نبیل
تکنیکی معاون
نہ جانے مجھے یہ خبر سن کی دلی خوشی کیوں ہوئی۔۔
خبروں کے مطابق 26 جولائی کو، یعنی صرف ایک ہی دن میں فیس بک کی ویلیو میں 120 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی جس کی مثال کپیٹل ازم کی حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ یقینا مارکیٹ انالسٹس ایک طویل عرصے تک فیس بک کی مارکیٹ ویلیو میں تغیر کی توجیہات پیش کرتے رہیں گے اور ان میں آنے والی نسلوں کے لیے سبق بھی ہوگا۔ لیکن کچھ اور اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو مزید حیرت ہوتی ہے۔ 120 ارب ڈالر کا نقصان ہونے کے بعد ابھی بھی فیس بک کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن 510 بلین ڈالر ہے۔ اور مارک زکر برگ کی دولت میں 11 ارب ڈالر کی کمی واقع ہونے کے بعد اب صرف "78" ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ بگ ڈیل ۔۔۔
فیس بک کی مارکیٹ ویلیو میں کمی زیادہ حیرت کا باعث بھی نہیں ہونا چاہیے۔ فیس بک نے تواتر سے اپنے صارفین کے اعتماد کو دھوکا دیا ہے اور اسے جھوٹی اور نفرت انگیز خبریں پھیلانے کے ٹول کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اسی وجہ سے یورپی ممالک نے ایسے قوانین متعارف کروائے ہیں جن کے ذریعے ویب سائٹ صارفین کے ڈیٹا کی سیکیورٹی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اسی وجہ سے خاص طور پر فیس بک کے یورپی صارفین کی تعداد میں خاص طور پر کمی واقع ہوئی ہے۔
فیس بک کی مارکیٹ ویلیو میں کمی سے فیس بک جیسی نئی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے بزنس ماڈل کی اصل کمزوری بھی عیاں ہو جاتی ہے۔ کسی بھی سوشل میڈیا سروس کی قدر و قیمت اسی وقت تک ہوتی ہے جب تک اس پر صارفین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور وہ اس پر اپنا وقت صرف کرتے ہیں۔ لیکن ایک بہتر سروس کے منظر عام پر آنے پر یہی صارفین نظریں پھیرنے میں تاخیر نہیں کرتے ہیں۔ فیس بک سے پہلے مائی سپیس دنیا کی مقبول ترین سوشل نیٹورکنگ سائٹ تھی۔ اب شاید ہی کسی کو اس کا نام یاد ہو۔ فی الوقت فیس بک ہی مقبول ترین سوشل میڈیا سروس ہے۔ لیکن اگر اس کا گراف تسلسل سے گرتا رہا تو یہ بھی قصہ پارینہ بن جائے گی۔
کچھ صحافی فیس بک کی قدر میں کمی پر اپنی خوشی چھپا نہیں پا رہے۔ بظاہر وہ بھی یوزر پرائیویسی کے فقدان اور فیک نیوز کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں، لیکن مجھے دال میں کچھ کالا بھی نظر آ رہا ہے۔ فیس بک کی خامیاں اپنی جگہ، لیکن سوشل میڈیا کی وجہ سے روائیتی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔ فیس بک پر لکھنے والے کئی تجزیہ نگار اب مین سٹریم میڈیا کے صحافیوں سے زیادہ مقبول ہو گئے ہیں، جس کا ان صحافیوں کو رنج بھی ہے۔ لفافہ خور اور بوٹ چاٹنے والے جب فیک نیوز پر ناک چڑھاتے ہیں تو ان کی منافقت سامنے آ جاتی ہے۔
اب آنے والے دن ہی بتائیں گے کہ فیس بک اپنی مارکیٹ ویلیو کو گرنے سے روک سکتی ہے یا نہیں۔
خبروں کے مطابق 26 جولائی کو، یعنی صرف ایک ہی دن میں فیس بک کی ویلیو میں 120 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی جس کی مثال کپیٹل ازم کی حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ یقینا مارکیٹ انالسٹس ایک طویل عرصے تک فیس بک کی مارکیٹ ویلیو میں تغیر کی توجیہات پیش کرتے رہیں گے اور ان میں آنے والی نسلوں کے لیے سبق بھی ہوگا۔ لیکن کچھ اور اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو مزید حیرت ہوتی ہے۔ 120 ارب ڈالر کا نقصان ہونے کے بعد ابھی بھی فیس بک کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن 510 بلین ڈالر ہے۔ اور مارک زکر برگ کی دولت میں 11 ارب ڈالر کی کمی واقع ہونے کے بعد اب صرف "78" ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ بگ ڈیل ۔۔۔
فیس بک کی مارکیٹ ویلیو میں کمی زیادہ حیرت کا باعث بھی نہیں ہونا چاہیے۔ فیس بک نے تواتر سے اپنے صارفین کے اعتماد کو دھوکا دیا ہے اور اسے جھوٹی اور نفرت انگیز خبریں پھیلانے کے ٹول کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اسی وجہ سے یورپی ممالک نے ایسے قوانین متعارف کروائے ہیں جن کے ذریعے ویب سائٹ صارفین کے ڈیٹا کی سیکیورٹی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اسی وجہ سے خاص طور پر فیس بک کے یورپی صارفین کی تعداد میں خاص طور پر کمی واقع ہوئی ہے۔
فیس بک کی مارکیٹ ویلیو میں کمی سے فیس بک جیسی نئی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے بزنس ماڈل کی اصل کمزوری بھی عیاں ہو جاتی ہے۔ کسی بھی سوشل میڈیا سروس کی قدر و قیمت اسی وقت تک ہوتی ہے جب تک اس پر صارفین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور وہ اس پر اپنا وقت صرف کرتے ہیں۔ لیکن ایک بہتر سروس کے منظر عام پر آنے پر یہی صارفین نظریں پھیرنے میں تاخیر نہیں کرتے ہیں۔ فیس بک سے پہلے مائی سپیس دنیا کی مقبول ترین سوشل نیٹورکنگ سائٹ تھی۔ اب شاید ہی کسی کو اس کا نام یاد ہو۔ فی الوقت فیس بک ہی مقبول ترین سوشل میڈیا سروس ہے۔ لیکن اگر اس کا گراف تسلسل سے گرتا رہا تو یہ بھی قصہ پارینہ بن جائے گی۔
کچھ صحافی فیس بک کی قدر میں کمی پر اپنی خوشی چھپا نہیں پا رہے۔ بظاہر وہ بھی یوزر پرائیویسی کے فقدان اور فیک نیوز کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں، لیکن مجھے دال میں کچھ کالا بھی نظر آ رہا ہے۔ فیس بک کی خامیاں اپنی جگہ، لیکن سوشل میڈیا کی وجہ سے روائیتی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔ فیس بک پر لکھنے والے کئی تجزیہ نگار اب مین سٹریم میڈیا کے صحافیوں سے زیادہ مقبول ہو گئے ہیں، جس کا ان صحافیوں کو رنج بھی ہے۔ لفافہ خور اور بوٹ چاٹنے والے جب فیک نیوز پر ناک چڑھاتے ہیں تو ان کی منافقت سامنے آ جاتی ہے۔
اب آنے والے دن ہی بتائیں گے کہ فیس بک اپنی مارکیٹ ویلیو کو گرنے سے روک سکتی ہے یا نہیں۔