اشرف علی بستوی
محفلین
اشرف علی بستوی
ملک کے دارالحکومت دہلی کی طالبہ کے ساتھ زیادتی کے واقعے نے ملک گیر سطح پر قانون کو سخت بنانے کی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس زیادتی کی مذمت ملک کے دارالحکومت دہلی کی طالبہ کے ساتھ زیادتی کے واقعے نے ملک گیر سطح پر قانون کو مزید سخت بنانے کی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس زیادتی کی مذمت ملک بھر میں بجا طور پر کی جارہی ہے۔ چہار جانب سے یہ آوازیں بلند ہورہی ہیں کہ قصوروار افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ہرممکن قدم اٹھائے جائیں نیز موجودہ قانون کو تبدیل کرکے اسے اور سخت بنایا جائے۔ یہ بحث ٹھیک اسی طرز پر ہورہی ہے جب 26؍ نومبر2008کو ممبئی میں دہشت گردانہ حملے ہوئے تھے اس وقت بھی اسی انداز میں ملک کے سیاسی اور سماجی حلقوں نے پرزور مطالبہ کرنا شروع کردیا تھا کہ موجودہ قوانین ناکافی ہیں لہٰذا دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے مزید سخت قوانین بنائے جائیں چنانچہ اس دباؤ کے نتیجے میں ملک کو شہریوں کی آزادی پر قدغن لگانے والا کالا قانون یو اے پی اے ایکٹ ملا جسے حالیہ ترمیم کے بعد اور ایک قومی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے کی تشکیل عمل میں آئی، جبکہ اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کیلئے پہلے ہی سے قوانین موجود تھے لیکن ان پر بغیر کسی بحث کے انہیں ناکافی قرا ر دے دیاگیا۔ اب اس موقع پر بھی اس طرح کے دلائل دیے جارہے ہیں کہ خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے واقعات سے نمٹنے کے لئے تعزیرات ہند کی دفعہ 376 ناکافی ہے۔ اس کو تبدیل کرکے مزید سخت بنانے کی ضرورت ہے۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ26؍دسمبر کوقومی ترقیاتی کونسل کی میٹنگ میں بھی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سمیت ملک کی دیگر ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے موجودہ قانون کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ میٹنگ ترقیاتی منصوبوں کو روبہ عمل لانے اور آئندہ کی تجاویز پر غورو خوض کے لئے بلائی گئی تھی لیکن پوری میٹنگ میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے خلاف سخت قانون بنانے کا مطالبہ زور وشور سے کیا گیا۔ وزیراعظم نے یقین دلایا کہ سرکار موجودہ قانون کو تبدیل کرکے اور بھی سخت قانون بنانے پر غور کر رہی ہے۔ جبکہ یہاں بحث کا موضوع یہ ہوناچاہئے تھا کہ کیا موجودہ قانون صحیح معنوں میں کمزور ہے؟ یا قانون کے نفاذ میں کسی طرح کے تساہل کے سبب ملزمین کو جلد انصاف نہیں مل پاتا؟ او راگر قانون میںکمزوری ہے تو آزادی کے 65 برس گزر جانے کے بعد آج تک اسی صورت میں کیوں استعمال کیاجاتا رہا؟ کیا ماضی میں خواتین کے ساتھ اس نوعیت کی درندگی کے اور واقعات پیش نہیں آئے تھے، نیز اس طرح کے واقعات پیش آنے کے عوامل کیا ہیں؟ کیا شہریوں کو اپنے رہن سہن پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے؟ اس درندگی کے لئے کون کس حد تک ذمے دار ہے ؟حیرت کی بات یہ ہے کہ یہی زیادتی جب کسی غیرملکی خاتون کے ساتھ پیش آتی ہے تو ہمارے ملک کایہی موجودہ قانون اس قدرفعال ہوجاتا ہے کہ فیصلے ماہ وسال نہیں بلکہ چند دنوں میں ہوجاتے ہیں، معاملہ ہائی پروفائل فیملی سے متعلق ہوتو ہمارا یہی نظام کافی چاق وچوبند ہوجاتا ہے۔ایسے درجنوں معاملات کو بطور مثال پیش کیاجاسکتا ہے جن میں متاثرہ خاتون کے غیرملکی ہونے کی وجہ سے فیصلے بہت جلد آئے ہیں ۔ راجستھان سے آنے والی خبروں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ الور ضلع کی فاسٹ ٹریک عدالت نے جرمنی کی ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کے واقعے میں محض نو دن بعد ہی ملزم کو سات برس کی سزا سنا دی تھی۔ اس سے قبل2005میں جو دھپور میں جرمنی کی ایک خاتون سیاح کے ساتھ زیادتی کے واقعے میں محض دو ہفتے ہی میں عدالتی کارروائی مکمل کرلی گئی تھی۔ اس معاملے میں فاسٹ ٹریک عدالت نے دو افراد کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ اسی طرح کا ایک واقعہ2006 میں ایک جاپانی خاتون کے ساتھ پشکر کے ایک گیسٹ ہاؤس میں پیش آیا تھا جس میں عدالت نے صرف تین ماہ میں قصورواروں کو سزا سنا دی تھی۔ مگر یہی معاملہ جب اپنے ملک کے باشندوں کے ساتھ پیش آتا ہے تو ان ہی فاسٹ ٹریک عدالتو سے فیصلے آنے میں پندرہ برس لگ جاتے ہیں۔ جے پور کی ایک عدالت نے ابھی دو ماہ قبل ایک پندرہ سال پرانے مقدمے میں آٹھ افراد کو سزا سنائی ہے، جبکہ دو ملزمین پندرہ برس بعد بھی گرفت سے باہر ہیں۔یہ واقعہ5؍ستمبر2007کو راجستھان یونیورسٹی کی ایک طالبہ کے ساتھ پیش آیا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو حلقے سخت قانون سازی کا مطالبہ کر رہے ہیں انہیں متذکرہ بالا امور پر توجہ دینی چاہئےاور اس پر غور کرناچاہئے کہ کیا محض سخت قانون سازی ہی مسئلے کا حل ہے؟ صرف ایک پہلو پر بحث سے صورتحال میں مثبت تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قومی ترقیاتی کونسل کی میٹنگ میں صرف معاملے کے ایک ہی پہلو پر بات کی گئی اور قانون کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ غور طلب امر یہ ہے کہ اس درمیان یہ بھی دیکھا گیا کہ اسلام پر سخت گیری کا بے جا الزام لگانے والے حلقے بھی پریشانی کے عالم میں مجرمین کو کیفر کردار تک پہونچانے کے لیے اسلامی قانون کی روشنی میں سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں، فیس بک سمیت دیگر ذرائع ابلاغ میں سوالات اٹھے کہ اگر علاج کے لیے مظلومہ کو سنگاپور لے جایا جا سکتا ہے تو مجرمین کو سزا دلانے کے لیے سعودی عرب لے جانے میں کیا حرج ہے؟ یہ موقع ہے کہ اس حوالے سے اسلام کے فطری نظام پر کھل کر بحث ہو ،اگر مسلم تنظیمیں موقعے کی نزاکت سمجھتے ہوئے اس ضمن میں کچھ کر سکیں تو کچھ بات بنے یعنی سمپوزیم ،سیمنار یا کم ازکم ایک بڑی پریس کانفرنس کے ذریعے اسلامی نظام کا مکمل تعارف جس میں معیشت،معاشرت سمیت دیگر پہلو بھی زیر بحث لائے جائیں۔یہ کام اسلام کو مکمل نظام حیات تسلیم کرنے والے ان حلقوں کے کرنے کا ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کی حکمرانی چاہتے ہیںھر میں بجا طور پر کی جارہی ہے۔ چہار جانب سے یہ آوازیں بلند ہورہی ہیں کہ قصوروار افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ہرممکن قدم اٹھائے جائیں نیز موجودہ قانون کو تبدیل کرکے اسے اور سخت بنایا جائے۔ یہ بحث ٹھیک اسی طرز پر ہورہی ہے جب 26؍ نومبر2008کو ممبئی میں دہشت گردانہ حملے ہوئے تھے اس وقت بھی اسی انداز میں ملک کے سیاسی اور سماجی حلقوں نے پرزور مطالبہ کرنا شروع کردیا تھا کہ موجودہ قوانین ناکافی ہیں لہٰذا دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے مزید سخت قوانین بنائے جائیں چنانچہ اس دباؤ کے نتیجے میں ملک کو شہریوں کی آزادی پر قدغن لگانے والا کالا قانون یو اے پی اے ایکٹ ملا جسے حالیہ ترمیم کے بعد اور ایک قومی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے کی تشکیل عمل میں آئی، جبکہ اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کیلئے پہلے ہی سے قوانین موجود تھے لیکن ان پر بغیر کسی بحث کے انہیں ناکافی قرا ر دے دیاگیا۔ اب اس موقع پر بھی اس طرح کے دلائل دیے جارہے ہیں کہ خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے واقعات سے نمٹنے کے لئے تعزیرات ہند کی دفعہ 376 ناکافی ہے۔ اس کو تبدیل کرکے مزید سخت بنانے کی ضرورت ہے۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ26؍دسمبر کوقومی ترقیاتی کونسل کی میٹنگ میں بھی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سمیت ملک کی دیگر ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے موجودہ قانون کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ میٹنگ ترقیاتی منصوبوں کو روبہ عمل لانے اور آئندہ کی تجاویز پر غورو خوض کے لئے بلائی گئی تھی لیکن پوری میٹنگ میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے خلاف سخت قانون بنانے کا مطالبہ زور وشور سے کیا گیا۔ وزیراعظم نے یقین دلایا کہ سرکار موجودہ قانون کو تبدیل کرکے اور بھی سخت قانون بنانے پر غور کر رہی ہے۔ جبکہ یہاں بحث کا موضوع یہ ہوناچاہئے تھا کہ کیا موجودہ قانون صحیح معنوں میں کمزور ہے؟ یا قانون کے نفاذ میں کسی طرح کے تساہل کے سبب ملزمین کو جلد انصاف نہیں مل پاتا؟ او راگر قانون میںکمزوری ہے تو آزادی کے 65 برس گزر جانے کے بعد آج تک اسی صورت میں کیوں استعمال کیاجاتا رہا؟ کیا ماضی میں خواتین کے ساتھ اس نوعیت کی درندگی کے اور واقعات پیش نہیں آئے تھے، نیز اس طرح کے واقعات پیش آنے کے عوامل کیا ہیں؟ کیا شہریوں کو اپنے رہن سہن پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے؟ اس درندگی کے لئے کون کس حد تک ذمے دار ہے ؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہی زیادتی جب کسی غیرملکی خاتون کے ساتھ پیش آتی ہے تو ہمارے ملک کایہی موجودہ قانون اس قدرفعال ہوجاتا ہے کہ فیصلے ماہ وسال نہیں بلکہ چند دنوں میں ہوجاتے ہیں، معاملہ ہائی پروفائل فیملی سے متعلق ہوتو ہمارا یہی نظام کافی چاق وچوبند ہوجاتا ہے۔ایسے درجنوں معاملات کو بطور مثال پیش کیاجاسکتا ہے جن میں متاثرہ خاتون کے غیرملکی ہونے کی وجہ سے فیصلے بہت جلد آئے ہیں ۔ راجستھان سے آنے والی خبروں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ الور ضلع کی فاسٹ ٹریک عدالت نے جرمنی کی ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کے واقعے میں محض نو دن بعد ہی ملزم کو سات برس کی سزا سنا دی تھی۔ اس سے قبل2005میں جو دھپور میں جرمنی کی ایک خاتون سیاح کے ساتھ زیادتی کے واقعے میں محض دو ہفتے ہی میں عدالتی کارروائی مکمل کرلی گئی تھی۔ اس معاملے میں فاسٹ ٹریک عدالت نے دو افراد کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ اسی طرح کا ایک واقعہ2006 میں ایک جاپانی خاتون کے ساتھ پشکر کے ایک گیسٹ ہاؤس میں پیش آیا تھا جس میں عدالت نے صرف تین ماہ میں قصورواروں کو سزا سنا دی تھی۔ مگر یہی معاملہ جب اپنے ملک کے باشندوں کے ساتھ پیش آتا ہے تو ان ہی فاسٹ ٹریک عدالتو سے فیصلے آنے میں پندرہ برس لگ جاتے ہیں۔ جے پور کی ایک عدالت نے ابھی دو ماہ قبل ایک پندرہ سال پرانے مقدمے میں آٹھ افراد کو سزا سنائی ہے، جبکہ دو ملزمین پندرہ برس بعد بھی گرفت سے باہر ہیں۔یہ واقعہ5؍ستمبر2007کو راجستھان یونیورسٹی کی ایک طالبہ کے ساتھ پیش آیا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو حلقے سخت قانون سازی کا مطالبہ کر رہے ہیں انہیں متذکرہ بالا امور پر توجہ دینی چاہئےاور اس پر غور کرناچاہئے کہ کیا محض سخت قانون سازی ہی مسئلے کا حل ہے؟ صرف ایک پہلو پر بحث سے صورتحال میں مثبت تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قومی ترقیاتی کونسل کی میٹنگ میں صرف معاملے کے ایک ہی پہلو پر بات کی گئی اور قانون کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ غور طلب امر یہ ہے کہ اس درمیان یہ بھی دیکھا گیا کہ اسلام پر سخت گیری کا بے جا الزام لگانے والے حلقے بھی پریشانی کے عالم میں مجرمین کو کیفر کردار تک پہونچانے کے لیے اسلامی قانون کی روشنی میں سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں، فیس بک سمیت دیگر ذرائع ابلاغ میں سوالات اٹھے کہ اگر علاج کے لیے مظلومہ کو سنگاپور لے جایا جا سکتا ہے تو مجرمین کو سزا دلانے کے لیے سعودی عرب لے جانے میں کیا حرج ہے؟ یہ موقع ہے کہ اس حوالے سے اسلام کے فطری نظام پر کھل کر بحث ہو ،اگر مسلم تنظیمیں موقعے کی نزاکت سمجھتے ہوئے اس ضمن میں کچھ کر سکیں تو کچھ بات بنے یعنی سمپوزیم ،سیمنار یا کم ازکم ایک بڑی پریس کانفرنس کے ذریعے اسلامی نظام کا مکمل تعارف جس میں معیشت،معاشرت سمیت دیگر پہلو بھی زیر بحث لائے جائیں۔یہ کام اسلام کو مکمل نظام حیات تسلیم کرنے والے ان حلقوں کے کرنے کا ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کی حکمرانی چاہتے ہیں
ملک کے دارالحکومت دہلی کی طالبہ کے ساتھ زیادتی کے واقعے نے ملک گیر سطح پر قانون کو سخت بنانے کی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس زیادتی کی مذمت ملک کے دارالحکومت دہلی کی طالبہ کے ساتھ زیادتی کے واقعے نے ملک گیر سطح پر قانون کو مزید سخت بنانے کی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس زیادتی کی مذمت ملک بھر میں بجا طور پر کی جارہی ہے۔ چہار جانب سے یہ آوازیں بلند ہورہی ہیں کہ قصوروار افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ہرممکن قدم اٹھائے جائیں نیز موجودہ قانون کو تبدیل کرکے اسے اور سخت بنایا جائے۔ یہ بحث ٹھیک اسی طرز پر ہورہی ہے جب 26؍ نومبر2008کو ممبئی میں دہشت گردانہ حملے ہوئے تھے اس وقت بھی اسی انداز میں ملک کے سیاسی اور سماجی حلقوں نے پرزور مطالبہ کرنا شروع کردیا تھا کہ موجودہ قوانین ناکافی ہیں لہٰذا دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے مزید سخت قوانین بنائے جائیں چنانچہ اس دباؤ کے نتیجے میں ملک کو شہریوں کی آزادی پر قدغن لگانے والا کالا قانون یو اے پی اے ایکٹ ملا جسے حالیہ ترمیم کے بعد اور ایک قومی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے کی تشکیل عمل میں آئی، جبکہ اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کیلئے پہلے ہی سے قوانین موجود تھے لیکن ان پر بغیر کسی بحث کے انہیں ناکافی قرا ر دے دیاگیا۔ اب اس موقع پر بھی اس طرح کے دلائل دیے جارہے ہیں کہ خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے واقعات سے نمٹنے کے لئے تعزیرات ہند کی دفعہ 376 ناکافی ہے۔ اس کو تبدیل کرکے مزید سخت بنانے کی ضرورت ہے۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ26؍دسمبر کوقومی ترقیاتی کونسل کی میٹنگ میں بھی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سمیت ملک کی دیگر ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے موجودہ قانون کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ میٹنگ ترقیاتی منصوبوں کو روبہ عمل لانے اور آئندہ کی تجاویز پر غورو خوض کے لئے بلائی گئی تھی لیکن پوری میٹنگ میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے خلاف سخت قانون بنانے کا مطالبہ زور وشور سے کیا گیا۔ وزیراعظم نے یقین دلایا کہ سرکار موجودہ قانون کو تبدیل کرکے اور بھی سخت قانون بنانے پر غور کر رہی ہے۔ جبکہ یہاں بحث کا موضوع یہ ہوناچاہئے تھا کہ کیا موجودہ قانون صحیح معنوں میں کمزور ہے؟ یا قانون کے نفاذ میں کسی طرح کے تساہل کے سبب ملزمین کو جلد انصاف نہیں مل پاتا؟ او راگر قانون میںکمزوری ہے تو آزادی کے 65 برس گزر جانے کے بعد آج تک اسی صورت میں کیوں استعمال کیاجاتا رہا؟ کیا ماضی میں خواتین کے ساتھ اس نوعیت کی درندگی کے اور واقعات پیش نہیں آئے تھے، نیز اس طرح کے واقعات پیش آنے کے عوامل کیا ہیں؟ کیا شہریوں کو اپنے رہن سہن پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے؟ اس درندگی کے لئے کون کس حد تک ذمے دار ہے ؟حیرت کی بات یہ ہے کہ یہی زیادتی جب کسی غیرملکی خاتون کے ساتھ پیش آتی ہے تو ہمارے ملک کایہی موجودہ قانون اس قدرفعال ہوجاتا ہے کہ فیصلے ماہ وسال نہیں بلکہ چند دنوں میں ہوجاتے ہیں، معاملہ ہائی پروفائل فیملی سے متعلق ہوتو ہمارا یہی نظام کافی چاق وچوبند ہوجاتا ہے۔ایسے درجنوں معاملات کو بطور مثال پیش کیاجاسکتا ہے جن میں متاثرہ خاتون کے غیرملکی ہونے کی وجہ سے فیصلے بہت جلد آئے ہیں ۔ راجستھان سے آنے والی خبروں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ الور ضلع کی فاسٹ ٹریک عدالت نے جرمنی کی ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کے واقعے میں محض نو دن بعد ہی ملزم کو سات برس کی سزا سنا دی تھی۔ اس سے قبل2005میں جو دھپور میں جرمنی کی ایک خاتون سیاح کے ساتھ زیادتی کے واقعے میں محض دو ہفتے ہی میں عدالتی کارروائی مکمل کرلی گئی تھی۔ اس معاملے میں فاسٹ ٹریک عدالت نے دو افراد کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ اسی طرح کا ایک واقعہ2006 میں ایک جاپانی خاتون کے ساتھ پشکر کے ایک گیسٹ ہاؤس میں پیش آیا تھا جس میں عدالت نے صرف تین ماہ میں قصورواروں کو سزا سنا دی تھی۔ مگر یہی معاملہ جب اپنے ملک کے باشندوں کے ساتھ پیش آتا ہے تو ان ہی فاسٹ ٹریک عدالتو سے فیصلے آنے میں پندرہ برس لگ جاتے ہیں۔ جے پور کی ایک عدالت نے ابھی دو ماہ قبل ایک پندرہ سال پرانے مقدمے میں آٹھ افراد کو سزا سنائی ہے، جبکہ دو ملزمین پندرہ برس بعد بھی گرفت سے باہر ہیں۔یہ واقعہ5؍ستمبر2007کو راجستھان یونیورسٹی کی ایک طالبہ کے ساتھ پیش آیا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو حلقے سخت قانون سازی کا مطالبہ کر رہے ہیں انہیں متذکرہ بالا امور پر توجہ دینی چاہئےاور اس پر غور کرناچاہئے کہ کیا محض سخت قانون سازی ہی مسئلے کا حل ہے؟ صرف ایک پہلو پر بحث سے صورتحال میں مثبت تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قومی ترقیاتی کونسل کی میٹنگ میں صرف معاملے کے ایک ہی پہلو پر بات کی گئی اور قانون کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ غور طلب امر یہ ہے کہ اس درمیان یہ بھی دیکھا گیا کہ اسلام پر سخت گیری کا بے جا الزام لگانے والے حلقے بھی پریشانی کے عالم میں مجرمین کو کیفر کردار تک پہونچانے کے لیے اسلامی قانون کی روشنی میں سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں، فیس بک سمیت دیگر ذرائع ابلاغ میں سوالات اٹھے کہ اگر علاج کے لیے مظلومہ کو سنگاپور لے جایا جا سکتا ہے تو مجرمین کو سزا دلانے کے لیے سعودی عرب لے جانے میں کیا حرج ہے؟ یہ موقع ہے کہ اس حوالے سے اسلام کے فطری نظام پر کھل کر بحث ہو ،اگر مسلم تنظیمیں موقعے کی نزاکت سمجھتے ہوئے اس ضمن میں کچھ کر سکیں تو کچھ بات بنے یعنی سمپوزیم ،سیمنار یا کم ازکم ایک بڑی پریس کانفرنس کے ذریعے اسلامی نظام کا مکمل تعارف جس میں معیشت،معاشرت سمیت دیگر پہلو بھی زیر بحث لائے جائیں۔یہ کام اسلام کو مکمل نظام حیات تسلیم کرنے والے ان حلقوں کے کرنے کا ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کی حکمرانی چاہتے ہیںھر میں بجا طور پر کی جارہی ہے۔ چہار جانب سے یہ آوازیں بلند ہورہی ہیں کہ قصوروار افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ہرممکن قدم اٹھائے جائیں نیز موجودہ قانون کو تبدیل کرکے اسے اور سخت بنایا جائے۔ یہ بحث ٹھیک اسی طرز پر ہورہی ہے جب 26؍ نومبر2008کو ممبئی میں دہشت گردانہ حملے ہوئے تھے اس وقت بھی اسی انداز میں ملک کے سیاسی اور سماجی حلقوں نے پرزور مطالبہ کرنا شروع کردیا تھا کہ موجودہ قوانین ناکافی ہیں لہٰذا دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے مزید سخت قوانین بنائے جائیں چنانچہ اس دباؤ کے نتیجے میں ملک کو شہریوں کی آزادی پر قدغن لگانے والا کالا قانون یو اے پی اے ایکٹ ملا جسے حالیہ ترمیم کے بعد اور ایک قومی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے کی تشکیل عمل میں آئی، جبکہ اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کیلئے پہلے ہی سے قوانین موجود تھے لیکن ان پر بغیر کسی بحث کے انہیں ناکافی قرا ر دے دیاگیا۔ اب اس موقع پر بھی اس طرح کے دلائل دیے جارہے ہیں کہ خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے واقعات سے نمٹنے کے لئے تعزیرات ہند کی دفعہ 376 ناکافی ہے۔ اس کو تبدیل کرکے مزید سخت بنانے کی ضرورت ہے۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ26؍دسمبر کوقومی ترقیاتی کونسل کی میٹنگ میں بھی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سمیت ملک کی دیگر ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے موجودہ قانون کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ میٹنگ ترقیاتی منصوبوں کو روبہ عمل لانے اور آئندہ کی تجاویز پر غورو خوض کے لئے بلائی گئی تھی لیکن پوری میٹنگ میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے خلاف سخت قانون بنانے کا مطالبہ زور وشور سے کیا گیا۔ وزیراعظم نے یقین دلایا کہ سرکار موجودہ قانون کو تبدیل کرکے اور بھی سخت قانون بنانے پر غور کر رہی ہے۔ جبکہ یہاں بحث کا موضوع یہ ہوناچاہئے تھا کہ کیا موجودہ قانون صحیح معنوں میں کمزور ہے؟ یا قانون کے نفاذ میں کسی طرح کے تساہل کے سبب ملزمین کو جلد انصاف نہیں مل پاتا؟ او راگر قانون میںکمزوری ہے تو آزادی کے 65 برس گزر جانے کے بعد آج تک اسی صورت میں کیوں استعمال کیاجاتا رہا؟ کیا ماضی میں خواتین کے ساتھ اس نوعیت کی درندگی کے اور واقعات پیش نہیں آئے تھے، نیز اس طرح کے واقعات پیش آنے کے عوامل کیا ہیں؟ کیا شہریوں کو اپنے رہن سہن پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے؟ اس درندگی کے لئے کون کس حد تک ذمے دار ہے ؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہی زیادتی جب کسی غیرملکی خاتون کے ساتھ پیش آتی ہے تو ہمارے ملک کایہی موجودہ قانون اس قدرفعال ہوجاتا ہے کہ فیصلے ماہ وسال نہیں بلکہ چند دنوں میں ہوجاتے ہیں، معاملہ ہائی پروفائل فیملی سے متعلق ہوتو ہمارا یہی نظام کافی چاق وچوبند ہوجاتا ہے۔ایسے درجنوں معاملات کو بطور مثال پیش کیاجاسکتا ہے جن میں متاثرہ خاتون کے غیرملکی ہونے کی وجہ سے فیصلے بہت جلد آئے ہیں ۔ راجستھان سے آنے والی خبروں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ الور ضلع کی فاسٹ ٹریک عدالت نے جرمنی کی ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کے واقعے میں محض نو دن بعد ہی ملزم کو سات برس کی سزا سنا دی تھی۔ اس سے قبل2005میں جو دھپور میں جرمنی کی ایک خاتون سیاح کے ساتھ زیادتی کے واقعے میں محض دو ہفتے ہی میں عدالتی کارروائی مکمل کرلی گئی تھی۔ اس معاملے میں فاسٹ ٹریک عدالت نے دو افراد کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ اسی طرح کا ایک واقعہ2006 میں ایک جاپانی خاتون کے ساتھ پشکر کے ایک گیسٹ ہاؤس میں پیش آیا تھا جس میں عدالت نے صرف تین ماہ میں قصورواروں کو سزا سنا دی تھی۔ مگر یہی معاملہ جب اپنے ملک کے باشندوں کے ساتھ پیش آتا ہے تو ان ہی فاسٹ ٹریک عدالتو سے فیصلے آنے میں پندرہ برس لگ جاتے ہیں۔ جے پور کی ایک عدالت نے ابھی دو ماہ قبل ایک پندرہ سال پرانے مقدمے میں آٹھ افراد کو سزا سنائی ہے، جبکہ دو ملزمین پندرہ برس بعد بھی گرفت سے باہر ہیں۔یہ واقعہ5؍ستمبر2007کو راجستھان یونیورسٹی کی ایک طالبہ کے ساتھ پیش آیا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو حلقے سخت قانون سازی کا مطالبہ کر رہے ہیں انہیں متذکرہ بالا امور پر توجہ دینی چاہئےاور اس پر غور کرناچاہئے کہ کیا محض سخت قانون سازی ہی مسئلے کا حل ہے؟ صرف ایک پہلو پر بحث سے صورتحال میں مثبت تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قومی ترقیاتی کونسل کی میٹنگ میں صرف معاملے کے ایک ہی پہلو پر بات کی گئی اور قانون کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ غور طلب امر یہ ہے کہ اس درمیان یہ بھی دیکھا گیا کہ اسلام پر سخت گیری کا بے جا الزام لگانے والے حلقے بھی پریشانی کے عالم میں مجرمین کو کیفر کردار تک پہونچانے کے لیے اسلامی قانون کی روشنی میں سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں، فیس بک سمیت دیگر ذرائع ابلاغ میں سوالات اٹھے کہ اگر علاج کے لیے مظلومہ کو سنگاپور لے جایا جا سکتا ہے تو مجرمین کو سزا دلانے کے لیے سعودی عرب لے جانے میں کیا حرج ہے؟ یہ موقع ہے کہ اس حوالے سے اسلام کے فطری نظام پر کھل کر بحث ہو ،اگر مسلم تنظیمیں موقعے کی نزاکت سمجھتے ہوئے اس ضمن میں کچھ کر سکیں تو کچھ بات بنے یعنی سمپوزیم ،سیمنار یا کم ازکم ایک بڑی پریس کانفرنس کے ذریعے اسلامی نظام کا مکمل تعارف جس میں معیشت،معاشرت سمیت دیگر پہلو بھی زیر بحث لائے جائیں۔یہ کام اسلام کو مکمل نظام حیات تسلیم کرنے والے ان حلقوں کے کرنے کا ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کی حکمرانی چاہتے ہیں