"مجرے" پر فتوے دینے والوں کا مطالعہ سطحی ہے اور کلچر پر لعنت بھیجنے والے احساس کمتری کا شکار۔ کبھی مطالعہ کریں تو پتہ چلے کہ علماء میں کتنے بڑے بڑے نام ایسے ہیں جو کوٹھے پر باقاعدگی سے جاتے تھے ۔ اور جسے آج ہم کوٹھا کہتے ہیں اردو ادب و ثقافت میں اس کا کیا کردار ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ ہم دوسروں کے رنگ میں اس قدر رنگ چکے ہیں کہ اپنی خبر بھی نہیں رکھتے۔
جزاک اللہعجب زمانہ آگیا کہ لوگوں کو دیکھ کر حق کو پچانتے ہیں۔۔۔ بھائیو پہلے حق کو پہچانو پھر کون اھل حق ہے خود پتہ لگ جائے گا۔
عالم ہونے سے کوئی شخص معصوم نہیں ہوتا۔۔۔ علماء بھی گناہ کرتے ہیں۔۔
دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے مذہب ، دین اور ثقافت میں آیا ایسے کام جائز یا مناسب ہیں؟؟
جس قوم کے حکمران ایسے ہوں اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔
اگر علامہ اقبال کوٹھے پہ جاتے بھی تھے، کسی طوائف کے عشق میں مبتلا بھی تھے، اگر اسے قتل بھی کیا تھا اور ”اسلام پسند انگریزی حکومت“ نے ”قاتل علامہ اقبال“ کو اس قتل پر اس لئے کچھ نہیں کہا تھا کہ وہ ”بے داڑھی والے مولوی“ تھے اور اپنی شاعری سے اسلامی تعلیمات کو عام کر رہے تھے ۔۔۔ اگر یہ سارے مفروضے ”درست“ بھی ہوں تب بھی علامہ نے اپنے ان ”کارہائے نمایاں“ کوغالب و دیگر ”اردو ثقافت کے علمبردار“ شعراء کی طرح کبھی اپنے لئے ”باعث فخر“ نہیں جانا اور نہ ہی مجروں کی شان میں قصیدے لکھے۔انہوں نے توقتل کرنے سے پہلے بھی 5 سال سوچا ہوگا۔۔۔
اور اگر قتل کیا ہوتا تو ایک نظم تو ہوتی اس پر۔۔
ابن سعید ۔۔۔۔بات کچھ اور ہورہی تھی اوراچانک گفتگو کا رخ کسی اور نہج پر جارہا ہے۔
قطع نظر اوپر موجودہ نہج اور رخ کے شہروں کی ثقافت الگ ہوتی ہے اور گاؤں کی ثقافت کچھ مختلف ہوتی ہے اسی وجہ سے دیہات اور شہر میں فرق ہوتا ہے ورنہ پھر شہر اور دیہات میں تفریق کیوں ہوتی۔
ہماری مؤجودہ نسل کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ رکھیل،طوائف، کسبی اور بیسوا میں فرق کیا ہوتا ہے میرا نہیں خیال کہ محفل پر سوائے ابن سعید بھیا کہ شائد معدودے چند افراد ہی ہونگے جن کو اس کا فرق معلوم ہوگا۔
مسٹر ساجد چلے ہیں کوٹھے کی باتیں کرنے جناب وہ ثقافت و ماحول بٹوارے کے ساتھ ہی مٹ چکا ختم ہوچکا اور جو اکا دکا خاندان اس روایت کو چلا رہے تھے اس پر امیرالمؤمؤمنین مومن مرد حق ضیاء الحق ضیاء الحق (پیڑا منہ تے پیڑا ناک) نے کریک ڈاؤن کرکے بیخ و بن سے اکھاڑ چکے ہیں نتیجتا گلی گلی فحاشی کے اڈے پھیل چکے ہیں۔