قائد اعظم نے آخری سرکاری کاغذ پر دستخط کب کئے۔

رانا

محفلین
پاکستان کے بننے کے اعلان کے بعد حکومت پاکستان کے پہلے سیکرٹری جنرل چوہدری محمد علی صاحب نے جناب فرخ امین صاحب کو قائد اعظم کا اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری مقرر کیا تھا۔ فرخ امین صاحب نے قائد اعظم کے آخری دستخط کا جو درج زیل واقعہ بیان کیا ہے اس سے بیماری اور انتہائی کمزوری کے باوجود پاکستان کی خدمت کے لئے قائد اعظم کے عزم کا اندازہ ہوتا ہے۔

"بیماری کے پورے زمانے میں قائد اعظم نے اس وقت تک سرکاری کاموں کا سلسلہ جاری رکھا، جب تک ان میں ذرا بھی سکت باقی رہی۔ ہم انہیں کاموں کی اطلاع نہ دیتے، لیکن اگر انہیں پتا چل جاتا تو وہ کام کرنے کے لئے تیار ہوجاتے۔ مجھے وہ دن ہمیشہ یاد رہے گا جب انہوں نے یو این او میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لئے سر محمد ظفراللہ خان کو پورے اختیارات دینے کے لئے آخری سرکاری کاغذ پر دستخط کئے۔
قائد اعظم اپنی مسہری پر لیٹے ہوئے تھے۔ میں نے کاغذ ان کے سامنے پیش کیا۔ اس پر نظر ڈال کر میری طرف دیکھا اور فرمایا: "امین! کچھ نظر نہیں آرہا۔"
میں یہ سمجھ کر یہ روشنی کی کمی کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے، بجلی روشن کردی۔ قائد اعظم نے پھر نظر ڈالی اور اسے پڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے ذرا سی دیر میں نظر ہٹا لی اور میری طرف دیکھا۔ میں سمجھ گیا کہ اب بھی پڑھنے میں انہیں دقت ہورہی ہے۔ کمرے کے بائیں طرف ایک کھڑکی تھی اس پر ایک موٹا سا پردہ پڑا ہوا تھا۔ کھڑکی کے پاس جاکرمیں نے پردہ سرکا دیا کہ باہر سے روشنی آسکے۔ اس مرتبہ بھی قائد اعظم کاغذ کی عبارت اچھی طرح نہ پڑھ سکے۔ دل کہہ رہا تھا کہ یااللہ! یہ کیا ہوا۔ اتنے میں مجھے دیکھا اور فرمایا کہ مجھے اُٹھا کر بٹھاؤ۔ میں نے حکم کی تعمیل کی۔ ان کی پسلیوں کے پیچھے ہاتھ رکھ کر آہستہ سے سہارا دیا اور پیچھے کی طرف دو تکیے رکھ کر انہیں بٹھانے کی کوشش کی، لیکن قائد اعظم کے لئے یہ بھی ممکن نہ ہوا کہ وہ اس طرح بیٹھ کر کاغذ پر دستخظ کرسکیں۔ اس صورت حال سے بڑی الجھن ہوئی۔ وہ فرمانے لگے کہ مجھے سہارا دو تاکہ میں پوری طرح بیٹھ سکوں۔ میں نے ہاتھوں کے سہارے سے ان کے جسم کو اور سیدھا کیا۔ میں ان کے سامنے کی طرف کھڑا تھا اور میرے دونوں ہاتھ ان کی پسلیوں کے نیچے تھے۔ اس طرح اگر وہ کاغذ پر دستخط کرنا بھی چاہتے تو میرے دونوں ہاتھ ان کے لئے رکاوٹ پیدا کرتے۔ اس لئے میں نے ان کے جسم کو ایک ہاتھ سے روکا اور پیچھے کی طرف جا کر انہیں اپنے دونوں ہاتھوں سے سنبھال لیا۔ اس وقت میرے دل کی یہ کیفیت تھی کہ جیسے میں نے شیشے کی بہت نازک سی چیز پکڑ رکھی ہے اور میری ذرا سی کوتاہی سے بھی اس نازک شیشے میں بال پڑ جائے گا۔
قائد اعظم نے اس وقت فرمایا "مضبوطی سے پکڑو" یہ الفاظ تحکمانہ انداز میں فرمائے گئے تھے، لیکن آواز میں کسی قدر کمزوری تھی۔
اس طرح قائد اعظم نے بڑی مشکل سے اس کاغذ پر ستخط کئے، اس دستخظ کا نقش اب بھی میرے پاس موجود ہے۔ ان میں قائداعظم کے پچھلے دستخطوں کی سی استواری نہ تھی۔ اس وقت میرا دل رو رہا تھا۔ یہ کمزور جسم اور ہڈیوں کا ڈھانچا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے سنبھال رکھا تھا، اس شخص کا تھا جس نے برسوں ہندوستانی اور انگریزی سیاست دانوں کا مقابلہ کیا اور جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک منظم اور طاقتور قوم بنادیا۔ اُن کی آج یہ حالت ہے کہ جب وہ کاغذ پر دستخط کرچکے تو قطعی تھک چکے تھے۔ انہوں نے بڑے دردناک انداز میں فرمایا: "امین میں بھی ہانپ رہا ہوں اور تم بھی ہانپ رہے ہو'" میرا سانس بے شک تیز تھا میں اس لئے ہانپ رہاتھا کہ اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش نے مجھے تھکا دیا تھا۔ میرے ہاتھوں اور میرے جسم سے لگی ہوئی پاکستان کی سب سے محبوب شخصیت تھی جس کے ایک اشارے پر لاکھوں آدمی اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار ہوجائیں۔ اس صورت حال نے میرے ذہن میں جو اضطراب پیدا کیا تھا وہ میرے لئے ناقابل برداشت تھا۔ اس لئے میں قائد اعظم کو بستر پر لٹاتے ہی تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا اور خوب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
(بشکریہ ہمدرد نونہال ستمبر 2003 ء)
 

رانا

محفلین
اوکے۔۔۔
1989 چلے گا۔۔؟:rolleyes:
چلو حساب تو سیدھا ہوا! :p
چلے گا ، بلکہ دوڑے گا! :)

بھئی میں تو نونہال کے معاملے میں الٹی گنتی کے حق میں ہوں کہ پرانے شماروں کی کہانیاں زیادہ مزے کی ہوتی تھیں۔ اس لئے میں کہوں گا کہ 89 کی بجائے 87 پر جمپ کی جائے۔:)
اور مجھے لگتا ہے کچھ ہی دیر میں منتظمین کی خدمت میں درخواست پیش کرنی پڑے گی کہ دھاگے کا عنوان "نونہال کی پرانی یادیں" کردیا جائے۔:)
 

عثمان

محفلین
بھئی میں تو نونہال کے معاملے میں الٹی گنتی کے حق میں ہوں کہ پرانے شماروں کی کہانیاں زیادہ مزے کی ہوتی تھیں۔ اس لئے میں کہوں گا کہ 89 کی بجائے 87 پر جمپ کی جائے۔:)
اور مجھے لگتا ہے کچھ ہی دیر میں منتظمین کی خدمت میں درخواست پیش کرنی پڑے گی کہ دھاگے کا عنوان "نونہال کی پرانی یادیں" کردیا جائے۔:)
اتنا پرانا کہ "نو" رہے نہ "نہال" :)
 

شمشاد

لائبریرین
بلال کے لیے
kleenex.jpg
 
Top