قافیہ کے بارے ایک علمی سوال

کیا کہنے قبلہ، آسی صاحب۔
بہ مصطفےٰ برسان خویش را کہ دین ہمہ اوست ۔۔۔۔ اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی ست
آپ کے دستخط جس مصطفیٰ رسی کی جانب اشارہ کرتے ہیں اس کا حق ادا کر دیا۔
جو مشورہ آپ کو دیا جائے گا، ضروری نہیں کہ وہی مجھے بھی دیا جائے (شاعر کا منہ بھی تو دیکھنا ہوتا ہے نا! :sneaky:)
ہمیں فقط اتنا بتائیے کہ اس رعونت کا جواز آپ کو قرآن سے ملا، حدیث نے دیا یا القا ہوا؟
 

ابن رضا

لائبریرین
تو گویا اندھا بھی قافیہ ہو سکتا ہے؟
میرے خیال میں روی اوراس کے بعد کے حروف جنہیں وصل ، خروج، مزید ، نائرہ وغیرہ کہا جاتا ہے یہ ردیف کا حصہ شمار ہوتے ہیں انہیں بدلا نہیں جا سکتا. د علیحدہ لفظ ہے اور دھ الگ
 
حضور زندگی راوی بے بسی چینی ہندی اگر بحر اجازت دے تو بالکل درست قوافی ہیں :):)
بہت عمدہ بات کی ہے۔ ہم قافیہ الفاظ کی فہرستیں بناتے ہوئے ہم بحر کو یا کم از کم ان الفاظ کی عروضی نشست و برخاست کو اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔
میں تو عرض کر دیا کرتا ہوں: "بہ شرطِ بحر" ۔۔ ۔۔
 
میرے خیال میں روی اوراس کے بعد کے حروف جنہیں وصل ، خروج، مزید ، نائرہ وغیرہ کہا جاتا ہے یہ ردیف کا حصہ شمار ہوتے ہیں انہیں بدلا نہیں جا سکتا. د علیحدہ لفظ ہے اور دھ الگ
یہاں بھی اپنی بات عرض کر دوں۔
ردیف در اصل قافیے ہی کی توسیع ہے۔ "حرفِ قافیہ" اور بعد کے جملہ حروف اور ان کے اعراب (آخرِ مصرع تک) متماثل ہونے چاہئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
 
یہاں بھی اپنی بات عرض کر دوں۔
ردیف در اصل قافیے ہی کی توسیع ہے۔ "حرفِ قافیہ" اور بعد کے جملہ حروف اور ان کے اعراب (آخرِ مصرع تک) متماثل ہونے چاہئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
قبلہ آسی صاحب۔ اب پتا چل رہا ہے کہ علوم قافیہ و عروض میں اس قدر سخت حدود بندیاں ہیں کہ مجھ جیسا بچونگڑا متشاعر کیا، سخن کے بڑے بڑے نامی گرامی پیر پہلوانوں کیبھی غلطیاں نکلنا کوئی بڑئی بڑی بات نہیں۔ رضا صاحب اچھا اور گہرا علم رکھنے والے بندے ہیں اور کسی چلتی پھرتی قافیہ ساز فیکٹری سے کم نہیں ہیں۔لیکن وہ قافیہ کے بارے مارشل لا جیسے جو سخت اصول و قوائد بتا رہے ہیں ، ان سے لگتا ہے کہ یقینی طور پر ناصر کاظمی، فراز اور فیض کے قافیوں میں بھی ان حدود سے تجاوز غلطیاں نکلیں گی۔ صاحب میں تو غزل کے 20 اشعار لکھ کر واپس مطلع پر آن اڑا ہوں۔
 

ابن رضا

لائبریرین
لیکن وہ قافیہ کے بارے مارشل لا جیسے جو سخت اصول و قوائد بتا رہے ہیں ، ان سے لگتا ہے کہ یقینی طور پر ناصر کاظمی، فراز اور فیض کے قافیوں میں بھی ان حدود سے تجاوز غلطیاں نکلیں گی۔
محترم یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جتنے بھی مستند یا استاد شعراء ہیں وہ قافیے کے مروجہ قوانین سے انحراف کرتے نہیں پائے جاتے. شروع شروع میں ہمیں بھی عروض کی پابندیاں زہر لگتی تھیں کہ تخیل کو سنبھالیں کہ وزن کو. پھر آسی صاحب کا اللہ بھلا کرے ان سے اور سر الف عین سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا. رفتہ رفتہ بہتری آتی گئی اور یہ سفر جاری ہے الحمدللہ. اسی طرح قافیے کی باریکیاں بھی حل ہو جائیں گی. آپ کے لیے کچھ معلومات نئی ہیں اس لیے سخت لگ رہی ہوں گی رفتہ رفتہ آپ بھی عادی ہو جایں گے. پہلے میں پورے پورے دیوان لکھ لیتا تھا کچھ دن میں اب ایک مصرع بھی مشکل سے ہوتا ہے کہ سر آسی صاحب و سر الف عین کی کمال نکتہ آفرینیاں سن سن کر ایسی خود تنقیدی کی عادت ہوگئی ہے کہ بہت کچھ کاٹنا پیٹنا پڑ جاتا ہے
 
آخری تدوین:
قبلہ آسی صاحب۔ اب پتا چل رہا ہے کہ علوم قافیہ و عروض میں اس قدر سخت حدود بندیاں ہیں کہ مجھ جیسا بچونگڑا متشاعر کیا، سخن کے بڑے بڑے نامی گرامی پیر پہلوانوں کیبھی غلطیاں نکلنا کوئی بڑئی بڑی بات نہیں۔ رضا صاحب اچھا اور گہرا علم رکھنے والے بندے ہیں اور کسی چلتی پھرتی قافیہ ساز فیکٹری سے کم نہیں ہیں۔لیکن وہ قافیہ کے بارے مارشل لا جیسے جو سخت اصول و قوائد بتا رہے ہیں ، ان سے لگتا ہے کہ یقینی طور پر ناصر کاظمی، فراز اور فیض کے قافیوں میں بھی ان حدود سے تجاوز غلطیاں نکلیں گی۔ صاحب میں تو غزل کے 20 اشعار لکھ کر واپس مطلع پر آن اڑا ہوں۔
محترم یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جتنے بھی مستند یا استاد شعراء ہیں وہ قافیے کے مروجہ قوانین سے انحراف کرتے نہیں پائے جاتے. شروع شروع میں ہمیں بھی عروض کی پابندیاں زہر لگتی تھیں کہ تخیل کو سنبھالیں کہ وزن کو. پھر آسی صاحب کا اللہ بھلا کرے ان سے اور سر الف عین سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا. رفتہ رفتہ بہتری آتی گئی اور یہ سفر جاری ہے الحمدللہ. اسی طرح قافیے کی باریکیاں بھی حل ہو جائیں گی. آپ کے لیے کچھ معلومات نئی ہیں اس لیے سخت لگ رہی ہوں گی رفتہ رفتہ آپ بھی عادی ہو جایں گے. پہلے میں پورے پورے دیوان لکھ لیتا تھا کچھ دن میں اب ایک مصرع بھی مشکل سے ہوتا ہے کہ سر آسی صاحب و سر الف عین کی کمال نکتہ آفرینایاں سن سن کر ایسی خود تنقیدی کی عادت ہوگئی ہے کہ بہت کچھ کاٹنا پیٹنا پڑ جاتا ہے

چھوٹا منہ بڑی بات: (میری اپنی بات)

بات نری علمائے عروض کے رویوں کی نہیں، ہمارے روایتی علم عروض کی طرح علم قافیہ میں بھی بنیاد تو عربی اور دوسرے درجے میں فارسی قواعد ہی رہے۔ اردو میں اور ان دونوں زبانوں میں جہاں بے شمار شراکتیں ہیں، وہاں بہت سارے افتراق بھی ہیں۔
فارسی کا صوتیاتی نظام اپنا ہے، عربی کا اپنا ہے، اردو کا اپنا ہے، مگر خیر! یہ دوسرا موضوع چل نکلے گا۔
اردو کو بہت سارے مقامات پر لچک چاہئے ہوتی ہے۔
مگر اسے پتہ نہیں کیا کہئے گا کہ مذکورہ قواعد کو اختیار اور مرتب کرنے میں ان افتراقات کو درخورِ اعتناء نہیں جانا گیا۔

اگرچہ روایت کی گرفت بہت سخت ہے تاہم اس فقیر نے کوشش کی ہے کہ علمِ قافیہ کو ممکنہ حد تک آسان فہم بنایا جائے اور اردو کے تقاضوں کو بجا اہمیت دی جائے۔
میری کاوش دیکھئے گا ضرور! منظور و نامنظور آپ کے ذوق پر ہے۔ یاد رہے کہ اس فقیر پر عروض کے معاملے میں بغاوت کا الزام پہلے سے موجود ہے، چلئے ایک اور سہی!
 
قبلہ آسی صاحب۔ اب پتا چل رہا ہے کہ علوم قافیہ و عروض میں اس قدر سخت حدود بندیاں ہیں کہ مجھ جیسا بچونگڑا متشاعر کیا، سخن کے بڑے بڑے نامی گرامی پیر پہلوانوں کیبھی غلطیاں نکلنا کوئی بڑئی بڑی بات نہیں۔ رضا صاحب اچھا اور گہرا علم رکھنے والے بندے ہیں اور کسی چلتی پھرتی قافیہ ساز فیکٹری سے کم نہیں ہیں۔لیکن وہ قافیہ کے بارے مارشل لا جیسے جو سخت اصول و قوائد بتا رہے ہیں ، ان سے لگتا ہے کہ یقینی طور پر ناصر کاظمی، فراز اور فیض کے قافیوں میں بھی ان حدود سے تجاوز غلطیاں نکلیں گی۔ صاحب میں تو غزل کے 20 اشعار لکھ کر واپس مطلع پر آن اڑا ہوں۔
آپ کا خدشہ بے جا ہے۔ ان بزرگوں کی "غلطیاں" نہیں نکلیں گی، بلکہ اگر کوئی غلطی ہو گی بھی تو مارشلی ریگولیشن نمبر 420 کی ذیلی شق الف، بے، جیم، داد اور 425 کی ذیلی شق "غیرمذکور" کے اشتراک سے "درست" قرار دی جائیں گی۔ میری اور آپ کی غلطیوں کو البتہ "غلوط" کا درجہ دیا جائے گا۔ اور میرے جیسے باغی کی سزا تو بارہ پتھر ہے ہی۔

:warzish:
 
:p:ROFLMAO:سر ہم نے اپنے دیوان جلا دیئے ہیں آپ بیس اشعار کی بات کر رہے ہیں
مال دار او جناب! ساڑ سکدے او، پھوک سکدے او، ڈھا سکدے او۔ :chill:
اسیں تاں ملبے وچوں وی اک اک شعر لبھ کے جھاڑ پونجھ کے، دھو مانج کے، ریکارڈ بناون دا جتن کر رہے آں۔ :cdrying:
 
آخری تدوین:
آپ کا خدشہ بے جا ہے۔ ان بزرگوں کی "غلطیاں" نہیں نکلیں گی، بلکہ اگر کوئی غلطی ہو گی بھی تو مارشلی ریگولیشن نمبر 420 کی ذیلی شق الف، بے، جیم، داد اور 425 کی ذیلی شق "غیرمذکور" کے اشتراک سے "درست" قرار دی جائیں گی۔ میری اور آپ کی غلطیوں کو البتہ "غلوط" کا درجہ دیا جائے گا۔ اور میرے جیسے باغی کی سزا تو بارہ پتھر ہے ہی۔

:warzish:
آسی صاحب ۔ ایتھے تے اوخوں وڈا عالم بنیا پھردا جنوں ککھ دا علم وی نئیں ۔ میرے استاد گرامی ہوری وی ایخو ای کہندے نیں کہ جناں بے لوث کم تسی کیتا اے، اونوں آون والیاں نسلاں یاد کرن گیاں۔ کوئی پڑھیا لکھیا جاہل یا حاسد منے نا منے پر سچی گل ایخو ای اے کہ اردو ادب تے تہاڈے بہوں احسان نیں صاحب۔ رب تہانوں لمبی حیاتی دیوے۔
 
آداب۔
اپنے مسودے کا ایک اہم پیراگراف نقل کر رہا ہوں:

آسان علمِ قافیہ کے خدوخال

ہمیں علمِ قافیہ کے مروجہ نظام اور تعریفات میں متعدد ترامیم کرنی ہوں گی۔ مقاصدمختصراً یہ ہیں:
(۱) قافیہ کی تعیین اور اعلان کو یقینی بنانا۔
(۲) حرفِ روی اور اس کے متعلقات کو سادہ کرنا۔
(۳) ممکنہ حد تک حتمیت پیدا کرنا۔
(۴) اصطلاحات کی فہرست کو جامع اور مختصر کرنا۔
(۵) زمین (وزن، قافیہ اور ردیف) میں مطابقت پیدا کرنا۔
(۶) قوافی کی گروہ بندی عیوب کی بجائے محاسن کی بنیاد پر کرنا۔
(۷) اردو میں رائج اصوات کو اہمیت دینا۔
(۸) علم قافیہ کی تفہیم کو آسان بنانا۔

سو، ہم یہ سفارش کرتے ہیں کہ
اول: عالمِ قوافی کو شاعر کے لئے ممتحن کی بجائے اتالیق کا کردار ادا کرنا چاہئے۔
دوم: قوافی کی درجہ بندی عیوب یا نقائص کی بجائے محاسن کی بنیاد پر کی جائے۔

 
حرفِ روی کے حوالے سے ایک تفصیلی مضمون جو کہ دو ڈھائی سال قبل لکھا تھا۔ اس دھاگے کے سوال سمیت مبتدیان کے قافیے کے حوالے سے دیگر بیسیوں سوالات حل ہو سکتے ہیں۔ بشرطیکہ تھوڑا وقت دے کر سمجھ لیا جائے۔
مزمل صاحب، ڈاکٹر ابن رضا صاحب نے تو مرض لا علاج قرار دے دیا ہے÷ آپ سخن کے عالم ہیںآپ وڈے ڈاکٹر ہیں آپ کی میرے اس سوال کے بارے کیا قیمتی رائے ہے ۔ اس مرض کا کوئی علاج ؟ مشکل حل کیجے صاحب ! شکرگزار ہوں گا
اگر مطلع ہے
وہ شکل نظر میں گھومتی ہے
ساغر میں شراب ناچتی ہے

کیا اس صورت میں اسے "تی" پر ختم ہونے والے الفاظ کیلیے پابند اعلان قافیہ سمجھا جائے گا یا اس غزل میں چاندنی، روشنی، لگی، رہی دیدنی، جھولتی جیسے "یہ" پر ختم ہونے والے الفاظ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک بات تو کلیئر ہے کہ اگر مطلع میں پہلے مصرع میں گھومتی اور دوسرے میں چومتی ہوتا تو پھر باقی قافیے بھی صرف اسی طرح جھولتی ، اونگھتی ، سونگھتی وغیرہ ہی ہو سکتے تھے۔ اب جبکہ اس مطلع کے دونوں قافیوں میں تی سے پہلے حروف آزاد ہیں تو کیا اسے آزاد قافیہ سمجھ کر ، چاندنی ، رہی اور تیرگی جیسے قافیے استعمال ہو سکتے ہیں یا صرف تی پر ختم ہونے والے قافیے درست ہوں گے؟

یعنی بقیہ مصرعوں میں اگر
جھولتی ہے
رہی ہے
دیدنی ہے
آگہی ہے
جیسے الفاظ باندھے جائیں تو درست ہو گا یا غلط

شکریہ
 

ابن رضا

لائبریرین
ابن رضا صاحب نے تو مرض لا علاج قرار دے دیا ہے÷ آپ سخن کے عالم ہیںآپ وڈے ڈاکٹر ہیں آپ کی میرے اس سوال کے بارے کیا قیمتی رائے ہے ۔ اس مرض کا کوئی علاج ؟ مشکل حل کیجے صاحب ! شکرگزار ہوں گا
قبلہ میں نے صرف مرض کی تشخیص کر کے آپ کو ایکسرے تجویز کیا ہے لاعلاج ہرگز نہیں کہا آپ اپنے اشعار یہاں پیش کیجیے یہاں کئی محترم آپ کو سستی دوائی بھی لکھ دیں گے . حسبِ توفیق میں بھی اپنا چورن پیش کر دوں گا. جس سے افاقہ ہونے کے بھی چانسز ہیں :LOL::ROFLMAO:

مگر آپ نے اب وڈے ڈاکٹر صاحب سے اپوئنٹمنٹ لے لی ہے تو وہ آپ کو ایکسرے سے سیدھا سی ٹی سکین تجویز کر دیں گے اور پھر دوائی بھی مہنگی والی لکھ دیں گے. پھر میں آپ سے پوچھوں گا کہ "ہُن آرام اے" ;)
 
آخری تدوین:
قبلہ میں نے صرف مرض کی تشخیص کر کے آپ کو ایکسرے تجویز کیا ہے لاعلاج ہرگز نہیں کہا آپ اپنے اشعار یہاں پیش کیجیے یہاں کئی محترم آپ کو سستی دوائی بھی لکھ دیں گے . حسبِ توفیق میں بھی اپنا چورن پیش کر دوں گا. جس سے افاقہ ہونے کی بھی چانسز ہیں :LOL::ROFLMAO:

مگر آپ نے اب وڈے ڈاکٹر صاحب سے اپوئنٹمنٹ لے لی ہے تو وہ آپ کو ایکسرے سے سیدھا سی ٹی سکین تجویز کر دیں گے اور پھر دوائی بھی مہنگی والی لکھ دیں گے. پھر میں آپ سے پوچھوں گا کہ "ہُن آرام اے" ;)
او یار جی، میں تے ایویں رونق لائی سی ۔۔۔ رضا صاحب باخدا میں آپ کی علمی قابلیت پر شک نہیں کر رہا ، لیکن ایک سیکنڈ کنسلٹیشن لی ہے صاحب:curl-lip:
 
مزمل صاحب، ڈاکٹر ابن رضا صاحب نے تو مرض لا علاج قرار دے دیا ہے÷ آپ سخن کے عالم ہیںآپ وڈے ڈاکٹر ہیں آپ کی میرے اس سوال کے بارے کیا قیمتی رائے ہے ۔ اس مرض کا کوئی علاج ؟ مشکل حل کیجے صاحب ! شکرگزار ہوں گا
اگر مطلع ہے
وہ شکل نظر میں گھومتی ہے
ساغر میں شراب ناچتی ہے

کیا اس صورت میں اسے "تی" پر ختم ہونے والے الفاظ کیلیے پابند اعلان قافیہ سمجھا جائے گا یا اس غزل میں چاندنی، روشنی، لگی، رہی دیدنی، جھولتی جیسے "یہ" پر ختم ہونے والے الفاظ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک بات تو کلیئر ہے کہ اگر مطلع میں پہلے مصرع میں گھومتی اور دوسرے میں چومتی ہوتا تو پھر باقی قافیے بھی صرف اسی طرح جھولتی ، اونگھتی ، سونگھتی وغیرہ ہی ہو سکتے تھے۔ اب جبکہ اس مطلع کے دونوں قافیوں میں تی سے پہلے حروف آزاد ہیں تو کیا اسے آزاد قافیہ سمجھ کر ، چاندنی ، رہی اور تیرگی جیسے قافیے استعمال ہو سکتے ہیں یا صرف تی پر ختم ہونے والے قافیے درست ہوں گے؟

یعنی بقیہ مصرعوں میں اگر
جھولتی ہے
رہی ہے
دیدنی ہے
آگہی ہے
جیسے الفاظ باندھے جائیں تو درست ہو گا یا غلط

شکریہ

مطلع کے دونوں میں سے کسی ایک مصرع میں یائے اصلی یا پھر ی بقام اصلی کو قافیہ کر دیں۔ اس وقت ایسی کوئی مثال ذہن میں نہیں آرہی جو آپ کے شعر کی مناسبت کے ساتھ وزن میں مطابقت رکھتی ہو۔ البتہ الفاظ جیسے: کی، لی، دی اور رہی وغیرھم میں یائے معروف کو بقام اصلی مانا جاتا ہے۔ چنانچہ ایسے کسی بھی قافیہ کو آپ مطلع کے ایک مصرع میں لائیں اور باقی مصاریع میں روشنی، تیرگی، زندگی، دیدنی۔ آگہی وغیرہ کو قافیہ کردیں۔
 
مطلع کے دونوں میں سے کسی ایک مصرع میں یائے اصلی یا پھر ی بقام اصلی کو قافیہ کر دیں۔ اس وقت ایسی کوئی مثال ذہن میں نہیں آرہی جو آپ کے شعر کی مناسبت کے ساتھ وزن میں مطابقت رکھتی ہو۔ البتہ الفاظ جیسے: کی، لی، دی اور رہی وغیرھم میں یائے معروف کو بقام اصلی مانا جاتا ہے۔ چنانچہ ایسے کسی بھی قافیہ کو آپ مطلع کے ایک مصرع میں لائیں اور باقی مصاریع میں روشنی، تیرگی، زندگی، دیدنی۔ آگہی وغیرہ کو قافیہ کردیں۔
شیخ صاحب!!! آپکی اور ابن رضا صاحب کی علمی رائے سے متفق ہوں۔ لیکن ابھی مصرع اولی کیلئے کوئی متبادل لفظ نہیں ملا، اس لئے اسے پنڈنگ رکھ کر اگلی غزل شروع کر دی ہے
 
Top