صرف علی
محفلین
ّقتل انسان
۳۲۷۳ (۱)قتلِ انسان
قرآن مجید:
من اجل ذالک…………………………جمیعاً (مائدہ/۳۲)
ترجمہ۔ اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر واجب کر دیا تھا کہ جو شخص کسی کو نہ تو جان کے بدلہ اور نہ ہی زمین میں فساد پھیلانے کی سزا میں (بلکہ ناحق) قتل کر ڈالے گا تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک آدمی کو زندہ کر دیا تو گویا اس نے سب لوگوں کو جلا لیا۔
ولا تفتلوا النفس…………………………………� ��سلطان (بنی اسرائیل…۳۳)
ترجمہ۔ اور جس جان کا مارنا اللہنے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا، مگر جائز طور پر اور جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قاتل پر قصاص کا) کا اختیار دیا ہے…
(قولِ موٴلف مزید آیات کے لئے ملاحظہ ہو سورہ نساءء/۲۹۔۹۲۔۹۳
مائدہ/۲۸۔۳۲۔ انعام/۱۳۹۔۱۴۰۔ ۱۵۱۔ بنی اسرائیل/۳۱۔۳۳ الکھف/۷۴ فرقان/۶۸۔ تکویر/۹
حدیث شریف
۱۶۲۸۸۔ سب سے بڑا سرکش اور نافرمان وہ انسان ہے جو ایسے شخص کو قتل کرے جس نے اسے قتل نہیں کیا یا ایسے شخص کو مارے جس نے اسے نہیں مارا۔
(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امالی صدوق ص ۱۲۶
۱۶۱۸۹۔ 9; اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا نافرمان اور اس کے آگے سرکشی کرنے والا شخص وہ ہے جو ایسے شخص کو قتل کرے جس نے اسے قتل نہیں کیا اور ایسے شخص کو مارے جس نے اسے نہیں مارا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۶
۱۶۲۹۰۔ بندہ اس وقت تک دین کی دی ہوئی آزاد فضاؤں میں رہتا ہے جب تک کسی ناحق خون میں اپنے ہاتھ رنگین نہیں کرتا۔
(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنز العمال حدیث ۳۹۹۰۷
(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۵ اور اس کتاب میں
"بندہ" کی بجائے "موٴمن" کا لفظ ہے۔ فروع کافی جلد ۷ ص ۲۷۲
۱۶۲۹۱۔ بندہ کا دل ہمیشہ اس وقت تک ترغیب اور خوف کو قبول کرتا رہتا ہے جب تک کہ وہ کسی کا ناحق خون نہیں بہاتا۔ پھر جب وہ کسی کا ناحق بہاتا ہے تو اس کا دل الٹا ہو جاتا ہے اور گناہ کی وجہ سے اس کی رنگت ایسی سیاہ ہو جاتی ہے جیسے کالی تارکول ہوتی ہے، اس کے بعد وہ نہ تو نیکی کو نیکی جانتا ہے اور نہ ہی برائی کو برائی۔
(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزل العمال حدیث ۳۹۹۵۱
۱۶۲۹۲۔ قیامت کے دن سب سے پہلے جس مقدمہ کا فیصلہ ہو گا وہ خون کا مقدمہ ہو گا۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۸۸۷، الترغیب و الترہیب جلد، ۳ ص ۲۹۲۔ اسے بخاری، مسلم، ترمذی اور ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے۔
۱۶۳۹۳۔ 9; اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا فیصلہ فرمائے گا وہ خون کا فیصلہ ہو گا۔ چنانچہ فرزندان آدم (ہابیل و قابیل) کو اللہ کے سامنے پیش کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ پھر ان لوگوں کو پیش کیا جائے گا جو ان کے زمانہ سے قریب تر ہوں گے۔ اس سلسلہ میں کوئی شخص باقی نہیں بچے گا۔ پھر اس کے بعد دوسرے لوگ پیش ہوں گے، ہر مقتول اپنے قاتل کے ہمراہ ہو گا، اس کا چہرہ خون سے رنگین ہو گا اور بارگاہِ رب العزت میں عرض کرے گا: "خداوندا! اس نے مجھے قتل کیا: "اس پر اللہ تعالیٰ قاتل سے کہے گا "کیا تو نے اسے قتل کیا تھا؟" اس وقت وہ کوئی بات نہیں چھپا سکے گا۔
(حضرت رسول اکرم) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۴
۱۶۲۹۴۔ 9; اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ بن عمران کی طرف وحی فرمائی: "اے موسیٰ! بنی اسرائیل سے کہہ دو کہ اے بنی اسرائیل! کسی شخص کو ناحق قتل نہ کرو کیونکہ تم میں سے جو شخص کسی کو دنیا میں قتل کرے گا اسے اس کے بدلہ میں ایک لاکھ مرتبہ اسی طرح قتل کیا جائے گا جس طرح اس نے قتل کیا ہو گا۔"
(حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۶
۱۶۳۹۵۔ خون بہانے کے معاملہ میں تمہیں تمہارے دونوں ہاتھوں کا کھلا ہونا مغرور نہ کر دے اس لئے کہ قاتل کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا قاتل بھی ہے جس میں اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ لوگوں نے عرض کیا: "یارسولاللہ! وہ کونسا ایسا قاتل ہے جسے موت نہیں آئے گی؟" فرمایا: "جہنم"!
(حضرت رسول اکرم) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۴
۱۶۲۹۶۔ 9; اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام دنیا کا یکبارگی خاتمہ کر دینا ناحق خون بہائے جانے سے زیادہ آسان ہے۔
(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۲۹۳ اسے بیہقی نے بھی روایت کیا ہے۔
۱۶۲۹۷۔ (قیامت کے دن) مقتول اپنے قاتل کا ہاتھ پکڑے ہوئے آئے گا اور رب العزت کے حضور اس حالت میں پیش ہو گا کہ اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا۔ وہ بارگاہ رب العزت میں فریاد کرے گا کہ "اے پرورگار! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا؟" اللہ تعالیٰ اس سے سوال کرے گا: "تونے اسے کیوں قتل کیا تھا؟" وہ جواب دے گا: "میں نے اسے فلاں شخص کو عزت دینے کے لئے قتل کیا تھا! اسے جواب ملے گا: "عزت تو اللہ ہی کے لئے ہے!"
(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۲۹۶
۱۶۲۹۸۔ جو شخص بھی ناحق یا برحق قتل کیا جاتا ہے وہ قیامت کے دن ایسی حالت میں محشور ہو گا کہ اپنے قاتل کو اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑے ہوئے ہو گا اور بائیں ہاتھ میں اس کا اپنا سر ہو گا، اس کی رگوں سے خون جاری ہو گا اور وہ کہے گا: "پروردگارا! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا؟" اگر تو اس نے اسے اطاعت خداوندی کے لئے قتل کیا ہو گا تو اسے ثواب ملے گا اور مقتول کو جہنم میں بھیج دیاجائے گا، اگر کسی انسان کو راضی کرنے کے لئے کیا تھا تو مقتول سے کہا جائے گا کہ تو بھی اسے ویسے ہی قتل کر جس طرح اس نے تجھے قتل کیا تھا۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق عمل فرمائے گا۔
(حضرت امام محمد باقر علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۵۔ فرغ کافی جلد ۷ ص ۲۷۲
۱۶۲۹۹۔ ایک شخص دوسرے شخص کا ہاتھ تھامے بارگاہ رب العزت میں پیش ہو گا اور عرض کرے گا: "پروردگارا! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا؟" قاتل جواب دے گا: پروردگارا! اسے میں نے تیری عزت کی خاطر قتل کیا تھا!" اللہ تعالیٰ فرمائے گا: "بے شک عزت میرے ہی لئے ہے!" پھر ایک اور شخص ایک دوسرے آدمی کا ہاتھ پکڑے ہوئے آئے گا اور کہے گا: "پروردگارا! اس نے مجھے قتل کیا ہے!" اللہ تعالیٰ قاتل سے پوچھے گا: "تونے اسے کیوں قتل کیا؟" قاتل جواب دے گا: "اس لئے کہ فلاں شخص کوعزت ملے!" اللہ تعالیٰ فرمائے گا: "عزت (میرے سوال) کسی اور کے لئے نہیں ہے!" اس کے بعدوہ گناہوں میں جکڑ دیا جائے گا۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۹۰۹
۱۶۳۰۰۔ 9; اللہ تعالیٰ نے انسان کے قتل کے قتل کو اس لئے حرام قرار دیا ہے کہ اگر اس کا قتل حلال ہوتا تو مخلوق میں فساد پیدا ہو جاتا، دنیا تباہ ہو جاتی اور سارا نظام بگڑ جاتا۔
(امام رضا علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۶
۱۶۳۰۱۔ حمران کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں سوال کیا کہ اس کے کیا معنی ہیں: "من اجل ذالک…تا…قتل الناس جمیعاً" (مائدہ/۳۲)
"اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو صرف ایک انسان کو قتل کرے گا وہ گویا ساری انسانیت کا قاتل قرار پاتا ہے؟"
امام علیہ السلام نے فرمایا: "اسے جہنم کے ایسے مقام میں رکھا جائے گا جہاں جہنمیوں کے عذاب کی آخری حد ہو گی۔ گویا اگر وہ ساری انسانیت ہی کو قتل کر ڈالے گا تو بھی اسی جگہ ہی اسے عذاب ملے گا۔" میں نے عرض کیا: "اگر ایک اور انسان کو قتل کر ڈالے تو پھر؟" آپ نے فرمایا: "اسے اس کادوگنا عذاب ملے گا"
فروع کافی جلد ۷ ص ۲۷۱
(قولِ موٴلف: تفسیرالمیزان میں ہے کہ حمران نے جو یہ پوچھا کہ اگر کسی اور شخص کو قتل کر ڈالے، اس اشکال کی طرف اشارہ ہے جو اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے کہ آیت مجیدہ ایک انسان کے قتل کی سزا، کئی انسانوں کے قتل کی سزا کے برابر قرار دے رہی ہے اس پر امام علیہ السلام نے فرمایا: "اس کا عذاب دوگنا ہو گا"
ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص یہاں یہ اشکال کرے کہ امام علیہ السلام نے اس برابری سے دستکشی اختیار کر لی ہے، آیت نے جس کا حکم دیا ہے، یعنی آیت تو کہہ رہی ہے کہ"ایک شخص کا قتل کرنا تمام لوگوں کے قتل کے برابر ہے" لیکن روایت کہہ رہی ہے کہ برابر نہیں ہے! لیکن حقیقت میں یہ اشکال وارد نہیں ہو سکتا کیونکہ "منزلت کی برابری" …یعنی ایک شخص کا قتل بمنزلت تمام لوگوں کے قتل کے ہے…اس کا تعلق عذاب کی کیفیت سے ہے نہ کہ مقدار کی کیفیت سے۔ لہٰذا واضح ترین الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک شخص کا قاتل اور تمام لوگوں کا قاتل ہر دو جہنم کے ایک ہی مقام میں ہوں گے، لیکن ایک شخص سے زائد کے قاتل کا عذاب دوگنا ہو گا۔ اسی لئے روایات میں آیا ہے کہ اگر کوئی آدمی تمام لوگوں کو بھی قتل کر ڈالے تو بھی اسی جگہ عذاب میں ہو گا۔
ہماری اس گفتگو کی شاہد وہ روایت ہے جسے عباسی نے اسی آیت کی تفسیر کے سلسلہ میں حمران کے ذریعہ سے امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے، امام علیہ السلام فرماتے ہیں: "جہنم میں ایک مقام ایسا ہے جہاں اہلِ جہنم کے عذاب کی شدت اپنی آخری حدوں تک ہوتی ہے اور قاتل کو اسی میں ڈالا جائے گا" حمران کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: "اگر وہ دو آدمیوں کو قتل کر ڈالے تو پھر کیا ہو گا؟" امام نے فرمایا "کیا تم یہ نہیں جانتے ہو کہ جہنم میں ایک ایسی جگہ بھی ہے جس کا عذاب اس قدر شدید ہے کہ اس سے بڑھ کر کسی اور جگہ کا عذاب اس سے شدید تر نہیں ہے" پھر فرمایا: "اسی جگہ پر اس قاتل کا عذاب اس کے قتل کے حساب سے دوگنا ہوتا جائے گا" پس امام علیہ السلام کا "نفی" اور "اثبات" میں جمع کرنا اس توجہ کے علاوہ اور کچھ نہیں جو ہم نے روایات کی طرف دلائی ہے اور وہ یہ کہ برابری اور مساوات عذاب کی مقدار میں نہیں بلکہ اس کی کیفیت میں ہے جس کی طرف لفظ "منزلت" اشارہ کر رہا ہے۔ البتہ اختلاف خود عذاب اور اس کی اذیتوں کے بارے میں ہے جن سے قاتل کو دوچار ہونا پڑے گا۔
ہماری گفتگو کا ایک اور شاہد فی الجملہ وہ روایت ہے جو خدان بن سدیر نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے۔ امام نے اس آیت "من قتل نفسافکا نما قتل الناس جمعیاً" کے ضمن میں ارشاد فرمایا: "جہنم میں ایک گہری وادی ہے کہ اگر کوئی شخص تمام لوگوں کو قتل کر ڈالے تو اسے اسی وادی میں جھونکا جائے گا اور اگر کوئی ایک شخص کو مار ڈالے تو بھی اسے وہیں ڈالا جائے گا"
علامہ طباطبائی فرماتے ہیں: اس روایت میں آیت شریفہ بعینہ ذکر نہیں کی گئی بلکہ اس کے معنی کو ذکر کیا گیا ہے،
تفسیر المیزان جلد ۵ ص ۳۲۲
۳۲۷۴۔ (۲)