شاہ محمود قریشی کا پیغام اور امپائر کے اشارے
27/01/2019 سید مجاہد علی
شاہ محمود قریشی جیسے سیاستدان پاکستانی سیاست میں باد نما کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی حرکات و سکنات اور طرز گفتگو سے مستقبل کے سیاسی منظر نامہ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ان لوگوں نے روز اول سے اقتدار کو عوامی مفاد کے تحفظ کا بہترین راستہ سمجھ کر اس رسی کو مضبوطی سے پکڑا ہؤا ہے۔ یہ سلسلہ چونکہ نسل در نسل چلا آ رہا ہے اس لئے نہایت وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ایسے لیڈر نہ تو کوئی ایسا قدم اٹھاتے ہیں جس سے عوام کا وسیع تر مفاد یعنی زینہ اقتدار ان کی دسترس سے دور ہو جائے اور نہ ہی کوئی ایسا لفظ منہ سے ادا کرتے ہیں جس کی وجہ سے طاقت کے وہ مراکز ان سے بدگمان ہوجائیں جن کی سرپرستی ان خانوادوں کا سرمایہ افتخار اور مقصد حیات رہی ہے۔ اس لئے جب بھی یہ کچھ کریں یا کہیں تو مستقبل میں اقتدار کی تصویر کشی کے لئے اسے نظرانداز کرنا مناسب نہیں ہوتا۔
یہی وجہ ہے کہ جب فروری 2011 میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزارت خارجہ کا قلمدان چھوڑ کر انہوں نے چند ماہ تجسس پیدا کرنے کے بعد اسی برس کے آخر میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور اس کے وائس چئیرمین بن گئے تو عامیوں کو تو حیرت ہوئی کہ اقتدار کے جھولنے سے اپوزیشن کے میدان خارزار میں آنے کی وجہ پیپلز پارٹی کے ساتھ کوئی اصولی اختلاف ہی ہوگا۔ پھر جب انہوں نے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان “ میں ادھر جاؤں کہ ادھر” کا کھیل کھیلا تو بھی مستقبل کے منظر نامہ پر صائب النظری سے محروم لوگ یہی سمجھے کہ لاڈلے کی منزل نواز شریف کا دربار ہی ہو گا کیوںکہ 2013 میں ان کی کامیابی کے اندازے قائم کئے جا رہے تھے۔ لیکن شاہ محمود قریشی نے کوٹری کے جلسہ عام میں جب عمران خان جیسے “اناڑی” کا ہم سفر بننے کا اعلان کیا تو نادانوں نے تو انگلیاں دانتوں میں دبائیں لیکن سیاسی منظر کو بڑی تصویر کے تناظر میں دیکھنے والے سر دھننے لگے کہ میدان کے شہسوار غلط گھوڑے کا انتخاب نہیں کرتے۔ تاہم کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ شاہ محمود قریشی کی سواری نے وہاں پڑاؤ ڈالا ہے جسے مستقبل کی منزل بنانے کی تیاریوں کا آغاز ہو چکا تھا۔
اب ملتان میں اپنے حلقہ انتخاب کا دورہ کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے نواز شریف اور آصف زرداری کے بارے میں گوہر افشانی کی ہے۔ حالانکہ وہ نئی نویلی حکومت کے وزیر خارجہ ہیں اور ملتان کے اسی دورہ کے دوران میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے اپنی سفارتی مہارت اور پاکستان کو عالمی سفارتی نقشے پر نمایاں کرنے کے لئے اپنے کارناموں کا ذکر بھی کیا ہے لیکن اس دورے میں ان کا سب سے قابل غور جملہ نواز شریف اور آصف زرداری کے بارے میں تھا کہ طاقت کے مراکز یا فیصلہ کرنے والی قوتیں ان دونوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
اس تبصرے کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کسی بے خبر اور لیلی اقتدار کی زلف پیچدار کے خم میں چھپے رازوں سے ناآشنا تو کچھ کہنے سے قاصر رہیں گے۔ لیکن جہاں اور جس جگہ جو پیغام پہنچانا مقصود ہوگا وہ ضرور موصول ہو گیا ہوگا اور شاید درپردہ طریقہ مواصلت سے اس کا جواب بھی پہنچا دیا گیا ہو۔ یوں تو پیغام وصول ہونے کی رسید بھی (اگر مکتوب الیہ اس پیغام کو وصول کرنے میں دلچسپی رکھتا ہو یعنی اس کے مطابق حکمت عملی بلکہ طرز عمل اختیار کرنے پر رضامند ہو۔ اگرچہ پاکستان کی المناک سیاسی تاریخ میں سیاسی لیڈر اور سیاسی جماعتیں شاہ صاحب جیسے پیغامبروں کے اشاروں کنایوں کی منتظر رہتی ہیں۔ ان اشاروں کے انتظار میں عوام کے ووٹ کو عزت دو اور مجھے کیوں نکالا جیسے نعرے بھاپ کی طرح ہوا ہو جاتے ہیں) موصول ہو چکی ہو گی۔
یہ بات نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ شاہ محمود قریشی نے اس بیان میں نواز شریف اور آصف زرداری کا نام لیا ہے۔ مسلم لیگ نون یا پیپلز پارٹی کا ذکر نہیں کیا۔ گویا طاقت کے جن مراکز نے نواز شریف اور زرداری کو ناقابل قبول ہونے کا پیغام پہنچانے کے لئے شاہ صاحب کی خدمات حاصل کی ہیں، وہ بین السطور یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اگر یہ دونوں پارٹیاں اپنے ان دونوں رہنماؤں سے “نجات” حاصل کر لیں تو مستقبل میں ان پارٹیوں کے “قابل قبول” لیڈروں کے لئے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ یہی پیغام تجزیہ نگاری کے نام پر مستقبل کی سیاسی فال نکالنے والے مبصرین بھی کسی نہ کسی طرح پہنچاتے رہے ہیں لیکن جب شاہ محمود قریشی جیسا “معتبر” ایلچی ایسا پیغام لاتا ہے تو اس کی اہمیت اور ساکھ مستند سمجھی جا سکتی ہے۔
سیاست کو کسی امیر زادے کی حویلی کی میز پر سجی شطرنج کی بساط بنانے اور ماننے والوں کے لئے یہ پیغام رسانی اہم ہوسکتی ہے کیونکہ انہی پیغامات کی روشنی میں پاکستانی سیاست کےشاہ و وزیر مستقبل کی چالوں کا تعین کرتے ہیں۔ لیکن جب یہ پیغام برسر اقتدار پارٹی کے وائس چئیرمین اور حکومت کے ایک اعلی عہدیدار پہنچاتے ہیں تو اس کے دو پہلوؤں کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے:
الف) ملک میں جمہوریت کے نام پر پیادوں کا میلہ سجانے والے، اب نئے میلے کی تیاری کر رہے ہیں کیوں کہ قافلہ تو چلتا رہتا ہے اور زندگی کو قرار نہیں ہے۔ (قرار تو بس بساط کے شاہوں اور وزیروں کو ہی ہے جو کینچلی اور گھروندے بدلتے دیر نہیں کرتے)
ب) جمہوریت جس صنف کا نام ہے پاکستان کے سیاست دان اس کی ابجد سے بھی آگاہ نہیں ہونا چاہتے۔ یا وہ اس آگہی کو راستے کا پتھر سمجھ کر نظرانداز کرنا ہی مصلحت سمجھتے ہیں۔ سب مانتے ہیں کہ فیصلے جہاں ہوتے ہیں، وہیں ہوتے رہیں لیکن گلہ یا آہ و بکا اس وقت سننے کو ملتی ہے جب جمہوریت کے ڈھونگ میں چہرے تبدیل کر لئے جاتے ہیں۔
اپویشن لیڈر شہباز شریف نے گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں بیرونی امداد لانے میں حکومت کی کامیابی کو آرمی چیف کا کارنامہ قرار دیا تھا۔ حکومت یا فوج نے اس دعوی کی تردید کرنا ضروری نہیں سمجھا کیوںکہ ایک پیج کے جس نظریہ کی بنیاد پر کاروبار مملکت انجام دیا جارہا ہے، اس میں یہ تعاون لازمہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ شہباز شریف کو اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ آرمی چیف ملک کی خارجہ و مالی پالیسی کیوں چلا رہے ہیں۔ ان کا تاسف تو صرف یہ ہے کہ اس پیج پر وہ خود کیوں موجود نہیں جس پر عمران خان براجمان ہیں اور اس سرپرستی کو اپنے “ویژن” کی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ بلاوا ہو تو شہباز شریف بھی سر کے بل حاضر ہونے پر تیار ہیں۔
ملک کے سیاست دان اسی کھیل کو جمہوریت بنا کر بیچتے رہے ہیں۔ عوام سے ملنے والے ووٹوں کو طاقت کے مراکز میں اپنی باری لگوانے کا ذریعہ اور سیاسی مخالفین پر دشنام طرازی کا لائسنس سمجھا جاتا ہے۔ باری البتہ اس وقت لگتی ہے جب کھلاڑی آؤٹ ہوجائے یا اسکور کرنے میں ناکام رہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایمپائر کے ایما پر اشارے کروانے والے شاہ محمود قریشی اپنی ٹیم کی ناقص کارکردگی کا اعتراف کر رہے ہیں یا کھیل کا یہ اصول بیان کر رہے ہیں کہ مقابلے کے لئے مدمقابل ٹیموں کی ہمہ وقت ضرورت رہتی ہے۔ ورنہ کھیل کا لطف بھی ختم ہوجاتا ہے اور ایمپائر بھی غیر ضروری ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں ایمپائر کی سلامتی کے لئے ایک سے زیادہ ٹیموں کی مانگ ہمیشہ رہے گی۔ شاید شاہ محمود قریشی مایوس اپوزیشن کو یہی حوصلہ دینے کا پیغام لائے ہیں۔