ناصر علی مرزا
معطل
قائداعظم سے متعلق دستاویزات کا جائزہ
خواجہ رضی حیدر / پروفیسر خیال آفاقی / انجم جاوید
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی تاریخ ساز شخصیت اور قیام پاکستان کی تاریخ گذشتہ نصف صدی سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر عوام و خواص کے لیے جاذب نظر ، پرکشش اور پر تاثیر رہی ہے۔ خصوصاً قائد اعظم کی شخصیت جو تحریک پاکستان سے لازم و ملزوم ہوگئی تھی مصنفین و محققین کی توجہ کا اب بھی مرکز ہے۔
قائد اعظم اور تحریک پاکستان سے متعلق بیش تردستاویزات اور کاغذات قیام پاکستان کے بعد بہت تاخیر سے منظر عام پر آئے۔ لہٰذا، اس طرح نہ صرف مستند تاریخ نویسی کا عمل متاثر ہوا بلکہ واقعاتی افراط و تفریط کی شکایت عام ہوئی ۔ غیر مستند ماخذ و ذرایع پر مبنی کتابیں اور تفصیلات سامنے آئیں، جو آج بھی استناد سے محروم ہیں۔
ادھر تیس سال کے دوران ہندوستان کی جدوجہد آزادی، تحریک پاکستان اور قائد اعظم سے متعلق تاریخی دستاویزات اور کاغذات کے جو بڑے ذخائر منظر عام پر آئے، ان میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن پیپرز، ٹرانسفر آف پاور والیومز، ویول جرنل، قائد اعظم پیپرز، شمس الحسن کلیکشن، آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ، نشتر کلیکشن، سلیکٹیڈ ورکس آف گاندھی، نہرو پیپرز، پٹیل پیپرز، راجندر پرشاد کرسپانڈنس، سپر وپیپرز سلیکٹیڈ ورکس آف ایم این رائے، جناح اصفہانی کرسپانڈنس، سریامین خان کلیکشن ، میاں عبدالعزیز کلیکشن اور سر عبداﷲ ہارون کلیکشن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان ذخائر کے منظر عام پر آنے کے بعد تحریک پاکستان اور قائد اعظم کی حیات و خدمات کے نہ صرف متعدد گوشے اجاگر ہوئے ہیں بلکہ ان کی تشریح کی مزید گنجایش پیدا ہوگئی ہے۔
قائد اعظم اور تحریک پاکستان کے بارے میں بہ اعتبار مقدار سب سے زیادہ دستاویزات آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ، قائد اعظم پیپرز اور شمس الحسن کلیکشن میں موجود ہیں۔ ٹرانسفر آف پاور پیپرز اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن پیپرز میں بھی اس ضمن میں اہم دستاویزات شامل ہیں، لیکن ان دستاویزات میں سرکاری نقطۂ نظر موجود ہے، جب کہ مذکورہ بالا ذخائر متعلقہ فریق کے نقطۂ نظر کے آئینہ دار ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے ریکارڈ سے جماعتی سرگرمیوں کا پتا چلتا ہے جبکہ شمس الحسن کلیکشن اور قائد اعظم پیپرز میں موجود خطوط، دستاویزات اور بعض اہم کاغذات سے قائد اعظم کی نجی، عوامی اور سیاسی زندگی سے متعلق معلومات سامنے آتی ہیں۔
جو قومیں اپنی تاریخی دستاویزات اور کاغذات کی مناسب اور صحیح انداز میں نگہ داشت اور حفاظت کرتی ہیں، ان کا تاریخی پس منظر کبھی ماند نہیں پڑتا۔ آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ، قائد اعظم پیپرز اور شمس الحسن کلیکشن ہمارا تاریخی ورثہ ہیں۔ ہماری قومی جدوجہد کا آئینہ ہیں۔ ہماری قومی شناخت ہیں اور ان کی مناسب دیکھ بھال اور حفاظت ہماری قومی ذمے داری ہے۔
قائد اعظم پیپرز کے نام سے قائد اعظم کی ذاتی دستاویزات و کاغذات پر مشتمل جو ذخیرہ معروف ہے، وہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے انتقال کے بعد سے ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کی تحویل میں تھا اور جولائی 1967 میں محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال کے بعد ان کی ذاتی رہایش گاہ موہٹہ پیلس سے برآمد ہوا۔ اس ذخیرے میں تقریباً ایک لاکھ سے زاید کاغذات شامل ہیں، جو قائد اعظم کے زمانۂ طالب علمی سے لے کر ان کے انتقال تک کے عرصے سے متعلق معلومات پر مشتمل ہیں۔
محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال کے تقریباً تین سال بعد وزارت تعلیم نے قائداعظم پیپرز سیل قائم کیا جس کے تحت ایک مشاورتی کمیٹی کی نگرانی میں ان کاغذات و دستاویزات کی ترتیب اور موضوعاتی درجہ بندی کا کام شروع کیا گیا۔ مشاورتی کمیٹی میں وفاقی سیکریٹریز اور مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کے علاوہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر شیخ محمد اکرام اور سید شریف الدین پیرزادہ بھی شامل تھے۔ قائداعظم پیپرز سیل پہلے وزارت تعلیم کی نگرانی میں کام کرتا رہا، بعد میں وزارت ثقافت کی نگرانی میں آگیا اور دستاویزات کا یہ ذخیرہ اب ڈپارٹمنٹ آف نیشنل آرکائیوز اسلام آباد میں موجود ہے۔
قائداعظم سے متعلق ان خطوط، دستاویزات اور کاغذات کی ترتیب ، موضوعاتی درجہ بندی، شناخت اور تدوین ایک دشوار ترین کام تھا، جسے قائداعظم پیپرز سیل نے بحسن و خوبی انجام دیا اور اب تک تقریباً 136 عنوانات کے تحت ان کاغذات و دستاویزات کی موضوعاتی ترتیب مکمل ہوچکی ہے۔ مزید برآں، ان تمام کاغذات و دستاویزات کی نہ صرف مائیکرو فلم بن چکی ہے بلکہ ان کی توضیحی فہرستیں بھی کتابی صورت میں شایع کی جاچکی ہیں۔ ان فہرستوں کی تعداد پانچ ہے اور یہ مجموعی طور پر تقریباً 265 صفحات پر مشتمل ہیں۔
ان پیپرز میں کاغذات و دستاویزات کی زندگی کے تقریباً ہر پہلو سے متعلق کاغذات و دستاویزات موجود ہیں۔ مگر اس کے باوجود مسلم لیگی رہنماؤں، کارکنوں اور غیر مسلم لیڈروں کے ساتھ ہونے والی خط و کتابت کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے، جس سے اسکالرز نے ابھی تک قابل ذکر استفادہ نہیں کیا ہے۔
قائداعظم کی سیاسی خط و کتابت کے علاوہ ان پیپرز میں قائداعظم کی جائیدادوں، شیئرز کی خرید و فروخت، اخبارات و رسائل کے تراشے، بینک اکاؤنٹس، انشورنس پالیسیوں کے کاغذات، وکالت سے متعلق نوٹس اور کاغذات، دعوت نامے، تہنیت نامے، سیرو سیاحت اور بیرون ملک سفر سے متعلق کاغذات، ڈائریاں، نوٹ بُکیں اور فوٹو گراف وغیرہ کی کثیر تعداد موجود ہے۔ ان کاغذات کے مطالعے سے جہاں قائداعظم کے روز و شب کی مصروفیتوں پر روشنی پڑتی ہے، وہاں ان کے مزاج، عادات و اطوار اور مختلف ادوار میں ان کی خرید و فروخت میں پسند و نا پسند کا بھی پتا چلتا ہے۔
قائداعظم پیپرز کی موضوعاتی ترتیب و تعین کے بعد ان کی مرحلہ وار اشاعت ایک اہم ترین کام تھا۔ اس مقصد کے لیے حکومت نے نیشنل آرکائیوز آف پاکستان کی عمارت میں قائداعظم پیپرز پروجیکٹ کے نام سے ایک شعبہ قائم کیا، جس کا نگراں بین الاقوامی طور پر معروف محقق اور تاریخ داں ڈاکٹرز وار حسین زیدی کو مقرر کیا گیا۔ ڈاکٹر زیدی نہ صرف جنوبی ایشیا کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں، بلکہ اس خطہ میں موجود بیش تر دستاویزی ریکارڈ سے بھی کماحقہ، واقف ہیں۔ انھوں نے ایک طویل عرصہ تک انڈیا آفس لائبریری لندن میں موجود ریکارڈ پر بھی تحقیق کی ہے۔
مزید یہ کہ تحریک پاکستان کے رہنما مرزا ابو الحسن اصفہانی اور قائداعظم محمد علی جناح کے درمیان ہونے والی طویل ترین خط و کتابت کو بھی انھوں نے Ispahani-Jinnah correspondence کے نام سے مرتب کیا ہے۔ ڈاکٹرز وار حسین زیدی نے قائداعظم پیپرز میں شامل 20 فروری1947 سے 2 جون 1947 تک کی دستاویزات پر کام شروع کیا اور 1993 میں انھوں نے ایک نہایت وقیع اور جامع کتاب Jinnah Papers-Prelude to Pakistan شایع کی۔ یہ کتاب تقریباً دو جلدوں میں پونے دو ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔
آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ سے مراد وہ کاغذات و دستاویزات ہیں، جو آل انڈیا مسلم لیگ کے دہلی میں مرکزی دفتر اور دفتر سے ہونے والی کارروائیوں سے متعلق ہیں۔ یہ ریکارڈ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس سے بیسویں صدی کے نصف اول میں اسلامیان ہند کی سیاسی، سماجی اور تعلیمی سرگرمیوں کی جدوجہد اور ماحصل سے متعلق تفصیلات و معلومات سامنے آتی ہیں۔
قیام پاکستان تک یہ ریکارڈ آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی دفتر واقع دہلی میں موجود تھا لیکن قیام پاکستان کے ساتھ ہی اس ریکارڈ کو بحفاظت کراچی منتقل کیاگیا۔ پاکستان میں 1958 میں مارشل لا کے نفاذ کی بناء پر جب ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دیا گیا تو اس ریکارڈ کو پاکستان مسلم لیگ کے آفس سے ایک سرکاری دفتر میں منتقل کردیاگیا۔ اگرچہ اس ریکارڈ کی ابتدا ہی سے مناسب دیکھ بھال اور حفاظت کی جانی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔
یہ ایک قومی زیاں تھا جس کا چند ہمدردان قوم اور تاریخ دانوں کو شدت سے احساس تھا۔ لہٰذا، انھوں نے اس وقت کے وزیر خارجہ بیرسٹر منظور قادر سے رابطہ قائم کرکے اس ریکارڈ کو پاکستان سیکریٹریٹ کے ایک محفوظ بلاک میں منتقل کردیا۔ اس ریکارڈ کی حفاظت میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، شیخ محمد اکرم اور ڈاکٹر زوار حسین زیدی نے نہ صرف موثر کردار ادا کیا بلکہ بعد میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی کوششوں سے، جو اس زمانے میں جامعہ کراچی کے وائس چانسلر تھے، یہ ریکارڈ کراچی یونیورسٹی کی لائبریری میں منتقل کردیا گیا۔
یہ ریکارڈ جب جامعہ کراچی پہنچا تو نہایت بوسیدہ حالت میں تھا اس لیے جامعہ کراچی کی لائبریری کی عمارت میں اس ریکارڈ کی حفاظت ، مرمت ، ترتیب اور شناخت کے لیے ایک علیحدہ شعبہ ’’آرکائیوز آف فریڈم موومنٹ‘‘ کے نام سے قائم کیاگیا جو گذشتہ پچیس سال سے زاید عرصے تک اس ریکارڈ کی ترتیب و تحفظ کا فریضہ انجام دیتا رہا اور اب یہ ریکارڈ ڈیپارٹمنٹ آف نیشنل آرکائیوز کو اسلام آباد منتقل کردیاگیا ہے۔
آل انڈیا مسلم لیگ کے مذکورہ ریکارڈ کی حفاظت کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی جس کے چیئرمین ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور سیکریٹری پروفیسر شریف المجاہد تھے۔ کمیٹی کے ارکان میں ڈاکٹر محمود حسین ، پروفیسر اے بی اے حلیم، ڈاکٹر زوار حسین زیدی، ڈاکٹر ریاض الاسلام اور ڈاکٹر ایم ایچ صدیقی شامل تھے۔ 123 بوریوں اور 46 صندوقوں میں بھرے ہوئے ریکارڈ کی ترتیب، مرمت ، حفاظت اور نگہ داشت کا کام اس کمیٹی نے شروع کیا۔ خصوصاً گذشتہ دو عشروں کے دوران میں ڈاکٹر ریاض الاسلام، ڈاکٹر ایم ایچ صدیقی اور عقیل الظفر خان نے اس ریکارڈ کی ترتیب و تحفظ کے سلسلے میں جو خدمات انجام دی ہیں، وہ ناقابل فراموش اور علم دوستی کی نادر مثال ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس ریکارڈ میں دستاویزات، خطوط، رپورٹس ، تصاویر، اشتہارات ، اخبارات کے تراشے، کتابچے، پمفلٹ، تقاریر کے مجموعے اور مختلف موضوعات پر کتابوں کی تعداد 5 لاکھ صفحات سے زاید ہے۔ فریڈم موومنٹ آرکائیوز نے 1996 تک ایک لاکھ سے زاید خطوط، دستاویزات اور کاغذات کو چھ سو زاید فائلوں میں مرتب کردیا ہے، جب کہ باقی ماندہ ریکارڈ پر ڈاکٹر ایم ایچ صدیقی کی نگرانی میں عقیل الظفر خان اور مہتاب جہاں اس وقت تک کام کرتے رہے جب تک کہ یہ شعبہ ڈیپارٹمنٹ آف نیشنل آرکائیوز اسلام آباد کو منتقل نہیں ہوگیا۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اس ریکارڈ پر بہت تاخیر سے کام شروع ہوا اور اس کا بیش تر حصہ عدم توجہی کی بناء پر تلف ہوگیا۔
پروفیسر شریف المجاہد نے جو 1976 میں قائداعظم اکادمی کے بانی ڈائریکٹر مقرر ہوئے تھے، 1982 میں آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ کی طباعت کا بیڑا اٹھایا۔ ریکارڈ کی طباعت کا خیال دراصل اس لیے آیا کہ 1980 تک آل انڈیا مسلم لیگ سے متعلق شایع ہونے والی کتابوں اور پی ایچ ڈی کے مقالوں میں اس ریکارڈ سے بہت کم استفادہ کیا گیا تھا۔ پروفیسر شریف المجاہد نے لکھا ہے کہ ’’سید شریف الدین پیرزادہ نے آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ سے اپنی کتاب Foundations of ،Pakistan مطبوعہ 1969، میں استفادہ کیا ہے لیکن ان کی بھی رسائی انہی دستاویزات تک ہوسکی جو اس ریکارڈ میں مطبوعہ صورت میں تھیں۔
1979 میں اے ۔ ایم زیدی کی مرتبہ کتاب Evolution of Political Thought in India چھ جلدوں میں دہلی سے شایع ہوئی لیکن اس میں بھی ریکارڈ میں شامل مطبوعہ دستاویزات ہی کو شامل کیاگیا جو قبل ازیں سید شریف الدین پیرزادہ کی مذکورہ بالا کتاب میں شایع ہوچکی تھیں۔ 1979 ہی میں بی این پانڈ کی مرتبہ کتاب The Indian Nationalist Movment لندن سے شایع ہوئی اور وہ بھی کوئی غیر مطبوعہ خط یا دستاویز اپنی کتاب میں شامل کرنے میں ناکام رہے۔ 1980 میں میرٹھ سے سات جلدوں پر مشتمل کتاب The Indian Muslim-A Documentation Record of Muslim Struggle for Independence شایع ہوئی۔ اس میں بھی آل انڈیا مسلم لیگ سے متعلق کوئی غیر مطبوعہ دستاویز شامل نہیں تھی اور یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا ریکارڈ بہ آسانی دست یاب نہیں تھا۔
آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ کے طباعتی منصوبے کے آغاز پر قائداعظم اکاڈمی کے عملے پر مشتمل ایک ریسرچ ٹیم نے، جس میں خواجہ رضی حیدر، مفتی رفیع الدین اور مہر السلام صدیقی شامل تھے۔ پروفیسر شریف المجاہد کی نگرانی میں اس ریکارڈ میں شامل خطی دستاویزات کی شناخت، تعین اور مطالعے پر کام شروع کیا۔ ان دستاویزات میں زیادہ ترخطوط، اجلاسوں کی کارروائیاں اور قراردادیں شامل تھیں۔ ریسرچ ٹیم نے اس ریکارڈ کی فوٹو کاپی کرکے دستاویزات کو اس مرحلہ تک پہنچایا، جہاں ان کی باقاعدہ تدوین کا کام شروع ہوسکے۔ اس ریکارڈ کی طباعت چوں کہ کئی جلدوں پر مشتمل ہوگی، اس لیے پہلی جلد کو 1900 سے 1908 تک کی دستاویزات تک محدود کردیاگیا، جو 1990 میں کتابی صورت میں شایع ہوگئی۔
پروفیسر شریف المجاہد نے اس جلد میں ریکارڈ میں شامل تمام بنیادی، ذیلی اور الحاقی دستاویزات شامل کردی ہیں، جب کہ بعض دستاویزات کو وقیع اور خود وضاحتی بنانے کے لیے ضمیمہ جات میں ایسی دستاویزات بھی شامل کردی گئی ہیں جو آل انڈیا مسلم لیگ کے ریکارڈ میں موجود نہیں تھیں۔ شریف المجاہد کی تصنیف کردہ اس کتاب کا نام Muslim League Documents ہے۔ اگرچہ اس کتاب کی اب تک پہلی جلد ہی شائع ہوئی ہے، لیکن باور کیا جاتا ہے کہ اپنی تکمیل پر مسلم ہندوستان کی سیاسی جدوجہد کے بارے میں یہ ایک اہم بنیادی کتاب ثابت ہوگی۔
شمس الحسن کلیکشن میں جو آل انڈیا مسلم لیگ کے آفس سیکریٹری سید شمس الحسن کے نام سے منسوب ہے، قائداعظم محمد علی جناح کے تقریباً دس ہزار ذاتی کاغذات اور دستاویزات موجود ہیں۔ اس ذخیرے کو بھی بہ اعتبار موضوع تقریباً نوے جلدوں میں تقسیم کردیاگیا ہے۔ اس ذخیرے سے بھی اہل علم کی ایک بڑی تعداد نے استفادہ کیا ہے، جب کہ خود سید شمس الحسن نے اس ذخیرے سے قائداعظم کی نجی زندگی اور تنظیمی جدوجہد کے بارے میں کچھ دستاویزات منتخب کرکے1976 میں ایک کتاب Plain Mr. Jinnah مرتب کی تھی۔
سید شمس الحسن چوں کہ تحریک پاکستان کے عینی شاہد تھے، اس لیے انھوں نے کتاب میں شامل دستاویزات کی وضاحت اور صراحت میں نوٹس بھی تحریر کیے ہیں، جو بہرحال تحریک پاکستان اور قائداعظم کے بارے میں کچھ جاننے کے خواہش مند افراد کے لیے معلومات افزا ہیں۔
شمس الحسن کلیکشن، قائداعظم پیپرز اور آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ کے علاوہ قائداعظم اور تحریک پاکستان سے متعلق غیر مطبوعہ خطوط کی ایک بڑی تعداد پاکستان، بھارت، برطانیہ اور سری لنکا وغیرہ میں بھی انفرادی طور پر مختلف لوگوں کے پاس موجود ہے۔ ان خطوط و کاغذات کی بازیافت کے لیے ڈیپارٹمنٹ آف آرکائیوز برابر کوشش کررہا ہے اور اسے بڑی حد تک کام یابی بھی ہوئی ہے۔
دراصل یہ کاغذات اور دستاویزات ہمارا قومی سرمایہ ہیں، ہماری جدوجہد کا تاریخی ریکارڈ ہیں۔ ان سے نہ صرف قائداعظم محمد علی جناح کی حیات و خدمات کے پنہاں گوشوں پر روشنی پڑتی ہے بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کے ایک علیحدہ وطن کے قیام کے لیے جدوجہد کے بھی بیش تر تشنہ و مخفی پہلو واضح اور اجاگر ہوتے ہیں۔ ان کاغذات اور دستاویزات کی حفاظت کرنا اور ان کے مندرجات سے واقفیت حاصل کرنا ہمارے قومی فرائض میں شامل ہے۔
خواجہ رضی حیدر / پروفیسر خیال آفاقی / انجم جاوید
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی تاریخ ساز شخصیت اور قیام پاکستان کی تاریخ گذشتہ نصف صدی سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر عوام و خواص کے لیے جاذب نظر ، پرکشش اور پر تاثیر رہی ہے۔ خصوصاً قائد اعظم کی شخصیت جو تحریک پاکستان سے لازم و ملزوم ہوگئی تھی مصنفین و محققین کی توجہ کا اب بھی مرکز ہے۔
قائد اعظم اور تحریک پاکستان سے متعلق بیش تردستاویزات اور کاغذات قیام پاکستان کے بعد بہت تاخیر سے منظر عام پر آئے۔ لہٰذا، اس طرح نہ صرف مستند تاریخ نویسی کا عمل متاثر ہوا بلکہ واقعاتی افراط و تفریط کی شکایت عام ہوئی ۔ غیر مستند ماخذ و ذرایع پر مبنی کتابیں اور تفصیلات سامنے آئیں، جو آج بھی استناد سے محروم ہیں۔
ادھر تیس سال کے دوران ہندوستان کی جدوجہد آزادی، تحریک پاکستان اور قائد اعظم سے متعلق تاریخی دستاویزات اور کاغذات کے جو بڑے ذخائر منظر عام پر آئے، ان میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن پیپرز، ٹرانسفر آف پاور والیومز، ویول جرنل، قائد اعظم پیپرز، شمس الحسن کلیکشن، آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ، نشتر کلیکشن، سلیکٹیڈ ورکس آف گاندھی، نہرو پیپرز، پٹیل پیپرز، راجندر پرشاد کرسپانڈنس، سپر وپیپرز سلیکٹیڈ ورکس آف ایم این رائے، جناح اصفہانی کرسپانڈنس، سریامین خان کلیکشن ، میاں عبدالعزیز کلیکشن اور سر عبداﷲ ہارون کلیکشن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان ذخائر کے منظر عام پر آنے کے بعد تحریک پاکستان اور قائد اعظم کی حیات و خدمات کے نہ صرف متعدد گوشے اجاگر ہوئے ہیں بلکہ ان کی تشریح کی مزید گنجایش پیدا ہوگئی ہے۔
قائد اعظم اور تحریک پاکستان کے بارے میں بہ اعتبار مقدار سب سے زیادہ دستاویزات آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ، قائد اعظم پیپرز اور شمس الحسن کلیکشن میں موجود ہیں۔ ٹرانسفر آف پاور پیپرز اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن پیپرز میں بھی اس ضمن میں اہم دستاویزات شامل ہیں، لیکن ان دستاویزات میں سرکاری نقطۂ نظر موجود ہے، جب کہ مذکورہ بالا ذخائر متعلقہ فریق کے نقطۂ نظر کے آئینہ دار ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے ریکارڈ سے جماعتی سرگرمیوں کا پتا چلتا ہے جبکہ شمس الحسن کلیکشن اور قائد اعظم پیپرز میں موجود خطوط، دستاویزات اور بعض اہم کاغذات سے قائد اعظم کی نجی، عوامی اور سیاسی زندگی سے متعلق معلومات سامنے آتی ہیں۔
جو قومیں اپنی تاریخی دستاویزات اور کاغذات کی مناسب اور صحیح انداز میں نگہ داشت اور حفاظت کرتی ہیں، ان کا تاریخی پس منظر کبھی ماند نہیں پڑتا۔ آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ، قائد اعظم پیپرز اور شمس الحسن کلیکشن ہمارا تاریخی ورثہ ہیں۔ ہماری قومی جدوجہد کا آئینہ ہیں۔ ہماری قومی شناخت ہیں اور ان کی مناسب دیکھ بھال اور حفاظت ہماری قومی ذمے داری ہے۔
قائد اعظم پیپرز کے نام سے قائد اعظم کی ذاتی دستاویزات و کاغذات پر مشتمل جو ذخیرہ معروف ہے، وہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے انتقال کے بعد سے ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کی تحویل میں تھا اور جولائی 1967 میں محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال کے بعد ان کی ذاتی رہایش گاہ موہٹہ پیلس سے برآمد ہوا۔ اس ذخیرے میں تقریباً ایک لاکھ سے زاید کاغذات شامل ہیں، جو قائد اعظم کے زمانۂ طالب علمی سے لے کر ان کے انتقال تک کے عرصے سے متعلق معلومات پر مشتمل ہیں۔
محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال کے تقریباً تین سال بعد وزارت تعلیم نے قائداعظم پیپرز سیل قائم کیا جس کے تحت ایک مشاورتی کمیٹی کی نگرانی میں ان کاغذات و دستاویزات کی ترتیب اور موضوعاتی درجہ بندی کا کام شروع کیا گیا۔ مشاورتی کمیٹی میں وفاقی سیکریٹریز اور مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کے علاوہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر شیخ محمد اکرام اور سید شریف الدین پیرزادہ بھی شامل تھے۔ قائداعظم پیپرز سیل پہلے وزارت تعلیم کی نگرانی میں کام کرتا رہا، بعد میں وزارت ثقافت کی نگرانی میں آگیا اور دستاویزات کا یہ ذخیرہ اب ڈپارٹمنٹ آف نیشنل آرکائیوز اسلام آباد میں موجود ہے۔
قائداعظم سے متعلق ان خطوط، دستاویزات اور کاغذات کی ترتیب ، موضوعاتی درجہ بندی، شناخت اور تدوین ایک دشوار ترین کام تھا، جسے قائداعظم پیپرز سیل نے بحسن و خوبی انجام دیا اور اب تک تقریباً 136 عنوانات کے تحت ان کاغذات و دستاویزات کی موضوعاتی ترتیب مکمل ہوچکی ہے۔ مزید برآں، ان تمام کاغذات و دستاویزات کی نہ صرف مائیکرو فلم بن چکی ہے بلکہ ان کی توضیحی فہرستیں بھی کتابی صورت میں شایع کی جاچکی ہیں۔ ان فہرستوں کی تعداد پانچ ہے اور یہ مجموعی طور پر تقریباً 265 صفحات پر مشتمل ہیں۔
ان پیپرز میں کاغذات و دستاویزات کی زندگی کے تقریباً ہر پہلو سے متعلق کاغذات و دستاویزات موجود ہیں۔ مگر اس کے باوجود مسلم لیگی رہنماؤں، کارکنوں اور غیر مسلم لیڈروں کے ساتھ ہونے والی خط و کتابت کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے، جس سے اسکالرز نے ابھی تک قابل ذکر استفادہ نہیں کیا ہے۔
قائداعظم کی سیاسی خط و کتابت کے علاوہ ان پیپرز میں قائداعظم کی جائیدادوں، شیئرز کی خرید و فروخت، اخبارات و رسائل کے تراشے، بینک اکاؤنٹس، انشورنس پالیسیوں کے کاغذات، وکالت سے متعلق نوٹس اور کاغذات، دعوت نامے، تہنیت نامے، سیرو سیاحت اور بیرون ملک سفر سے متعلق کاغذات، ڈائریاں، نوٹ بُکیں اور فوٹو گراف وغیرہ کی کثیر تعداد موجود ہے۔ ان کاغذات کے مطالعے سے جہاں قائداعظم کے روز و شب کی مصروفیتوں پر روشنی پڑتی ہے، وہاں ان کے مزاج، عادات و اطوار اور مختلف ادوار میں ان کی خرید و فروخت میں پسند و نا پسند کا بھی پتا چلتا ہے۔
قائداعظم پیپرز کی موضوعاتی ترتیب و تعین کے بعد ان کی مرحلہ وار اشاعت ایک اہم ترین کام تھا۔ اس مقصد کے لیے حکومت نے نیشنل آرکائیوز آف پاکستان کی عمارت میں قائداعظم پیپرز پروجیکٹ کے نام سے ایک شعبہ قائم کیا، جس کا نگراں بین الاقوامی طور پر معروف محقق اور تاریخ داں ڈاکٹرز وار حسین زیدی کو مقرر کیا گیا۔ ڈاکٹر زیدی نہ صرف جنوبی ایشیا کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں، بلکہ اس خطہ میں موجود بیش تر دستاویزی ریکارڈ سے بھی کماحقہ، واقف ہیں۔ انھوں نے ایک طویل عرصہ تک انڈیا آفس لائبریری لندن میں موجود ریکارڈ پر بھی تحقیق کی ہے۔
مزید یہ کہ تحریک پاکستان کے رہنما مرزا ابو الحسن اصفہانی اور قائداعظم محمد علی جناح کے درمیان ہونے والی طویل ترین خط و کتابت کو بھی انھوں نے Ispahani-Jinnah correspondence کے نام سے مرتب کیا ہے۔ ڈاکٹرز وار حسین زیدی نے قائداعظم پیپرز میں شامل 20 فروری1947 سے 2 جون 1947 تک کی دستاویزات پر کام شروع کیا اور 1993 میں انھوں نے ایک نہایت وقیع اور جامع کتاب Jinnah Papers-Prelude to Pakistan شایع کی۔ یہ کتاب تقریباً دو جلدوں میں پونے دو ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔
آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ سے مراد وہ کاغذات و دستاویزات ہیں، جو آل انڈیا مسلم لیگ کے دہلی میں مرکزی دفتر اور دفتر سے ہونے والی کارروائیوں سے متعلق ہیں۔ یہ ریکارڈ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس سے بیسویں صدی کے نصف اول میں اسلامیان ہند کی سیاسی، سماجی اور تعلیمی سرگرمیوں کی جدوجہد اور ماحصل سے متعلق تفصیلات و معلومات سامنے آتی ہیں۔
قیام پاکستان تک یہ ریکارڈ آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی دفتر واقع دہلی میں موجود تھا لیکن قیام پاکستان کے ساتھ ہی اس ریکارڈ کو بحفاظت کراچی منتقل کیاگیا۔ پاکستان میں 1958 میں مارشل لا کے نفاذ کی بناء پر جب ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دیا گیا تو اس ریکارڈ کو پاکستان مسلم لیگ کے آفس سے ایک سرکاری دفتر میں منتقل کردیاگیا۔ اگرچہ اس ریکارڈ کی ابتدا ہی سے مناسب دیکھ بھال اور حفاظت کی جانی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔
یہ ایک قومی زیاں تھا جس کا چند ہمدردان قوم اور تاریخ دانوں کو شدت سے احساس تھا۔ لہٰذا، انھوں نے اس وقت کے وزیر خارجہ بیرسٹر منظور قادر سے رابطہ قائم کرکے اس ریکارڈ کو پاکستان سیکریٹریٹ کے ایک محفوظ بلاک میں منتقل کردیا۔ اس ریکارڈ کی حفاظت میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، شیخ محمد اکرم اور ڈاکٹر زوار حسین زیدی نے نہ صرف موثر کردار ادا کیا بلکہ بعد میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی کوششوں سے، جو اس زمانے میں جامعہ کراچی کے وائس چانسلر تھے، یہ ریکارڈ کراچی یونیورسٹی کی لائبریری میں منتقل کردیا گیا۔
یہ ریکارڈ جب جامعہ کراچی پہنچا تو نہایت بوسیدہ حالت میں تھا اس لیے جامعہ کراچی کی لائبریری کی عمارت میں اس ریکارڈ کی حفاظت ، مرمت ، ترتیب اور شناخت کے لیے ایک علیحدہ شعبہ ’’آرکائیوز آف فریڈم موومنٹ‘‘ کے نام سے قائم کیاگیا جو گذشتہ پچیس سال سے زاید عرصے تک اس ریکارڈ کی ترتیب و تحفظ کا فریضہ انجام دیتا رہا اور اب یہ ریکارڈ ڈیپارٹمنٹ آف نیشنل آرکائیوز کو اسلام آباد منتقل کردیاگیا ہے۔
آل انڈیا مسلم لیگ کے مذکورہ ریکارڈ کی حفاظت کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی جس کے چیئرمین ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور سیکریٹری پروفیسر شریف المجاہد تھے۔ کمیٹی کے ارکان میں ڈاکٹر محمود حسین ، پروفیسر اے بی اے حلیم، ڈاکٹر زوار حسین زیدی، ڈاکٹر ریاض الاسلام اور ڈاکٹر ایم ایچ صدیقی شامل تھے۔ 123 بوریوں اور 46 صندوقوں میں بھرے ہوئے ریکارڈ کی ترتیب، مرمت ، حفاظت اور نگہ داشت کا کام اس کمیٹی نے شروع کیا۔ خصوصاً گذشتہ دو عشروں کے دوران میں ڈاکٹر ریاض الاسلام، ڈاکٹر ایم ایچ صدیقی اور عقیل الظفر خان نے اس ریکارڈ کی ترتیب و تحفظ کے سلسلے میں جو خدمات انجام دی ہیں، وہ ناقابل فراموش اور علم دوستی کی نادر مثال ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس ریکارڈ میں دستاویزات، خطوط، رپورٹس ، تصاویر، اشتہارات ، اخبارات کے تراشے، کتابچے، پمفلٹ، تقاریر کے مجموعے اور مختلف موضوعات پر کتابوں کی تعداد 5 لاکھ صفحات سے زاید ہے۔ فریڈم موومنٹ آرکائیوز نے 1996 تک ایک لاکھ سے زاید خطوط، دستاویزات اور کاغذات کو چھ سو زاید فائلوں میں مرتب کردیا ہے، جب کہ باقی ماندہ ریکارڈ پر ڈاکٹر ایم ایچ صدیقی کی نگرانی میں عقیل الظفر خان اور مہتاب جہاں اس وقت تک کام کرتے رہے جب تک کہ یہ شعبہ ڈیپارٹمنٹ آف نیشنل آرکائیوز اسلام آباد کو منتقل نہیں ہوگیا۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اس ریکارڈ پر بہت تاخیر سے کام شروع ہوا اور اس کا بیش تر حصہ عدم توجہی کی بناء پر تلف ہوگیا۔
پروفیسر شریف المجاہد نے جو 1976 میں قائداعظم اکادمی کے بانی ڈائریکٹر مقرر ہوئے تھے، 1982 میں آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ کی طباعت کا بیڑا اٹھایا۔ ریکارڈ کی طباعت کا خیال دراصل اس لیے آیا کہ 1980 تک آل انڈیا مسلم لیگ سے متعلق شایع ہونے والی کتابوں اور پی ایچ ڈی کے مقالوں میں اس ریکارڈ سے بہت کم استفادہ کیا گیا تھا۔ پروفیسر شریف المجاہد نے لکھا ہے کہ ’’سید شریف الدین پیرزادہ نے آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ سے اپنی کتاب Foundations of ،Pakistan مطبوعہ 1969، میں استفادہ کیا ہے لیکن ان کی بھی رسائی انہی دستاویزات تک ہوسکی جو اس ریکارڈ میں مطبوعہ صورت میں تھیں۔
1979 میں اے ۔ ایم زیدی کی مرتبہ کتاب Evolution of Political Thought in India چھ جلدوں میں دہلی سے شایع ہوئی لیکن اس میں بھی ریکارڈ میں شامل مطبوعہ دستاویزات ہی کو شامل کیاگیا جو قبل ازیں سید شریف الدین پیرزادہ کی مذکورہ بالا کتاب میں شایع ہوچکی تھیں۔ 1979 ہی میں بی این پانڈ کی مرتبہ کتاب The Indian Nationalist Movment لندن سے شایع ہوئی اور وہ بھی کوئی غیر مطبوعہ خط یا دستاویز اپنی کتاب میں شامل کرنے میں ناکام رہے۔ 1980 میں میرٹھ سے سات جلدوں پر مشتمل کتاب The Indian Muslim-A Documentation Record of Muslim Struggle for Independence شایع ہوئی۔ اس میں بھی آل انڈیا مسلم لیگ سے متعلق کوئی غیر مطبوعہ دستاویز شامل نہیں تھی اور یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا ریکارڈ بہ آسانی دست یاب نہیں تھا۔
آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ کے طباعتی منصوبے کے آغاز پر قائداعظم اکاڈمی کے عملے پر مشتمل ایک ریسرچ ٹیم نے، جس میں خواجہ رضی حیدر، مفتی رفیع الدین اور مہر السلام صدیقی شامل تھے۔ پروفیسر شریف المجاہد کی نگرانی میں اس ریکارڈ میں شامل خطی دستاویزات کی شناخت، تعین اور مطالعے پر کام شروع کیا۔ ان دستاویزات میں زیادہ ترخطوط، اجلاسوں کی کارروائیاں اور قراردادیں شامل تھیں۔ ریسرچ ٹیم نے اس ریکارڈ کی فوٹو کاپی کرکے دستاویزات کو اس مرحلہ تک پہنچایا، جہاں ان کی باقاعدہ تدوین کا کام شروع ہوسکے۔ اس ریکارڈ کی طباعت چوں کہ کئی جلدوں پر مشتمل ہوگی، اس لیے پہلی جلد کو 1900 سے 1908 تک کی دستاویزات تک محدود کردیاگیا، جو 1990 میں کتابی صورت میں شایع ہوگئی۔
پروفیسر شریف المجاہد نے اس جلد میں ریکارڈ میں شامل تمام بنیادی، ذیلی اور الحاقی دستاویزات شامل کردی ہیں، جب کہ بعض دستاویزات کو وقیع اور خود وضاحتی بنانے کے لیے ضمیمہ جات میں ایسی دستاویزات بھی شامل کردی گئی ہیں جو آل انڈیا مسلم لیگ کے ریکارڈ میں موجود نہیں تھیں۔ شریف المجاہد کی تصنیف کردہ اس کتاب کا نام Muslim League Documents ہے۔ اگرچہ اس کتاب کی اب تک پہلی جلد ہی شائع ہوئی ہے، لیکن باور کیا جاتا ہے کہ اپنی تکمیل پر مسلم ہندوستان کی سیاسی جدوجہد کے بارے میں یہ ایک اہم بنیادی کتاب ثابت ہوگی۔
شمس الحسن کلیکشن میں جو آل انڈیا مسلم لیگ کے آفس سیکریٹری سید شمس الحسن کے نام سے منسوب ہے، قائداعظم محمد علی جناح کے تقریباً دس ہزار ذاتی کاغذات اور دستاویزات موجود ہیں۔ اس ذخیرے کو بھی بہ اعتبار موضوع تقریباً نوے جلدوں میں تقسیم کردیاگیا ہے۔ اس ذخیرے سے بھی اہل علم کی ایک بڑی تعداد نے استفادہ کیا ہے، جب کہ خود سید شمس الحسن نے اس ذخیرے سے قائداعظم کی نجی زندگی اور تنظیمی جدوجہد کے بارے میں کچھ دستاویزات منتخب کرکے1976 میں ایک کتاب Plain Mr. Jinnah مرتب کی تھی۔
سید شمس الحسن چوں کہ تحریک پاکستان کے عینی شاہد تھے، اس لیے انھوں نے کتاب میں شامل دستاویزات کی وضاحت اور صراحت میں نوٹس بھی تحریر کیے ہیں، جو بہرحال تحریک پاکستان اور قائداعظم کے بارے میں کچھ جاننے کے خواہش مند افراد کے لیے معلومات افزا ہیں۔
شمس الحسن کلیکشن، قائداعظم پیپرز اور آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ کے علاوہ قائداعظم اور تحریک پاکستان سے متعلق غیر مطبوعہ خطوط کی ایک بڑی تعداد پاکستان، بھارت، برطانیہ اور سری لنکا وغیرہ میں بھی انفرادی طور پر مختلف لوگوں کے پاس موجود ہے۔ ان خطوط و کاغذات کی بازیافت کے لیے ڈیپارٹمنٹ آف آرکائیوز برابر کوشش کررہا ہے اور اسے بڑی حد تک کام یابی بھی ہوئی ہے۔
دراصل یہ کاغذات اور دستاویزات ہمارا قومی سرمایہ ہیں، ہماری جدوجہد کا تاریخی ریکارڈ ہیں۔ ان سے نہ صرف قائداعظم محمد علی جناح کی حیات و خدمات کے پنہاں گوشوں پر روشنی پڑتی ہے بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کے ایک علیحدہ وطن کے قیام کے لیے جدوجہد کے بھی بیش تر تشنہ و مخفی پہلو واضح اور اجاگر ہوتے ہیں۔ ان کاغذات اور دستاویزات کی حفاظت کرنا اور ان کے مندرجات سے واقفیت حاصل کرنا ہمارے قومی فرائض میں شامل ہے۔