حسان خان
لائبریرین
نخستین قُدوهٔ دارالخلافه
جهانِ صِدق و پُورِ بوقُحافه
اساسِ دینِ حق بنیادِ تحقیق
نیابتدارِ شاهِ شرع، صدّیق
سِپهرِ صِدق را خورشیدِ انور
چراغِ اولیا صدّیقِ اکبر
شریعت را نخستین قُرّةالعین
رفیقِ مصطفا و ثانی اِثنین
شرابِ شرع چون جوشی بِجوشید
به آمنّا و صدّقنا بِنوشید
نخستین جامِ حکمت نوش او کرد
ز دستِ مصطفا سرجوش او خورد
نبی را در امامت پیش رفته
توانگر آمده درویش رفته
چو حق در گوشِ جانِ او ندا کرد
هر آنچش بود با دختر فدا کرد
چو درباخت آنچ بودش زر و سیمی
بِساخت از مالِ دنیا با گِلیمی
زهی بینندگی و پاکبازی
ولیکن نیست صدّیقی به بازی
مخالف گو بیا برخوان و بِشناس
سَتُدعَوْنَ إلیٰ قَوْمِ أُولِی بَأس
ز اوّل روز تا روزِ قیامت
نبی در حقِّ او کرده کرامت
در اوّل همدمِ او در هر اندوه
چه در شهر و چه در غار و چه در کوه
در اوسط نایبِ خاصِ نخستین
پیمبر را نیابت کرده در دین
در آخر در برِ او خُفته در خاک
زهی پیر و مرید و چست و چالاک
(عطّار نیشابوری)
ترجمہ:
وہ دارالخلافہ کے اوّلین پیشوا تھے۔ وہ دنیائے صداقت، اور ابنِ ابوقُحافہ تھے۔ وہ دینِ حق کی اساس، اور حقیقت کی بنیاد تھے۔ وہ شاہِ شریعت کے نائب، اور صدّیق تھے۔ وہ آسمانِ صِدق کے خورشیدِ انور تھے۔ وہ چراغِ اولیاء اور صدیقِ اکبر تھے۔ وہ شریعت کے اولّین قرۃ العین تھے۔ وہ مصطفیٰ کے رفیق، اور ثانی اثنین تھے۔ جب شرابِ شریعت نے جوش مارنا شروع کیا تو اُنہوں نے 'آمنّا و صدّقنا' کے ساتھ اُسے نوش فرمایا۔ جامِ حکمت سب سے قبل اُنہوں نے نوش کیا۔ اُنہوں نے دستِ مصطفیٰ سے شوربا (یا بادۂ صاف) پیا۔ نبی کی امامت میں وہ سب سے پیش تھے۔ وہ غنی آئے تھے، اور درویش گئے۔ حق نے جب اُن کے گوشِ جاں میں ندا کی تو اُن کے پاس جو چیز بھی تھی وہ اُنہوں نے اپنی دُختر کے ہمراہ فدا کر دی۔ جب اُنہوں نے اپنا تمام زر و سیم وغیرہ لُٹا دیا تو اُنہوں نے بعد ازاں مالِ دنیا میں سے ایک پشمی چادر کے ساتھ سازگاری کر لی (یعنی صرف ایک پشمی چادر ملکیت میں رہ گئی)۔ اِس بصیرت و پاک بازی کے کیا کہنے! لیکن صدّیق ہونا کارِ آساں نہیں ہے۔ مخالف سے کہو کہ وہ آئے اور اِس آیت کی قرائت کرے اور عرفان حاصل کرے: "سَتُدْعَوْنَ إِلَى قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ" (سورۂ فتح، آیت ۱۶)۔ روزِ اوّل سے لے کر روزِ قیامت تک نبی نے اُن کے حق میں کرم فرمائے تھے۔ اوّلاً، وہ ہر غم میں نبی کے ہمدم تھے، خواہ شہر ہو، غار ہو یا کوہ ہو۔ ثانیاً، وہ نبی کے اوّلین نائبِ خاص تھے، اور امورِ دین میں اُنہوں نے پیغمبر کی نیابت کی تھی۔ بالآخر اُن ہی کے پہلو میں وہ آسودۂ خاک ہوئے۔ زہے وہ [دونوں] چُست و چالاک مرشد و مُرید!
مأخوذ از: اسرارنامه
ٰ
ایک روایت کے مطابق اِس آیت میں حضرتِ ابوبکر کی خلافت کے زمانے میں مرتدینِ عرب کے ساتھ ہونے والی جنگوں کی جانب اشارہ ہے۔ لہٰذا عطّار نیشابوری نے اِس آیت کو خلافتِ ابوبکر کی ایک دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔
سید عاطف علی
جهانِ صِدق و پُورِ بوقُحافه
اساسِ دینِ حق بنیادِ تحقیق
نیابتدارِ شاهِ شرع، صدّیق
سِپهرِ صِدق را خورشیدِ انور
چراغِ اولیا صدّیقِ اکبر
شریعت را نخستین قُرّةالعین
رفیقِ مصطفا و ثانی اِثنین
شرابِ شرع چون جوشی بِجوشید
به آمنّا و صدّقنا بِنوشید
نخستین جامِ حکمت نوش او کرد
ز دستِ مصطفا سرجوش او خورد
نبی را در امامت پیش رفته
توانگر آمده درویش رفته
چو حق در گوشِ جانِ او ندا کرد
هر آنچش بود با دختر فدا کرد
چو درباخت آنچ بودش زر و سیمی
بِساخت از مالِ دنیا با گِلیمی
زهی بینندگی و پاکبازی
ولیکن نیست صدّیقی به بازی
مخالف گو بیا برخوان و بِشناس
سَتُدعَوْنَ إلیٰ قَوْمِ أُولِی بَأس
ز اوّل روز تا روزِ قیامت
نبی در حقِّ او کرده کرامت
در اوّل همدمِ او در هر اندوه
چه در شهر و چه در غار و چه در کوه
در اوسط نایبِ خاصِ نخستین
پیمبر را نیابت کرده در دین
در آخر در برِ او خُفته در خاک
زهی پیر و مرید و چست و چالاک
(عطّار نیشابوری)
ترجمہ:
وہ دارالخلافہ کے اوّلین پیشوا تھے۔ وہ دنیائے صداقت، اور ابنِ ابوقُحافہ تھے۔ وہ دینِ حق کی اساس، اور حقیقت کی بنیاد تھے۔ وہ شاہِ شریعت کے نائب، اور صدّیق تھے۔ وہ آسمانِ صِدق کے خورشیدِ انور تھے۔ وہ چراغِ اولیاء اور صدیقِ اکبر تھے۔ وہ شریعت کے اولّین قرۃ العین تھے۔ وہ مصطفیٰ کے رفیق، اور ثانی اثنین تھے۔ جب شرابِ شریعت نے جوش مارنا شروع کیا تو اُنہوں نے 'آمنّا و صدّقنا' کے ساتھ اُسے نوش فرمایا۔ جامِ حکمت سب سے قبل اُنہوں نے نوش کیا۔ اُنہوں نے دستِ مصطفیٰ سے شوربا (یا بادۂ صاف) پیا۔ نبی کی امامت میں وہ سب سے پیش تھے۔ وہ غنی آئے تھے، اور درویش گئے۔ حق نے جب اُن کے گوشِ جاں میں ندا کی تو اُن کے پاس جو چیز بھی تھی وہ اُنہوں نے اپنی دُختر کے ہمراہ فدا کر دی۔ جب اُنہوں نے اپنا تمام زر و سیم وغیرہ لُٹا دیا تو اُنہوں نے بعد ازاں مالِ دنیا میں سے ایک پشمی چادر کے ساتھ سازگاری کر لی (یعنی صرف ایک پشمی چادر ملکیت میں رہ گئی)۔ اِس بصیرت و پاک بازی کے کیا کہنے! لیکن صدّیق ہونا کارِ آساں نہیں ہے۔ مخالف سے کہو کہ وہ آئے اور اِس آیت کی قرائت کرے اور عرفان حاصل کرے: "سَتُدْعَوْنَ إِلَى قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ" (سورۂ فتح، آیت ۱۶)۔ روزِ اوّل سے لے کر روزِ قیامت تک نبی نے اُن کے حق میں کرم فرمائے تھے۔ اوّلاً، وہ ہر غم میں نبی کے ہمدم تھے، خواہ شہر ہو، غار ہو یا کوہ ہو۔ ثانیاً، وہ نبی کے اوّلین نائبِ خاص تھے، اور امورِ دین میں اُنہوں نے پیغمبر کی نیابت کی تھی۔ بالآخر اُن ہی کے پہلو میں وہ آسودۂ خاک ہوئے۔ زہے وہ [دونوں] چُست و چالاک مرشد و مُرید!
مأخوذ از: اسرارنامه
ٰ
گنجور کے نُسخے میں متن یہ ہے: "چراغ اولیا صدیق ابوبکر"۔۔۔ لیکن میں نے اسرارنامہ کے تُرکی ترجمے (مترجم: محمد کانار) کو مأخذ بنایا ہے، جس کے مطابق یہاں صدیقِ اکبر ہے۔ میری رائے میں یہ متن ہی درست ہونا چاہیے۔چراغِ اولیا صدیقِ اکبر
ترجمہ: "عنقریب تمہیں ایسے لوگوں سے لڑنے کے لیے بلایا جائے گا جو بڑے زور آور ہیں"سَتُدعَوْنَ اِلیٰ قَوْمِ اولِی بَأس
ایک روایت کے مطابق اِس آیت میں حضرتِ ابوبکر کی خلافت کے زمانے میں مرتدینِ عرب کے ساتھ ہونے والی جنگوں کی جانب اشارہ ہے۔ لہٰذا عطّار نیشابوری نے اِس آیت کو خلافتِ ابوبکر کی ایک دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔
سید عاطف علی
آخری تدوین: