حسان خان
لائبریرین
عدو سے چھین لی جس نے عنانِ آزادی
وہ شہسوار جسے آتشِ تپاں کہیے
صنم کدے کی حدوں کو بدل دیا جس نے
وہ خضرِ راہ جسے حق کا پاسباں کہیے
ہلا سکا نہ جسے زورِ کفر و رعبِ فرنگ
جسے زمینِ سیاست کا آسماں کہیے
جری، دلیر، مجاہد، نڈر، جواں، بے باک
جسے بسالت و جرات کا اک نشاں کہیے
وکیلِ صدق و صفا، ترجمان ملت کا
وہ صاف گو کہ جسے قوم کی زباں کہیے
ادا شناسِ نظامِ بہار جس کی نظر
جسے مزاجِ گلستاں کا رازداں کہیے
امینِ رنگِ سیادت زبانِ گلشن میں
کلیمِ طورِ قیادت دلوں کے ایمن میں
رواں ہیں جس کی تجلی میں قافلے اب تک
وہ رنگ و نور کا مینار، قائدِ اعظم
وہ کارزارِ سیاست کا شہسوارِ جری
وہ سربلند، وہ سردار، قائدِ اعظم
دیارِ ہند کو دونیم کر دیا جس نے
وہ علم و فکر کی تلوار، قائدِ اعظم
ہزار پھول کھلے جس کی فکرِ رنگیں سے
وہ اپنی ذات سے گلزار، قائدِ اعظم
جبیں پہ جس کی فروزاں چراغِ آزادی
وہ سروِ جلوۂ پندار، قائدِ اعظم
جھکا سکا نہ جسے طنطنہ حکومت کا
سلیم و صاحبِ کردار، قائدِ اعظم
دیارِ پاک کی ہر صبح ہے ترا پیغام
تری قیادتِ عظمیٰ پہ لاکھ بار سلام
(سیماب اکبرآبادی)
۱۹۴۷ء
وہ شہسوار جسے آتشِ تپاں کہیے
صنم کدے کی حدوں کو بدل دیا جس نے
وہ خضرِ راہ جسے حق کا پاسباں کہیے
ہلا سکا نہ جسے زورِ کفر و رعبِ فرنگ
جسے زمینِ سیاست کا آسماں کہیے
جری، دلیر، مجاہد، نڈر، جواں، بے باک
جسے بسالت و جرات کا اک نشاں کہیے
وکیلِ صدق و صفا، ترجمان ملت کا
وہ صاف گو کہ جسے قوم کی زباں کہیے
ادا شناسِ نظامِ بہار جس کی نظر
جسے مزاجِ گلستاں کا رازداں کہیے
امینِ رنگِ سیادت زبانِ گلشن میں
کلیمِ طورِ قیادت دلوں کے ایمن میں
رواں ہیں جس کی تجلی میں قافلے اب تک
وہ رنگ و نور کا مینار، قائدِ اعظم
وہ کارزارِ سیاست کا شہسوارِ جری
وہ سربلند، وہ سردار، قائدِ اعظم
دیارِ ہند کو دونیم کر دیا جس نے
وہ علم و فکر کی تلوار، قائدِ اعظم
ہزار پھول کھلے جس کی فکرِ رنگیں سے
وہ اپنی ذات سے گلزار، قائدِ اعظم
جبیں پہ جس کی فروزاں چراغِ آزادی
وہ سروِ جلوۂ پندار، قائدِ اعظم
جھکا سکا نہ جسے طنطنہ حکومت کا
سلیم و صاحبِ کردار، قائدِ اعظم
دیارِ پاک کی ہر صبح ہے ترا پیغام
تری قیادتِ عظمیٰ پہ لاکھ بار سلام
(سیماب اکبرآبادی)
۱۹۴۷ء