قتل مسلم ، قتل انسانیت

الف نظامی

لائبریرین
دنیا میں مسائل کا حل کبھی بھی جنگوں سے نہیں ہوا۔ امریکی جنگی جنون نے دنیا کو تباہی کے دہانے پہ لا کھڑا کیا ہے۔
تمام مذاھب کے دانشور طبقہ کو اس رجحان کی بیخ کنی کرنا ہوگی اور امن پسند حکومتوں کو اقوام متحدہ ، آو آئی سی کے پلیٹ فارم سے امریکہ کو قتل انسانیت سے روکنے کے لیے موثر قانون سازی کرنا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ امریکہ کو لگام نہیں دے سکا اور اقوام متحدہ کی رضامندی کے بغیر عراق اور افغانستان پر جنگ مسلط کی گئی جس کے نتیجہ میں لاکھوں انسان مارے گئے اور پاکستان کی اندرونی صورتحال بھی خراب ہے( کچھ دانشوروں کا یہ خیال ہے کہ اس میں بھی امریکہ ملوث ہے)۔
لہذا امریکہ کو جنگی جنون سے باز رکھنے کے لیے ، امن عالم کو برقرار رکھنے کے لیے تمام انسانیت کو اکٹھا ہوکر آواز لگانا ہوگی۔
سپر پاور کا تصور ختم کرکے تمام اقوام کو برابری کی سطح پر رہنا ہوگا۔
 
میں اپ سے متفق ہوں۔ امن عالم کے لیے تمام اقوام کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور جارح اور مداخلت کاروں کو لگام دینی چاہیے۔ اقوام متحدہ صرف امریکہ کی کنیز کا کردار ادا کررہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے دنیا کے امن پسند اور انصاف پسند اقوام اگے ائیں اور نئے ادارے کی بنیاد ڈالیں جو دنیا کے لوگو ں کو انصاف فراہم کرسکے۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
بالکل آپ نے صحیح کہا کل ہی میں جنرل ( ر) مرزا اسلم بیگ کا ایک کالم پڑھ رہا تھا جس میں صہونی قوتیں ملکر مسلمانوں کو مٹانا چاہتی ہے اور اس نے پاکستان کے خلاف کی جانے والے افعانستان میں اس کا ہیڈ کواٹر بھی نمایاں کیا ہے جو کہ سی آئی اے ، را ، موساد ، ایم آئی 6 اور بی این ڈی ( جرمنی انٹیلی جنس کا ادارہ) مشترکہ طور پر چلاتے ہیں
بس دعاء کرنا کہ یا اللہ ان کافروں کے منصوبے انہی پر الٹا دیں بے شک تو بہترین منصوبہ ساز ہے اور ہماری ایمان کی تو حفاظت فرما اور ہمیں ہدایت نصیب فرما اور ہم تو ان بچوں جیسے ہیں جیسے بڑے ہاتھ سے پکڑ کر راستے پر چلاتے ہیں یا اللہ تو ہمیں اسی طرح سیدھی راہ پر چلا


اللہ اکبر کبیرا
 

الف نظامی

لائبریرین
بالکل صحیح کہا ہمت علی آپ نے، اقوام متحدہ امریکہ کی کنیز اس لیے بنا ہوا ہے کہ اقوام عالم امریکہ کے مظالم کے خلاف اقوام متحدہ میں بولتی نہیں۔
جب انہوں نے بولنا سیکھ لیا تو اس دن دنیا کے امن کے طرف پہلا قدم ہوگا۔
 
صاحبو،
امریکہ مخالف کہانی تو دوسری جنگ عظیم سے بھی پرانی ہے۔ یہ دیکھئے؟ آپ میں اور اس گرانڈ مفتی کے " بھیڑیا آگیا " کی پکار میں کیا فرق ہے؟

http://www.palestinefacts.org/pf_mandate_during_ww2.php

جو سامنے کی بات ہے وہ سامنے کی بات ہے۔ اگر امریکہ روس جیسی طاقت کی مخالفت کھلم کھلا کرسکتا ہے تو پاکستان میں چھپ چھپ کر وارداتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ایسے مضحکہ خیز افواہوں آتی کہاں‌سے ہیں؟‌ مفتیوں اور ملاؤں‌سے؟‌ جن کو چھپ چھپ کر وار کرنے کی عادت ہے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
بالکل آپ نے صحیح کہا کل ہی میں جنرل ( ر) مرزا اسلم بیگ کا ایک کالم پڑھ رہا تھا جس میں صہونی قوتیں ملکر مسلمانوں کو مٹانا چاہتی ہے اور اس نے پاکستان کے خلاف کی جانے والے افعانستان میں اس کا ہیڈ کواٹر بھی نمایاں کیا ہے جو کہ سی آئی اے ، را ، موساد ، ایم آئی 6 اور بی این ڈی ( جرمنی انٹیلی جنس کا ادارہ) مشترکہ طور پر چلاتے ہیں
جی یہ کالم میں بھی پڑھ چکا ہوں۔ بہت فکر انگیز ہے۔
جو سامنے کی بات ہے وہ سامنے کی بات ہے۔ اگر امریکہ روس جیسی طاقت کی مخالفت کھلم کھلا کرسکتا ہے تو پاکستان میں چھپ چھپ کر وارداتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
جی اس دھاگے کا موضوع یہی ہے کہ امریکہ کے کھلم کھلا جنگی جنون کو ختم کرکے امن کو فروغ دیا جائے۔
آپ اپنی سپیمنگ کے لیے علیحدہ دھاگہ کھول لیں ، یہاں خلط مبحث نہ کریں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اُن کی پالیسی ہے کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ تو بھائی جی آپ ان کی پالیسی کے آلہ کار کیوں بنتے ہیں، کیوں تقسیم ہوتے ہیں، کیوں آپس میں متحد نہیں ہوتے؟ کوئی پیسوں سے بک جاتا ہے تو کوئی عورت سے۔ اپنے ایمان کی کمزوری کو چھپا کر اُسے برا بھلا کہنے سے کیا آپ جنگ جیت جائیں گے۔ آپس میں ایک دوسرے کے پیچھے نماز تو پڑھتے نہیں اور الزام دوسروں پر۔ اب بھی سمجھ جائیں، اسی بات کا تو وہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اُن کی پالیسی ہے کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ تو بھائی جی آپ ان کی پالیسی کے آلہ کار کیوں بنتے ہیں، کیوں تقسیم ہوتے ہیں، کیوں آپس میں متحد نہیں ہوتے؟ کوئی پیسوں سے بک جاتا ہے تو کوئی عورت سے۔ اپنے ایمان کی کمزوری کو چھپا کر اُسے برا بھلا کہنے سے کیا آپ جنگ جیت جائیں گے۔ آپس میں ایک دوسرے کے پیچھے نماز تو پڑھتے نہیں اور الزام دوسروں پر۔ اب بھی سمجھ جائیں، اسی بات کا تو وہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
آپ نے ٹھیک کہا۔ ہماری تقسیم انہیں ظلم پر جری کرتی ہے۔
لیکن چند نکات جو میں نے اٹھائے وہ یہ ہیں:
دنیا میں مسائل کا حل کبھی بھی جنگوں سے نہیں ہوا۔ امریکی جنگی جنون نے دنیا کو تباہی کے دہانے پہ لا کھڑا کیا ہے۔
تمام مذاھب کے دانشور طبقہ کو اس رجحان کی بیخ کنی کرنا ہوگی اور امن پسند حکومتوں کو اقوام متحدہ ، آو آئی سی کے پلیٹ فارم سے امریکہ کو قتل انسانیت سے روکنے کے لیے موثر قانون سازی کرنا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ امریکہ کو لگام نہیں دے سکا اور اقوام متحدہ کی رضامندی کے بغیر عراق اور افغانستان پر جنگ مسلط کی گئی جس کے نتیجہ میں لاکھوں انسان مارے گئے اور پاکستان کی اندرونی صورتحال بھی خراب ہے( کچھ دانشوروں کا یہ خیال ہے کہ اس میں بھی امریکہ ملوث ہے)۔
لہذا امریکہ کو جنگی جنون سے باز رکھنے کے لیے ، امن عالم کو برقرار رکھنے کے لیے تمام انسانیت کو اکٹھا ہوکر آواز لگانا ہوگی۔
سپر پاور کا تصور ختم کرکے تمام اقوام کو برابری کی سطح پر رہنا ہوگا۔
 

شمشاد

لائبریرین
تو یہ سب کون کرے گا؟ غیر مسلم حکومتیں تو کبھی بھی مسلمانوں کی حمایت نہیں کریں گی۔ پہلے مسلمان آپس میں ایک مثال قائم کر کے تو دکھائیں، پھر مسلمان ملک کی حکومت بھی مانے گی، جب ایک حکومت مانے گی تو دوسری مسلمان حکومت بھی مان لے گی۔

یہاں مسلم ممالک کے اتنے اجلاس ہوتے ہیں، کیا کر لیا ہے آج تک انہوں نے؟ خاص کر عرب ممالک نے جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں، اس وقت تیل کی قیمت ایک ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے، سوائے عیاشی کے انہوں نے بھی کیا کیا ہے؟ ایک ہتیھلی برابر اسرائیل کا تو مقابلہ کر نہیں سکے۔ اور چلے ہیں امریکہ کا مقابلہ کرنے۔

پاکستان کا کیا کہوں، جو ملک اپنی بجلی نہیں پوری کر سکتا وہ کسی سے کیا ٹکر لے گا۔ وہ تو اللہ کا خاص کرم ہے جو یہ ملک چلتا جا رہا ہے۔ ویسے ہمارے اعمال اس کو چلانے والے ہیں نہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
انسان کا قتل انسانیت کا قتل ہوتا ہے۔ سپر طاقتوں نے دنیا کو جنگوں کی نصابی کتاب بنا کر رکھ دیا۔ کیا کسی کو ہوش آئے گی کہ دنیا تباہی کے دہانے پر جا پہنچی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام انسانیت اس قتل عام کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔
 
الف نظامی: قتل مسلم اور قتل انسانیت کیا آپ کا اپنا قول ہے؟
قیصرانی بھائی، یہ [AYAH]5:32[/AYAH] سے ہے کہ ایک انسان کا قتل ، ساری انسانیت کا قتل ہے۔ یہ اللہ تعالی کا قول ہے۔ جس کو بھائی الف نے صرف مسلم تک محدود کردیا ہے۔ تاکہ غیر مسلموں کے بلا جواز قتل کو جائز قرار دیا جاسکے۔ کیا عجیب بات ہے کہ ، ذاتی نظریات کس طرح، ہماری تحریروں میں غیر ارادی طور پر جھلکتے ہیں؟

[AYAH] 5:32[/AYAH]
Shabbir Ahmed اسی وجہ سے فرض کردیا ہم نے نبی اسرائیل پر کہ جس نے قتل کیا کسی انسان کو بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو یا فساد مچایا ہو زمین میں تو گویا اس نے قتل کر ڈالا سب انسانوں کو اور جس نے زندگی بخشی ایک انسان کو تو گویا اس نے زندہ کیا سب انسانوں کو۔ اور بے شک آچُکے ہیں اُن کے پاس ہمارے رسول واضح احکام لے کر پھر بھی یقیناً بہت سے لوگ ان میں سے اس کے بعد بھی زمین میں زیادتیاں کرتے رہے۔

والسلام
 
انسان کا قتل انسانیت کا قتل ہوتا ہے۔ سپر طاقتوں نے دنیا کو جنگوں کی نصابی کتاب بنا کر رکھ دیا۔ کیا کسی کو ہوش آئے گی کہ دنیا تباہی کے دہانے پر جا پہنچی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام انسانیت اس قتل عام کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔

انسانیت کی تباہی کا سب سے بڑا ذمہ دار سرمایہ دارنہ نظام ہے۔ درحقیقت یہ نظام نسل انسانی کو غلامی میں‌دھکیل دیتا ہے جہاں‌نفس پرستی اور لذت پرستی ہی حلال ٹھہرتی ہیں۔ اپنے مقاصدکو حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کا طریقہ جائز سمجھاجاتا ہے۔ اسمانی کتب کی تشریح اپنی مرضی کی سے کی جاتی ہے۔ پیغمبروں‌و صالح انسانو‌ں‌ کو قتل کیا جاتا ہے۔
کہنے دییجیے کہ اج یہ سرمایہ دارانہ نظام یہود کے ہاتھ میں‌ہے۔ درحقیقت انسانیت کے دشمن اس نظام کے وارث امریکہ کی جان پنجہ یہود میں ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
قیصرانی بھائی، یہ [AYAH]5:32[/AYAH] سے ہے کہ ایک انسان کا قتل ، ساری انسانیت کا قتل ہے۔ یہ اللہ تعالی کا قول ہے۔ جس کو بھائی الف نے صرف مسلم تک محدود کردیا ہے۔ تاکہ غیر مسلموں کے بلا جواز قتل کو جائز قرار دیا جاسکے۔
کیا عجیب بات ہے کہ ، ذاتی نظریات کس طرح، ہماری تحریروں میں غیر ارادی طور پر جھلکتے ہیں؟
والسلام
پڑھے بغیر الزام تراشی کرنا شاید اسی کو کہتے ہیں
یہ سطریں نظر سے گذریں؟
انسان کا قتل انسانیت کا قتل ہوتا ہے۔ سپر طاقتوں نے دنیا کو جنگوں کی نصابی کتاب بنا کر رکھ دیا۔ کیا کسی کو ہوش آئے گی کہ دنیا تباہی کے دہانے پر جا پہنچی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام انسانیت اس قتل عام کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔
 
شمشاد بھائی کی بات کو اس طرح آگے بڑھاتا ہوں کہ:

پاکستان۔ ایران اور دوسرے مسلم ممالک میں ایک طبقہ ایسا پایا جاتا ہے جو بھرپور طریقہ پر امرہکہ مخالف ہے اور چاہتا ہے کہ امریکہ خلیج ایران سے چلا جائے۔ کہاں کہ ہم اپنے لئے بجلی نہیں بنا سکتے۔ خود اپنی معاشی ضرورت پوری نہیں کر سکتے ، ساری دنیا کی ضرورت ہم کیا پوری کریں گے۔ کیا پاکستان، ایران اور چند مزید ہمسایہ ممالک دنیا بھر کی معاشی ضرورت پوری کرنے کے قابل ہیں؟ یقیناَ نہیں۔ شاید پاکستان اور ایران مل کر خلیج ایران بند کرنے میں کامیاب ہوجائیں اور اس طرح امریکہ اپنے 8 فی صد تیل سے محروم ہوجائے۔ ٹھیک ، لیکن ساتھ میں جاپان، چین، اور یوروپین یونین بھی اس تیل سے محروم ہوجائیں گی۔ جس کا مطلب ہے کہ ان ملکوں کی اپنی معاشی ضرورت بھی پوری نہیں ہوگی اور پھرساری دنیا کی معاشی ضرورتیں، جو یہ ممالک پوری کرتے ہیں وہ بھی پوری نہیں‌ ہونگی۔۔

کیا اس صورت میں پاکستان، ایران اور چند دوسرے ہمسایہ ممالک ، ساری دنیا کے لئے مصنوعات فراہم کرسکیں گے؟ یقیناً ‌ اس کا جواب نفی میں ہے۔

جب 1930 میں فلسطین ، اردن اور شام سے امریکہ مخالف تحریکیں شروع ہوئی تھیں ، اس وقت امریکہ ہی تیل کا سب سے بڑا فائیدہ اٹھانے والا ملک تھا۔ لہذا ساری توجہ و عتاب امریکہ پر ہی نازل ہوتا رہا ۔ آج جب امریکہ مشرق وسطی سے صرف 8 فی صد تیل درآمد کرتا ہے اور اب اس فائیدہ اٹھانے والے ممالک میں چین، جاپان، یوروپی یونین اور کئی دوسرے ممالک شامل ہیں۔ ی بھیڑ چال ویسے ہی جاری ہے۔ لیکن امریکہ مخالف اپنی کم علمی کے باعث ، ابھی تک امریکہ کی مخالفت میں ہی مصروف ہیں۔ یعنی ایسی ہی سوچ رکھنے والا طبقہ، وقت میں منجمد ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اگر اس معاملہ سے باہر ہوجائے تو بھی اس طبقہ کو چین، جاپان اور یوروپی یونین کا مقابلہ کرنا ہوگا ۔

خلیج بند کرنے کا مطلب یہ ہے کہ 1۔ ساری دنیا سے مقابلہ کیا جائے 2۔ ساری دنیا کی معاشی ضرورت پوری کی جائے۔ ہم دونوں میں سے کسی بھی قابل نہیں ہیں۔

اس صورت میں ساری دنیا کیا چاہتی ہے؟
دنیا کے اہم معاشی طور پر ترقی یافتہ ممالک امریکہ کی لیڈر شپ میں یہ چاہتے ہیں کہ ہم پر مناسب " زور " رہے۔ اگر ہم کبھی بھی خلیج بند کرکے دنیا کی لائف لائین بند کرنے کی کوشش کریں کہ ہم جوہری طاقت ہیں۔ تو پاکستان کو اس کی اس صلاحیت سے محروم کردیا جائے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کو خوہ مخواہ تباہ کردے ۔

عراق کادنیا کا تیل بند کرنے کی کوشش اور اس کا حال سامنے ہے۔ ایران کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ کسی طور پر خلیج سے تیل کی روانی روک دی جائے۔ سوال یہ ہے کہ تیل سے بننے والی وہ مصنوعات جو ساری دنیا استعمال کرتی ہے، کیا اس کی ڈیمانڈ ایران اور پاکستان ساری دنیا کے لئے پوری کرنے کے قابل ہیں؟

یہ مذہبی مسئلہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ تازہ یا باسی کسی بھی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ امریکہ نے کسی بھی ملک میں کسی بھی شخص کو اس کی مسجد، مندر، گرجا یا گوردوارے جانے سے روکا ہو۔ معاملہ صرف اور صرف معاشی ترقی اور مقابلہ کا ہے۔ جو لوگ ترقی کے خواہاں ہیں وہ محنت کرکے معاشی ترقی لارہے ہیں، پاکستان میں بھی اور پاکستان کے باہر بھی۔ اور جو لوگ ابھی تک "ملا " پراپیگنڈے کا شکار ہیں وہ "‌امریکہ امریکہ " چلا رہے ہیں

ہماری عقیدہ ہے کہ بنا مشیت ایزدی کچھ نہیں ہوتا، کیا بات ہے کہ آج اگر خلیفۃ الارض کے مقام پر نظر آتا ہے تو امریکہ؟ کیا یہ اس ملک کی پر انصاف قانون اور پالیسیوں کی وجہ سے ہے؟ مسلمانوں میں وہ کیا کمی ہے کہ نہ معاشی قوت ہے، نا علمی قوت ہے، نہ عسکری قوت ہے اور نہ ہی خلیفۃ الارض ہے۔ مقام عبرت ہے۔ ہم میں ہی کچھ کمی ہے ورنہ اللہ کے اس وعدہ کو دیکھئے، بغور دیکھئے، اس کے پورا نہ ہونے کی صرف ایک وجہ ہے کہ جو شرائط اس میں دی گئی ہیں ، کیا آج کی مسلم قوم یہ شرائط پوری کررہے ہیں؟؟؟؟۔

[ayah]24:55[/ayah] اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے (جس کا ایفا اور تعمیل امت پر لازم ہے) جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت (یعنی امانتِ اقتدار کا حق) عطا فرمائے گا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو (حقِ) حکومت بخشا تھا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لئے ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے (غلبہ و اقتدار کے ذریعہ) مضبوط و مستحکم فرما دے گا اور وہ ضرور (اس تمکّن کے باعث) ان کے پچھلے خوف کو (جو ان کی سیاسی، معاشی اور سماجی کمزوری کی وجہ سے تھا) ان کے لئے امن و حفاظت کی حالت سے بدل دے گا، وہ (بے خوف ہو کر) میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے (یعنی صرف میرے حکم اور نظام کے تابع رہیں گے)، اور جس نے اس کے بعد ناشکری (یعنی میرے احکام سے انحراف و انکار) کو اختیار کیا تو وہی لوگ فاسق (و نافرمان) ہوں گے
 
انسانیت کی بقا باہمی تعاون میں‌ ہے نہ کہ مسابقت (مقابلہ) میں۔
مسابقت کا نظریہ حیوانی ہے انسانی نہیں۔ بدقسمتی سے مسابقت کا یہ نظریہ سرمایہ دار کا نظریہ ہے۔طاقت ور کا یہ حق ہے کہ وہ وسائل پر قابض رہے۔ وسائل پر طاقتور کا حق شیطانی نظریہ ہے۔
فاروق کا تمام تجزیہ اسی نظریہ پر مبنی ہے۔ وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ یہ حیوانی نظریہ درست ہے۔
برخلاف اسکے اسلام باہمی تعاوں اور ایثار کا نظریہ پیش کرتا ہے۔ اسلام یہ کہتا کہ تمام وسائل پر طاقت ور کا حق نہیں‌بلکہ اس میں کمزور کا بھی حق ہے۔
بہر حال کسی ایک وقت میں‌ اگر کوئی قوم طاقت ور ہوتی ہے تو یہ ضروری نہیں‌ہے کہ وہ حق پر بھی ہو۔ مثلا فرعونی قوم اتنی طاقت ور تھی کہ وہ اپنے اپ کو خدا (نعوذ باللہ ) سمجھ بیٹھے۔
بنی اسرائیل اگرچہ طاقتور نہیں‌تھے مگر وہ ہی حق پر تھے۔ لہذا اخری فتح قوم موسیٰ کی ہی ہوئی جو ان تمام ٹیکنالوجی سے محروم تھی جس سے قوم فرعون مزین تھی۔

انسان جب دوسرے انسان کو اس کا حق دے گا تب ہی انسانیت کا حق ادا ہوگا۔
بدقسمتی سے سرمایہ دارانہ نظام ہی انسان کو حق سے محروم کرنے پر مبنی ہے۔ یہ انسان کو غلا م بناتا ہے۔
اگر یہ حق امریکہ نہیں‌دے رہا تو طاقت امریکہ کے ہاتھ سے بلاخر نکل جائے گی۔ یہ قانون الہیٰ‌ہے ۔ اگر جاپان ، چائنا اور انڈیابھی انسان کو اس کا حق نہ دیں گے تو طاقت کہیں‌اور منتقل ہوجائے گی۔ جلد یا بدیر
مسلمان حق پر ہیں‌جب تک وہ اللہ کی بندگی کرتے رہیں‌گے۔ اگر وہ پہلوتہی کریں گے تو ان پر امریکہ، یا جاپان یا کوئی مسلط ہوکر رہے گا۔ اسی میں‌مسلمانو ں‌کی ازمائش ہے۔
اللہ مسلمانو‌ں کا مقام ہر دو جہانوں‌میں‌بلند ہی کرناچاہتا ہے۔ انشاللہ۔
 
Top