فاروق سرور خان
محفلین
ہمت آپ کی یہ مثالیں بے معنی ہیں آج کے دور میں اور ان کا تعلق موجودہ صورتحال سے قطعاً نہیں ہے۔ نا کوئی فرعون آج اللہ نے ڈیکلئر کیا ہے اور نا ہی کوئی موسی بنی اسرائیل کو لیڈ کررہا ہے۔ ایسا صرف انتہا پسند لیڈر کہتے ہیں جو مقابلہ کی صلاحیت نہیں رکھتے۔، تمام لوگ اپنی محنت سے کام کرکے آگے نکل رہے ہیں۔ پاکستان کی پچھلے 60 سال کی ترقی اس بات کی گواہ ہے کہ ہم کو کسی نے نہیں روکا ہے معاشی اور اقتصادی ترقی کرنے سے۔ باقی مسلم ممالک بھی اگر جمہوریت قائم کریں تو وہ بھی اسی طرح ترقی کریں گے جیسے کہ پاکستان نے پچھلے 60 برسوں میں کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس اتنی معاشی اور اقتصادی ترقی ہوئی ہی نہیں کہ اپنا تیل خود استعمال کرسکیں۔
تمام تیل بیچنے والے ممالک آزاد ہیں کہ جس کو چاہیں تیل بیچیں اور اپنے کنٹریکٹکی تکمیل کریں۔ اسلام کے نام لیوا کیوں چاہتے ہیں کہ قدرتی وسائل کے موجودہ مالک اپنے کنٹریکٹ اپنے وعدے پورے نا کریں۔
سرمایہ دار کسی کو کام کرنے سے نہیں روکتا۔ لیکن اپنا بچاؤ ہر شخص، قوم و ملک چاہتا ہے۔ اسلام وعدے کی تکمیل کا حکم دیتا ہے [AYAH]2:177[/AYAH] ، اسلام پراپرٹی کی ملکیت کے تصور کو سپورٹ کرتا ہے۔ [AYAH]2:188[/AYAH] اور [AYAH]9:34[/AYAH]
پھر یہ کون سے اسلام کے دعویدار ہیں جو موجودہ مالکان سے چھین کر اور ان کے وعدے توڑ کر دنیا کے حالات سدھارنا چاہتے ہیں۔ اسلام کے سرمایہ دارانہ نظام سے مقابلے ہم سب نے بہت دیکھے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ان کے لکھنےوالوں کے اپنے خیالات ہیں۔ اللہ تعالی نے فلاحی ریاست اور باہمی تعاون کی ہدایت ضرور کی ہے لیکن ، مفت بیٹھ کے کھانے کو کمزوری کا نام دے کر ، محنت کرنے والوں کی محنت ہڑپ کرنے کا بہانہ نہیں بنایا ہے۔ اگر آپ کمزور ہیں تو دنیا آپ کو مارنے نہیں آتی، آپ جب لوگوں کا حق غصب کرنے نکلتے ہیں تو وہ غضبناک ہوتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ تمام دنیا محنت سے مقابلہ سے اپنا حق محنت وصول رہی ہے اور مسلمان غربت کے لیکچر پلا رہا ہے؟ اللہ تعالی تو غربت کا حکم نہیں دیتا ، یہ تو آپ کو امارت کا حکم دیتا ہے؟ دیکھئے [AYAH]2:177[/AYAH] کہ آپ کو حکم دیا ہے کہ کتنے لوگوں کو مال ادا کریں؟ بنا محنت اور بناءکمائے آپ کیسے مال اللہ کی راہ میں دیں گے ؟
[AYAH]2:177[/AYAH] نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں
ملکیت کسی کی بھی ہو، اسلام اس کو چھیننے کی ہدایت نہیں کرتا۔ جو لوگ خلیج کے تیل پر اپنا حق ، موجودہ مالکان سے زیادہ سمجھتے ہیں ان کا ہی یہ پراپیگنڈہ ہے لیکن یہ پراپیگنڈہ اتنا پرانا ہے جب امریکہ 100 فی صد تیل لے جاتا تھا۔ اب جب حالات بدل گئے ہیں اور اس تیل کے بڑے درآمد کنندگان چین جاپان اور یوروپی یونین ہیں، تو بھی یہ پرانا لیکچر نہیں بدلا۔
آج بھی جب بس نہیں چلتا تو اقتصادی مقابلہ کو جذباتی اور مذہبی رنگ دیتے ہیں۔ جبکہ قرآن سرمایہ کو ، چاہے وہ عام آدمی کا ہو، قوم کا ہو، یا ممالک کا مشترکہ سرمایہ ہو، اہمیت دیتا ہے۔ دنیا کا موجودہ اقتصادی نظام کسی طور پر غیر اسلامی نہیں ہے۔ جو ایسا سمجھتے ہیں کم علمی کا شکار ہیں۔ اس میں مقابلہ اور تعاون کے پہلو نکالنا اور پھر اس کو بے تکے طریقوں سے قرآن کے واقعات سے منسوب کرنا انتہائی درجے کی کم علمی ہے۔
تمام تیل بیچنے والے ممالک آزاد ہیں کہ جس کو چاہیں تیل بیچیں اور اپنے کنٹریکٹکی تکمیل کریں۔ اسلام کے نام لیوا کیوں چاہتے ہیں کہ قدرتی وسائل کے موجودہ مالک اپنے کنٹریکٹ اپنے وعدے پورے نا کریں۔
سرمایہ دار کسی کو کام کرنے سے نہیں روکتا۔ لیکن اپنا بچاؤ ہر شخص، قوم و ملک چاہتا ہے۔ اسلام وعدے کی تکمیل کا حکم دیتا ہے [AYAH]2:177[/AYAH] ، اسلام پراپرٹی کی ملکیت کے تصور کو سپورٹ کرتا ہے۔ [AYAH]2:188[/AYAH] اور [AYAH]9:34[/AYAH]
پھر یہ کون سے اسلام کے دعویدار ہیں جو موجودہ مالکان سے چھین کر اور ان کے وعدے توڑ کر دنیا کے حالات سدھارنا چاہتے ہیں۔ اسلام کے سرمایہ دارانہ نظام سے مقابلے ہم سب نے بہت دیکھے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ان کے لکھنےوالوں کے اپنے خیالات ہیں۔ اللہ تعالی نے فلاحی ریاست اور باہمی تعاون کی ہدایت ضرور کی ہے لیکن ، مفت بیٹھ کے کھانے کو کمزوری کا نام دے کر ، محنت کرنے والوں کی محنت ہڑپ کرنے کا بہانہ نہیں بنایا ہے۔ اگر آپ کمزور ہیں تو دنیا آپ کو مارنے نہیں آتی، آپ جب لوگوں کا حق غصب کرنے نکلتے ہیں تو وہ غضبناک ہوتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ تمام دنیا محنت سے مقابلہ سے اپنا حق محنت وصول رہی ہے اور مسلمان غربت کے لیکچر پلا رہا ہے؟ اللہ تعالی تو غربت کا حکم نہیں دیتا ، یہ تو آپ کو امارت کا حکم دیتا ہے؟ دیکھئے [AYAH]2:177[/AYAH] کہ آپ کو حکم دیا ہے کہ کتنے لوگوں کو مال ادا کریں؟ بنا محنت اور بناءکمائے آپ کیسے مال اللہ کی راہ میں دیں گے ؟
[AYAH]2:177[/AYAH] نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں
ملکیت کسی کی بھی ہو، اسلام اس کو چھیننے کی ہدایت نہیں کرتا۔ جو لوگ خلیج کے تیل پر اپنا حق ، موجودہ مالکان سے زیادہ سمجھتے ہیں ان کا ہی یہ پراپیگنڈہ ہے لیکن یہ پراپیگنڈہ اتنا پرانا ہے جب امریکہ 100 فی صد تیل لے جاتا تھا۔ اب جب حالات بدل گئے ہیں اور اس تیل کے بڑے درآمد کنندگان چین جاپان اور یوروپی یونین ہیں، تو بھی یہ پرانا لیکچر نہیں بدلا۔
آج بھی جب بس نہیں چلتا تو اقتصادی مقابلہ کو جذباتی اور مذہبی رنگ دیتے ہیں۔ جبکہ قرآن سرمایہ کو ، چاہے وہ عام آدمی کا ہو، قوم کا ہو، یا ممالک کا مشترکہ سرمایہ ہو، اہمیت دیتا ہے۔ دنیا کا موجودہ اقتصادی نظام کسی طور پر غیر اسلامی نہیں ہے۔ جو ایسا سمجھتے ہیں کم علمی کا شکار ہیں۔ اس میں مقابلہ اور تعاون کے پہلو نکالنا اور پھر اس کو بے تکے طریقوں سے قرآن کے واقعات سے منسوب کرنا انتہائی درجے کی کم علمی ہے۔