سید اسد محمود
محفلین
بالآخر سوشل میڈیا کی کاوشیں رنگ لائیں اور با اثر جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھنے والے شاہ رخ جتوئی کے مقدمے کا فیصلہ ہو گیا،عدالت نے اپنے فیصلے میں مجرم کو سزائے موت کا حکم دیا۔مجرم کیسا ہی بہادر کیوں نہ ہو اس طرح کا فیصلہ سننے کے بعد اس کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں،موت کا خوف اور دہشت اس پر طاری ہو جاتی ہے،آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے۔اچھے اچھوں کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ جاتے ہیں ،خون خشک ہو جاتا ہے۔ سہارے کے بغیر اس کا چلنا دوبھر ہو جاتا ہے ،اس کے ہاتھوں میں فوراً ہتھکڑی ڈال دی جاتی ہے اور اس کو کال کوٹھری منتقل کر دیا جاتا ہے۔
مگرمقام حیرت ہے کہ یہاں تو معاملہ ہی الٹ نظر آیا،جونہی عدالت نے مجرم کو موت کی سزا سنائی،کسی پنجابی فلم کے ہیرو کی طرح اس کے قہقہے عدالت میں گونج اُٹھے،ناقابلِ یقین منظر پوری قوم نے یہ بھی دیکھاکہ مجرموں کے چہروں پر اطمینان اور خوشی تھی گویا کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر کے آرہے ہوں۔
بغیر ہتھکڑی کے ہاتھوں میں منرل واٹر کی بوتل تھامے فاتحانہ انداز میں کمرہ عدالت سے باہر آئے چہرے پر غرور اور تکبر تھا اک شانِ بے نیازی تھی،چہرے پر نہ ملامت تھی، نہ اپنے کیے پر افسوس، یہاں تک کہ قتل کے اس عظیم گناہ پر شرمندگی کا شائبہ تک نہ تھا ،پولیس کی تحویل میں فتح کا نشان بنایا اور جیل چلا گیا۔
یہ ایک حیرت انگیز نظارہ تھاجب اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک عدالت سے مجرم سینہ چوڑا کر کے باہر آیا،اس کے ہر انداز سے تکبر اور نخوت کی جھلک صاف دکھائی دے رہی تھی۔شاید ان کو اس بات کا یقین ہے کہ سپریم کورٹ میں اپیل کی تو باآسانی رہا ہو جائیں گے،اپنا اثر و رسوخ دکھائیں گے اور سزا معاف ہو جائے گی اس لیے تو اپنے گھناؤنے فعل پر شرمندہ اور نادم ہونے کی بجائے اور اللہ سے معافی مانگنے کی بجائے ایسا طرز عمل اختیار کر رکھا ہے۔
مگر شاید یہ بھول گئے ہیں کہ ایک اللہ کی عدالت بھی ہے۔ حقیقی انصاف پر مبنی فیصلے اسی کی عدالت میں ہوتے ہیں۔ جہاں عدل وانصاف کا ترازو ہمیشہ برابر ہوتا ہے۔ شاہ زیب کے والدین کو مطمئین ہو جانا چاہیے کہ عدل و انصاف کی جنگ وہ جیت چکے ہیں۔
ان سب باتوں نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ عدالت نے سزا تو سنا دی ،کیا مجر م کو سزا بھی ملے گی ۔۔۔؟اس لئے کہ ابھی صرف سزا سنائی گئی ہے سزا دی نہیں گئی۔ کیا انصاف کے تقاضے حقیقت میں پورے ہوں گے۔؟ کیا واقعی مجرم کیفر کردار تک پہنچے گا۔۔؟ کیا مجرموں کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ ’’باعزت بری‘‘ ہو جائیں گے،اور کچھ ہی عرصہ کے بعد ایک دفعہ پھر دندناتے پھریں گے۔۔۔؟
اور یوں پاکستانی عوام خود کو ایک دفعہ پھر غیر محفوظ محسوس کرے گی ۔اس لئے کہ اگر اس فیصلے پر عملدآمد نہ ہوا تو دہشت گردوں اور قاتلوں کو خوب شہ ملے گی جو کہ پہلے ہی کافی مل چکی ہے، اس لئے کہ آج تک کسی قاتل کو سزائے موت نہیں ہوئی۔ شاہ زیب کی والدہ نے عدالت کے اس فیصلے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیٹے کو کھو دینا آسان نہیں، شاہ زیب کا نعم البدل کوئی نہیں ہو سکتا،جنہوں نے ان کے بیٹے پر گولی چلائی اس کو سزا ملنی چاہئے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ سٹینڈ اپنے بیٹے کے لئے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کےلئے لیا تھا تاکہ کوئی بھی اس طرح بے رحمی سے کسی کی اولاد کو قتل نہ کرسکے۔
جس ماں کے جواں سال بیٹے کو یوں بے دردی سے موت کی گھاٹ اتار دیا جائے اس کے دل و دماغ کی کیا کیفیت ہو گی شاید ہم میں سے کسی کو بھی اس بات کا ادراک نہیں ہے۔
پاکستان میں ایک عرصہ سے مجرموں کو قرار واقعی سزا نہ ملنے کی وجہ سے اور بڑے سے بڑ ے مجرموں کی باآسانی ضمانت ہو جانے کی وجہ سے لوگوں نے اب پاکستان کی عدالتوں کو ’’مذاق کورٹ ‘‘کہنا شروع کر دیا ہے۔ وہ عدالتیں جو عوام کے تحفظ کو یقینی بناتی ہیں مجرموں کی ضامن بن کر رہ گئی ہیں ۔
جس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی
اس دیس میں انسان کی حفاظت نہیں ہوتی
پاکستان آج لاقانونیت ،دہشت گردی ،فرقہ واریت،کی آگ میں جل رہا ہے ۔اس لئے کہ مجرموں کو قرارواقعی سزا نہیں دی جاتیں تبھی تو مجرم ہنستے مسکراتے عدالت میں جاتے ہیں اور قہقہے لگاتے ہوئے واپس آتے ہیں۔ گویا یہ کھلم کھلا معاشرے، پولیس اور عدالت،کا مذاق اڑاتے ہیں۔
یہ دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم مادر پدر آزاد ہیں کہ جو چاہیں کرتے پھریں، یہاں امیر قانون سے ماورا ہے اور غریب کی شنوائی نہیں ہوتی؟؟؟۔
یہ کیس پاکستانی کورٹ کے لئے ایک ٹیسٹ کیس بھی ہے ،عوام اور میڈیا کی نظریں اب اس فیصلے کے منطقی انجام پر لگی ہیں ۔
ہر شخص سر پر کفن باندھ کے نکلے
حق کے لئے لڑنا تو بغاوت نہیں ہوتی۔
ساجد نے تدوین کی
مگرمقام حیرت ہے کہ یہاں تو معاملہ ہی الٹ نظر آیا،جونہی عدالت نے مجرم کو موت کی سزا سنائی،کسی پنجابی فلم کے ہیرو کی طرح اس کے قہقہے عدالت میں گونج اُٹھے،ناقابلِ یقین منظر پوری قوم نے یہ بھی دیکھاکہ مجرموں کے چہروں پر اطمینان اور خوشی تھی گویا کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر کے آرہے ہوں۔
بغیر ہتھکڑی کے ہاتھوں میں منرل واٹر کی بوتل تھامے فاتحانہ انداز میں کمرہ عدالت سے باہر آئے چہرے پر غرور اور تکبر تھا اک شانِ بے نیازی تھی،چہرے پر نہ ملامت تھی، نہ اپنے کیے پر افسوس، یہاں تک کہ قتل کے اس عظیم گناہ پر شرمندگی کا شائبہ تک نہ تھا ،پولیس کی تحویل میں فتح کا نشان بنایا اور جیل چلا گیا۔
یہ ایک حیرت انگیز نظارہ تھاجب اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک عدالت سے مجرم سینہ چوڑا کر کے باہر آیا،اس کے ہر انداز سے تکبر اور نخوت کی جھلک صاف دکھائی دے رہی تھی۔شاید ان کو اس بات کا یقین ہے کہ سپریم کورٹ میں اپیل کی تو باآسانی رہا ہو جائیں گے،اپنا اثر و رسوخ دکھائیں گے اور سزا معاف ہو جائے گی اس لیے تو اپنے گھناؤنے فعل پر شرمندہ اور نادم ہونے کی بجائے اور اللہ سے معافی مانگنے کی بجائے ایسا طرز عمل اختیار کر رکھا ہے۔
مگر شاید یہ بھول گئے ہیں کہ ایک اللہ کی عدالت بھی ہے۔ حقیقی انصاف پر مبنی فیصلے اسی کی عدالت میں ہوتے ہیں۔ جہاں عدل وانصاف کا ترازو ہمیشہ برابر ہوتا ہے۔ شاہ زیب کے والدین کو مطمئین ہو جانا چاہیے کہ عدل و انصاف کی جنگ وہ جیت چکے ہیں۔
ان سب باتوں نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ عدالت نے سزا تو سنا دی ،کیا مجر م کو سزا بھی ملے گی ۔۔۔؟اس لئے کہ ابھی صرف سزا سنائی گئی ہے سزا دی نہیں گئی۔ کیا انصاف کے تقاضے حقیقت میں پورے ہوں گے۔؟ کیا واقعی مجرم کیفر کردار تک پہنچے گا۔۔؟ کیا مجرموں کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ ’’باعزت بری‘‘ ہو جائیں گے،اور کچھ ہی عرصہ کے بعد ایک دفعہ پھر دندناتے پھریں گے۔۔۔؟
اور یوں پاکستانی عوام خود کو ایک دفعہ پھر غیر محفوظ محسوس کرے گی ۔اس لئے کہ اگر اس فیصلے پر عملدآمد نہ ہوا تو دہشت گردوں اور قاتلوں کو خوب شہ ملے گی جو کہ پہلے ہی کافی مل چکی ہے، اس لئے کہ آج تک کسی قاتل کو سزائے موت نہیں ہوئی۔ شاہ زیب کی والدہ نے عدالت کے اس فیصلے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیٹے کو کھو دینا آسان نہیں، شاہ زیب کا نعم البدل کوئی نہیں ہو سکتا،جنہوں نے ان کے بیٹے پر گولی چلائی اس کو سزا ملنی چاہئے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ سٹینڈ اپنے بیٹے کے لئے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کےلئے لیا تھا تاکہ کوئی بھی اس طرح بے رحمی سے کسی کی اولاد کو قتل نہ کرسکے۔
جس ماں کے جواں سال بیٹے کو یوں بے دردی سے موت کی گھاٹ اتار دیا جائے اس کے دل و دماغ کی کیا کیفیت ہو گی شاید ہم میں سے کسی کو بھی اس بات کا ادراک نہیں ہے۔
پاکستان میں ایک عرصہ سے مجرموں کو قرار واقعی سزا نہ ملنے کی وجہ سے اور بڑے سے بڑ ے مجرموں کی باآسانی ضمانت ہو جانے کی وجہ سے لوگوں نے اب پاکستان کی عدالتوں کو ’’مذاق کورٹ ‘‘کہنا شروع کر دیا ہے۔ وہ عدالتیں جو عوام کے تحفظ کو یقینی بناتی ہیں مجرموں کی ضامن بن کر رہ گئی ہیں ۔
جس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی
اس دیس میں انسان کی حفاظت نہیں ہوتی
پاکستان آج لاقانونیت ،دہشت گردی ،فرقہ واریت،کی آگ میں جل رہا ہے ۔اس لئے کہ مجرموں کو قرارواقعی سزا نہیں دی جاتیں تبھی تو مجرم ہنستے مسکراتے عدالت میں جاتے ہیں اور قہقہے لگاتے ہوئے واپس آتے ہیں۔ گویا یہ کھلم کھلا معاشرے، پولیس اور عدالت،کا مذاق اڑاتے ہیں۔
یہ دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم مادر پدر آزاد ہیں کہ جو چاہیں کرتے پھریں، یہاں امیر قانون سے ماورا ہے اور غریب کی شنوائی نہیں ہوتی؟؟؟۔
یہ کیس پاکستانی کورٹ کے لئے ایک ٹیسٹ کیس بھی ہے ،عوام اور میڈیا کی نظریں اب اس فیصلے کے منطقی انجام پر لگی ہیں ۔
ہر شخص سر پر کفن باندھ کے نکلے
حق کے لئے لڑنا تو بغاوت نہیں ہوتی۔
ساجد نے تدوین کی