فاتح
لائبریرین
قانون کی بالادستی مقصود ہے یا یہ بچگانہ چپت بازی ہے؟ تحریر عامر احمد خان (بی بی سی اردو)
عامر احمد خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن
فرض کیجیے کہ پرویز مشرف عدالت سے گھر جانے کی بجائے خود کو پولیس کے حوالے کر دیتے اور انہیں لے جا کر تھانے میں بند کر دیا جاتا۔ ایسی صورتحال میں وہ کتنی دیر جی پاتے؟
کیا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہے کہ پاکستانی تھانے یا جیل دنیا کی غیر محفوظ ترین جگہیں ہیں؟ پاکستانی تھانوں میں قید لوگ اپنے مخالفوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں۔ مختلف نوعیت کے مجرموں اور شدت پسندوں نے جیلوں پر حملے کر کے خطرناک قیدیوں کو چھڑایا ہے۔ غیر ریاستی عناصر کے پاس ایسے ایسے ہتھیار ہیں جو پولیس نے شاید صرف انگریزی فلموں میں دیکھے ہوں۔
اسی بارے میں
پرویز مشرف کی گرفتاری کا عدالتی حکم
مشرف کو عدالت کے سامنے ’سرنڈر‘ کرنا ہوگا
’پولیس نے سلیوٹ کیا اور مشرف چلے گئے‘
اور کیا پرویز مشرف کوئی عام انسان ہیں؟ پاکستان میں موجود ہر طرح کا شدت پسند، خواہ وہ بلوچ ہو، طالبان ہو یا القاعدہ، ان کے خون کا پیاسا ہے۔ ان کی سیاست میں ہمیشہ سے خود فریبی کا عنصر بھلے نمایاں رہا ہو، لیکن ان کو درپیش خطرات حقیقی ہیں۔
اور اگر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت میں انا پرستی کی تاریخی جنگ کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو خواہ کوئی فوجی سربراہ کتنا بھی ناپسندیدہ کیوں نہ ہو جائے، اس کا ہر لحاظ سے تحفظ اور خاص طور پر سیاستدانوں سے اس کو محفوظ رکھنا فوج کی انا کا مسئلہ ہوتا ہے۔
یہ سب کچھ مد نظر رکھتے ہوئے، کیا وہ فاضل جج جنہوں نے پرویز مشرف کی ضمانت منسوخ کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کا حکم دیا واقعی اس غلط فہمی میں تھے کہ ان کے کہنے پر ملک کے سابق فوجی صدر کو لے جا کر کسی تھانے میں بند کر دیا جائے گا؟
سابق صدر پرویز مشرف کی پاکستان واپسی سے پیدا ہونے والی صورتحال نہ تو کوئی مزاحیہ خاکہ ہے اور نہ ہی سکول کے زمانے کی چھیڑ چھاڑ جس میں دوستوں کا ایک گروہ ہر وقت اس بچے کی تاک میں رہتا ہے جس کے بڑے بھائی سے وہ ڈرتے ہیں لیکن بھائی کے ادھر ادھر ہوتے ہی بچے کو ایک آدھ چپت دھر دیتے ہیں۔
خواہ وہ الیکشن لڑنے کے اہل قرار پائیں یا نہیں، پاکستان کے سیاستدانوں، سکیورٹی اداروں اور عدالتوں کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ پرویز مشرف سے چاہتے کیا ہیں اور موجودہ صورتحال میں ممکن کیا ہے۔ کیونکہ اگر پرویز مشرف کے خلاف عدالتی کاروائی کا مقصد قانون کی بالادستی قائم کرنا ہے تو بات ججوں کو حبس بے جا میں رکھنے یا بینظیر بھٹو کے قتل سے نہیں بلکہ اکتوبر انیس سو ننانوے کی فوجی بغاوت سے شروع ہوتی ہے۔
فوجی بغاوت کہیں بھی اور کبھی بھی کسی ایک شخص کی خواہش یا مرضی کا معاملہ نہیں ہوتا۔ اس میں فوج کی اعلی کمان، وہ عدلیہ جو فوجی بغاوتوں کو قانونی سہارا فراہم کرتی ہے اور وہ سیاستدان جو ہر ایسے موقع پر لپک کر فوجی آمروں کی گود میں جا بیٹھتے ہیں، سبھی شامل ہوتے ہیں۔ قانون کی بالادستی صرف اور صرف ان سب کے اجتماعی احتساب سے ہی قائم ہو سکتی ہے۔
اور اگر ایسا ممکن نہیں تو بچگانہ چپت بازی کے اس کھیل میں جو لوگ اس وقت ملک کے سابق فوجی صدر کی بھاگ دوڑ سے محظوظ ہو رہے ہیں وہی شاید کل عدالتوں پر بھی فقرے کس رہے ہوں۔
ماخذ
عامر احمد خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن
فرض کیجیے کہ پرویز مشرف عدالت سے گھر جانے کی بجائے خود کو پولیس کے حوالے کر دیتے اور انہیں لے جا کر تھانے میں بند کر دیا جاتا۔ ایسی صورتحال میں وہ کتنی دیر جی پاتے؟
کیا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہے کہ پاکستانی تھانے یا جیل دنیا کی غیر محفوظ ترین جگہیں ہیں؟ پاکستانی تھانوں میں قید لوگ اپنے مخالفوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں۔ مختلف نوعیت کے مجرموں اور شدت پسندوں نے جیلوں پر حملے کر کے خطرناک قیدیوں کو چھڑایا ہے۔ غیر ریاستی عناصر کے پاس ایسے ایسے ہتھیار ہیں جو پولیس نے شاید صرف انگریزی فلموں میں دیکھے ہوں۔
اسی بارے میں
پرویز مشرف کی گرفتاری کا عدالتی حکم
مشرف کو عدالت کے سامنے ’سرنڈر‘ کرنا ہوگا
’پولیس نے سلیوٹ کیا اور مشرف چلے گئے‘
اور کیا پرویز مشرف کوئی عام انسان ہیں؟ پاکستان میں موجود ہر طرح کا شدت پسند، خواہ وہ بلوچ ہو، طالبان ہو یا القاعدہ، ان کے خون کا پیاسا ہے۔ ان کی سیاست میں ہمیشہ سے خود فریبی کا عنصر بھلے نمایاں رہا ہو، لیکن ان کو درپیش خطرات حقیقی ہیں۔
اور اگر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت میں انا پرستی کی تاریخی جنگ کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو خواہ کوئی فوجی سربراہ کتنا بھی ناپسندیدہ کیوں نہ ہو جائے، اس کا ہر لحاظ سے تحفظ اور خاص طور پر سیاستدانوں سے اس کو محفوظ رکھنا فوج کی انا کا مسئلہ ہوتا ہے۔
یہ سب کچھ مد نظر رکھتے ہوئے، کیا وہ فاضل جج جنہوں نے پرویز مشرف کی ضمانت منسوخ کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کا حکم دیا واقعی اس غلط فہمی میں تھے کہ ان کے کہنے پر ملک کے سابق فوجی صدر کو لے جا کر کسی تھانے میں بند کر دیا جائے گا؟
سابق صدر پرویز مشرف کی پاکستان واپسی سے پیدا ہونے والی صورتحال نہ تو کوئی مزاحیہ خاکہ ہے اور نہ ہی سکول کے زمانے کی چھیڑ چھاڑ جس میں دوستوں کا ایک گروہ ہر وقت اس بچے کی تاک میں رہتا ہے جس کے بڑے بھائی سے وہ ڈرتے ہیں لیکن بھائی کے ادھر ادھر ہوتے ہی بچے کو ایک آدھ چپت دھر دیتے ہیں۔
خواہ وہ الیکشن لڑنے کے اہل قرار پائیں یا نہیں، پاکستان کے سیاستدانوں، سکیورٹی اداروں اور عدالتوں کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ پرویز مشرف سے چاہتے کیا ہیں اور موجودہ صورتحال میں ممکن کیا ہے۔ کیونکہ اگر پرویز مشرف کے خلاف عدالتی کاروائی کا مقصد قانون کی بالادستی قائم کرنا ہے تو بات ججوں کو حبس بے جا میں رکھنے یا بینظیر بھٹو کے قتل سے نہیں بلکہ اکتوبر انیس سو ننانوے کی فوجی بغاوت سے شروع ہوتی ہے۔
فوجی بغاوت کہیں بھی اور کبھی بھی کسی ایک شخص کی خواہش یا مرضی کا معاملہ نہیں ہوتا۔ اس میں فوج کی اعلی کمان، وہ عدلیہ جو فوجی بغاوتوں کو قانونی سہارا فراہم کرتی ہے اور وہ سیاستدان جو ہر ایسے موقع پر لپک کر فوجی آمروں کی گود میں جا بیٹھتے ہیں، سبھی شامل ہوتے ہیں۔ قانون کی بالادستی صرف اور صرف ان سب کے اجتماعی احتساب سے ہی قائم ہو سکتی ہے۔
اور اگر ایسا ممکن نہیں تو بچگانہ چپت بازی کے اس کھیل میں جو لوگ اس وقت ملک کے سابق فوجی صدر کی بھاگ دوڑ سے محظوظ ہو رہے ہیں وہی شاید کل عدالتوں پر بھی فقرے کس رہے ہوں۔
ماخذ