قائداعظم، کنفیڈریشن اور دیگر امور: ایک حالیہ بحث۔

قائداعظم کے خلاف ایک پرانے الزام کی حقیقت....قلم کمان …حامد میر جنوری ۲۲

یہ جنرل ضیاء الحق کا دور حکومت تھا جب قومی سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کیلئے خفیہ اداروں نے فرقہ پسند اور لسانی تنظیموں کی سرپرستی شروع کی۔ اسی دور میں جی ایم سید نے سندھو دیش کا نعرہ لگایا اور یہی دور تھا جب ممتاز بھٹو، عبدالحفیظ پیرزادہ اور عطاء اللہ مینگل نے کنفیڈریشن کی باتیں شروع کیں۔ اسی دور میں خان عبدالولی خان نے تقسیم ہند کے متعلق ایک کتاب لکھ ڈالی جو بھارت میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ ”حقائق تو حقائق ہیں“ کے نام سے سامنے آیا جس میں قائداعظم کو انگریزوں کا ایجنٹ قرار دیا گیا اور کہاگیا کہ قائد اعظم 1946ء میں کابینہ مشن پلان کو تسلیم کرکے مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہوگئے تھے۔ اسی دور میں امریکی پروفیسر لارنس زائرنگ نے پاکستان کے مستقبل کو تشویش ناک قرار دینا شروع کردیا اور ہر طرف مایوسی پھیلنے لگی۔ مایوسیوں کے اس دور میں اعتزاز احسن نے ملتان کی نیو سینٹرل جیل میں قید کے دوران پاکستان کے مستقبل پر سوچ بچار شروع کی۔ اگلے کچھ سالوں میں یہ سوچ بچار باقاعدہ تحقیق میں بدل گئی اور پھر اس تحقیق سے اعتزاز احسن کی شہرہ آفاق تصنیف ”انڈس ساگا“ نے جنم لیا جو ”سندھ ساگر اور قیام پاکستان“ کے نام سے اردو میں بھی شائع ہوچکی ہے۔ اس کتاب میں اعتزاز احسن نے پاکستان کے مستقبل اور قائد اعظم کی ذات کے متعلق پھیلائی جانے والی کئی غلط فہمیوں کا تاریخی حقائق کی مدد سے جواب دے دیا۔ انہوں نے لکھا کہ برصغیر کی چھ ہزار سال کی معلوم تاریخ میں سے ساڑھے پانچ ہزار سال تک پاکستان ایک علیحدہ اکائی کے طور پر قائم رہا اور اس دوران موجودہ پاکستان میں شامل علاقے شاذو نادر ہی ہندوستان کا حصہ رہے۔ اعتزاز احسن نے ہمیں پاکستان کی ایک نئی تاریخ سے آگاہ کیا۔ ایک ایسے قائداعظم سے روشناس کروایا جسے فوجی ڈکٹیٹروں نے خودغرضی اور منافقت کے اندھیروں میں محض اس لئے چھپا رکھا تھا تاکہ پاکستان کی نئی نسل ان کی حق گوئی اور جمہوریت پسندی کو مشعل راہ نہ بنائے۔ فوجی ڈکٹیٹروں نے علامہ اقبال کو اپنی سیاسی مجبوریوں کے باعث قومی شاعر تسلیم کئے رکھا اور قائد اعظم کو بابائے قوم بھی کہتے رہے لیکن ان دونوں بزرگوں کی سوچ کو قومی سوچ بننے سے روکا گیا کیونکہ دونوں جمہوریت پسند اور سامراج دشمن تھے جبکہ فوجی ڈکٹیٹروں کا اقتدار سامراج کی غلامی کا مرہون منت تھا۔
ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ امریکا متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھا۔ بھارتی محقق ایم ایس وینکٹ رامانی کی کتاب ”دی امریکن رول ان پاکستان“ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکا اور برطانیہ کی یہ کوشش تھی کہ ہندوستان تقسیم نہ ہو لیکن قائد اعظم مسلسل قیام پاکستان پر اصرار کرتے رہے اور اسی لئے وہ امریکی دفتر خارجہ میں خاصے ناپسندیدہ تھے۔ قائد اعظم بظاہر ایک کلین شیو وکیل تھے اور اردو کی بجائے انگریزی زیادہ روانی سے بولتے تھے لیکن قیام پاکستان پر اصرار کے ساتھ ساتھ مسئلہ فلسطین میں ان کی دلچسپی امریکا اور برطانیہ دونوں کو کھٹکتی تھی۔ قائد اعظم نے 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ لکھنو میں اعلان بالفور کی مذمت کرتے ہوئے فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کیا۔ اکتوبر 1938ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ پٹنہ میں انہوں نے یہودیوں کے فلسطین میں داخلے کی مذمت کی اور پھر 23/مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور میں بھی فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔ قائد اعظم کی اس سوچ کو برطانوی حکومت اپنے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھتی تھی اور اسی لئے مہاتما گاندھی کے ذریعہ قائداعظم کو متحدہ ہندوستان کا وزیر اعظم بنانے کی پیشکش کی گئی جو قائداعظم نے ٹھکرا دی۔ قائداعظم کی شخصیت و کردار میں یقیناً کچھ خامیاں بھی ہوں گی اور ان سے زندگی میں کچھ غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہوں گی۔ ان غلطیوں پر علمی بحث کرنے میں مضائقہ نہیں لیکن کئی امریکی، برطانوی اور ہندوستانی مصنفین نے علمی بحث کے نام پر تاریخی حقائق کو مسخ کیا اور قائداعظم کی کردار کشی پر اتر آئے۔ افسوس کہ ان غیرملکی مصنفین کے بے بنیاد پراپیگنڈے کو ہمارے ان دانشوروں نے ہمیشہ آگے بڑھانے کی کوشش کی جنہوں نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا یا جو غیرجمہوری قوتوں سے کوئی نہ کوئی فائدہ حاصل کرنے کی امید لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ آجکل ایک دفعہ پھر قائد اعظم پر یہ پرانا گھسا پٹا الزام لگایا جارہا ہے کہ وہ کابینہ مشن پلان کو تسلیم کرکے مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہوگئے تھے۔ ایسے حالات میں جبکہ ممبئی حملوں کے بعد پاکستان اور بھارت میں زبردست کشیدگی پائی جاتی ہے اس پرانے الزام پر بحث کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ چند دن قبل قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں طلبہ و طالبات کے ساتھ ایک گفتگو کے دوران مجھے احساس ہوا کہ اس بحث نے نوجوانوں کی بڑی تعداد کو اپنے کچھ بزرگوں سے ناراض اور مایوس کر رکھا ہے۔
آج کا نوجوان ہر دلیل کا ثبوت مانگتا ہے اور جب ثبوت نہ ملے تو پھر وہ دلیل دینے والے کی نیت پر شک کرنے میں حق بجانب ہوتا ہے۔ ایک طالب علم نے مجھے خان عبدالولی خان کی بھارت میں شائع ہونے والی انگریزی کتاب کے آٹھویں اور نویں باب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ الزام تو پچیس سال قبل ولی خان نے لگایا تھا کہ قائداعظم کیبنٹ مشن پلان کو تسلیم کرکے پاکستان سے دستبردار ہوگئے تھے لیکن جب وہ کچھ ثابت نہ کرسکے تو خاموش ہوگئے اب آپ لوگوں نے پچیس سال پرانی بحث دوبارہ شروع کرکے ہمیں پچیس سال پیچھے دھکیلنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ میں نے اس طالب علم کو اعتزاز احسن کی کتاب ”سندھ ساگر“ پڑھنے کا مشورہ دیا جس میں کہاگیا ہے کہ قائداعظم نے کیبنٹ مشن پلان کو اس لئے قبول کیا کیونکہ اس میں ایک ایسی نیم خودمختار مملکت کی گنجائش نکل رہی تھی جو مسلمانوں کو ان کا علیحدہ تشخص قائم رکھنے کی ضمانت دیتی تھی اور قائداعظم اسے پاکستان کی طرف پہلا قدم سمجتھے تھے۔ کانگریس کو یہ پہلا قدم بھی منظور نہ تھا اور اسی لئے جب کانگریس نے اسے مسترد کردیا تو قائداعظم کو بھی کیبنٹ مشن پلان سے جان چھڑانے کا موقع مل گیا۔ جب قائداعظم نے اس پلان سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا تو برطانوی حکومت نے 6/اگست 1946ء کو پنڈت جواہر لعل نہرو کو حکومت بنانے کی دعوت دیدی۔ حکومت تو بن گئی لیکن یہ حکومت ہندو مسلم فسادات روکنے میں ناکام رہی لہٰذا مجبوراً مسلم لیگ کو بھی حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی۔ مسلم لیگ نے مطالبہ پاکستان پر قائم رہتے ہوئے 26/اکتوبر 1946ء کو حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ جب کانگریس نے مشترکہ دستور ساز اسمبلی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تو مسلم لیگ نے پاکستان اور ہندوستان کیلئے علیحدہ علیحدہ اسمبلیوں کا مطالبہ کردیا اور اس مطالبے کے بعد کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ قائداعظم مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہوگئے تھے۔ اگر آزادی سے کوئی دستبردار ہوا تو وہ کانگریس تھی جو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ہندوستان کا گورنر جنرل بنانے پر تیار ہوگئی لیکن قائداعظم نے ماؤنٹ بیٹن کو پاکستان کا گورنر جنرل نہیں بننے دیا۔ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم ہند کیلئے 15/اگست 1947ء کی تاریخ مقرر کی جو دوسری جنگ عظیم میں جاپانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کی تاریخ تھی۔ ماؤنٹ بیٹن 15/اگست کو امریکا، برطانیہ اور دیگر اتحادیوں کا یوم فتح سمجھتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ وہ پاک و ہند کا مشترکہ گورنر جنرل بن کر کابینہ مشن پلان کو کسی نہ کسی صورت میں قائم رکھے گا لیکن قائداعظم نے اس کا منصوبہ خاک میں ملادیا۔
ہندوستانی مصنف ایچ ایم سیروائی کی کتاب ”پارٹیشن آف انڈیا“ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ماؤنٹ بیٹن کو قائداعظم سے نفرت تھی۔ کانگریس نے 15/اگست کو ہندوستان کا یوم آزادی تسلیم کرلیا لیکن قائداعظم نے 14/اگست کو اپنا یوم آزادی قرار دے کر اپنی سامراج دشمنی کا ثبوت دیا۔ تاریخ کا غیرجانبدارانہ تجزیہ بتاتا ہے کہ قائداعظم کبھی مطالبہ پاکستان سے دستبردار نہ ہوئے لیکن بدقسمتی سے ان کی وفات کے بعد قائداعظم کے پاکستان پر امریکا کے پٹھو اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کا قبضہ ہوگیا اور اس قبضے نے پاکستان کی بنیادوں کو کمزور کیا۔ رہی سہی کسر آنے والے ڈکٹیٹروں نے پوری کردی۔ آج قائداعظم کے پاکستان کو مضبوط بنانے کیلئے جمہوری اداروں کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ جمہوری اداروں کو مستحکم کرنے کیلئے ہمیں اس ہمت و حوصلے کی ضرورت ہے جس کے ذریعہ قائداعظم نے ایک باوردی جرنیل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے عزائم خاک میں ملا دئیے۔
 
عبد اللہ طارق سہیل جو کہ روزنامہ ایکسپریس کے کام نگار ہیں بڑے پر لطف کالم لکھتے ہیں کبھی کبھی تو ان کے قلم کی کاٹ دیکھ کر مشفق خواجہ مرحوم یاد آ جاتے ہیں جو تکبیر میں خامہ بگوش کے قلمی نام سے سخن در سخن ایک ادبی کالم لکھا کرتے تھے ۔ سہیل نے اس موجوع پر دو بار خامہ فرسائی فرمائی ہے، ایک کا حوالہ تو محسن دے چکے ہیں دوسرا 16 جنوری کاحاضر خدمت ہے
1100555435-2.gif
 

نبیل

تکنیکی معاون
زیک، میرے خیال میں اس موضوع پر دلچسپی کی وجہ آج کل کے جرائد میں اس پر شائع ہونے والے مراسلات ہیں۔ میرے نزدیک یہ بات اس لحاظ سے خوش آئند ضرور ہے کہ ایک سنجیدہ اور تاریخی موضوع پر عام دلچسپی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ابھی تک اخباری کالموں کا حوالہ دیا جا رہا ہے لیکن اس سلسلے میں آپ اگر مزید کتابوں کے حوالے فراہم کر سکیں تو یہ بھی بہت اچھا ہوگا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اسلام اور ہندو دھرم محض مذہب نہیں ، درحقیقت دو مختلف معاشرتی نظام ہیں۔ اس لیے اس خواہش کو خواب و خیال ہی کہنا چاہیے کہ ہندو اور مسلمان مل کر ایک مشترکہ قومیت کی تشکیل کر سکیں گے۔
23 مارچ 1940 کے اجلاس میں قائد اعظم علیہ الرحمۃ کا خطاب۔
 

الف نظامی

لائبریرین
وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں۔ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے۔ وہ کون سا لنگر ہے جس سے امت کی کشتی محفوظ کردی گئی۔ وہ رشتہ وہ چٹان وہ لنگر اللہ کی کتاب قرآنِ کریم ہے۔ مجھے امید ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ، قرآنِ مجید کی برکت سے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا ، ایک کتاب ، ایک رسول ، ایک امت۔
6 دسمبر 1943 کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 31 ویں اجلاس سے قائد اعظم علیہ الرحمۃ کا خطاب
 

الف نظامی

لائبریرین
پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جس دن ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے ، وطن نہیں اور نہ ہی نسل۔ ہندوستان کا پہلا مرد جب مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہوگیا۔ ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آگئی۔
13 مارچ 1944 کو علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات سے قائد اعظم علیہ الرحمۃ کا خطاب
 
Top