عسکری
معطل
2 سال بعد جب اچانک ہی مجھے کراچی طلب کیا گیا تو کچھ عجیب حالت تھی پر میں پر جوش تھا کہ چلو کم از کم اس ڈیلی روٹین سے تو باہر نکلیں ۔ کراچی جانے سے پہلے میں نے اپنے فورم کے دوستوں کو اس بارے میں بتایا تھا جنہوں نے انفو لیک کر دی بہرحال 36 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے ہم
8 فروری کی شام کراچی پہنچ گئے ۔سب سے پہلے جس چیز سے ملے وہ ہڑتال تھی اور پھر ہم پر سکون انداز میں اپنے عارضی مسکن پہنچا دیے گئے جو کہ ملینئیم مال کے سامنے میرے نام سے بنا ہے عسکری IV میں ۔ یہ راشد منہاس روڈ پر گلستان جوہر میں ہے شاید ۔ پر ہمارا کیا ہم تو آرام کرنے کو ترسے تھے جب جا کر دیکھا تو یہ حالت تھی یہ میری رہنے کی جگہ تھی ۔
ہم دراز ہوئے تو ایسے کہ دوسرے دن دن چڑھے اٹھے کیونکہ اب وہ جلدی اٹھنے کا جھنجھٹ ختم ہوا تھا۔ ہم تین دوست باہر نکلے تو مجھے سب سے پہلے یہ گاڑی ملی جس پر لکھی سنہری حروف میں میٹ یو اگین نے مجھے فوٹو بنانے پر مجبور کیا یہ وہ جگہ ہے جہاں پر بہت سارے ریسٹورینٹ ہیں اور رات کو پبلک روڈ سائیڈ پر ایسے رش مچاتی ہے جیسے فری کھانا مل رہا ہے ہم نے ایک بار ٹرائی کیا تھا یہاں پر کھانا ۔
یہ پہلا فری دن تھا سو ہم نے سڑکیں ناپ کر کراچی کا جائزہ لیا جو کہ اچھا نہیں تھا مجھے لگا کہ کراچی آگے جانے کی بجائے پیچھے گیا ہے 2 سالوں میں اور اب سسٹم صفائی اور ترقی کے لحاظ سے کراچی نے ریورس گئیر لگایا ہے نا جانے کیوں ۔ اور پھر اس سے ملاقات ہوئی تو موڈ ٹھیک ہوا ۔ اس نے ہمیں کرتب دکھائے ہم نے اسے خشک میووں کا گفٹ دیا اور اس کے مالک کو کچھ پیسے ۔ بہت ہی پیارا بندر تھا۔
اس کے بعد ہم اپنے کام میں بزی ہو گئے جس کی وجہ سے وہاں تھے تب تک کہ جب تک وہ سب کچھ مکمل نہیں ہوا ہماری روٹین وہی رہی جو یہاں تھی۔
کراچی میں گزارے کچھ وقت سے میرا کراچی کے بارے میں تاثر اب پہلے کی طرح منفی نہیں رہا تھا ۔ کراچی میں مجھے پہلے رہنا جانا اچھا نہیں لگتا تھا اور لوگوں کے سخت رویے کی شکایت ہوتی تھی اس بار مجھے لوگوں کی حالت اور ان سے بات کر کے رحم آ رہا تھا کہ اس خوش آشام شہر میں اب عوام سہمی ہوئی رہتی ہے۔ جس سے بھی ملے حالات کا رونا روتا نظر ایا ۔ سوائے وردی والوں کے۔ بہرحال کراچی ہاتھ سے باہر نہیں نکلا ہوا اور یہ سب ٹھیک کیا جا سکتا ہے جب اوپر والا چاہے گا اوپر سے مراد زیادہ اوپر نہیں پنڈی تک ۔ کراچی کی عوام کو اب خود بھی امن کی طرف بڑھنا چاہیے سڑکوں سے ساری نعرے بازی بینر جھنڈے ہٹانے سے شروعات کر کے ۔ اور بھی بہت کچھ ہے پھر شئیر کروں گا
8 فروری کی شام کراچی پہنچ گئے ۔سب سے پہلے جس چیز سے ملے وہ ہڑتال تھی اور پھر ہم پر سکون انداز میں اپنے عارضی مسکن پہنچا دیے گئے جو کہ ملینئیم مال کے سامنے میرے نام سے بنا ہے عسکری IV میں ۔ یہ راشد منہاس روڈ پر گلستان جوہر میں ہے شاید ۔ پر ہمارا کیا ہم تو آرام کرنے کو ترسے تھے جب جا کر دیکھا تو یہ حالت تھی یہ میری رہنے کی جگہ تھی ۔
ہم دراز ہوئے تو ایسے کہ دوسرے دن دن چڑھے اٹھے کیونکہ اب وہ جلدی اٹھنے کا جھنجھٹ ختم ہوا تھا۔ ہم تین دوست باہر نکلے تو مجھے سب سے پہلے یہ گاڑی ملی جس پر لکھی سنہری حروف میں میٹ یو اگین نے مجھے فوٹو بنانے پر مجبور کیا یہ وہ جگہ ہے جہاں پر بہت سارے ریسٹورینٹ ہیں اور رات کو پبلک روڈ سائیڈ پر ایسے رش مچاتی ہے جیسے فری کھانا مل رہا ہے ہم نے ایک بار ٹرائی کیا تھا یہاں پر کھانا ۔
یہ پہلا فری دن تھا سو ہم نے سڑکیں ناپ کر کراچی کا جائزہ لیا جو کہ اچھا نہیں تھا مجھے لگا کہ کراچی آگے جانے کی بجائے پیچھے گیا ہے 2 سالوں میں اور اب سسٹم صفائی اور ترقی کے لحاظ سے کراچی نے ریورس گئیر لگایا ہے نا جانے کیوں ۔ اور پھر اس سے ملاقات ہوئی تو موڈ ٹھیک ہوا ۔ اس نے ہمیں کرتب دکھائے ہم نے اسے خشک میووں کا گفٹ دیا اور اس کے مالک کو کچھ پیسے ۔ بہت ہی پیارا بندر تھا۔
اس کے بعد ہم اپنے کام میں بزی ہو گئے جس کی وجہ سے وہاں تھے تب تک کہ جب تک وہ سب کچھ مکمل نہیں ہوا ہماری روٹین وہی رہی جو یہاں تھی۔
کراچی میں گزارے کچھ وقت سے میرا کراچی کے بارے میں تاثر اب پہلے کی طرح منفی نہیں رہا تھا ۔ کراچی میں مجھے پہلے رہنا جانا اچھا نہیں لگتا تھا اور لوگوں کے سخت رویے کی شکایت ہوتی تھی اس بار مجھے لوگوں کی حالت اور ان سے بات کر کے رحم آ رہا تھا کہ اس خوش آشام شہر میں اب عوام سہمی ہوئی رہتی ہے۔ جس سے بھی ملے حالات کا رونا روتا نظر ایا ۔ سوائے وردی والوں کے۔ بہرحال کراچی ہاتھ سے باہر نہیں نکلا ہوا اور یہ سب ٹھیک کیا جا سکتا ہے جب اوپر والا چاہے گا اوپر سے مراد زیادہ اوپر نہیں پنڈی تک ۔ کراچی کی عوام کو اب خود بھی امن کی طرف بڑھنا چاہیے سڑکوں سے ساری نعرے بازی بینر جھنڈے ہٹانے سے شروعات کر کے ۔ اور بھی بہت کچھ ہے پھر شئیر کروں گا