وہاب اعجاز خان
محفلین
آج کل شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں جو کچھ ہورہا ہے۔ اس پر عوام کی خاموشی سے بہت زیادہ دکھ ہوتا ہے۔ میرے خیال میں ہم قبائل کو جانتے نہیں یہ کون ہیں۔ان کی پاکستان کے لیے کیا خدمات ہیں۔ تو میںان کا تعارف کراتا ہوں۔ جناب یہ قبائل وہ ہیں جنہوں رنجیت سنگھ کے دور میں لشکر تیار کرکے پنجاب پر قبضے کے خلاف جہاد کیا۔ یہ قبائلی وہ ہیں جنہوں نے انگریز کے خلاف بندوق اُٹھا کر اس کے دانت کھٹے کر دیئے۔فقیر ایپی اور عجب خان آفریدی کی آزادی کی صدائیں لندن تک سنیں گئیں۔ اور جس کشمیر کے لیے ہم کٹ مرنے کی بات کرتے ہیں۔ وہ آزاد کشمیر بھی انہی قبائلیوں کی مرہون منت ہے۔ جن کے لشکروں نے سری نگر تک کا علاقہ قبضہ کر لیا تھا۔ یہ قبائل ڈیوریڈ لائن پر پچاس سال سے پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔ یہ اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے ہم لوگ۔ لیکن آج ان پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر ان کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہورہا لیکن ہم خاموش ہیں۔ دراصل وزیرستان آپسریشن میں مرنے والے کوئی غیر ملکی نہیں ہم نے ان مقامی لوگوں کی لاشیں دیکھی ہیں ان بچوں کی لاشیں دیکھیں ہیں جو کہ ہمارے بجٹ کا زیادہ تر حصہ کھانے والی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئی ہے۔ میں صرف ایک سوال یہاں کرنا چاہتا ہوں۔ کیا قبائل کو ہم ان کی حب الوطنی اور حریت پسندی اور خدمات کا یہی صلہ دے سکتے ہیں یعنی بندوق کی گولی۔
فقہہ شہر بولا بادشاہ سے
بڑا سنگین مجرم ہے یہ آقا
اسے مصلوب ہی کرنا پڑے گا
کہ اس کی سوچ ہم سے مختلف ہے۔(مقبول عامر)
فقہہ شہر بولا بادشاہ سے
بڑا سنگین مجرم ہے یہ آقا
اسے مصلوب ہی کرنا پڑے گا
کہ اس کی سوچ ہم سے مختلف ہے۔(مقبول عامر)