arifkarim
معطل
فیوژَن، ستاروں کا درجہٴ حرارت زمین پر
جرمن طبیعات دان ایک تجربے میں مصروف ہیں، جس میں نقطہء انجماد سے چند سینٹی میٹر دور ایک سو ملین ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت پیدا کیا گیا ہے۔ مگر ان تجربات پر تنقید بھی ہو رہی ہے۔
وینڈلشٹائن سیون ایکس دنیا کا سب سے بڑا ’اسٹیلیریٹر‘ ہے، جس نے ایک صبر آزما انتظار کے بعد اب تجربات شروع کرنے کے لیے درکار اجازت نامہ حاصل کر لیا ہے۔ اب اس مشین کے ذریعے یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے گی کہ کیا سورج یا کسی دوسرے ستارے کی طرز پر فیوژن ری ایکشن یا عمل ایتلاف کے ذریعے توانائی قابلِ قابو حالت میں حاصل کی جا سکتی ہے اور اس عمل کو غیراستحکامیت سے کس طرح بچایا جا سکتا ہے۔ اگر یہ تجربات کامیاب ہو جاتے ہیں، تو اس کے ذریعے بڑی مقدار میں توانائی حاصل کی جا سکے گی۔
جرمن سائنس دانوں کا ہدف یہ ہے کہ کسی طرح کاربن فری بجلی تیار ہو سکے اور روایاتی جوہری ری ایکٹروں (فشری ایکٹر یا عمل انشقاق پر مبنی ری ایکٹر) کے مقابلے میں قریب لامتناہی توانائی حاصل کی جا سکے۔ اس نئے طریقے سے بنائے گئے ری ایکٹروں کے نہ میلٹ ڈاؤن کا خطرہ ہو گا اور نہ ہی ان سے طویل مدت تک رہنے والا تابکار فضلہ برآمد ہو گا۔
عمل ایتلاف پر تحقیق یوں تو گزشتہ صدی کے وسط ہی سے جاری ہے، مگر اس طریقے کو تجارتی بنیادوں پر استعمال کرتے ہوئے توانائی کا حصول اب تک ایک خواب ہی رہا ہے۔ ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار پلازما فزکس (IPP) بحیرہء بالٹک کے کنارے آباد شہر گرائزوالڈ میں واقع ہے، جہاں ایک ارب یورو کے سرمایے سے یہ ایتلافی مشین نصب کی گئی ہے۔ جنوبی باویریا کے ایک پہاڑ ڈبلیو سیون ایکس کے نام سے منسوب اس مشین کی تعمیر اپریل 2014ء میں مکمل ہوئی تھی اور اس کے لیے نو ماہ تک متعدد مسائل سے نمٹنے اور مختلف آلات کو جوڑنے میں صرف ہوئے۔ تب سے اس کے ٹیکنکل نظام کی آزمائش کی جا رہی تھی۔
پلازما انتہائی زیادہ درجہء حرارت کی حامل بارآور گیس ہوتی ہے
یہ مشین عمومی ایتلافی ری ایکٹروں بشمول روسی ساختہ ’ٹوکامک‘ کی طرز کی ہے، جس میں ایک گول میشن میں چاروں طرح مقناطیسی تاریں بچھی ہوتی ہے اور درمیان کا حصہ خالی ہوتا ہے۔ اسی حصے میں بے انتہا طاقتور مقناطیسی قوت پیدا ہوتی ہے، جس کے ذریعے برقی گیس جسے عرف عام میں پلازمہ کہا جاتا ہے، تھام لی جاتی ہے۔
پلازمہ اس انتہائی درجہ حرارت کا حامل ہوتا ہے، جو دو ایٹموں کے مرکزوں کو ایک دورسے سے جوڑ کر ایک نیا ایٹم تیار کر دیتا ہے اور اس دوران انتہائی زیادہ توانائی خارج ہوتی ہے۔ عمومی جوہری ری ایکٹروں میں کسی بھاری ایٹم کا مرکزہ دو چھوٹے مرکزوں میں توڑا جاتا ہے اور اس کے ذریعے توانائی حاصل کی جاتی ہے، تاہم عمل ایتلاف سے حاصل ہونے والی توانائی عمل انشقاق سے ملنے والی توانائی سے کہیں زیادہ ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں تابکار فضلہ بھی نہیں بنتا۔
انسٹیوٹ فار پلازما فزکس کا کہنا ہے کہ ٹوکاماک ری ایکٹر پلازمہ میں سے برقی رو گزار کو مقناطیسی قیدخانہ بناتا ہے مگر اس کے مقابلے میں اسٹیلیریٹر بیرونی تاروں کو موڑ کر یہ کام کرتا ہے اور اسی لیے یہ مستحکم انداز سے کام کر سکتا ہے۔ ٹوکامک ری ایکٹر بھی کچھ ہی دیر ایسے جھٹکے پیدا کر پاتا ہے اور مسلسل کام کرنے سے قاصر ہے۔
اب یہ انسٹیٹیوٹ دونوں طریقوں پر تحقیق کر رہا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ کسی طرح ایک ایسا نظام وضع کر لیا جائے کہ یہ ری ایکٹر مسلسل کام کر پائے اور اس کے ذریعے توانائی کا حصول جاری رہے۔
ماخذ
غالباً اسپائڈر مین 2 میں فلمائی گئی سائنس فکشن کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ زیک فاتح سید ذیشان
جرمن طبیعات دان ایک تجربے میں مصروف ہیں، جس میں نقطہء انجماد سے چند سینٹی میٹر دور ایک سو ملین ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت پیدا کیا گیا ہے۔ مگر ان تجربات پر تنقید بھی ہو رہی ہے۔
وینڈلشٹائن سیون ایکس دنیا کا سب سے بڑا ’اسٹیلیریٹر‘ ہے، جس نے ایک صبر آزما انتظار کے بعد اب تجربات شروع کرنے کے لیے درکار اجازت نامہ حاصل کر لیا ہے۔ اب اس مشین کے ذریعے یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے گی کہ کیا سورج یا کسی دوسرے ستارے کی طرز پر فیوژن ری ایکشن یا عمل ایتلاف کے ذریعے توانائی قابلِ قابو حالت میں حاصل کی جا سکتی ہے اور اس عمل کو غیراستحکامیت سے کس طرح بچایا جا سکتا ہے۔ اگر یہ تجربات کامیاب ہو جاتے ہیں، تو اس کے ذریعے بڑی مقدار میں توانائی حاصل کی جا سکے گی۔
جرمن سائنس دانوں کا ہدف یہ ہے کہ کسی طرح کاربن فری بجلی تیار ہو سکے اور روایاتی جوہری ری ایکٹروں (فشری ایکٹر یا عمل انشقاق پر مبنی ری ایکٹر) کے مقابلے میں قریب لامتناہی توانائی حاصل کی جا سکے۔ اس نئے طریقے سے بنائے گئے ری ایکٹروں کے نہ میلٹ ڈاؤن کا خطرہ ہو گا اور نہ ہی ان سے طویل مدت تک رہنے والا تابکار فضلہ برآمد ہو گا۔
عمل ایتلاف پر تحقیق یوں تو گزشتہ صدی کے وسط ہی سے جاری ہے، مگر اس طریقے کو تجارتی بنیادوں پر استعمال کرتے ہوئے توانائی کا حصول اب تک ایک خواب ہی رہا ہے۔ ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار پلازما فزکس (IPP) بحیرہء بالٹک کے کنارے آباد شہر گرائزوالڈ میں واقع ہے، جہاں ایک ارب یورو کے سرمایے سے یہ ایتلافی مشین نصب کی گئی ہے۔ جنوبی باویریا کے ایک پہاڑ ڈبلیو سیون ایکس کے نام سے منسوب اس مشین کی تعمیر اپریل 2014ء میں مکمل ہوئی تھی اور اس کے لیے نو ماہ تک متعدد مسائل سے نمٹنے اور مختلف آلات کو جوڑنے میں صرف ہوئے۔ تب سے اس کے ٹیکنکل نظام کی آزمائش کی جا رہی تھی۔
پلازما انتہائی زیادہ درجہء حرارت کی حامل بارآور گیس ہوتی ہے
یہ مشین عمومی ایتلافی ری ایکٹروں بشمول روسی ساختہ ’ٹوکامک‘ کی طرز کی ہے، جس میں ایک گول میشن میں چاروں طرح مقناطیسی تاریں بچھی ہوتی ہے اور درمیان کا حصہ خالی ہوتا ہے۔ اسی حصے میں بے انتہا طاقتور مقناطیسی قوت پیدا ہوتی ہے، جس کے ذریعے برقی گیس جسے عرف عام میں پلازمہ کہا جاتا ہے، تھام لی جاتی ہے۔
پلازمہ اس انتہائی درجہ حرارت کا حامل ہوتا ہے، جو دو ایٹموں کے مرکزوں کو ایک دورسے سے جوڑ کر ایک نیا ایٹم تیار کر دیتا ہے اور اس دوران انتہائی زیادہ توانائی خارج ہوتی ہے۔ عمومی جوہری ری ایکٹروں میں کسی بھاری ایٹم کا مرکزہ دو چھوٹے مرکزوں میں توڑا جاتا ہے اور اس کے ذریعے توانائی حاصل کی جاتی ہے، تاہم عمل ایتلاف سے حاصل ہونے والی توانائی عمل انشقاق سے ملنے والی توانائی سے کہیں زیادہ ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں تابکار فضلہ بھی نہیں بنتا۔
انسٹیوٹ فار پلازما فزکس کا کہنا ہے کہ ٹوکاماک ری ایکٹر پلازمہ میں سے برقی رو گزار کو مقناطیسی قیدخانہ بناتا ہے مگر اس کے مقابلے میں اسٹیلیریٹر بیرونی تاروں کو موڑ کر یہ کام کرتا ہے اور اسی لیے یہ مستحکم انداز سے کام کر سکتا ہے۔ ٹوکامک ری ایکٹر بھی کچھ ہی دیر ایسے جھٹکے پیدا کر پاتا ہے اور مسلسل کام کرنے سے قاصر ہے۔
اب یہ انسٹیٹیوٹ دونوں طریقوں پر تحقیق کر رہا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ کسی طرح ایک ایسا نظام وضع کر لیا جائے کہ یہ ری ایکٹر مسلسل کام کر پائے اور اس کے ذریعے توانائی کا حصول جاری رہے۔
ماخذ
غالباً اسپائڈر مین 2 میں فلمائی گئی سائنس فکشن کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ زیک فاتح سید ذیشان