فیصلہ مشرف کے حق میں

پاکستانی

محفلین
بی بی سی کے مطابق پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کے دو عہدوں کے خلاف آئینی درخواستوں کو پاکستان کی سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں خارج کردیا ہے۔ نو رکنی بینچ کے چھ ججز نے آئینی درخواستیں خارج کرنے کے حق میں فیصلہ دیا جبکہ تین ججوں رانا بھگوان دس، سردار رضا خان اور شاکراللہ جان نے اختلافی رائے دی۔
 

عمر میرزا

محفلین
پچھلے دنوں سے سپریم کورٹ جو کچھ کرتی چلی آ رھی تھی اس سے ھماری سادہ لوح عوام کی ڈھارس بندھی کہ شائد اب کچھ بہتری آ جائے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر آج اس نام نہاد آزاد عدلیہ کا بھانڈا پھوٹ گیا
-------آفسوس۔۔۔از حد افسوس
 
گو اس فیصلے سے عدلیہ کی آزادی کا بھرم کھل گیا مگر اتنا تو ہواکہ کچھ جج پہچانے گئے۔

معاملہ یہاں رکے گا نہیں اور تحریک ضرور زور پکڑے گی ، ان تمام ججوں‌کے نام جو اس سیاہ فیصلے کے حق میں‌تھے ۔

جسٹس جاوید اقبال، جسٹس عبدالحمید ڈوگر، جسٹس فلک شیر، جسٹس نواز عباسی، جسٹس فقیر محمد کھوکھر اور جسٹس ایم جاوید بٹ

شرم ان کو مگر نہیں‌ آتی
 

زیک

مسافر
ایسا ہی ہونا تھا اور ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا کہ قوموں میں ایسے فیصلے عدالتوں میں نہیں ہو سکتے۔ عدالت اگر فیصلہ دے دیتیی تو کیا ہوتا؟ کیسے عمل ہوتا اس پر؟ کون عمل کرتا؟ یہ تو قوم کا کام ہے کہ اگر وہ مشرف کی وردی کی مخالف ہے تو اس کے لئے کوئی ایکشن لے۔
 

فاتح

لائبریرین
گو اس فیصلے سے عدلیہ کی آزادی کا بھرم کھل گیا مگر اتنا تو ہواکہ کچھ جج پہچانے گئے۔

معاملہ یہاں رکے گا نہیں اور تحریک ضرور زور پکڑے گی ، ان تمام ججوں‌کے نام جو اس سیاہ فیصلے کے حق میں‌تھے ۔

جسٹس جاوید اقبال، جسٹس عبدالحمید ڈوگر، جسٹس فلک شیر، جسٹس نواز عباسی، جسٹس فقیر محمد کھوکھر اور جسٹس ایم جاوید بٹ

شرم ان کو مگر نہیں‌ آتی

میڈیا کی جانب سے، اس بنچ کی تشکیل پر، سب سے زیادہ طنز و تضحیک کا نشانہ بے چارے بھگوان داس صاحب بنے تھے اور انہوں نے ہی اس فیصلہ کی مخالفت کی۔
 

جیسبادی

محفلین
قانون کے مطابق فیصلہ درست ہے۔

قاضی نے یہ سترھویں ترمیم خود ہی منظور کرائی تھی۔ کہتے ہیں کہ مشرف نے 2004 میں وردی اتارنے کا وعدہ کیا تھا۔ اگر ایسا تھا تو قاضی نے یہ بات ترمیم میں کیوں نہں لکھوائی؟؟ فضل الرحمن کا تو ذکر ہی بیکار ہے۔

جیسا کہ ایک منصف نے کہا کہ سیاست دانوں کا یہ حال ہے کہ اب بھی پچھلے دروازے سے مشرف سے ساز باز میں مصروف ہیں۔ عوامی جیالوں کا یہ حال ہے کہ انھوں نے ووٹ بی بی کو ہی دینا ہے۔ اعتزاز احسن قسم کے دانشور بی بی کے ساتھ ہی چپکے ہیں۔

ایسے میں عدالت اگر مشرف کے خلاف فیصلہ دے بھی دیتی تو عوام اگلے انتخابات میں اس سے بھی بڑے گدھے منتخب کر لیتی۔ عدالت نے عوام کو صحیح پیغام دیا ہے کہ سیاسی سوجھ بوجھ سے ووٹ کے استعمال سے ہی تبدیلی ممکن ہے۔
 
اگر ہماری مرضی کا فیصلہ آئے تو سر آنکھوں پر اور ہماری مرضی کے خلاف آئے تو لعنت بھیجیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟ :mad: عدلیہ نے فیصلہ دیا ہے تو بہرحال تسلیم کرنا ہی ہے۔ چینخ پکار لاحاصل ہے ابھی۔ عدلیہ نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ہر غلط کام سیاستدان کرلیتے ہیں اور پھر سارا بوجھ عدلیہ پر ڈال دیتے ہیں۔۔۔ یہ کون سی تُک ہے؟
سو جناب، سیاستدانوں کو بھی اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔
 

باسم

محفلین
درخواستیں ہی رد کرنی تھیں تو اتنے دن کیوں لگادیے یہ تو دو دن کا کام تھا بحث کسی اور بات پر ہوتی رہی اور فیصلہ ؟؟؟
 
ایسا ہی ہونا تھا اور ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا کہ قوموں میں ایسے فیصلے عدالتوں میں نہیں ہو سکتے۔ عدالت اگر فیصلہ دے دیتیی تو کیا ہوتا؟ کیسے عمل ہوتا اس پر؟ کون عمل کرتا؟ یہ تو قوم کا کام ہے کہ اگر وہ مشرف کی وردی کی مخالف ہے تو اس کے لئے کوئی ایکشن لے۔

ٹھیک ہے زیک

قوم نے بھی ہتھیار نہیں ڈالے اور آج پرزور احتجاج ہوا ہے الیکشن کمیشن کے سامنے اور دوبارہ معاملہ سپریم کورٹ میں لیجایا جائے گا اور تحریک میں اور زور پیدا ہوگا۔ لوگ مشرف کو کسی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں۔
 

جیسبادی

محفلین
منصف رانا صاحب کی رائے میں قابل سماعت تھا، اس لیے سماعت زیادہ دن چلتی رہی۔

صحیح فیصلہ (مشرف وردی کے خلاف) کرنے کے لیے 17 ترمیم کو منسوخ کرنا پڑنا تھا۔ یہ بڑا اقدام ہوتا جس کے لیے بڑی سوچ بچار کی ضرورت ہوتی۔ کسی قابل وکیل نے اچھے دلائل نہیں دیے۔ نہ ہی کسی فریق نے کہا کہ 17 ترمیم کو منسوخ کیا جائے۔ یہ لوگ عدالت سے سیاسی فیصلہ کرانا چاہتے تھے۔ اگر عدالت 17 ترمیم ختم کرتی تو قاضی اور فضل کو اس جرم کی پاداش میں پھانسی پر لٹکانا پڑتا۔

چنانچہ عدالت نے صرف "قابل سماعت/ناقابل سماعت" کی حد تک فیصلہ دیا ہے۔
 
میڈیا کی جانب سے، اس بنچ کی تشکیل پر، سب سے زیادہ طنز و تضحیک کا نشانہ بے چارے بھگوان داس صاحب بنے تھے اور انہوں نے ہی اس فیصلہ کی مخالفت کی۔

بھگوان داس نے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرکے اس فیصلے کی حقیقت بھی عیاں کردی ، اس بنچ کے سربراہ وہ تھے اور ان کا فیصلہ مختلف تھا۔ بھگوان داس کی ایمانداری قوم کو یاد رہے گی اور ان کے ساتھ دو اور جج بھی جو ان کے ساتھ رہے۔
 
Top