مقبول احمد سلفی
محفلین
قادیانیت کے بڑھتے قدم اورہماری ذمہ داریاں
تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، طائف (سعودی عرب)
عقیدہ ختم نبوت ، عقائد کے باب میں ایک اہم ترین عقیدہ ہے ۔ عہد رسول سے ہی اس عقیدہ کی حفاظت کی گئی ہے اور آج تک بلکہ یہ کہہ لیں قیامت تک منہج سلف پر چلنے والےکما حقہ اس کی حفاظت کرتے رہیں گے ، اس سلسلے میں مناظراسلام مولاناثناء اللہ امرتسری ؒ کا نام ہمیشہ سرفہرست رہے گا۔ اسلام اللہ کا نظام اور اس کے دستور کا نام ہے اس لئے اللہ کے دشمن ہمیشہ سے اسلام کے خلاف ریشہ دوانیاں کرتے رہے مگر اسلام سدا پھلتا پھولتا رہا اور زمانے میں پھیلتا رہا۔ اللہ نے اس دین کو تمام ادیان باطلہ پرغالب کرنے کا عہد کرلیا ہے اور ان شاء اللہ یہ ہوکر رہے گا چاہے کفر کی ساری خدائی اس کے خلاف آپس میں دوست ومعاون ہی کیوں نہ بن جائے ۔
نبوت کے نام پر جس طرح عہد رسالت میں جھوٹے دعویدار پیدا ہوتے رہے آج بھی نت نئے رنگ وروپ لے کر ظاہر ہورہے ہیں ۔ ان کے اہم مقاصد میں مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنا، غیروں کو اسلام میں داخل ہونےسے روکنا اور دنیا والوں پر اسلام کی شبیہ بگاڑ پر پیش کرنا ہے ۔ اس کے بالمقابل ایسے نظریات پیش کرنا ہے جس سے ظاہر ہو کہ امن اسلام میں نہیں ہے بلکہ ہمارے پاس ہے ، یا دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیں کہ اسلام وہ نہیں جو پرانے خیال کے دقیانوس مسلمان پیش کررہے ہیں بلکہ روشن خیالی، بین الاقوامی امن وسلامتی ،عالمی مراسم وروابط اور اصل اسلام تو ہمارے پاس ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ استعماری قوت کے لئے ہندوستان میں جب مسلمانوں کو جہاد سے روکنے کا مسئلہ درپیش ہوا تو مرزا غلام احمد جیسا وفادار غلام ملا۔ اس نے انگریزی وفاداری میں نہ صرف جہاد کا انکار کیا بلکہ دھیرے دھیرے نبوت کا دعوی بھی کر بیٹھا۔ مرزا غلام احمد کل انگریزوں کی ضرورت تھا اور آج مسلمانوں کے لئے بڑا چیلنج بن کر سامنے آگیا ہے۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ سے مباہلہ کے بعدمرزا بدترین موت مر توگیا مگر پیچھے چھوڑی گئیں درجنوں نجس کتاب اور پلید آقاؤں کی مدد سے مرزائی فرقہ زندہ رہا جس کے ماننے والے ہندوپاک میں کثیر تعداد میں اور چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں دنیا کے اکثر حصے میں موجود ہیں۔یہ عرب ممالک سمیت افریقی اور مغربی ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں حتی کہ اسرائیل سے گہرے روابط ہیں ۔ جس طرح ہندوستان میں انگریزی سرکار نے اس شجرہ خبیثہ کی آبیاری کی اسی طرح آج بھی کر رہی ہے۔اسرائیل کی طرف اسے بڑا فنڈ ملتا ہے جس کے ذریعہ یہ اپنی دعوتی مشنریاں، رفاہی ادارے، تعلیمی سنٹرز چلا رہے ہیں ، انہیں پیسوں کو مبلغین اور قادیانی کتب اور ان کی نشر واشاعت پر صرف کیا جاتا ہے۔پاکستان میں ربوہ، ہندوستان میں قادیان اور اسرائیل میں حیفا قادیانیوں کا مرکز ہے ، اسرائیل کی طرح ہند کی سنگھی تنظیم آرایس ایس سےبڑے گہرے تعلقات اور ایک دوسرے کا دست وبازو ہیں ۔ آرایس ایس کی ذیلی سنگھی تنظیم "راسٹریہ مسلم منچ" میں اصل کردار مسلمانوں کا نہیں قادیانیوں کا ہے ۔
بالآخر ہمارے سامنے جو نتائج ہیں وہ نہایت ہی افسوسناک ہیں ۔ دن بدن یہ فرقہ اپنی جڑیں مضبوط کرتا چلا رہا ہے اور اسلام کے راستے میں اور عقیدہ ختم نبوت کے باب میں ہمارے لئے بڑی مشکلات پیدا کررہا ہے ۔سب سے بڑی فکرمندی تو یہ ہے کہ آج تک جتنے بھی لوگ اس کے آلہ بنے یا بن رہے ہیں ان کی اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔ یہ فرقہ مسلمانوں کو گمراہ کرکے قادیانی بنا رہا ہے کیونکہ یہ خود کو مسلمان ظاہر کرتا ہے، اپنا نام احمدی یااحمدی مسلمان یا احمدیہ مسلم کمیونٹی بتلاتا ہے۔ جس ملک میں بھی یہ فرقہ موجود ہے اس ملک میں حکومتی طور پر خود کو مسلمانوں کی فہرست میں داخل کروانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء بورڈ میں شیعہ کی بھی رکنیت ہے،آرایس ایس کے زیراثرمقامات پروقف بورڈ اور حج کمیٹی کے اصل ذمہ دار ہوتے ہیں جبکہ انگریزی دور حکومت میں مرزاغلام احمد نے خود کو مسلمانوں سے الگ ایک مستقل فرقہ کی حیثیت سے متعارف کروایا تھا لیکن آزادی کے بعد کانگریس پارٹی مسلم دشمنی میں 2011 کی پہلی بارمردم شماری کے وقت مسلمانوں کے ساتھ شمار میں لائی اور بروقت تو بی جے پی حکومت ہے جس کے منشور میں مسلم دشمنی کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں ۔پاکستان میں قادیانی اپنا قدم مضبوط اور حکومتی سطح پر اپنی پکڑبنالیا تھا اس وجہ سے وہاں بطور آئین غیرمسلم اقلیت قرار دینے میں کافی وقت لگ رہا ، 1953 کی تحریک ختم نبوت میں ہزاروں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا پھر بھی قادیانی غیرمسلم ہونے کا مطالبہ پورا نہ ہوسکاتاہم قادیانی وزیر خارجہ ظفراللہ خان کی برطرفی ہوگئی جس کی وجہ سے ربوہ میں ایک بڑی اراضی قادیانی مرکز کے لئے الاٹ کی گئی تھی ۔سترہزار سے زائد کی آبادی والے شہرربوہ کی 97 فیصد آبادی قادیانیوں پرمحیط ہےاور اس جگہ کا استعمال قادیانیت کی تبلیغ میں بڑے شد ومد کے ساتھ کیا جارہا ہے ۔ آزاد کشمیر کی اسمبلی نے 1973 میں قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا جبکہ اپریل 1974 میں رابطہ عالم اسلامی نے مکہ مکرمہ میں ایک بڑا اجلاس منعقد کیا جس میں دنیا بھر سے مسلم تنظیمیں اور علمائے کرام نے شرکت کیں اوراس اجلاس میں مرزائی کو غیرمسلم قرار دے کر تمام مسلمانوں سے اس کا بائیکاٹ کرنے، اس سے متنبہ رہنے اور اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی اپیل کی ۔ اسی سال 7 ستمبرکو مسلمانوں کی مشترکہ کوششیں رنگ لائیں اورپاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کےعہد حکومت میں طویل بحث ومناظرہ کے بعد قادیانی کودستوری طور پر غیرمسلم اقلیت قرار دے کر تاریخ رقم کی گئی ۔وہاں عوامی طور پر آج بھی 7 ستمبر کو یوم ختم نبوت کے طور پر منایا جاتا ہے۔
تمہیدی باتیں کچھ طویل ہوگئیں ، اب آتے ہیں اصل مقصد کی طرف کہ مرزائی ٹولہ کس طرح اپنا قدم بڑھا اور جمارہا ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کا بڑھتا قدم روکا جاسکے اور فتنہ ارتداد کا سد باب کیا جاسکے ۔یہ کام مسلمانوں کے کسی مخصوص فرد یا مخصوص تنظیم کا نہیں ہے بلکہ ہر موحد کا ہے ، تمام مسلمانوں کا ہےبالخصوص بااثرمسلم شخصیات ، زیرقیادت مسلم حکمراں اور عالمی پیمانے پر اثرونفوذ والی مسلم تنظیمات کا ہے۔
٭قادیانی فرقہ عوام میں خود کو مسلمان مشتہر کرتا ہےاور سرکاری طور پرمسلمان کا خطاب پانے کے لئے سیاسی ہتھکنڈے اپناتا ہے، ذرا سا کہیں موقع ملا قادیانی میڈیا کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا بھر میں اس کا پرچار کرتا ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال 2017 میں ابوظبی میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی کانفرنس سے لیں ۔یہ کانفرنس شیخ عبداللہ بن بیہ کی قیادت میں "تعزیزالسلم فی المجتمع المسلم " کے عنوان سے ہوئی ، اس میں نہ جانے کیسے دو قادیانی بھی شریک ہوگئے ، انہوں نے اس میں شرکت کی اپنی ویڈیو بنائی اور اسے قادیانی چینل ربوہ ٹائمس کو بھیج دیا جس نے مختلف طریقے سے کئی دن تک نمک مرچ لگاکر اس خبر کی اشاعت کی ، لوگوں میں غلط فہمیاں پھیلاتا رہا حتی کہ ایک شیعہ چینل نے کہہ دیا کہ سعودی مفتی نے قادیانی کو مسلم قرار دے دیا۔ اس واقعہ میں ہمارے لئے نصیحت یہ ہے کہ اپنی مخصوص مجالس سے انہیں دور رکھیں، یہ کسی بھیس میں بھی ہوسکتے ہیں اور ہمارے ہی پروگرام کو ہمارے خلاف مورچہ بنا سکتے ہیں ۔
٭ سرکاری عہدوں کی حصولیابی اہم ترین ہتھکنڈہ ہے ، قیادت ملنے کے بعد زیلا قطرہ سماج میں گھولنا شروع کردیتا ہےجس کے زیر اثر کمزور ایمان والوں کا دل قادیانیت کی وبا سے بیمار ہوجاتا ہے۔ محمد ظفراللہ خان کے دور میں پاکستانی حکومت کی طرف سے ربوہ نامی جگہ کی فراہمی اس کی زندہ مثال ہے۔1034 ایکڑپر مشتمل یہ جگہ آج قادیانیت کی تبلیغ کا مرکز ہے اور قادیانیوں کا شہر کہلاتا ہے۔یہاں قادیانیت کی اشاعت کا کون سا وسیلہ موجود نہیں ہے۔تعلیمی ادارے، تبلیغی مراکز، عبادت گاہیں ،قادیانی میڈیا کا بہتر انتظام ہے اوریہ دنیا بھر کے قادیانیوں کی توجہ کا نہ صرف مرکز ہےبلکہ اس کے سالانہ اجتماع میں ہندوپاک کے علاوہ تمام ممالک سے قادیانی شریک ہوتے ہیں۔ماضی کی اس خطا سے ہمیں سبق لینا ہے اورآئندہ یہ منصوبہ بنانا ہے کہ حکومت کے ایسے عہدوں پر کسی قادیانی کو برداشت نہ کیا جائے جس سے اسلام اور مسلمانوں کو خطرہ لاحق ہو۔
٭ انتشار اور بلوی کے مواقع سے فائدہ اٹھانا بھی قادیانی ہتھکنڈہ ہے، ایسے حالات میں یہ لوگ بڑی عیاری سے اپنے افکار وخیالات پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں ، لوگوں کا ذہن انتشار میں مبتلاہوتا ہے اور قادیانی اپنے مشن میں مصروف ہوتے ہیں تاکہ ایسے حالات میں کوئی ان پر شک بھی نہ کرسکے ۔
٭ آپ یہ سمجھیں کہ ہرقادیانی مبلغ ہے، طلبہ کے بھیس میں ، روزگار کی تلاش میں،بیمار کی شکل میں ، اخباری نمائندہ ہونے کے بہانے سے یعنی وہ جس روپ میں بھی ہوایک مبلغ ہے ،ہمیں ہر قادیانی سے بچنا ہے اور اپنا ایمان بچانا ہے اور دوسروں کو اس کا آلہ کار بننے سے روکنا ہے۔
٭ قادیانی کا خطرناک جال جس میں بڑے بڑے پھنس جاتے ہیں، کلمہ کی تبلیغ ، نرم اخلاق کا مظاہرہ ، شعائراسلام کا استعمال اور خود کو مسلمان بتلانا ہے۔ جب کوئی قادیانی تبلیغ کرے گا تو کہے گا ہم بھی مسلمان ہیں ،لاالااللہ محمد رسول اللہ کی تبلیغ کرتے ہیں، مساجد میں نماز ادا کرتے ہیں اورمرزا غلام احمد کو فقط ایک مبلغ اور مجدد مانتے ہیں جبکہ مرزا کو اپنا نبی مانتا ہے اور کلمہ میں محمد سے مراد بھی مرزا ہی لیتا ہے ، اس طرح شروع میں میٹھا زہردیں گے پھر موت کے گھات اتار دیں گے ۔ اس لئے کوئی مسلمان قادیانی سے دھوکہ نہ کھائے ، نہ کلمہ سے ، نہ اس کے شعائر سےاور نہ ہی اچھے اخلاق سے ۔
٭ ایک بڑے بھیانک فریب کا پتہ چلا ہے کہ قادیانیت کی تشہیر میں ایڈزسے بھی کام لیا جاتا ہے ۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ دوستی کے نام پہ لڑکیوں کے موبائل نمبر اخبارات وجرائد کے ذریعہ مشہور کئے جاتے ہیں ۔ یہ لڑکیاں دوستی کے بہانےلڑکوں کو زناکاری کے گروہ میں شامل کرتی ہیں جو ایڈس زدہ ہوتی ہیں ۔ جب لڑکوں کو ایڈس کا روگ لگ جاتا ہے تو اس گروہ کے لئے کام کرنا مجبوری بن جاتی ہے ۔قادیانیت کی تشہیر میں لڑکیوں کا استعمال کسی بھی طرح ہوسکتا ہے مثلا روزگار، شادی، تعلیم ، معاملات، تجارت وغیرہ
٭قادیانی کی طرف سے مختلف قسم کے محرف تراجم وتفاسیر موجود ہیں ، اسی سے زائد زبانوں میں قادیانی تراجم اور 200 سے زائد ممالک میں ان کی توزیع اس فرقے کے بڑھتے وسیع قدم کی طرف اشارہ کناں ہیں۔اب تو انڈورائیڈ موبائل میں قادیوں کی طرف سے مختلف زبانوں میں مختلف قسم کے قرآنی آیپ بھی ڈال دئے گئے ہیں ، ایسے بھی ایپ ہیں جن کی مدد سے 24 گھنٹے ان کی مذہبی نشریات سن سکتے ہیں ۔ اب تو قادیانی گھر گھر اور ہرفرد تک پہنچ گیا ، ایسے میں ہمیں کیا کرنا ہے سوچنے کا مقام ہے؟ جانتے ہیں سوشل میڈیا پہ قادیانی گروپ اور پیج چلانے والے باتنخواہ رکھے گئے ہیں ۔
٭ ایک ہتھکنڈہ جو ہرباطل مذہب کا ہے ، مادیت کا فریب ، اسنے بھی اپنارکھا ہے ۔ اس ہتھکنڈے سے ناخواندہ، نیم خواندہ اور مجبور وحاجتمندکو تعلیم، نوکری، مکان، علاج، پیسہ، خارجی ممالک کا سفراوردوسرے ممالک کی نشنلٹی کی خدمات مہیا کرکے بدلے میں دین کا سودا کرتا ہے۔
٭ ہندوستان میں آر ایس ایس اور ہندوتوا کے منصوبوں کی تکمیل میں شامل اور مسلمانوں کے خلاف ہرقسم کے مواد فراہم کرنے والا خطرناک ایجنٹ قادیانی ہے ۔آپ کو حیرت ہوگی غیرمسلم کو اسلامی تعلیمات میں شک کرنے، ان پر اعتراض کرنے اور مذاق اڑانے کا موقع کیسے ملتا ہے ؟ یہی غدار ہیں جو ہماری باتیں ان تک پہنچاتے ہیں اور قرآ ن وحدیث سے مواد تلاش تلاش کردیتے ہیں ، قرآن سے جہاد کی آیات نکالنے کا شوشہ دیتے ہیں ۔ قادیانی کا یہ ہتھیار نہ صرف ہندوستان میں چلایا جارہا ہے بلکہ ہرجگہ اسے آزمایا جارہا ہے ۔ خود کو سنی مسلمان کہنے والا ناپاک انسان طارق فتح کا کردار آپ کے سامنے ہے ۔
دنیا میں قادیانیت کے بڑھتے وسیع قدم اور ان کے اسباب آپ کے سامنے ہیں ، ایک مسلمان ہونے کے تئیں اس فتنے کا سدباب اور عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ ہرفرد بشر کی اولین ذمہ داری ہے ۔ آئیے آج عزم مصمم کرتے ہیں کہ ہم میں سے جو محرر ہے وہ تحریرسے، جو مقرر ہے وہ تقریر سے ، جو بااثر ہے وہ اپنے اثرسے، جو صاحب اقتدار ہے وہ قوت واقتدار سے اور جو مالدار ہے اپنے مال سے کلمہ توحید کو سربلندی اور عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ کرتے ہوئے فتنہ ارتداد کو روکے گا۔ ہم میں سے ہرپڑھا لکھا جس کے گردقادیانی رہتا ہےپوری زندگی میں کم ازکم ایک قادیانی کو اسلام میں داخل کرنے کی خالص نیت کرے ، مدد کرنے والا اللہ تعالی ہے ۔ عام آدمی کم ازکم اس ذمہ داری کا احساس کرے کہ جب بھی اسے کسی قادیانی مکروفریب کی خبرہوفورا مسلم شخصیات کو اطلاع کرے۔ اتنا تو ہرآدمی کر ہی سکتا ہے کہ اپنے اپنے گھر میں قادیانی الحادو کفراور اس کی چالبازیوں سے باخبرکرےجس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کے گھر کا مسلم اس فرقہ کا آلہ کار بننےسے بچ سکے گا۔ گفت وشنید سے معلوم ہواہےکہ بہت سے وہ مسلمان جو کسی مجبوی کے تحت قادیانی کا شکار ہوگئے ہیں اور انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے وہ واپس پلٹنا چاہتے ہیں مگر کوئی مددگار نہیں ملتا ، خودمیں اتنی جسارت محسوس نہیں کرپاتے کہ وہ قادیانی چنگل سے نکل سکیں کیونکہ اس فرقہ کی طرف سے تشددیا اپنے قادیانی رشتہ داروں سے تکلیف کا سامنا ہوسکتا ہے۔ایک اہم کام جو سمجھ میں آرہاہے ، وہ مخصوص مسلم تنظیم ہی کرسکتی ہے ، اس کی شکل یہ ہوگی کہ جہاں جہاں قادیانیت عروج پر ہےوہاں ہماری بھی ایک مخصوص ٹیم ہوجس میں مختلف علوم وفنون کے ماہرین شامل ہوں اور مختلف محاذ پر کام کی نوعیت تقسیم کرکے ردقادیانیت پر مخلصانہ کوشش کرے ۔ اس سلسلے میں صاحب ثروت بھی آگے آئیں اور اس نوعیت کا کام شروع کروائیں یا جہاں کام کیا جارہا ہے اس کا سپورٹ کریں ۔ یہ کام آپ کے حق میں اور اس میں شامل تمام افراد کے حق میں صدقہ جاریہ ہوگا۔ اللہ تعالی سے دعا ہیکہ ہمارے ایمان وعقیدے کی حفاظت فرمائے اور ہمیں احقاق حق اور ابطال باطل کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین