جان بھائی جان تو آپ خود ہیں پہچان کے لیے ہم حاضر ہیں۔ جب بھی کبھی تشریف لائیے مرحبا صد مرحبا۔یہ پاکستان کا تیسرا بڑا اور پہلا بڑا صنعتی شہر ہے جو نہایت کم عرصے میں ایک تحصیل سے ڈویژن بنا۔یہاں تشریف لا کر آپ کو یقینا مایوسی نہیں ہوگی۔ البتہ کرائے اور کھانا پینا ذرا مہنگا ہے۔
بڑے شہروں کے باسی بہت خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں اگر متواتر نہیں تو کبھی کبھار ایسے کتاب میلے دیکھنے کو مل ہی جاتے ہیں ۔ ہم جیسے تو یہی ارمان لے کر ہی مریں گے ۔
بڑے شہروں کے باسی بہت خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں اگر متواتر نہیں تو کبھی کبھار ایسے کتاب میلے دیکھنے کو مل ہی جاتے ہیں ۔ ہم جیسے تو یہی ارمان لے کر ہی مریں گے ۔
مریم! میرا تعلق صوابی سے ہے ۔ علاقےاور کچھ گھر کا ماحول ایسا ہے کہ شاید مجھے کبھی پبلک لائبریری جانا بھی نصیب نہ ہو ۔ اپ یقین جانیں ساری زندگی مجھے کورس کی کتابیں ہی پرھنے کو ملی ہیں ۔ ہان البتہ اب جس ادارے مین درس و تدریس سے وابستہ ہوں اسی کی مختصر س لائبریری سے استفادہ کر لیتی ہوں ۔
یہاں محفل میں میں یہ جو اپنی کچی پکی اردو پر مشتمل افسانے لکھتی ہوں اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ
مجھے کورس سے ہٹ کر کتاب پڑھنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔
بڑے شہروں کے باسی بہت خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں اگر متواتر نہیں تو کبھی کبھار ایسے کتاب میلے دیکھنے کو مل ہی جاتے ہیں ۔ ہم جیسے تو یہی ارمان لے کر ہی مریں گے ۔
سحرش بہنا مایوس نہیں ہونا۔ آپ کس شہر سے ہیں بتائیے میں نیشنل بک فاونڈیشن والوں سے بات کرتا ہوں۔ اگر اور کچھ ممکن نہ بھی ہوسکے تو میری ذاتی لائبریری کی 1800 کتب آپ کے لیے حاضر ہیں جو بھی درکار ہو کتاب کا نام ارسال کیجیے میرے پاس موجود ہوئی تو آپ کی خدمت میں پیش کردوں گا۔
بڑے شہروں کے باسی بہت خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں اگر متواتر نہیں تو کبھی کبھار ایسے کتاب میلے دیکھنے کو مل ہی جاتے ہیں ۔ ہم جیسے تو یہی ارمان لے کر ہی مریں گے ۔
مریم! میرا تعلق صوابی سے ہے ۔ علاقےاور کچھ گھر کا ماحول ایسا ہے کہ شاید مجھے کبھی پبلک لائبریری جانا بھی نصیب نہ ہو ۔ اپ یقین جانیں ساری زندگی مجھے کورس کی کتابیں ہی پرھنے کو ملی ہیں ۔ ہان البتہ اب جس ادارے مین درس و تدریس سے وابستہ ہوں اسی کی مختصر س لائبریری سے استفادہ کر لیتی ہوں ۔
یہاں محفل میں میں یہ جو اپنی کچی پکی اردو پر مشتمل افسانے لکھتی ہوں اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ
مجھے کورس سے ہٹ کر کتاب پڑھنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔
اس مراسلے کا جواب ہماری طرف سے ادھار تھا۔ سوچا تھا کہ کسی وقت تفصیل سے جواب دوں گی (جب موڈ ہو) اور ابھی پیپر کی تیاری کے لیے کتاب کھول کے بیٹھی ہی ہوں کہ ہر وہ بات یاد آ گئی جو عرصے سے کہیں دبکی پڑی تھی اور لمبا مراسلہ لکھنے کا موڈ بھی بن گیا کہ کہیں ریکمبننٹ ڈی این اے ٹیکنالوجی پڑھنی نہ پڑ جائے۔ تو بات یوں ہے سحرش بہنا کہ
زندگی کسی کے لیے پھولوں کی سیج نہیں ہوتی، حالات کسی کے لیے موافق ترین نہیں ہوتے۔ وہ شخصیات جن کا دنیا پر تادیر اور خاطر خواہ اثر رہا ، خود ان کی زندگیاں رکاوٹوں اور چیلنجز سے بھری ہوئی تھیں مگر ان میں سے کوئی بھی زندگی کے متعلق منفی نہیں ہوتا یا اگر کچھ دیر کو ہو بھی جائے تو اگلے ہی لمحےنئے عزم سے اٹھتا ہے کہ ان رکاوٹوں کے باوجود میں میدان مار کر رہوں گا۔
جہاں تک بات میری اور آپ کی ہے تو آپ کی طرح میرا تعلق بھی ایک چھوٹے شہر سے ہے۔ (مگر میں یہ نہیں سمجھتی کہ میں کوئی ارمان لے کر مروں گی بلکہ میں 'کر گزرنے' کی عادی ہوں اور میرا گول ہے ، گو کہ کسی کے لیے کتنا ہی مضحکہ خیز کیوں نہ ہو کہ میں زندگی میں کچھ ایسے کارہائے نمایاں کروں اور اسی شہر سے منسوب رہوں کہ ایک دن میرا شہر میرے نام سے پہچانا جائے۔) میرے اردگرد یہاں بہت سے لوگ ہیں جن کا تعلق کسی پسماندہ علاقے سے ہو تو وہ اس کا نام نہیں لیتے بلکہ قریب کے کسی مشہور ضلع سے اپنی نسبت کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض اوقات ان کا مقصد تعارف حاصل کرنے والے کو کم علمی کے احساس سے بچانا بھی ہوتا ہے مگر میں تو چاہے کسی بہت بڑی مجلس میں بیٹھی ہوؤں، جاب کے لیے گئی ہوؤں، کسی پر امپریشن جمانا ضروری ہو یا چاہے میں فی الحال کسی بڑے شہر میں مقیم ہوؤں، جیسے ہی کسی نے پوچھا کہ آپ کہاں سے ہیں؟ کھٹ سے فخریہ جواب پایا: 'چیچہ وطنی' (اگر کوئی ہمارے شہر کے متعلق نہیں جانتا تو، جان لے!)
شہروں کے متعلق ہمارا معاملہ بہت کم اختیاری ہوتا ہے۔ ہم جہاں پیدا ہوئے ہوتے ہیں یا جہاں والدین کا یا بعد میں ہمارامعاشی بندھن ہو وہیں ہم ہوتے ہیں۔ ہاں لیکن ہمیں لاتعداد چیزوں کے چند مواقع بھی میسر نہیں آ پاتے جو کہ بعض اوقات ہم سے نسبتا کم قابلیت رکھنے والے مگر بڑے شہر میں رہنے والے باشندوں کو میسر آتے ہیں۔ لیکن دنیا میں کوئی ایسی شے نہیں ہونی چاہئے جو ہمارے حوصلے پست کر سکے اور اگر کبھی ہو جائیں تو ان کا اظہار کر کے ہم دوسروں کو بھی اپنے ساتھ شامل کیوں کریں؟ میرا ایمان ہے کہ ہم زندگی میں جو کچھ بھی چاہتے ہیں اکثر اوقات وہ زندگی میں ذرا آگے چل کر ہمارا منتظر ہوتا ہے مگر یا تو ہم اپنے ارمانوں کا رخ تب تک بدل چکے ہوتے ہیں اور اس شے کی قدر نہیں کر پاتے جس وجہ سے یہ سلسلہ یا اس کی سمجھ ختم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جادو ہو یا معجزہ، ہوتا اسی کے ساتھ ہے جس کو اس پر یقین ہو وگرنہ اگر یقین نہ ہو تو چاہے جو بھی ہوتا جائے ہم کیوں مانیں گے اور کیوں غور و فکر یا شکر کریں گے؟
جہاں تک گھر کے ماحول اور کتب کا تعلق ہے۔ یہاں بھی آپ کا اور ہمارا معاملہ ایک سا ہے۔ ہمیں کتب پڑھنے کا شوق غالبا ساتویں جماعت میں ہوا۔ گھر میں فقط ایک کتاب تھی اور ہمیں علم نہ تھا کہ مزید کتب کہاں سے حاصل کی جاتی ہیں ہم نے وہ کتاب شاید دس یا اس سے زیادہ بار پڑھی۔ پھر سکول کی ایک ٹیچر نے ہمارے ہاتھوں ایک کتاب دوسرے کیمپس کی لائبریری سے منگوائی تو ہمیں علم ہوا کہ وہاں سے کتابیں لی جا سکتی ہیں۔ پھر ہم نے آٹھویں جماعت میں وہ پوری لائبریری چاٹ ڈالی۔ گھر میں نہ تو کوئی کتب پڑھتا ہے اور نہ ہی اس مشغلے کو پسند کرتا ہے کہ بقول ان کے اسی سے بندے کا دماغ خراب ہوتا ہے۔ مگر ہم کون سا ہمت ہارنے والے ہیں؟ رات کو جب سب سو جاتے تھے اس وقت ہماری عید ہوتی تھی۔ پھر میٹرک میں آئے تو ہمارے گھر اور اکیڈمی کے راستے میں ایک لائبریری تھی۔ روز جتنا جیب خرچ ملتا تھا اتنا کتاب کا کرایہ ہوتا تھا۔ باقی بچوں کے ساتھ کچھ نہ کھاتے تھے اور شام کو اس کی کتاب لے کر اور دوسری کتابوں کی تہہ میں نہایت چھپا کر رکھ لیتے تھے اور جان ایسے اٹکی رہتی تھی کہ گویا کتاب نہ ہو پتا نہیں کیا ہو کہ کسی کو پتا چل گیا تو کیا ہنگامہ ہوگا ، سارا دن جس جگہ کتاب چھپا کر رکھی ہو کن اکھیوں سے اس کی نگرانی اور رات کو پوری کتاب ختم ! اگلے دن یہ واپس اور اگلی شروع! ایف ایس سی میں بھی یونہی رہا اور پھر ایف ایس سی کے بعد پہلی مرتبہ نیٹ استعمال کیا تو گویا قارون کا خزانہ مل گیا اور یہ کام وہاں منتقل ہوگیا۔
بندے کو زندگی میں جو شے چاہیے وہ بھی بندے کی اسی طرح منتظر ہوتی ہے بس کبھی یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ میں یہ نہیں کر سکوں گی یا مجھے یہ موقع نہیں ملا۔ یہ جو مواقع ملتے ہیں نا ان کا بھی حساب ہوتا ہے کہ کیسے استعمال کیا یا تمہارے پاس موقع تھا کیوں استعمال نہ کیا۔
کہنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے لیکن پھر کبھی سہی۔ بس اچھی امید رکھا کیجیے اور خوش رہا کیجیے پیاری بہنا!
بھئی آپ بھی سوچ رہی ہوں گی کہ ایسا کیا لکھ دیا میں نے کہ اتنا بڑا خطبہ میرا منتظر ٹھہرا۔ بات یوں ہے کہ ہمیں بہت کچھ یاد آ گیا تھا (جس میں سے شاید آدھا بھی نہ لکھ پائے) اور اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ کسی قسم کی عارضی یا مستقل قنوطیت سے نکل آئیں کہ خوش رہنا ہمارا اولین فریضہ ہے اور ہماری روح کا اولین حق!
اس مراسلے کا جواب ہماری طرف سے ادھار تھا۔ سوچا تھا کہ کسی وقت تفصیل سے جواب دوں گی (جب موڈ ہو) اور ابھی پیپر کی تیاری کے لیے کتاب کھول کے بیٹھی ہی ہوں کہ ہر وہ بات یاد آ گئی جو عرصے سے کہیں دبکی پڑی تھی اور لمبا مراسلہ لکھنے کا موڈ بھی بن گیا کہ کہیں ریکمبننٹ ڈی این اے ٹیکنالوجی پڑھنی نہ پڑ جائے۔ تو بات یوں ہے سحرش بہنا کہ
زندگی کسی کے لیے پھولوں کی سیج نہیں ہوتی، حالات کسی کے لیے موافق ترین نہیں ہوتے۔ وہ شخصیات جن کا دنیا پر تادیر اور خاطر خواہ اثر رہا ، خود ان کی زندگیاں رکاوٹوں اور چیلنجز سے بھری ہوئی تھیں مگر ان میں سے کوئی بھی زندگی کے متعلق منفی نہیں ہوتا یا اگر کچھ دیر کو ہو بھی جائے تو اگلے ہی لمحےنئے عزم سے اٹھتا ہے کہ ان رکاوٹوں کے باوجود میں میدان مار کر رہوں گا۔
جہاں تک بات میری اور آپ کی ہے تو آپ کی طرح میرا تعلق بھی ایک چھوٹے شہر سے ہے۔ (مگر میں یہ نہیں سمجھتی کہ میں کوئی ارمان لے کر مروں گی بلکہ میں 'کر گزرنے' کی عادی ہوں اور میرا گول ہے ، گو کہ کسی کے لیے کتنا ہی مضحکہ خیز کیوں نہ ہو کہ میں زندگی میں کچھ ایسے کارہائے نمایاں کروں اور اسی شہر سے منسوب رہوں کہ ایک دن میرا شہر میرے نام سے پہچانا جائے۔) میرے اردگرد یہاں بہت سے لوگ ہیں جن کا تعلق کسی پسماندہ علاقے سے ہو تو وہ اس کا نام نہیں لیتے بلکہ قریب کے کسی مشہور ضلع سے اپنی نسبت کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض اوقات ان کا مقصد تعارف حاصل کرنے والے کو کم علمی کے احساس سے بچانا بھی ہوتا ہے مگر میں تو چاہے کسی بہت بڑی مجلس میں بیٹھی ہوؤں، جاب کے لیے گئی ہوؤں، کسی پر امپریشن جمانا ضروری ہو یا چاہے میں فی الحال کسی بڑے شہر میں مقیم ہوؤں، جیسے ہی کسی نے پوچھا کہ آپ کہاں سے ہیں؟ کھٹ سے فخریہ جواب پایا: 'چیچہ وطنی' (اگر کوئی ہمارے شہر کے متعلق نہیں جانتا تو، جان لے!)
شہروں کے متعلق ہمارا معاملہ بہت کم اختیاری ہوتا ہے۔ ہم جہاں پیدا ہوئے ہوتے ہیں یا جہاں والدین کا یا بعد میں ہمارامعاشی بندھن ہو وہیں ہم ہوتے ہیں۔ ہاں لیکن ہمیں لاتعداد چیزوں کے چند مواقع بھی میسر نہیں آ پاتے جو کہ بعض اوقات ہم سے نسبتا کم قابلیت رکھنے والے مگر بڑے شہر میں رہنے والے باشندوں کو میسر آتے ہیں۔ لیکن دنیا میں کوئی ایسی شے نہیں ہونی چاہئے جو ہمارے حوصلے پست کر سکے اور اگر کبھی ہو جائیں تو ان کا اظہار کر کے ہم دوسروں کو بھی اپنے ساتھ شامل کیوں کریں؟ میرا ایمان ہے کہ ہم زندگی میں جو کچھ بھی چاہتے ہیں اکثر اوقات وہ زندگی میں ذرا آگے چل کر ہمارا منتظر ہوتا ہے مگر یا تو ہم اپنے ارمانوں کا رخ تب تک بدل چکے ہوتے ہیں اور اس شے کی قدر نہیں کر پاتے جس وجہ سے یہ سلسلہ یا اس کی سمجھ ختم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جادو ہو یا معجزہ، ہوتا اسی کے ساتھ ہے جس کو اس پر یقین ہو وگرنہ اگر یقین نہ ہو تو چاہے جو بھی ہوتا جائے ہم کیوں مانیں گے اور کیوں غور و فکر یا شکر کریں گے؟
جہاں تک گھر کے ماحول اور کتب کا تعلق ہے۔ یہاں بھی آپ کا اور ہمارا معاملہ ایک سا ہے۔ ہمیں کتب پڑھنے کا شوق غالبا ساتویں جماعت میں ہوا۔ گھر میں فقط ایک کتاب تھی اور ہمیں علم نہ تھا کہ مزید کتب کہاں سے حاصل کی جاتی ہیں ہم نے وہ کتاب شاید دس یا اس سے زیادہ بار پڑھی۔ پھر سکول کی ایک ٹیچر نے ہمارے ہاتھوں ایک کتاب دوسرے کیمپس کی لائبریری سے منگوائی تو ہمیں علم ہوا کہ وہاں سے کتابیں لی جا سکتی ہیں۔ پھر ہم نے آٹھویں جماعت میں وہ پوری لائبریری چاٹ ڈالی۔ گھر میں نہ تو کوئی کتب پڑھتا ہے اور نہ ہی اس مشغلے کو پسند کرتا ہے کہ بقول ان کے اسی سے بندے کا دماغ خراب ہوتا ہے۔ مگر ہم کون سا ہمت ہارنے والے ہیں؟ رات کو جب سب سو جاتے تھے اس وقت ہماری عید ہوتی تھی۔ پھر میٹرک میں آئے تو ہمارے گھر اور اکیڈمی کے راستے میں ایک لائبریری تھی۔ روز جتنا جیب خرچ ملتا تھا اتنا کتاب کا کرایہ ہوتا تھا۔ باقی بچوں کے ساتھ کچھ نہ کھاتے تھے اور شام کو اس کی کتاب لے کر اور دوسری کتابوں کی تہہ میں نہایت چھپا کر رکھ لیتے تھے اور جان ایسے اٹکی رہتی تھی کہ گویا کتاب نہ ہو پتا نہیں کیا ہو کہ کسی کو پتا چل گیا تو کیا ہنگامہ ہوگا ، سارا دن جس جگہ کتاب چھپا کر رکھی ہو کن اکھیوں سے اس کی نگرانی اور رات کو پوری کتاب ختم ! اگلے دن یہ واپس اور اگلی شروع! ایف ایس سی میں بھی یونہی رہا اور پھر ایف ایس سی کے بعد پہلی مرتبہ نیٹ استعمال کیا تو گویا قارون کا خزانہ مل گیا اور یہ کام وہاں منتقل ہوگیا۔
بندے کو زندگی میں جو شے چاہیے وہ بھی بندے کی اسی طرح منتظر ہوتی ہے بس کبھی یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ میں یہ نہیں کر سکوں گی یا مجھے یہ موقع نہیں ملا۔ یہ جو مواقع ملتے ہیں نا ان کا بھی حساب ہوتا ہے کہ کیسے استعمال کیا یا تمہارے پاس موقع تھا کیوں استعمال نہ کیا۔
کہنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے لیکن پھر کبھی سہی۔ بس اچھی امید رکھا کیجیے اور خوش رہا کیجیے پیاری بہنا!
بھئی آپ بھی سوچ رہی ہوں گی کہ ایسا کیا لکھ دیا میں نے کہ اتنا بڑا خطبہ میرا منتظر ٹھہرا۔ بات یوں ہے کہ ہمیں بہت کچھ یاد آ گیا تھا (جس میں سے شاید آدھا بھی نہ لکھ پائے) اور اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ کسی قسم کی عارضی یا مستقل قنوطیت سے نکل آئیں کہ خوش رہنا ہمارا اولین فریضہ ہے اور ہماری روح کا اولین حق!
اس مراسلے کا جواب ہماری طرف سے ادھار تھا۔ سوچا تھا کہ کسی وقت تفصیل سے جواب دوں گی (جب موڈ ہو) اور ابھی پیپر کی تیاری کے لیے کتاب کھول کے بیٹھی ہی ہوں کہ ہر وہ بات یاد آ گئی جو عرصے سے کہیں دبکی پڑی تھی اور لمبا مراسلہ لکھنے کا موڈ بھی بن گیا کہ کہیں ریکمبننٹ ڈی این اے ٹیکنالوجی پڑھنی نہ پڑ جائے۔ تو بات یوں ہے سحرش بہنا کہ
زندگی کسی کے لیے پھولوں کی سیج نہیں ہوتی، حالات کسی کے لیے موافق ترین نہیں ہوتے۔ وہ شخصیات جن کا دنیا پر تادیر اور خاطر خواہ اثر رہا ، خود ان کی زندگیاں رکاوٹوں اور چیلنجز سے بھری ہوئی تھیں مگر ان میں سے کوئی بھی زندگی کے متعلق منفی نہیں ہوتا یا اگر کچھ دیر کو ہو بھی جائے تو اگلے ہی لمحےنئے عزم سے اٹھتا ہے کہ ان رکاوٹوں کے باوجود میں میدان مار کر رہوں گا۔
جہاں تک بات میری اور آپ کی ہے تو آپ کی طرح میرا تعلق بھی ایک چھوٹے شہر سے ہے۔ (مگر میں یہ نہیں سمجھتی کہ میں کوئی ارمان لے کر مروں گی بلکہ میں 'کر گزرنے' کی عادی ہوں اور میرا گول ہے ، گو کہ کسی کے لیے کتنا ہی مضحکہ خیز کیوں نہ ہو کہ میں زندگی میں کچھ ایسے کارہائے نمایاں کروں اور اسی شہر سے منسوب رہوں کہ ایک دن میرا شہر میرے نام سے پہچانا جائے۔) میرے اردگرد یہاں بہت سے لوگ ہیں جن کا تعلق کسی پسماندہ علاقے سے ہو تو وہ اس کا نام نہیں لیتے بلکہ قریب کے کسی مشہور ضلع سے اپنی نسبت کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض اوقات ان کا مقصد تعارف حاصل کرنے والے کو کم علمی کے احساس سے بچانا بھی ہوتا ہے مگر میں تو چاہے کسی بہت بڑی مجلس میں بیٹھی ہوؤں، جاب کے لیے گئی ہوؤں، کسی پر امپریشن جمانا ضروری ہو یا چاہے میں فی الحال کسی بڑے شہر میں مقیم ہوؤں، جیسے ہی کسی نے پوچھا کہ آپ کہاں سے ہیں؟ کھٹ سے فخریہ جواب پایا: 'چیچہ وطنی' (اگر کوئی ہمارے شہر کے متعلق نہیں جانتا تو، جان لے!)
شہروں کے متعلق ہمارا معاملہ بہت کم اختیاری ہوتا ہے۔ ہم جہاں پیدا ہوئے ہوتے ہیں یا جہاں والدین کا یا بعد میں ہمارامعاشی بندھن ہو وہیں ہم ہوتے ہیں۔ ہاں لیکن ہمیں لاتعداد چیزوں کے چند مواقع بھی میسر نہیں آ پاتے جو کہ بعض اوقات ہم سے نسبتا کم قابلیت رکھنے والے مگر بڑے شہر میں رہنے والے باشندوں کو میسر آتے ہیں۔ لیکن دنیا میں کوئی ایسی شے نہیں ہونی چاہئے جو ہمارے حوصلے پست کر سکے اور اگر کبھی ہو جائیں تو ان کا اظہار کر کے ہم دوسروں کو بھی اپنے ساتھ شامل کیوں کریں؟ میرا ایمان ہے کہ ہم زندگی میں جو کچھ بھی چاہتے ہیں اکثر اوقات وہ زندگی میں ذرا آگے چل کر ہمارا منتظر ہوتا ہے مگر یا تو ہم اپنے ارمانوں کا رخ تب تک بدل چکے ہوتے ہیں اور اس شے کی قدر نہیں کر پاتے جس وجہ سے یہ سلسلہ یا اس کی سمجھ ختم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جادو ہو یا معجزہ، ہوتا اسی کے ساتھ ہے جس کو اس پر یقین ہو وگرنہ اگر یقین نہ ہو تو چاہے جو بھی ہوتا جائے ہم کیوں مانیں گے اور کیوں غور و فکر یا شکر کریں گے؟
جہاں تک گھر کے ماحول اور کتب کا تعلق ہے۔ یہاں بھی آپ کا اور ہمارا معاملہ ایک سا ہے۔ ہمیں کتب پڑھنے کا شوق غالبا ساتویں جماعت میں ہوا۔ گھر میں فقط ایک کتاب تھی اور ہمیں علم نہ تھا کہ مزید کتب کہاں سے حاصل کی جاتی ہیں ہم نے وہ کتاب شاید دس یا اس سے زیادہ بار پڑھی۔ پھر سکول کی ایک ٹیچر نے ہمارے ہاتھوں ایک کتاب دوسرے کیمپس کی لائبریری سے منگوائی تو ہمیں علم ہوا کہ وہاں سے کتابیں لی جا سکتی ہیں۔ پھر ہم نے آٹھویں جماعت میں وہ پوری لائبریری چاٹ ڈالی۔ گھر میں نہ تو کوئی کتب پڑھتا ہے اور نہ ہی اس مشغلے کو پسند کرتا ہے کہ بقول ان کے اسی سے بندے کا دماغ خراب ہوتا ہے۔ مگر ہم کون سا ہمت ہارنے والے ہیں؟ رات کو جب سب سو جاتے تھے اس وقت ہماری عید ہوتی تھی۔ پھر میٹرک میں آئے تو ہمارے گھر اور اکیڈمی کے راستے میں ایک لائبریری تھی۔ روز جتنا جیب خرچ ملتا تھا اتنا کتاب کا کرایہ ہوتا تھا۔ باقی بچوں کے ساتھ کچھ نہ کھاتے تھے اور شام کو اس کی کتاب لے کر اور دوسری کتابوں کی تہہ میں نہایت چھپا کر رکھ لیتے تھے اور جان ایسے اٹکی رہتی تھی کہ گویا کتاب نہ ہو پتا نہیں کیا ہو کہ کسی کو پتا چل گیا تو کیا ہنگامہ ہوگا ، سارا دن جس جگہ کتاب چھپا کر رکھی ہو کن اکھیوں سے اس کی نگرانی اور رات کو پوری کتاب ختم ! اگلے دن یہ واپس اور اگلی شروع! ایف ایس سی میں بھی یونہی رہا اور پھر ایف ایس سی کے بعد پہلی مرتبہ نیٹ استعمال کیا تو گویا قارون کا خزانہ مل گیا اور یہ کام وہاں منتقل ہوگیا۔
بندے کو زندگی میں جو شے چاہیے وہ بھی بندے کی اسی طرح منتظر ہوتی ہے بس کبھی یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ میں یہ نہیں کر سکوں گی یا مجھے یہ موقع نہیں ملا۔ یہ جو مواقع ملتے ہیں نا ان کا بھی حساب ہوتا ہے کہ کیسے استعمال کیا یا تمہارے پاس موقع تھا کیوں استعمال نہ کیا۔
کہنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے لیکن پھر کبھی سہی۔ بس اچھی امید رکھا کیجیے اور خوش رہا کیجیے پیاری بہنا!
بھئی آپ بھی سوچ رہی ہوں گی کہ ایسا کیا لکھ دیا میں نے کہ اتنا بڑا خطبہ میرا منتظر ٹھہرا۔ بات یوں ہے کہ ہمیں بہت کچھ یاد آ گیا تھا (جس میں سے شاید آدھا بھی نہ لکھ پائے) اور اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ کسی قسم کی عارضی یا مستقل قنوطیت سے نکل آئیں کہ خوش رہنا ہمارا اولین فریضہ ہے اور ہماری روح کا اولین حق!
اس مراسلے کا جواب ہماری طرف سے ادھار تھا۔ سوچا تھا کہ کسی وقت تفصیل سے جواب دوں گی (جب موڈ ہو) اور ابھی پیپر کی تیاری کے لیے کتاب کھول کے بیٹھی ہی ہوں کہ ہر وہ بات یاد آ گئی جو عرصے سے کہیں دبکی پڑی تھی اور لمبا مراسلہ لکھنے کا موڈ بھی بن گیا کہ کہیں ریکمبننٹ ڈی این اے ٹیکنالوجی پڑھنی نہ پڑ جائے۔ تو بات یوں ہے سحرش بہنا کہ
زندگی کسی کے لیے پھولوں کی سیج نہیں ہوتی، حالات کسی کے لیے موافق ترین نہیں ہوتے۔ وہ شخصیات جن کا دنیا پر تادیر اور خاطر خواہ اثر رہا ، خود ان کی زندگیاں رکاوٹوں اور چیلنجز سے بھری ہوئی تھیں مگر ان میں سے کوئی بھی زندگی کے متعلق منفی نہیں ہوتا یا اگر کچھ دیر کو ہو بھی جائے تو اگلے ہی لمحےنئے عزم سے اٹھتا ہے کہ ان رکاوٹوں کے باوجود میں میدان مار کر رہوں گا۔
جہاں تک بات میری اور آپ کی ہے تو آپ کی طرح میرا تعلق بھی ایک چھوٹے شہر سے ہے۔ (مگر میں یہ نہیں سمجھتی کہ میں کوئی ارمان لے کر مروں گی بلکہ میں 'کر گزرنے' کی عادی ہوں اور میرا گول ہے ، گو کہ کسی کے لیے کتنا ہی مضحکہ خیز کیوں نہ ہو کہ میں زندگی میں کچھ ایسے کارہائے نمایاں کروں اور اسی شہر سے منسوب رہوں کہ ایک دن میرا شہر میرے نام سے پہچانا جائے۔) میرے اردگرد یہاں بہت سے لوگ ہیں جن کا تعلق کسی پسماندہ علاقے سے ہو تو وہ اس کا نام نہیں لیتے بلکہ قریب کے کسی مشہور ضلع سے اپنی نسبت کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض اوقات ان کا مقصد تعارف حاصل کرنے والے کو کم علمی کے احساس سے بچانا بھی ہوتا ہے مگر میں تو چاہے کسی بہت بڑی مجلس میں بیٹھی ہوؤں، جاب کے لیے گئی ہوؤں، کسی پر امپریشن جمانا ضروری ہو یا چاہے میں فی الحال کسی بڑے شہر میں مقیم ہوؤں، جیسے ہی کسی نے پوچھا کہ آپ کہاں سے ہیں؟ کھٹ سے فخریہ جواب پایا: 'چیچہ وطنی' (اگر کوئی ہمارے شہر کے متعلق نہیں جانتا تو، جان لے!)
شہروں کے متعلق ہمارا معاملہ بہت کم اختیاری ہوتا ہے۔ ہم جہاں پیدا ہوئے ہوتے ہیں یا جہاں والدین کا یا بعد میں ہمارامعاشی بندھن ہو وہیں ہم ہوتے ہیں۔ ہاں لیکن ہمیں لاتعداد چیزوں کے چند مواقع بھی میسر نہیں آ پاتے جو کہ بعض اوقات ہم سے نسبتا کم قابلیت رکھنے والے مگر بڑے شہر میں رہنے والے باشندوں کو میسر آتے ہیں۔ لیکن دنیا میں کوئی ایسی شے نہیں ہونی چاہئے جو ہمارے حوصلے پست کر سکے اور اگر کبھی ہو جائیں تو ان کا اظہار کر کے ہم دوسروں کو بھی اپنے ساتھ شامل کیوں کریں؟ میرا ایمان ہے کہ ہم زندگی میں جو کچھ بھی چاہتے ہیں اکثر اوقات وہ زندگی میں ذرا آگے چل کر ہمارا منتظر ہوتا ہے مگر یا تو ہم اپنے ارمانوں کا رخ تب تک بدل چکے ہوتے ہیں اور اس شے کی قدر نہیں کر پاتے جس وجہ سے یہ سلسلہ یا اس کی سمجھ ختم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جادو ہو یا معجزہ، ہوتا اسی کے ساتھ ہے جس کو اس پر یقین ہو وگرنہ اگر یقین نہ ہو تو چاہے جو بھی ہوتا جائے ہم کیوں مانیں گے اور کیوں غور و فکر یا شکر کریں گے؟
جہاں تک گھر کے ماحول اور کتب کا تعلق ہے۔ یہاں بھی آپ کا اور ہمارا معاملہ ایک سا ہے۔ ہمیں کتب پڑھنے کا شوق غالبا ساتویں جماعت میں ہوا۔ گھر میں فقط ایک کتاب تھی اور ہمیں علم نہ تھا کہ مزید کتب کہاں سے حاصل کی جاتی ہیں ہم نے وہ کتاب شاید دس یا اس سے زیادہ بار پڑھی۔ پھر سکول کی ایک ٹیچر نے ہمارے ہاتھوں ایک کتاب دوسرے کیمپس کی لائبریری سے منگوائی تو ہمیں علم ہوا کہ وہاں سے کتابیں لی جا سکتی ہیں۔ پھر ہم نے آٹھویں جماعت میں وہ پوری لائبریری چاٹ ڈالی۔ گھر میں نہ تو کوئی کتب پڑھتا ہے اور نہ ہی اس مشغلے کو پسند کرتا ہے کہ بقول ان کے اسی سے بندے کا دماغ خراب ہوتا ہے۔ مگر ہم کون سا ہمت ہارنے والے ہیں؟ رات کو جب سب سو جاتے تھے اس وقت ہماری عید ہوتی تھی۔ پھر میٹرک میں آئے تو ہمارے گھر اور اکیڈمی کے راستے میں ایک لائبریری تھی۔ روز جتنا جیب خرچ ملتا تھا اتنا کتاب کا کرایہ ہوتا تھا۔ باقی بچوں کے ساتھ کچھ نہ کھاتے تھے اور شام کو اس کی کتاب لے کر اور دوسری کتابوں کی تہہ میں نہایت چھپا کر رکھ لیتے تھے اور جان ایسے اٹکی رہتی تھی کہ گویا کتاب نہ ہو پتا نہیں کیا ہو کہ کسی کو پتا چل گیا تو کیا ہنگامہ ہوگا ، سارا دن جس جگہ کتاب چھپا کر رکھی ہو کن اکھیوں سے اس کی نگرانی اور رات کو پوری کتاب ختم ! اگلے دن یہ واپس اور اگلی شروع! ایف ایس سی میں بھی یونہی رہا اور پھر ایف ایس سی کے بعد پہلی مرتبہ نیٹ استعمال کیا تو گویا قارون کا خزانہ مل گیا اور یہ کام وہاں منتقل ہوگیا۔
بندے کو زندگی میں جو شے چاہیے وہ بھی بندے کی اسی طرح منتظر ہوتی ہے بس کبھی یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ میں یہ نہیں کر سکوں گی یا مجھے یہ موقع نہیں ملا۔ یہ جو مواقع ملتے ہیں نا ان کا بھی حساب ہوتا ہے کہ کیسے استعمال کیا یا تمہارے پاس موقع تھا کیوں استعمال نہ کیا۔
کہنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے لیکن پھر کبھی سہی۔ بس اچھی امید رکھا کیجیے اور خوش رہا کیجیے پیاری بہنا!
بھئی آپ بھی سوچ رہی ہوں گی کہ ایسا کیا لکھ دیا میں نے کہ اتنا بڑا خطبہ میرا منتظر ٹھہرا۔ بات یوں ہے کہ ہمیں بہت کچھ یاد آ گیا تھا (جس میں سے شاید آدھا بھی نہ لکھ پائے) اور اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ کسی قسم کی عارضی یا مستقل قنوطیت سے نکل آئیں کہ خوش رہنا ہمارا اولین فریضہ ہے اور ہماری روح کا اولین حق!
اس مراسلے کا جواب ہماری طرف سے ادھار تھا۔ سوچا تھا کہ کسی وقت تفصیل سے جواب دوں گی (جب موڈ ہو) اور ابھی پیپر کی تیاری کے لیے کتاب کھول کے بیٹھی ہی ہوں کہ ہر وہ بات یاد آ گئی جو عرصے سے کہیں دبکی پڑی تھی اور لمبا مراسلہ لکھنے کا موڈ بھی بن گیا کہ کہیں ریکمبننٹ ڈی این اے ٹیکنالوجی پڑھنی نہ پڑ جائے۔ تو بات یوں ہے سحرش بہنا کہ
زندگی کسی کے لیے پھولوں کی سیج نہیں ہوتی، حالات کسی کے لیے موافق ترین نہیں ہوتے۔ وہ شخصیات جن کا دنیا پر تادیر اور خاطر خواہ اثر رہا ، خود ان کی زندگیاں رکاوٹوں اور چیلنجز سے بھری ہوئی تھیں مگر ان میں سے کوئی بھی زندگی کے متعلق منفی نہیں ہوتا یا اگر کچھ دیر کو ہو بھی جائے تو اگلے ہی لمحےنئے عزم سے اٹھتا ہے کہ ان رکاوٹوں کے باوجود میں میدان مار کر رہوں گا۔
جہاں تک بات میری اور آپ کی ہے تو آپ کی طرح میرا تعلق بھی ایک چھوٹے شہر سے ہے۔ (مگر میں یہ نہیں سمجھتی کہ میں کوئی ارمان لے کر مروں گی بلکہ میں 'کر گزرنے' کی عادی ہوں اور میرا گول ہے ، گو کہ کسی کے لیے کتنا ہی مضحکہ خیز کیوں نہ ہو کہ میں زندگی میں کچھ ایسے کارہائے نمایاں کروں اور اسی شہر سے منسوب رہوں کہ ایک دن میرا شہر میرے نام سے پہچانا جائے۔) میرے اردگرد یہاں بہت سے لوگ ہیں جن کا تعلق کسی پسماندہ علاقے سے ہو تو وہ اس کا نام نہیں لیتے بلکہ قریب کے کسی مشہور ضلع سے اپنی نسبت کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض اوقات ان کا مقصد تعارف حاصل کرنے والے کو کم علمی کے احساس سے بچانا بھی ہوتا ہے مگر میں تو چاہے کسی بہت بڑی مجلس میں بیٹھی ہوؤں، جاب کے لیے گئی ہوؤں، کسی پر امپریشن جمانا ضروری ہو یا چاہے میں فی الحال کسی بڑے شہر میں مقیم ہوؤں، جیسے ہی کسی نے پوچھا کہ آپ کہاں سے ہیں؟ کھٹ سے فخریہ جواب پایا: 'چیچہ وطنی' (اگر کوئی ہمارے شہر کے متعلق نہیں جانتا تو، جان لے!)
شہروں کے متعلق ہمارا معاملہ بہت کم اختیاری ہوتا ہے۔ ہم جہاں پیدا ہوئے ہوتے ہیں یا جہاں والدین کا یا بعد میں ہمارامعاشی بندھن ہو وہیں ہم ہوتے ہیں۔ ہاں لیکن ہمیں لاتعداد چیزوں کے چند مواقع بھی میسر نہیں آ پاتے جو کہ بعض اوقات ہم سے نسبتا کم قابلیت رکھنے والے مگر بڑے شہر میں رہنے والے باشندوں کو میسر آتے ہیں۔ لیکن دنیا میں کوئی ایسی شے نہیں ہونی چاہئے جو ہمارے حوصلے پست کر سکے اور اگر کبھی ہو جائیں تو ان کا اظہار کر کے ہم دوسروں کو بھی اپنے ساتھ شامل کیوں کریں؟ میرا ایمان ہے کہ ہم زندگی میں جو کچھ بھی چاہتے ہیں اکثر اوقات وہ زندگی میں ذرا آگے چل کر ہمارا منتظر ہوتا ہے مگر یا تو ہم اپنے ارمانوں کا رخ تب تک بدل چکے ہوتے ہیں اور اس شے کی قدر نہیں کر پاتے جس وجہ سے یہ سلسلہ یا اس کی سمجھ ختم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جادو ہو یا معجزہ، ہوتا اسی کے ساتھ ہے جس کو اس پر یقین ہو وگرنہ اگر یقین نہ ہو تو چاہے جو بھی ہوتا جائے ہم کیوں مانیں گے اور کیوں غور و فکر یا شکر کریں گے؟
جہاں تک گھر کے ماحول اور کتب کا تعلق ہے۔ یہاں بھی آپ کا اور ہمارا معاملہ ایک سا ہے۔ ہمیں کتب پڑھنے کا شوق غالبا ساتویں جماعت میں ہوا۔ گھر میں فقط ایک کتاب تھی اور ہمیں علم نہ تھا کہ مزید کتب کہاں سے حاصل کی جاتی ہیں ہم نے وہ کتاب شاید دس یا اس سے زیادہ بار پڑھی۔ پھر سکول کی ایک ٹیچر نے ہمارے ہاتھوں ایک کتاب دوسرے کیمپس کی لائبریری سے منگوائی تو ہمیں علم ہوا کہ وہاں سے کتابیں لی جا سکتی ہیں۔ پھر ہم نے آٹھویں جماعت میں وہ پوری لائبریری چاٹ ڈالی۔ گھر میں نہ تو کوئی کتب پڑھتا ہے اور نہ ہی اس مشغلے کو پسند کرتا ہے کہ بقول ان کے اسی سے بندے کا دماغ خراب ہوتا ہے۔ مگر ہم کون سا ہمت ہارنے والے ہیں؟ رات کو جب سب سو جاتے تھے اس وقت ہماری عید ہوتی تھی۔ پھر میٹرک میں آئے تو ہمارے گھر اور اکیڈمی کے راستے میں ایک لائبریری تھی۔ روز جتنا جیب خرچ ملتا تھا اتنا کتاب کا کرایہ ہوتا تھا۔ باقی بچوں کے ساتھ کچھ نہ کھاتے تھے اور شام کو اس کی کتاب لے کر اور دوسری کتابوں کی تہہ میں نہایت چھپا کر رکھ لیتے تھے اور جان ایسے اٹکی رہتی تھی کہ گویا کتاب نہ ہو پتا نہیں کیا ہو کہ کسی کو پتا چل گیا تو کیا ہنگامہ ہوگا ، سارا دن جس جگہ کتاب چھپا کر رکھی ہو کن اکھیوں سے اس کی نگرانی اور رات کو پوری کتاب ختم ! اگلے دن یہ واپس اور اگلی شروع! ایف ایس سی میں بھی یونہی رہا اور پھر ایف ایس سی کے بعد پہلی مرتبہ نیٹ استعمال کیا تو گویا قارون کا خزانہ مل گیا اور یہ کام وہاں منتقل ہوگیا۔
بندے کو زندگی میں جو شے چاہیے وہ بھی بندے کی اسی طرح منتظر ہوتی ہے بس کبھی یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ میں یہ نہیں کر سکوں گی یا مجھے یہ موقع نہیں ملا۔ یہ جو مواقع ملتے ہیں نا ان کا بھی حساب ہوتا ہے کہ کیسے استعمال کیا یا تمہارے پاس موقع تھا کیوں استعمال نہ کیا۔
کہنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے لیکن پھر کبھی سہی۔ بس اچھی امید رکھا کیجیے اور خوش رہا کیجیے پیاری بہنا!
بھئی آپ بھی سوچ رہی ہوں گی کہ ایسا کیا لکھ دیا میں نے کہ اتنا بڑا خطبہ میرا منتظر ٹھہرا۔ بات یوں ہے کہ ہمیں بہت کچھ یاد آ گیا تھا (جس میں سے شاید آدھا بھی نہ لکھ پائے) اور اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ کسی قسم کی عارضی یا مستقل قنوطیت سے نکل آئیں کہ خوش رہنا ہمارا اولین فریضہ ہے اور ہماری روح کا اولین حق!
پیاری مریم! آپ کی اس حوصلہ افزا تحریر کا دل و جان سے شکریہ ۔
اب جبکہ آدھی سے زیادہ( شاید) زندگی گزر گئی ہے ...اب کہیں جا کر مجھے بھی قارون کا خزانہ(نیٹ) ہاتھ لگا ہے اور ادھر ادھر سے بھی ایک ادھ کتاب مستعار مل جاتی ہے ۔
لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ...افسوس چیچہ وطنی کی طرح میرے گھر اور اکیڈیمی کے راستہ میں کوئی لائبریری نہ تھی ۔ ہاہاہاہا
خیر اب تومیرے اس شہر میں ایک بڑی سی پبلک لائبریری ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ مجھ جیسوں بلکہ جیسیوں کی دسترس سے باہر ہے ۔
یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ زندگی نے لازما آپ کو کچھ ایسے مواقع یا گوہر عطا کیے ہوں گے جو دوسروں کا مقدر ایسی آسانی سے نہیں ہوتے۔ اللہ تعالی کہتے ہیں مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ مگر آپ چیچہ وطنی والے مواقع ہی دیکھیں گی اب۔ بس یہی ہونے کو رہ گیا تھا!