کی صدا نہ التجائیں روک سکیں ۔ یوں بابل کے گھر سے زنیرہ کا جنازہ رخصت ہوگیا۔
'سوت'' کے بندھن میں بچے غیر کو قبول کیسے کرتے ؟

ولی شاید اس کو باندی بنا کر لایا تھا۔ یوں ایک ماہ تلخ یادوں کا رقم ہوگیا ۔دنیا میں ایک فرشتہ آنے والا تھا ۔ ولی کیوں باندی کو بیوی کا درجہ دیتا۔ شادی تو محض اپنے پیاسے اور سابقہ عشق کو ستانے کا بہانہ تھی ۔۔۔''آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا '' کے مصداق زنیرہ کو ''آگے کھائی اور پیچھے کنواں'' دکھائی دیتا،۔چارو ناچار خواہشات کا گلا گھونٹ کر زندہ رہنا سیکھ لیا کہ قدرت اس پر کسی طرح سے تو مہربان ہے ۔ خود زنیرہ کی حالت خراب رہتی تھی مگر کون جانے اس کا سبب کیا تھا ۔ ڈاکڑز کے مطابق viral infection اس بیماری کا سبب تھا .زنیرہ اس بات سے یکثر لا علم کہ اس کا سبب کیا ہوسکتا ہے ؟ ہوسکتا ہے کہ ڈاکڑز جھوٹ کہتے ہوں . ایک بیوی حقیقت کو جھٹلا سکتی ہے مگر ایک ماں ایسا کبھی نہیں کرسکتی . مامتا کہاں بچے میں خامی برداشت کرسکتی ہے.شاید یہاں بھی قدرت مہربان ہوگئی اور مامتا کو تسلی ہوئی کہ حقیقت سے پردہ اٹھنا مقصودِ حق تھا

کچھ عرصہ ولی اور زنیرہ میں'' فرشتے'' کے موضوع پر گرما گرم بحث ہوئی اور اس .بحث نے کردار کشی کو جنم دیا۔. اور ولی نے اپنی سابقہ محبت کو پانے کے لیے بچے کا ''ولی '' بننے سے انکار کردیا. ایک جائز بات محبت نے ناجائز کر دی . مامتا ڈٹ گئی اور ڈی این اے ٹیسٹ سے ثبوت حاصل ہونے کے بعد رسوائی کا طوق پھر عورت کا نصیب بنا ۔۔. زنیرہ کو طلاق ہوگئی مگر خودادری نے مانگنے کے بجائے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھ لیا. در در کی ٹھوکروں اور تجربات سے گزر کا زنیرہ نے جینا سیکھ لیا. وہ آج کی جدید عورت تھی جس کو مرد کے پاؤں کی جوتی بن کے رہنے کے بجائے اپنے بھروسے پر جینا تھا. جب ایک لڑکی پہلا فیصلہ اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے تو تب ہر فیصلہ اس کو خود کرنا پڑتا ہے . پہلا فیصلہ انسان کی زندگی بناتا یا بگاڑتا ہے
زندگی ایک مُشکل کھیل ہے اورغلط فیصلے اِسے مُشکل تر بنا دیتے ہیں ۔ والدین کا مان توڑ کر خوشیوں کی تلاش اکثر دھوکہ دیتی ہے ۔ محبت کا خُماراُترنے کے بعد زندگی کی تلخیاں کئی گُنا بڑھ جاتی ہیں ۔ استثنائی مثالیں ہر جگہ موجود ہیں مگر عمومی سچائیاں تلخ اور تکلیف دہ ہیں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
زندگی ایک مُشکل کھیل ہے اورغلط فیصلے اِسے مُشکل تر بنا دیتے ہیں ۔ والدین کا مان توڑ کر خوشیوں کی تلاش اکثر دھوکہ دیتی ہے ۔ محبت کا خُماراُترنے کے بعد زندگی کی تلخیاں کئی گُنا بڑھ جاتی ہیں ۔ استثنائی مثالیں ہر جگہ موجود ہیں مگر عمومی سچائیاں تلخ اور تکلیف دہ ہیں۔
در حقیقت ! میں اس کو لکھنے کا حق ادا نہیں کر پائی ۔۔۔۔۔ شاید !وقت چاہیے تھا ۔۔۔۔لکھ کر رات سو نہیں پائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لکھنے کے لیے وہی کرب سہنا پڑتا ہے،شاید ! مجھ میں حوصلہ نہیں تھا ان لفظوں کو میں پنہاں درد کو نمایاں کرتی ۔۔۔آپ کا تجزیہ بہت خوب ہے ۔۔
 

آوازِ دوست

محفلین
میری شادی میں گو اور بہت سی ہونیوں انہونیوں کا بھی کردار تھا لیکن اگر فیس بک نہ ہوتی تو میں بھی آج یومِ آزادی ہی منا رہا ہوتا۔
اہلِ محلہ کا تو یہاں تک خیال ہے کہ ہمارا نکاح بھی مارک زکربرگ نے پڑھایا تھا!
بہت خوب راحیل صاحب ! بہت خوشی ہوئی یہ سُن کر۔ آل اِز ویل دیٹ اینڈز ویل مگر ہر بندہ آپ جیسا خوش نصیب کہاں ہوتا ہے :)
 

آوازِ دوست

محفلین
کیا حاظرین میں سے کوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ میں اگر ایک تھریڈ اوپن کرنا چاہوں تو مجھے کیا سٹیپس لینے ہوں گے؟ ایڈوانس شکریہ کے ساتھ :)
 

نور وجدان

لائبریرین
کیا حاظرین میں سے کوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ میں اگر ایک تھریڈ اوپن کرنا چاہوں تو مجھے کیا سٹیپس لینے ہوں گے؟ ایڈوانس شکریہ کے ساتھ :)

کیا واقعی ہی نہیں پتا ! آپ محفل میں آتے ہیں ۔۔''کرسر'' کو ادھر ادھر کریں ،''سر ورق 'آراکین ''فورم'' نظر آئے گا۔۔ پھر فورم میں جا کر مطلوبہ سیکشن میں جائیں ۔۔۔ وہاں لکھا ہوا آئے گا، نئی لڑی بنائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بنا دیجئے گا
 

نجف ناجی

محفلین
میرے نزدیک "زندہ ضمیر" مالک کی طرف سے تحفہ ھے ۔ ۔ ۔ انسان کا اس پہ کوئ اختیار نہیں انسان ایک مشین ھے جو بس اپریٹر کے اشاروں کی پابند ھے ۔ ۔ ۔
 
Top