محمد یعقوب آسی
محفلین
ایسے مواقع پر ایک آئیکان کی کمی محسوس ہوتی ہے :دلچسپ:جی ہاں ! مگر وہ اندھا قافیہ ہوگا۔
آخری تدوین:
ایسے مواقع پر ایک آئیکان کی کمی محسوس ہوتی ہے :دلچسپ:جی ہاں ! مگر وہ اندھا قافیہ ہوگا۔
ہمیں فقط اتنا بتائیے کہ اس رعونت کا جواز آپ کو قرآن سے ملا، حدیث نے دیا یا القا ہوا؟جو مشورہ آپ کو دیا جائے گا، ضروری نہیں کہ وہی مجھے بھی دیا جائے (شاعر کا منہ بھی تو دیکھنا ہوتا ہے نا! )
میرے خیال میں روی اوراس کے بعد کے حروف جنہیں وصل ، خروج، مزید ، نائرہ وغیرہ کہا جاتا ہے یہ ردیف کا حصہ شمار ہوتے ہیں انہیں بدلا نہیں جا سکتا. د علیحدہ لفظ ہے اور دھ الگتو گویا اندھا بھی قافیہ ہو سکتا ہے؟
بہت عمدہ بات کی ہے۔ ہم قافیہ الفاظ کی فہرستیں بناتے ہوئے ہم بحر کو یا کم از کم ان الفاظ کی عروضی نشست و برخاست کو اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔حضور زندگی راوی بے بسی چینی ہندی اگر بحر اجازت دے تو بالکل درست قوافی ہیں
یہاں بھی اپنی بات عرض کر دوں۔میرے خیال میں روی اوراس کے بعد کے حروف جنہیں وصل ، خروج، مزید ، نائرہ وغیرہ کہا جاتا ہے یہ ردیف کا حصہ شمار ہوتے ہیں انہیں بدلا نہیں جا سکتا. د علیحدہ لفظ ہے اور دھ الگ
قبلہ آسی صاحب۔ اب پتا چل رہا ہے کہ علوم قافیہ و عروض میں اس قدر سخت حدود بندیاں ہیں کہ مجھ جیسا بچونگڑا متشاعر کیا، سخن کے بڑے بڑے نامی گرامی پیر پہلوانوں کیبھی غلطیاں نکلنا کوئی بڑئی بڑی بات نہیں۔ رضا صاحب اچھا اور گہرا علم رکھنے والے بندے ہیں اور کسی چلتی پھرتی قافیہ ساز فیکٹری سے کم نہیں ہیں۔لیکن وہ قافیہ کے بارے مارشل لا جیسے جو سخت اصول و قوائد بتا رہے ہیں ، ان سے لگتا ہے کہ یقینی طور پر ناصر کاظمی، فراز اور فیض کے قافیوں میں بھی ان حدود سے تجاوز غلطیاں نکلیں گی۔ صاحب میں تو غزل کے 20 اشعار لکھ کر واپس مطلع پر آن اڑا ہوں۔یہاں بھی اپنی بات عرض کر دوں۔
ردیف در اصل قافیے ہی کی توسیع ہے۔ "حرفِ قافیہ" اور بعد کے جملہ حروف اور ان کے اعراب (آخرِ مصرع تک) متماثل ہونے چاہئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
محترم یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جتنے بھی مستند یا استاد شعراء ہیں وہ قافیے کے مروجہ قوانین سے انحراف کرتے نہیں پائے جاتے. شروع شروع میں ہمیں بھی عروض کی پابندیاں زہر لگتی تھیں کہ تخیل کو سنبھالیں کہ وزن کو. پھر آسی صاحب کا اللہ بھلا کرے ان سے اور سر الف عین سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا. رفتہ رفتہ بہتری آتی گئی اور یہ سفر جاری ہے الحمدللہ. اسی طرح قافیے کی باریکیاں بھی حل ہو جائیں گی. آپ کے لیے کچھ معلومات نئی ہیں اس لیے سخت لگ رہی ہوں گی رفتہ رفتہ آپ بھی عادی ہو جایں گے. پہلے میں پورے پورے دیوان لکھ لیتا تھا کچھ دن میں اب ایک مصرع بھی مشکل سے ہوتا ہے کہ سر آسی صاحب و سر الف عین کی کمال نکتہ آفرینیاں سن سن کر ایسی خود تنقیدی کی عادت ہوگئی ہے کہ بہت کچھ کاٹنا پیٹنا پڑ جاتا ہےلیکن وہ قافیہ کے بارے مارشل لا جیسے جو سخت اصول و قوائد بتا رہے ہیں ، ان سے لگتا ہے کہ یقینی طور پر ناصر کاظمی، فراز اور فیض کے قافیوں میں بھی ان حدود سے تجاوز غلطیاں نکلیں گی۔
سر ہم نے اپنے دیوان جلا دیئے ہیں آپ بیس اشعار کی بات کر رہے ہیںمیں تو غزل کے 20 اشعار لکھ کر واپس مطلع پر آن اڑا ہوں۔
قبلہ آسی صاحب۔ اب پتا چل رہا ہے کہ علوم قافیہ و عروض میں اس قدر سخت حدود بندیاں ہیں کہ مجھ جیسا بچونگڑا متشاعر کیا، سخن کے بڑے بڑے نامی گرامی پیر پہلوانوں کیبھی غلطیاں نکلنا کوئی بڑئی بڑی بات نہیں۔ رضا صاحب اچھا اور گہرا علم رکھنے والے بندے ہیں اور کسی چلتی پھرتی قافیہ ساز فیکٹری سے کم نہیں ہیں۔لیکن وہ قافیہ کے بارے مارشل لا جیسے جو سخت اصول و قوائد بتا رہے ہیں ، ان سے لگتا ہے کہ یقینی طور پر ناصر کاظمی، فراز اور فیض کے قافیوں میں بھی ان حدود سے تجاوز غلطیاں نکلیں گی۔ صاحب میں تو غزل کے 20 اشعار لکھ کر واپس مطلع پر آن اڑا ہوں۔
محترم یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جتنے بھی مستند یا استاد شعراء ہیں وہ قافیے کے مروجہ قوانین سے انحراف کرتے نہیں پائے جاتے. شروع شروع میں ہمیں بھی عروض کی پابندیاں زہر لگتی تھیں کہ تخیل کو سنبھالیں کہ وزن کو. پھر آسی صاحب کا اللہ بھلا کرے ان سے اور سر الف عین سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا. رفتہ رفتہ بہتری آتی گئی اور یہ سفر جاری ہے الحمدللہ. اسی طرح قافیے کی باریکیاں بھی حل ہو جائیں گی. آپ کے لیے کچھ معلومات نئی ہیں اس لیے سخت لگ رہی ہوں گی رفتہ رفتہ آپ بھی عادی ہو جایں گے. پہلے میں پورے پورے دیوان لکھ لیتا تھا کچھ دن میں اب ایک مصرع بھی مشکل سے ہوتا ہے کہ سر آسی صاحب و سر الف عین کی کمال نکتہ آفرینایاں سن سن کر ایسی خود تنقیدی کی عادت ہوگئی ہے کہ بہت کچھ کاٹنا پیٹنا پڑ جاتا ہے
آپ کا خدشہ بے جا ہے۔ ان بزرگوں کی "غلطیاں" نہیں نکلیں گی، بلکہ اگر کوئی غلطی ہو گی بھی تو مارشلی ریگولیشن نمبر 420 کی ذیلی شق الف، بے، جیم، داد اور 425 کی ذیلی شق "غیرمذکور" کے اشتراک سے "درست" قرار دی جائیں گی۔ میری اور آپ کی غلطیوں کو البتہ "غلوط" کا درجہ دیا جائے گا۔ اور میرے جیسے باغی کی سزا تو بارہ پتھر ہے ہی۔قبلہ آسی صاحب۔ اب پتا چل رہا ہے کہ علوم قافیہ و عروض میں اس قدر سخت حدود بندیاں ہیں کہ مجھ جیسا بچونگڑا متشاعر کیا، سخن کے بڑے بڑے نامی گرامی پیر پہلوانوں کیبھی غلطیاں نکلنا کوئی بڑئی بڑی بات نہیں۔ رضا صاحب اچھا اور گہرا علم رکھنے والے بندے ہیں اور کسی چلتی پھرتی قافیہ ساز فیکٹری سے کم نہیں ہیں۔لیکن وہ قافیہ کے بارے مارشل لا جیسے جو سخت اصول و قوائد بتا رہے ہیں ، ان سے لگتا ہے کہ یقینی طور پر ناصر کاظمی، فراز اور فیض کے قافیوں میں بھی ان حدود سے تجاوز غلطیاں نکلیں گی۔ صاحب میں تو غزل کے 20 اشعار لکھ کر واپس مطلع پر آن اڑا ہوں۔
مال دار او جناب! ساڑ سکدے او، پھوک سکدے او، ڈھا سکدے او۔سر ہم نے اپنے دیوان جلا دیئے ہیں آپ بیس اشعار کی بات کر رہے ہیں
آسی صاحب ۔ ایتھے تے اوخوں وڈا عالم بنیا پھردا جنوں ککھ دا علم وی نئیں ۔ میرے استاد گرامی ہوری وی ایخو ای کہندے نیں کہ جناں بے لوث کم تسی کیتا اے، اونوں آون والیاں نسلاں یاد کرن گیاں۔ کوئی پڑھیا لکھیا جاہل یا حاسد منے نا منے پر سچی گل ایخو ای اے کہ اردو ادب تے تہاڈے بہوں احسان نیں صاحب۔ رب تہانوں لمبی حیاتی دیوے۔آپ کا خدشہ بے جا ہے۔ ان بزرگوں کی "غلطیاں" نہیں نکلیں گی، بلکہ اگر کوئی غلطی ہو گی بھی تو مارشلی ریگولیشن نمبر 420 کی ذیلی شق الف، بے، جیم، داد اور 425 کی ذیلی شق "غیرمذکور" کے اشتراک سے "درست" قرار دی جائیں گی۔ میری اور آپ کی غلطیوں کو البتہ "غلوط" کا درجہ دیا جائے گا۔ اور میرے جیسے باغی کی سزا تو بارہ پتھر ہے ہی۔
مزمل صاحب، ڈاکٹر ابن رضا صاحب نے تو مرض لا علاج قرار دے دیا ہے÷ آپ سخن کے عالم ہیںآپ وڈے ڈاکٹر ہیں آپ کی میرے اس سوال کے بارے کیا قیمتی رائے ہے ۔ اس مرض کا کوئی علاج ؟ مشکل حل کیجے صاحب ! شکرگزار ہوں گاحرفِ روی کے حوالے سے ایک تفصیلی مضمون جو کہ دو ڈھائی سال قبل لکھا تھا۔ اس دھاگے کے سوال سمیت مبتدیان کے قافیے کے حوالے سے دیگر بیسیوں سوالات حل ہو سکتے ہیں۔ بشرطیکہ تھوڑا وقت دے کر سمجھ لیا جائے۔
قبلہ میں نے صرف مرض کی تشخیص کر کے آپ کو ایکسرے تجویز کیا ہے لاعلاج ہرگز نہیں کہا آپ اپنے اشعار یہاں پیش کیجیے یہاں کئی محترم آپ کو سستی دوائی بھی لکھ دیں گے . حسبِ توفیق میں بھی اپنا چورن پیش کر دوں گا. جس سے افاقہ ہونے کے بھی چانسز ہیںابن رضا صاحب نے تو مرض لا علاج قرار دے دیا ہے÷ آپ سخن کے عالم ہیںآپ وڈے ڈاکٹر ہیں آپ کی میرے اس سوال کے بارے کیا قیمتی رائے ہے ۔ اس مرض کا کوئی علاج ؟ مشکل حل کیجے صاحب ! شکرگزار ہوں گا
او یار جی، میں تے ایویں رونق لائی سی ۔۔۔ رضا صاحب باخدا میں آپ کی علمی قابلیت پر شک نہیں کر رہا ، لیکن ایک سیکنڈ کنسلٹیشن لی ہے صاحبقبلہ میں نے صرف مرض کی تشخیص کر کے آپ کو ایکسرے تجویز کیا ہے لاعلاج ہرگز نہیں کہا آپ اپنے اشعار یہاں پیش کیجیے یہاں کئی محترم آپ کو سستی دوائی بھی لکھ دیں گے . حسبِ توفیق میں بھی اپنا چورن پیش کر دوں گا. جس سے افاقہ ہونے کی بھی چانسز ہیں
مگر آپ نے اب وڈے ڈاکٹر صاحب سے اپوئنٹمنٹ لے لی ہے تو وہ آپ کو ایکسرے سے سیدھا سی ٹی سکین تجویز کر دیں گے اور پھر دوائی بھی مہنگی والی لکھ دیں گے. پھر میں آپ سے پوچھوں گا کہ "ہُن آرام اے"
مزمل صاحب، ڈاکٹر ابن رضا صاحب نے تو مرض لا علاج قرار دے دیا ہے÷ آپ سخن کے عالم ہیںآپ وڈے ڈاکٹر ہیں آپ کی میرے اس سوال کے بارے کیا قیمتی رائے ہے ۔ اس مرض کا کوئی علاج ؟ مشکل حل کیجے صاحب ! شکرگزار ہوں گا
اگر مطلع ہے
وہ شکل نظر میں گھومتی ہے
ساغر میں شراب ناچتی ہے
کیا اس صورت میں اسے "تی" پر ختم ہونے والے الفاظ کیلیے پابند اعلان قافیہ سمجھا جائے گا یا اس غزل میں چاندنی، روشنی، لگی، رہی دیدنی، جھولتی جیسے "یہ" پر ختم ہونے والے الفاظ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک بات تو کلیئر ہے کہ اگر مطلع میں پہلے مصرع میں گھومتی اور دوسرے میں چومتی ہوتا تو پھر باقی قافیے بھی صرف اسی طرح جھولتی ، اونگھتی ، سونگھتی وغیرہ ہی ہو سکتے تھے۔ اب جبکہ اس مطلع کے دونوں قافیوں میں تی سے پہلے حروف آزاد ہیں تو کیا اسے آزاد قافیہ سمجھ کر ، چاندنی ، رہی اور تیرگی جیسے قافیے استعمال ہو سکتے ہیں یا صرف تی پر ختم ہونے والے قافیے درست ہوں گے؟
یعنی بقیہ مصرعوں میں اگر
جھولتی ہے
رہی ہے
دیدنی ہے
آگہی ہے
جیسے الفاظ باندھے جائیں تو درست ہو گا یا غلط
شکریہ
شیخ صاحب!!! آپکی اور ابن رضا صاحب کی علمی رائے سے متفق ہوں۔ لیکن ابھی مصرع اولی کیلئے کوئی متبادل لفظ نہیں ملا، اس لئے اسے پنڈنگ رکھ کر اگلی غزل شروع کر دی ہےمطلع کے دونوں میں سے کسی ایک مصرع میں یائے اصلی یا پھر ی بقام اصلی کو قافیہ کر دیں۔ اس وقت ایسی کوئی مثال ذہن میں نہیں آرہی جو آپ کے شعر کی مناسبت کے ساتھ وزن میں مطابقت رکھتی ہو۔ البتہ الفاظ جیسے: کی، لی، دی اور رہی وغیرھم میں یائے معروف کو بقام اصلی مانا جاتا ہے۔ چنانچہ ایسے کسی بھی قافیہ کو آپ مطلع کے ایک مصرع میں لائیں اور باقی مصاریع میں روشنی، تیرگی، زندگی، دیدنی۔ آگہی وغیرہ کو قافیہ کردیں۔