لاہور میں عوامی تحریک کا احتجاجی مظاہرہ: ’قادری، زرداری اور عمران ایک ہی صف میں‘
لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو لاہور کی مال روڈ پر رات بارہ بجے تک احتجاجی جلسے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
ہائی کورٹ کے فل بینچ نے یہ فیصلہ مال روڈ کا دھرنا روکنے کے لیے دائر درخواستوں پر سنایا۔ سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ احتجاج کا حق شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے ساتھ مشروط ہے۔
عدالت نے رات بارہ بجے کے بعد میڈیا کو اس جلسے کی کوری۔ج کرنے سے بھی روک دیا ہے۔
عدالت نے حکومت پنجاب، آئی جی پنجاب، ڈی سی لاہور کو عمل درآمد کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت اکتیس جنوری تک ملتوی کر دی۔ عدالت نےدھرنوں کے خلاف قانونی نکات کی وضاحت کے لئے فریقین کے وکلا کو آئندہ سماعت پر طلب بھی کیا ہے۔
کیس کی سماعت لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امین الدین خان، جسٹس شاہد جمیل اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل تین رکنی فل بینچ نے کی۔ عدالتی حکم کے باوجود ہوم سیکریٹری کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ مال روڈ پر دھرنے میں سکیورٹی خدشات ہیں، اس حوالے سے دھرنے کے منتظمین کو آگاہ کیا گیا ہے اور عدالتی حکم کے تحت مال روڈ پر پابندی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ حکومت نے دھرنے روکنے کے حوالے سے نوٹیفیکیشن کس قانون کے تحت جاری کیا ہے؟
عدالت کا کہنا تھا کہ ’تاجروں سے زیادہ حقوق ان بچوں اور مریضوں کے ہیں جو سکول اور یسپتال نہیں پہنچ سکتے۔ حکومت نے پابندی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا مگر قانون سازی نہیں کی، لگتا ہے حکومت خود پابندی کے معاملے میں سنجیدہ نہیں کیونکہ اس نے بھی یہ سب کرنا ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔‘
عدالت نے عوامی تحریک کے وکیل سے استفسار کیا کہ عوامی تحریک کا کیا منصوبہ ہے؟ عوامی تحریک دھرنا دے گی یا جلسے کے بعد مال سے چلے جائیں گے؟ اس پر عوامی تحریک کے وکیل اظہر صدیق نے آگاہ کیا کہ ’رات گئے تک جلسہ ختم کیا جا سکتا ہے تاہم اگر حکومت نے تشدد کا رستہ اختیار کیا تو پھر دھرنا ختم کرنے کا کوئی وقت نہیں دے سکتے۔
’لاہور کی مال روڈ پر رات بارہ بجے تک احتجاج کی اجازت‘
لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو لاہور کی مال روڈ پر رات بارہ بجے تک احتجاجی جلسے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
ہائی کورٹ کے فل بینچ نے یہ فیصلہ مال روڈ کا دھرنا روکنے کے لیے دائر درخواستوں پر سنایا۔ سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ احتجاج کا حق شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے ساتھ مشروط ہے۔
عدالت نے رات بارہ بجے کے بعد میڈیا کو اس جلسے کی کوری۔ج کرنے سے بھی روک دیا ہے۔
عدالت نے حکومت پنجاب، آئی جی پنجاب، ڈی سی لاہور کو عمل درآمد کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت اکتیس جنوری تک ملتوی کر دی۔ عدالت نےدھرنوں کے خلاف قانونی نکات کی وضاحت کے لئے فریقین کے وکلا کو آئندہ سماعت پر طلب بھی کیا ہے۔
کیس کی سماعت لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امین الدین خان، جسٹس شاہد جمیل اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل تین رکنی فل بینچ نے کی۔ عدالتی حکم کے باوجود ہوم سیکریٹری کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ مال روڈ پر دھرنے میں سکیورٹی خدشات ہیں، اس حوالے سے دھرنے کے منتظمین کو آگاہ کیا گیا ہے اور عدالتی حکم کے تحت مال روڈ پر پابندی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ حکومت نے دھرنے روکنے کے حوالے سے نوٹیفیکیشن کس قانون کے تحت جاری کیا ہے؟
عدالت کا کہنا تھا کہ ’تاجروں سے زیادہ حقوق ان بچوں اور مریضوں کے ہیں جو سکول اور یسپتال نہیں پہنچ سکتے۔ حکومت نے پابندی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا مگر قانون سازی نہیں کی، لگتا ہے حکومت خود پابندی کے معاملے میں سنجیدہ نہیں کیونکہ اس نے بھی یہ سب کرنا ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔‘
عدالت نے عوامی تحریک کے وکیل سے استفسار کیا کہ عوامی تحریک کا کیا منصوبہ ہے؟ عوامی تحریک دھرنا دے گی یا جلسے کے بعد مال سے چلے جائیں گے؟ اس پر عوامی تحریک کے وکیل اظہر صدیق نے آگاہ کیا کہ ’رات گئے تک جلسہ ختم کیا جا سکتا ہے تاہم اگر حکومت نے تشدد کا رستہ اختیار کیا تو پھر دھرنا ختم کرنے کا کوئی وقت نہیں دے سکتے۔
’لاہور کی مال روڈ پر رات بارہ بجے تک احتجاج کی اجازت‘