فرحان محمد خان
محفلین
فیض احمد فیض کے قطعات
-----------------------------
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
-----------------------------
دل رہین غم جہاں ہے آج
ہر نفس تشنۂ فغاں ہے آج
سخت ویراں ہے محفل ہستی
اے غم دوست! تو کہاں ہے آج
-----------------------------
وقف حرمان و یاس رہتا ہے
دل ہے اکثر اداس رہتا ہے
تم تو غم دے کے بھول جاتے ہو
مجھ کو احساں کا پاس رہتا ہے
-----------------------------
فضائے دل پر اداسی بکھرتی جاتی ہے
فسردگی ہے کہ جاں تک اترتی جاتی ہے
فریب زیست سے قدرت کا مدعا معلوم
یہ ہوش ہے کہ جوانی گزرتی جاتی ہے
-----------------------------
آ گئی فصل سکوں چاک گریباں والو
سل گئے ہونٹ کوئی زخم سلے یا نہ سلے
دوستو بزم سجاؤ کہ بہار آ گئی ہے
کھل گئے زخم کوئی پھول کھلے یا نہ کھلے
-----------------------------
آج تنہائی کسی ہم دم دیریں کی طرح
کرنے آئی ہے مری ساقی گری شام ڈھلے
منتظر بیٹھے ہیں ہم دنوں کہ مہتاب ابھرے
اور ترا عکس جھلکنے لگے ہر سائے تلے
-----------------------------
اپنے انعام حسن کے بدلے
ہم تہی دامنوں سے کیا لینا
آج فرقت زدوں پہ لطف کرو
پھر کبھی صبر آزما لینا
-----------------------------
ان دنوں رسم و رہ شہر نگاراں کیا ہے
قاصدا قیمت گلگشت بہاراں کیا ہے
کوئے جاناں ہے کہ مقتل ہے کہ مے خانہ ہے
آج کل صورت بربادیٔ یاراں کیا ہے
-----------------------------
باقی ہے کوئی ساتھ تو بس ایک اسی کا
پہلو میں لیے پھرتے ہیں جو درد کسی کا
اک عمر سے اس دھن میں کہ ابھرے کوئی خورشید
بیٹھے ہیں سہارا لیے شمع سحری کا
-----------------------------
پھر حشر کے ساماں ہوئے ایوان ہوس میں
بیٹھے ہیں ذوی العدل گنہ گار کھڑے ہیں
ہاں جرم وفا دیکھیے کس کس پہ ہے ثابت
وہ سارے خطا کار سر دار کھڑے ہیں
-----------------------------
ترا جمال نگاہوں میں لے کے اٹھا ہوں
نکھر گئی ہے فضا تیرے پیرہن کی سی
نسیم تیرے شبستاں سے ہو کے آئی ہے
مری سحر میں مہک ہے ترے بدن کی سی
-----------------------------
تمام شب دل وحشی تلاش کرتا ہے
ہر اک صدا میں ترے حرف لطف کا آہنگ
ہر ایک صبح ملاتی ہے بار بار نظر
ترے دہن سے ہر اک لالہ و گلاب کا رنگ
-----------------------------
تمہارے حسن سے رہتی ہے ہمکنار نظر
تمہاری یاد سے دل ہم کلام رہتا ہے
رہی فراغت ہجراں تو ہو رہے گا طے
تمہاری چاہ کا جو جو مقام رہتا ہے
-----------------------------
جاں بیچنے کو آئے تو بے دام بیچ دی
اے اہل مصر وضع تکلف تو دیکھیے
انصاف ہے کہ حکم عقوبت سے پیشتر
اک بار سوئے دامن یوسف تو دیکھیے
-----------------------------
جو پیرہن میں کوئی تار محتسب سے بچا
دراز دستئ پیر مغاں کی نذر ہوا
اگر جراحت قاتل سے بخشوا لائے
تو دل سیاست چارہ گراں کی نذر ہوا
-----------------------------
دیدۂ تر پہ وہاں کون نظر کرتا ہے
کاسۂ چشم میں خوں ناب جگر لے کے چلو
اب اگر جاؤ پئے عرض و طلب ان کے حضور
دست و کشکول نہیں کاسۂ سر لے کے چلو
-----------------------------
دیوار شب اور عکس رخ یار سامنے
پھر دل کے آئنے سے لہو پھوٹنے لگا
پھر وضع احتیاط سے دھندلا گئی نظر
پھر ضبط آرزو سے بدن ٹوٹنے لگا
-----------------------------
رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں
آگ سلگاؤ آبگینوں میں
دل عشاق کی خبر لینا
پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں
-----------------------------
رفیق راہ تھی منزل ہر اک تلاش کے بعد
چھٹا یہ ساتھ تو رہ کی تلاش بھی نہ رہی
ملول تھا دل آئینہ ہر خراش کے بعد
جو پاش پاش ہوا اک خراش بھی نہ رہی
-----------------------------
زنداں زنداں شور انا الحق محفل محفل قل قل مے
خون تمنا دریا دریا دریا دریا دریا عیش کی لہر
دامن دامن رت پھولوں کی آنچل آنچل اشکوں کی
قریہ قریہ جشن بپا ہے ماتم شہر بہ شہر
-----------------------------
صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی
ٹھہر ٹھہر کے یہ ہوتا ہے آج دل کو گماں
وہ ہاتھ ڈھونڈ رہے ہیں بساط محفل میں
کہ دل کے داغ کہاں ہیں نشست درد کہاں
-----------------------------
صبح پھوٹی تو آسماں پہ ترے
رنگ رخسار کی پھوہار گری
رات چھائی تو روئے عالم پر
تیری زلفوں کی آبشار گری
-----------------------------
فیض احمد فیض
-----------------------------
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
-----------------------------
دل رہین غم جہاں ہے آج
ہر نفس تشنۂ فغاں ہے آج
سخت ویراں ہے محفل ہستی
اے غم دوست! تو کہاں ہے آج
-----------------------------
وقف حرمان و یاس رہتا ہے
دل ہے اکثر اداس رہتا ہے
تم تو غم دے کے بھول جاتے ہو
مجھ کو احساں کا پاس رہتا ہے
-----------------------------
فضائے دل پر اداسی بکھرتی جاتی ہے
فسردگی ہے کہ جاں تک اترتی جاتی ہے
فریب زیست سے قدرت کا مدعا معلوم
یہ ہوش ہے کہ جوانی گزرتی جاتی ہے
-----------------------------
آ گئی فصل سکوں چاک گریباں والو
سل گئے ہونٹ کوئی زخم سلے یا نہ سلے
دوستو بزم سجاؤ کہ بہار آ گئی ہے
کھل گئے زخم کوئی پھول کھلے یا نہ کھلے
-----------------------------
آج تنہائی کسی ہم دم دیریں کی طرح
کرنے آئی ہے مری ساقی گری شام ڈھلے
منتظر بیٹھے ہیں ہم دنوں کہ مہتاب ابھرے
اور ترا عکس جھلکنے لگے ہر سائے تلے
-----------------------------
اپنے انعام حسن کے بدلے
ہم تہی دامنوں سے کیا لینا
آج فرقت زدوں پہ لطف کرو
پھر کبھی صبر آزما لینا
-----------------------------
ان دنوں رسم و رہ شہر نگاراں کیا ہے
قاصدا قیمت گلگشت بہاراں کیا ہے
کوئے جاناں ہے کہ مقتل ہے کہ مے خانہ ہے
آج کل صورت بربادیٔ یاراں کیا ہے
-----------------------------
باقی ہے کوئی ساتھ تو بس ایک اسی کا
پہلو میں لیے پھرتے ہیں جو درد کسی کا
اک عمر سے اس دھن میں کہ ابھرے کوئی خورشید
بیٹھے ہیں سہارا لیے شمع سحری کا
-----------------------------
پھر حشر کے ساماں ہوئے ایوان ہوس میں
بیٹھے ہیں ذوی العدل گنہ گار کھڑے ہیں
ہاں جرم وفا دیکھیے کس کس پہ ہے ثابت
وہ سارے خطا کار سر دار کھڑے ہیں
-----------------------------
ترا جمال نگاہوں میں لے کے اٹھا ہوں
نکھر گئی ہے فضا تیرے پیرہن کی سی
نسیم تیرے شبستاں سے ہو کے آئی ہے
مری سحر میں مہک ہے ترے بدن کی سی
-----------------------------
تمام شب دل وحشی تلاش کرتا ہے
ہر اک صدا میں ترے حرف لطف کا آہنگ
ہر ایک صبح ملاتی ہے بار بار نظر
ترے دہن سے ہر اک لالہ و گلاب کا رنگ
-----------------------------
تمہارے حسن سے رہتی ہے ہمکنار نظر
تمہاری یاد سے دل ہم کلام رہتا ہے
رہی فراغت ہجراں تو ہو رہے گا طے
تمہاری چاہ کا جو جو مقام رہتا ہے
-----------------------------
جاں بیچنے کو آئے تو بے دام بیچ دی
اے اہل مصر وضع تکلف تو دیکھیے
انصاف ہے کہ حکم عقوبت سے پیشتر
اک بار سوئے دامن یوسف تو دیکھیے
-----------------------------
جو پیرہن میں کوئی تار محتسب سے بچا
دراز دستئ پیر مغاں کی نذر ہوا
اگر جراحت قاتل سے بخشوا لائے
تو دل سیاست چارہ گراں کی نذر ہوا
-----------------------------
دیدۂ تر پہ وہاں کون نظر کرتا ہے
کاسۂ چشم میں خوں ناب جگر لے کے چلو
اب اگر جاؤ پئے عرض و طلب ان کے حضور
دست و کشکول نہیں کاسۂ سر لے کے چلو
-----------------------------
دیوار شب اور عکس رخ یار سامنے
پھر دل کے آئنے سے لہو پھوٹنے لگا
پھر وضع احتیاط سے دھندلا گئی نظر
پھر ضبط آرزو سے بدن ٹوٹنے لگا
-----------------------------
رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں
آگ سلگاؤ آبگینوں میں
دل عشاق کی خبر لینا
پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں
-----------------------------
رفیق راہ تھی منزل ہر اک تلاش کے بعد
چھٹا یہ ساتھ تو رہ کی تلاش بھی نہ رہی
ملول تھا دل آئینہ ہر خراش کے بعد
جو پاش پاش ہوا اک خراش بھی نہ رہی
-----------------------------
زنداں زنداں شور انا الحق محفل محفل قل قل مے
خون تمنا دریا دریا دریا دریا دریا عیش کی لہر
دامن دامن رت پھولوں کی آنچل آنچل اشکوں کی
قریہ قریہ جشن بپا ہے ماتم شہر بہ شہر
-----------------------------
صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی
ٹھہر ٹھہر کے یہ ہوتا ہے آج دل کو گماں
وہ ہاتھ ڈھونڈ رہے ہیں بساط محفل میں
کہ دل کے داغ کہاں ہیں نشست درد کہاں
-----------------------------
صبح پھوٹی تو آسماں پہ ترے
رنگ رخسار کی پھوہار گری
رات چھائی تو روئے عالم پر
تیری زلفوں کی آبشار گری
-----------------------------
فیض احمد فیض