فیض احمد فیض کی چند نایاب تصاویر

فرخ منظور

لائبریرین
فیض احمد فیض کا ایک نایاب خط جب ان کی تنخواہ ایک ہزار روپیہ ماہور تھی۔

FaizLetter_zps9588f6f5.jpg
 

تلمیذ

لائبریرین
1960 بڑے امیر تھے فیض صاحب۔۔

لیکن ان دنوں لوگوں میں قناعت بہت زیادہ تھی، جس کی وجہ سے اللہ تعالے کی جانب سے کم آمدنی میں برکت کی فراوانی ہوتی تھی۔ آج کل تو ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔

فرخ صاحب، شراکت کے لئے شکریہ۔
 

عمراعظم

محفلین
جی ہاں جناب۔ امیر تھے تو غریبوں کے لئے لکھ سکے۔ :)
شاید آپ یہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ فیض صاحب دل و ذہن کے بڑے امیر تھے۔ جنہوں نے غریبوں کے لئے لکھا اور ’ان سے اس کا معاوضہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔البتہ ہمارے ہاں تو بہت سے امیر (اکثر سیاست دان) غریبوں کے غم میں مزید امیر ہوتے رہتے ہیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
شاید آپ یہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ فیض صاحب دل و ذہن کے بڑے امیر تھے۔ جنہوں نے غریبوں کے لئے لکھا اور ’ان سے اس کا معاوضہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔البتہ ہمارے ہاں تو بہت سے امیر (اکثر سیاست دان) غریبوں کے غم میں مزید امیر ہوتے رہتے ہیں۔

اس حوالے سے فیض صاحب سے منسوب ایک واقعہ سنیے۔ جس سے آپ کو شاید اندازہ ہو سکے کہ میں دراصل کیا کہنا چاہتا ہوں۔ "فیض صاحب سے کسی نے پوچھا کہ آپ غریبوں اور مزدوروں کے لئے لکھتے ہیں لیکن آپ کی شاعری تو صرف اعلیٰ طبقے کے لوگ پڑھتے ہیں۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ "بھئی انہیں بھی تو ایجوکیٹ کرنا ہے" :)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت خوب۔
بہت شکریہ سخنور! :)
آپ کی پوسٹ سے مجھے شبنم شکیل ایک مضمون یاد آ گیا جو شاید میں نے نقوش کے فیض نمبر میں پڑھا تھا اور پھر اس کو سکین کروا لیا تھا۔ ابھی شیئر کرتی ہوں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
مجھے یہ سب اس قدر دلچسپ معلوم ہوا تھا کہ میں نے سکین کروا کر بہت سے لوگوں کو ای میل کیا تھا۔ ابھی بھی اسے دوبارہ پڑھ کر میں پہلی بار کی طرح یہ سوچ رہی ہوں کہ فیض صاحب اخباروں کا سہرہ باندھے کیسے لگ رہے ہوں گے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بیادِ فیض

قلم بدست ہوں حیران ہوں کہ کیا لکھوں
میں تیری بات کے دنیا کا تذکرہ لکھوں

لکھوں کہ تُو نے محبت کی روشنی لکھی
ترے سخن کو ستاروں کا قافلہ لکھوں

جہاں یزید بہت ہوں، حسین اکیلا ہو
تو کیوں نہ اپنی زمیں کو بھی کربلا لکھوں

ترے بغیر ہے ہر نقش "نقشِ فریادی"
تو پھول "دستِ صبا" پر ہے آبلہ لکھوں

مثالِ "دستِ تہہِ سنگ" تھی وفا ان کی
سو کس طرح انہیں یارانِ با صفا لکھوں

حدیثِ کوچۂ قاتل ہے نامۂ زنداں
سو اس کو قصۂ تعزیرِ ناروا لکھوں

جگہ جگہ ہیں "صلیبیں مرے دریچے میں"
سو اسمِ عیسیٰ و منصور جا بجا لکھوں

گرفتہ دل ہے بہت "شامِ شہر یاراں" آج
کہاں ہے تُو کہ تجھے حالِ دلبرا لکھوں

کہاں گیا ہے "مرے دل مرے مسافر" تُو
کہ میں تجھے رہ و منزل کا ماجرا لکھوں

تو مجھ کو چھوڑ گیا لکھ کے "نسخہ ہائے وفا"
میں کس طرح تجھے اے دوست بے وفا لکھوں

"شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں"
خدا نکردہ کہ میں تیرا مرثیہ لکھوں

احمد فراز
٭٭٭
 

فرخ منظور

لائبریرین
خواجہ خورشید انور اور فیض صاحب بہت گہرے دوست تھے اور ان دونوں کے انتقال میں چند دنوں کا ہی فاصلہ ہے۔ خواجہ صاحب کا 30 اکتوبر 1984 کو انتقال ہوا جبکہ فیض صاحب کا 20 نومبر 1984 کو انتقال ہوا ۔

فیض صاحب اور خواجہ خورشید انور کی ایک یادگار تصویر

314434_186955088053864_1028741197_n_zps7179940b.jpg
 
Top