ناصر علی مرزا
معطل
اوریا مقبول جان پير 1 ستمبر 2014
theharferaz@yahoo.com
آئین کی کتاب کو مقدس الہامی کتاب کی طرح لہرا کر اس کے ورق ورق کے تحفظ کی کیوں قسم کھائی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ جلا دو‘ سپریم کورٹ جلا دو‘ کیبنٹ سیکریٹریٹ جلا دو‘ بس ایک فقرہ رہ گیا‘ پورے اٹھارہ کروڑ عوام کو جلا کر خاکستر کر دو، لیکن یہ چند مقدس اوراق بچا لو۔ انھیں ضرور بچانا چاہیے۔
اس لیے کہ یہ ان لوگوں نے تحریر کیے ہیں‘ یہ اس نسل کے ذہن رسا کا نتیجہ ہیں جنہوں نے انگریز کی غلامی میں آنکھ کھولی اور جن کی اکثریت خود اور ان کے آباؤ اجداد انگریز سرکار سے وفاداری اور اپنی قوم سے غداری کے صلے میں بڑی بڑی جائیدادیں‘ اعلیٰ نوکریاں اور شاندار مراعات لینے کے بعد اس مملکت کے عام اور سادہ لوح غریب عوام پر مسلط ہو گئی تھی۔
آئین کے خالق جن لوگوں کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے‘ ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی اکثریت کے حسب نسب اور اچانک اپنے علاقوں میں انگریز سرکار کے طاقتور نمایندہ ہونے کی تاریخ آج بھی ڈسٹرکٹ گزیٹیرز اور ڈپٹی کمشنروں کے دفاتر میں موجود فائلوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ہر کسی کی قیمت کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے اور وفاداریوں کی داستان بھی۔ نہ کوئی میر بچتا ہے نہ پیر‘ نہ وڈیرا پیچھے رہتا ہے اور نہ سردار‘ نہ چوہدریوں کا دامن صاف اور نہ ہی خانوں کا۔ تاریخ کے اس حمام میں بہت سے ننگے ہیں اور جس نے اپنے کپڑے بچائے وہ آج بھی اقتدار کی راہداریوں سے کوسوں دور ہے۔
آئین کے یہ خالق خوب جانتے تھے کہ کس طرح اس قوم کو حصوں بخروں میں بانٹ کر محکوم رکھا جا سکتا ہے۔ انھیں پتہ تھا کہ جب تک محکوموں کے گرد مختلف لائنیں نہ بنائی جائیں، وہ آپس میں دست و گریبان نہیں ہوتے۔ سندھی‘ پنجابی‘ پشتونوں اور بلوچ مزدوروں اور کسانوں کے پسینے کی بو اور ہاتھوں میں پڑ گَٹے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اسے جہاں‘ جس جگہ مزدوری ملے‘ وہ رزق کی تلاش میں چل پڑتا ہے۔
چار اکائیاں آسمان سے نہیں اتری تھیں‘ انھیں انگریز نے اپنے مقاصد کے لیے تخلیق کیا تھا اور پھر ان اکائیوں پر حکمرانی کرنے کے لیے یہ ’’جمہوری‘‘ خاندان پیدا کیے تھے۔ جس طرح کسان‘ ہاری‘ مرید اور ملازم ان کی رعایا ہیں اسی طرح جمہوریت بھی ان کے گھر کی ’’لونڈی‘‘ ہے۔ ایسی لونڈی کہ جو آقا کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ یہ مقدس چار اکائیاں اس قدر بالاتر ہیں کہ اس ملک میں ہر کوئی پاکستان کے ٹوٹے جانے کے خواب دیکھتا ہے، لیکن انگریز کے بنائے ہوئے ان چار صوبوں کو‘ ان کھینچی گئی لکیروں کا آپ تذکرہ کر کے دیکھیں‘ ہر کوئی خون کی ندیاں بہانے پر تیار ہو جاتا ہے۔
اس لیے کہ انگریز نے ان چاروں اکائیوں کا ایک ایک مرکز اقتدار بنایا تھا اور ان پر ان خاندانوں کو قابض کر دیا تھا۔ کیا کراچی‘ کوئٹہ یا پشاور جیسے شہر انگریز سے پہلے اقتدار کا مرکز تھے۔ لاہور بھی اکبر کے چند سال یا رنجیت سنگھ کی حکومت کے سوا‘ اقتدار سے بہت دور رہا، لیکن کبھی لڑائی ہوتی ہے تو انھی چاروں مراکز اقتدار پر قبضے کی لڑائی ہوتی ہے۔
قبضہ گروپ یہ قبضہ چھوڑنا نہیں چاہتا اور آئین کی مقدس کتاب ہاتھ میں لہرا کر کہتا ہے اس میں لکھا ہے۔ ہم اس کے ورق ورق کی حفاظت کریں گے۔ اگر یہ ختم ہو گیا تو پھر دوبارہ ایسا آئین تحریر نہیں کر سکو گے۔ یقینا ایسا آئین دوبارہ تحریر نہیں ہو سکے گا۔ اس لیے کہ زمینی حقائق بدل چکے ہیں۔ وہ نسل اب مملکت خداداد پاکستان میں اکثریت سے ہے جس نے انگریز کی غلامی کا طوق کبھی نہیں پہنا تھا۔
ان اقتدار کے مراکز پر قبضے کے لیے اور مخصوص لوگوں کو حکمرانی پر مسلط کرنے کے لیے انگریز نے ویسٹ منسٹر جمہوریت کا پارلیمانی نظام متعارف کروایا۔ اس نظام کے تحت ہر علاقے میں مخصوص نسل‘ رنگ‘ زبان اور برادری کی بنیاد پر کچھ لکیریں کھینچی گئیں۔ بار بار کے انتخابات نے اس قبضہ گروپ کو اس قدر کامیاب اور تجربہ کار بنا دیا کہ سوائے چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر کہ جہاں آبادی میں تیزی سے رد و بدل ہوتا ہے‘ باقی ہر انتخابی حلقہ کو انتہائی مہارت سے تخلیق کیا گیا ہے۔
ان حلقوں کو اگر ایک بڑے نقشے پر لکیریں کھینچ کر دکھایا جائے تو ایسی آڑھی ترچھی لکیریں وجود میں آئیں گی کہ ہنسی آئے گی۔ گوادر سے گلگت تک سب ایسا ہے۔ کراچی میں لسانی گروہ بڑھے تو کس شاندار طریقے سے ہر کسی نے ٹیڑھی ترچھی حد بندیاں بنا کر اپنے مفادات کا تحفظ کیا۔
اس کے بعد جمہوریت کا وہ خوفناک کھیل شروع ہوتا ہے جسے اکثریت کی آمریت کہتے ہیں۔ دنیا بھر میں مفکرین اور سیاسی دانشور Tyranny of Mojority سے نجات پر لکھتے آ رہے ہیں۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک حلقے میں اگر ایک لاکھ ووٹ ہیں تو اکیاون ہزار والا اسمبلی کارکن اور 49 ہزار لوگ اس اسمبلی میں اپنی رائے سے محروم۔ پاکستان میں تو اس قبضہ گروپ کے لوگوں کو گروہ درگروہ تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک لاکھ ووٹوں میں سے پانچ پانچ دس دس ہزار کے چند گروہ پورے حلقے کو نسل‘ رنگ‘ زبان اور عقیدے کی بنیاد پر تقسیم کر دیتے ہیں اور 15 ہزار ووٹ لینے والا اسمبلی کا رکن۔
یوں 85 فیصد لوگوں کی اسمبلی میں آواز تک سنائی نہیں دیتی۔ یہ سب انتہائی ہوشیاری‘ چالاکی اور خوبصورتی سے کیا گیا ہے اور پھر دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ اس کا متبادل بتاؤ۔ متبادل سے پہلے ایک سوال کہ کیا پوری دنیا بھی برطانوی طرز انتخاب کی طرح کی پارلیمانی جمہوریت ہے۔ ہر ملک نے اپنے حالات کے مطابق اپنا نظام وضع کیا ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوئٹزرلینڈ کے آئین اور انتخابی نظام کا مطالعہ کیا۔ پورا ملک چار زبانیں بولنے والوں میں تقسیم ہے۔
وہ اگر ہماری طرح حلقہ جاتی سیاست میں پڑتے تو وہاں بھی آج خونریزی کے سوا کچھ نظر نہ آتا۔ وہاں کے کینٹن میں متناسب نمایندگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں اور ایک اسمبلی ممبر کئی اضلاع کے ووٹوں کی اکثریت سے اسمبلی تک پہنچتا ہے۔ ہر وہ سیاسی پارٹی جس کے چند ہزار ووٹ بھی ہوں اسمبلی میں اس کا نمایندہ ضرور موجود ہوتا ہے۔ حلقہ بندیوں کی پاکستانی سیاست کا کمال یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کی رائے اسمبلی تک نہیں پہنچ پاتی۔ وہ بار بار ہونے والے الیکشنوں میں سچے، کھرے اور ایماندار شخص کو ووٹ دیتے رہتے ہیں اور ان کے ووٹ تین سو سے زائد حلقوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔
اگر پورے ملک کے ووٹ اکٹھے کر لیے جائیں، حلقہ بندیاں ختم کر دی جائیں، ہر پارٹی یا فرد کو کوئی کسی بھی جگہ سے ووٹ دے اور پھر ان ہی ووٹوں کی بنیاد پر اسمبلی کی رکنیت عطا ہو تو اسمبلی میں سو فیصد افراد کی آراء کی نمایندگی ہو سکے گی۔ ہو سکتا ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ ٹی وی پر بولنے والا ایک ہارا ہوا سیاستدان پورے ملک میں اتنے مداح ضرور رکھتا ہو گا کہ ایک سیٹ کے برابر ووٹ لے سکے۔ لیکن اس کے مداح پورے ملک میں تقسیم ہیں، اس لیے وہ قبضہ گروپ کی بنائی ہوئی حد بندیوں میں الیکشن نہیں جیت سکتا۔
ایسا ہو تو پھر عوام کی وہ اکثریت کسی پارلیمنٹ میں نمایندگی سے محروم رہ جاتی ہے اور وہاں قبضہ گروپ دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ قبضہ گروپ اور عوام کے ساٹھ سالہ غصے کا مقابلہ اور بدترین نظام سے نجات کی آوازیں ہیں۔ یہ آوازیں اس ننانوے فیصد عوام کی نمایندہ بن جایا کرتی ہیں جنھیں تھانے، پٹوار خانے، کسی سرکاری دفتر یا ادارے سے انصاف نہیں ملتا، جو اسپتالوں سے محروم اور بنیادی سہولیات سے نا آشنا رہے ہوتے ہیں۔ ہر کسی کا اپنا غصہ اور غم ہوتا ہے۔
انھیں اس بات کی پروا تک نہیں ہوتی کہ ہجوم کی قیادت کون کر رہا ہے۔ وہ اپنی انتقام کی آگ لیے ہوتے ہیں۔ اسی آگ کے شعلوں کو دیکھ کر قبضہ گروپ کو جب اپنا بنایا ہوا تاج محل مسمار ہوتا لگتا ہے تو انھیں آئین اور قانون کی کتابیں یاد آتی ہیں۔ ان کے منہ سے جھاگ نکلنے لگتی ہے۔ لیکن غصے میں بپھرے ہجوم کو یقین ہوتا ہے کہ آئین اور قانون کی کتابوں سے ہی تو انھیں ساٹھ سال انصاف اور زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا گیا ہے۔
تحریکوں کی سیاست ا ور تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں یہ گنتی کی سیاست نہیں ہوتی۔ 1940ء کی قرارداد پاکستان سے لے کر عدلیہ کی بحالی تک لوگوں کا ہجوم ہزاروں کی گنتی میں تھا۔ لیکن یہ ہزاروں لوگ تاریخ کا پہیہ موڑ دیتے ہیں۔ قبضہ گروپوں کی چالیں ان کے منہ پر مار دیتے ہیں۔ یہ ایک دفعہ کچلے جائیں تو کچھ عرصے بعد پھر نکل آتے ہیں اور زیادہ زور و شور سے نکلتے ہیں۔ دنیا کی کوئی جمہوریت قبضہ گروپوں سے زبردستی اقتدار چھیننے کے بغیر مستحکم نہیں ہو گی، خواہ وہ فرانس میں بادشاہ لوئی اور ساتھیوں کا خون بہا کر ہوئی ہو یا انگلینڈ میں چارلس اول کو عوامی پارلیمنٹ سے سزائے موت دے کر۔
theharferaz@yahoo.com
آئین کی کتاب کو مقدس الہامی کتاب کی طرح لہرا کر اس کے ورق ورق کے تحفظ کی کیوں قسم کھائی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ جلا دو‘ سپریم کورٹ جلا دو‘ کیبنٹ سیکریٹریٹ جلا دو‘ بس ایک فقرہ رہ گیا‘ پورے اٹھارہ کروڑ عوام کو جلا کر خاکستر کر دو، لیکن یہ چند مقدس اوراق بچا لو۔ انھیں ضرور بچانا چاہیے۔
اس لیے کہ یہ ان لوگوں نے تحریر کیے ہیں‘ یہ اس نسل کے ذہن رسا کا نتیجہ ہیں جنہوں نے انگریز کی غلامی میں آنکھ کھولی اور جن کی اکثریت خود اور ان کے آباؤ اجداد انگریز سرکار سے وفاداری اور اپنی قوم سے غداری کے صلے میں بڑی بڑی جائیدادیں‘ اعلیٰ نوکریاں اور شاندار مراعات لینے کے بعد اس مملکت کے عام اور سادہ لوح غریب عوام پر مسلط ہو گئی تھی۔
آئین کے خالق جن لوگوں کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے‘ ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی اکثریت کے حسب نسب اور اچانک اپنے علاقوں میں انگریز سرکار کے طاقتور نمایندہ ہونے کی تاریخ آج بھی ڈسٹرکٹ گزیٹیرز اور ڈپٹی کمشنروں کے دفاتر میں موجود فائلوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ہر کسی کی قیمت کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے اور وفاداریوں کی داستان بھی۔ نہ کوئی میر بچتا ہے نہ پیر‘ نہ وڈیرا پیچھے رہتا ہے اور نہ سردار‘ نہ چوہدریوں کا دامن صاف اور نہ ہی خانوں کا۔ تاریخ کے اس حمام میں بہت سے ننگے ہیں اور جس نے اپنے کپڑے بچائے وہ آج بھی اقتدار کی راہداریوں سے کوسوں دور ہے۔
آئین کے یہ خالق خوب جانتے تھے کہ کس طرح اس قوم کو حصوں بخروں میں بانٹ کر محکوم رکھا جا سکتا ہے۔ انھیں پتہ تھا کہ جب تک محکوموں کے گرد مختلف لائنیں نہ بنائی جائیں، وہ آپس میں دست و گریبان نہیں ہوتے۔ سندھی‘ پنجابی‘ پشتونوں اور بلوچ مزدوروں اور کسانوں کے پسینے کی بو اور ہاتھوں میں پڑ گَٹے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اسے جہاں‘ جس جگہ مزدوری ملے‘ وہ رزق کی تلاش میں چل پڑتا ہے۔
چار اکائیاں آسمان سے نہیں اتری تھیں‘ انھیں انگریز نے اپنے مقاصد کے لیے تخلیق کیا تھا اور پھر ان اکائیوں پر حکمرانی کرنے کے لیے یہ ’’جمہوری‘‘ خاندان پیدا کیے تھے۔ جس طرح کسان‘ ہاری‘ مرید اور ملازم ان کی رعایا ہیں اسی طرح جمہوریت بھی ان کے گھر کی ’’لونڈی‘‘ ہے۔ ایسی لونڈی کہ جو آقا کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ یہ مقدس چار اکائیاں اس قدر بالاتر ہیں کہ اس ملک میں ہر کوئی پاکستان کے ٹوٹے جانے کے خواب دیکھتا ہے، لیکن انگریز کے بنائے ہوئے ان چار صوبوں کو‘ ان کھینچی گئی لکیروں کا آپ تذکرہ کر کے دیکھیں‘ ہر کوئی خون کی ندیاں بہانے پر تیار ہو جاتا ہے۔
اس لیے کہ انگریز نے ان چاروں اکائیوں کا ایک ایک مرکز اقتدار بنایا تھا اور ان پر ان خاندانوں کو قابض کر دیا تھا۔ کیا کراچی‘ کوئٹہ یا پشاور جیسے شہر انگریز سے پہلے اقتدار کا مرکز تھے۔ لاہور بھی اکبر کے چند سال یا رنجیت سنگھ کی حکومت کے سوا‘ اقتدار سے بہت دور رہا، لیکن کبھی لڑائی ہوتی ہے تو انھی چاروں مراکز اقتدار پر قبضے کی لڑائی ہوتی ہے۔
قبضہ گروپ یہ قبضہ چھوڑنا نہیں چاہتا اور آئین کی مقدس کتاب ہاتھ میں لہرا کر کہتا ہے اس میں لکھا ہے۔ ہم اس کے ورق ورق کی حفاظت کریں گے۔ اگر یہ ختم ہو گیا تو پھر دوبارہ ایسا آئین تحریر نہیں کر سکو گے۔ یقینا ایسا آئین دوبارہ تحریر نہیں ہو سکے گا۔ اس لیے کہ زمینی حقائق بدل چکے ہیں۔ وہ نسل اب مملکت خداداد پاکستان میں اکثریت سے ہے جس نے انگریز کی غلامی کا طوق کبھی نہیں پہنا تھا۔
ان اقتدار کے مراکز پر قبضے کے لیے اور مخصوص لوگوں کو حکمرانی پر مسلط کرنے کے لیے انگریز نے ویسٹ منسٹر جمہوریت کا پارلیمانی نظام متعارف کروایا۔ اس نظام کے تحت ہر علاقے میں مخصوص نسل‘ رنگ‘ زبان اور برادری کی بنیاد پر کچھ لکیریں کھینچی گئیں۔ بار بار کے انتخابات نے اس قبضہ گروپ کو اس قدر کامیاب اور تجربہ کار بنا دیا کہ سوائے چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر کہ جہاں آبادی میں تیزی سے رد و بدل ہوتا ہے‘ باقی ہر انتخابی حلقہ کو انتہائی مہارت سے تخلیق کیا گیا ہے۔
ان حلقوں کو اگر ایک بڑے نقشے پر لکیریں کھینچ کر دکھایا جائے تو ایسی آڑھی ترچھی لکیریں وجود میں آئیں گی کہ ہنسی آئے گی۔ گوادر سے گلگت تک سب ایسا ہے۔ کراچی میں لسانی گروہ بڑھے تو کس شاندار طریقے سے ہر کسی نے ٹیڑھی ترچھی حد بندیاں بنا کر اپنے مفادات کا تحفظ کیا۔
اس کے بعد جمہوریت کا وہ خوفناک کھیل شروع ہوتا ہے جسے اکثریت کی آمریت کہتے ہیں۔ دنیا بھر میں مفکرین اور سیاسی دانشور Tyranny of Mojority سے نجات پر لکھتے آ رہے ہیں۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک حلقے میں اگر ایک لاکھ ووٹ ہیں تو اکیاون ہزار والا اسمبلی کارکن اور 49 ہزار لوگ اس اسمبلی میں اپنی رائے سے محروم۔ پاکستان میں تو اس قبضہ گروپ کے لوگوں کو گروہ درگروہ تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک لاکھ ووٹوں میں سے پانچ پانچ دس دس ہزار کے چند گروہ پورے حلقے کو نسل‘ رنگ‘ زبان اور عقیدے کی بنیاد پر تقسیم کر دیتے ہیں اور 15 ہزار ووٹ لینے والا اسمبلی کا رکن۔
یوں 85 فیصد لوگوں کی اسمبلی میں آواز تک سنائی نہیں دیتی۔ یہ سب انتہائی ہوشیاری‘ چالاکی اور خوبصورتی سے کیا گیا ہے اور پھر دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ اس کا متبادل بتاؤ۔ متبادل سے پہلے ایک سوال کہ کیا پوری دنیا بھی برطانوی طرز انتخاب کی طرح کی پارلیمانی جمہوریت ہے۔ ہر ملک نے اپنے حالات کے مطابق اپنا نظام وضع کیا ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوئٹزرلینڈ کے آئین اور انتخابی نظام کا مطالعہ کیا۔ پورا ملک چار زبانیں بولنے والوں میں تقسیم ہے۔
وہ اگر ہماری طرح حلقہ جاتی سیاست میں پڑتے تو وہاں بھی آج خونریزی کے سوا کچھ نظر نہ آتا۔ وہاں کے کینٹن میں متناسب نمایندگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں اور ایک اسمبلی ممبر کئی اضلاع کے ووٹوں کی اکثریت سے اسمبلی تک پہنچتا ہے۔ ہر وہ سیاسی پارٹی جس کے چند ہزار ووٹ بھی ہوں اسمبلی میں اس کا نمایندہ ضرور موجود ہوتا ہے۔ حلقہ بندیوں کی پاکستانی سیاست کا کمال یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کی رائے اسمبلی تک نہیں پہنچ پاتی۔ وہ بار بار ہونے والے الیکشنوں میں سچے، کھرے اور ایماندار شخص کو ووٹ دیتے رہتے ہیں اور ان کے ووٹ تین سو سے زائد حلقوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔
اگر پورے ملک کے ووٹ اکٹھے کر لیے جائیں، حلقہ بندیاں ختم کر دی جائیں، ہر پارٹی یا فرد کو کوئی کسی بھی جگہ سے ووٹ دے اور پھر ان ہی ووٹوں کی بنیاد پر اسمبلی کی رکنیت عطا ہو تو اسمبلی میں سو فیصد افراد کی آراء کی نمایندگی ہو سکے گی۔ ہو سکتا ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ ٹی وی پر بولنے والا ایک ہارا ہوا سیاستدان پورے ملک میں اتنے مداح ضرور رکھتا ہو گا کہ ایک سیٹ کے برابر ووٹ لے سکے۔ لیکن اس کے مداح پورے ملک میں تقسیم ہیں، اس لیے وہ قبضہ گروپ کی بنائی ہوئی حد بندیوں میں الیکشن نہیں جیت سکتا۔
ایسا ہو تو پھر عوام کی وہ اکثریت کسی پارلیمنٹ میں نمایندگی سے محروم رہ جاتی ہے اور وہاں قبضہ گروپ دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ قبضہ گروپ اور عوام کے ساٹھ سالہ غصے کا مقابلہ اور بدترین نظام سے نجات کی آوازیں ہیں۔ یہ آوازیں اس ننانوے فیصد عوام کی نمایندہ بن جایا کرتی ہیں جنھیں تھانے، پٹوار خانے، کسی سرکاری دفتر یا ادارے سے انصاف نہیں ملتا، جو اسپتالوں سے محروم اور بنیادی سہولیات سے نا آشنا رہے ہوتے ہیں۔ ہر کسی کا اپنا غصہ اور غم ہوتا ہے۔
انھیں اس بات کی پروا تک نہیں ہوتی کہ ہجوم کی قیادت کون کر رہا ہے۔ وہ اپنی انتقام کی آگ لیے ہوتے ہیں۔ اسی آگ کے شعلوں کو دیکھ کر قبضہ گروپ کو جب اپنا بنایا ہوا تاج محل مسمار ہوتا لگتا ہے تو انھیں آئین اور قانون کی کتابیں یاد آتی ہیں۔ ان کے منہ سے جھاگ نکلنے لگتی ہے۔ لیکن غصے میں بپھرے ہجوم کو یقین ہوتا ہے کہ آئین اور قانون کی کتابوں سے ہی تو انھیں ساٹھ سال انصاف اور زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا گیا ہے۔
تحریکوں کی سیاست ا ور تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں یہ گنتی کی سیاست نہیں ہوتی۔ 1940ء کی قرارداد پاکستان سے لے کر عدلیہ کی بحالی تک لوگوں کا ہجوم ہزاروں کی گنتی میں تھا۔ لیکن یہ ہزاروں لوگ تاریخ کا پہیہ موڑ دیتے ہیں۔ قبضہ گروپوں کی چالیں ان کے منہ پر مار دیتے ہیں۔ یہ ایک دفعہ کچلے جائیں تو کچھ عرصے بعد پھر نکل آتے ہیں اور زیادہ زور و شور سے نکلتے ہیں۔ دنیا کی کوئی جمہوریت قبضہ گروپوں سے زبردستی اقتدار چھیننے کے بغیر مستحکم نہیں ہو گی، خواہ وہ فرانس میں بادشاہ لوئی اور ساتھیوں کا خون بہا کر ہوئی ہو یا انگلینڈ میں چارلس اول کو عوامی پارلیمنٹ سے سزائے موت دے کر۔