سید زبیر
محفلین
قدرت اللہ شہاب کی کتاب "با خدا " سے اقتباس
امریک سنگھ کا گھر مسجد کے عقب میں واقع تھا ۔اس مسجد کے دامن میں ایک بھیانک سا واہمہ پرورش پا رہا تھا گاؤں بھر میں یہ بات پھیل رہی تھی کہ سر شام ہی مسجد کے کنوئیں سے عجیب عجیب ڈراؤنی آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں ۔جیسے دو چار بکریوں کو بیک وقت ذبح کیا جارہا ہو 'سالا حرامی ! ' امریک سنگھ کہا کرتا تھا 'مرنے کے بعد بھی ڈکرا رہا ہے ، بھینسے کی طرح ، ڈال دو کچھ ٹوکرے کوڑے میں 'ارے چھوڑو بھئی امریک سنگھ کا بھائی ترلوک سنگھ مذاق اڑاتا تھا ' بانگ دے رہا ہے ملا بانگ' 'خالصہ جی کے راج میں دھرم کی پوری پوری آزادی ہے ۔۔ہاں ' گیانی دربار سنگھ جبڑے پھاڑ کر ہنستا۔ لیکن امریک سنگھ کی بیوی ڈرتی تھی رات کے سناٹے میں جب کنواں گلا پھاڑ پھاڑ کر چنگھاڑتا تو اس کا تن بدن ٹھنڈے پسینے میں شرابور ہو جاتا اس کی آنکھوں کے سامنے ملا علی بخش کی تصویر آجاتی 'جو مسجد کے حجرے میں رہا کرتا تھا 'نحیف بدن ،دو ہاتھ کی لمبی ڈاڑھی ،آنکھوں پر موٹے گلاس کا چشمہ ، سر پر سبز رنگ کی بے ڈھب سی پگڑی ، ،ہاتھوں میں رعشہ ،گردن میں ابھری ہوئی رگیں ،لیکن جب وہ صحن میں کھڑا ہو کے پانچ وقت اذان دیتا تو مسجد کے گنبد گونج اٹھتے اور علی بخش کے نحیف نڈھال گلے سے وہ زناٹے کی آواز نکلتی جیسے بہت سی آبشاریں دست بداماں ہو کر گونج رہی ہوں ۔اذان کی آواز سے امریک سنگھ کی بیوی کو بڑی تکلیف ہوتی تھی 'ایک وقت کی یا دو وقت کی بات ہوتی تو خیر لیکن جب دن میں پانچ بار اسے یہی بول سننے پڑتے تو وہ گھبرا جاتی اس نے بڑے بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ اذان میں کالے جادو کے بول ہوتے ہیں اور جوان عورتیں اسے سن کر 'بانگی' ہو جاتی ہیں اگر بن بیاہی نو خیز لڑکی 'ہانگی' ہو جائے تو اسکے بانجھ ہونے کا ڈر ہوتااگر بیاہی ہوئی بیوی 'ہانگی' جائے تو اس کے حمل گرنے لگتے تھے ۔چنانچہ امریک سنگھ کے گھر میں پشت ہا پشت سے یہ رسم تھی کہ ادھر اذان کی آواز فضا میں لہرائی ادھر کسی نے کٹورے کو چمچے سے بجانا شروع کیا کسی نے چمٹے سے لڑایا کوئی کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر بیٹھ گئی کوئی بھاگ کر پچھلی کوٹھڑی میں جا گھسی اور اس طرح بہادر خاندان اپنی لاڈلیوں کی کوکھ کو کالے جادو کے اثر سے بچا کر ہرا بھرا رکھتا آیا تھا "
امریک سنگھ کا گھر مسجد کے عقب میں واقع تھا ۔اس مسجد کے دامن میں ایک بھیانک سا واہمہ پرورش پا رہا تھا گاؤں بھر میں یہ بات پھیل رہی تھی کہ سر شام ہی مسجد کے کنوئیں سے عجیب عجیب ڈراؤنی آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں ۔جیسے دو چار بکریوں کو بیک وقت ذبح کیا جارہا ہو 'سالا حرامی ! ' امریک سنگھ کہا کرتا تھا 'مرنے کے بعد بھی ڈکرا رہا ہے ، بھینسے کی طرح ، ڈال دو کچھ ٹوکرے کوڑے میں 'ارے چھوڑو بھئی امریک سنگھ کا بھائی ترلوک سنگھ مذاق اڑاتا تھا ' بانگ دے رہا ہے ملا بانگ' 'خالصہ جی کے راج میں دھرم کی پوری پوری آزادی ہے ۔۔ہاں ' گیانی دربار سنگھ جبڑے پھاڑ کر ہنستا۔ لیکن امریک سنگھ کی بیوی ڈرتی تھی رات کے سناٹے میں جب کنواں گلا پھاڑ پھاڑ کر چنگھاڑتا تو اس کا تن بدن ٹھنڈے پسینے میں شرابور ہو جاتا اس کی آنکھوں کے سامنے ملا علی بخش کی تصویر آجاتی 'جو مسجد کے حجرے میں رہا کرتا تھا 'نحیف بدن ،دو ہاتھ کی لمبی ڈاڑھی ،آنکھوں پر موٹے گلاس کا چشمہ ، سر پر سبز رنگ کی بے ڈھب سی پگڑی ، ،ہاتھوں میں رعشہ ،گردن میں ابھری ہوئی رگیں ،لیکن جب وہ صحن میں کھڑا ہو کے پانچ وقت اذان دیتا تو مسجد کے گنبد گونج اٹھتے اور علی بخش کے نحیف نڈھال گلے سے وہ زناٹے کی آواز نکلتی جیسے بہت سی آبشاریں دست بداماں ہو کر گونج رہی ہوں ۔اذان کی آواز سے امریک سنگھ کی بیوی کو بڑی تکلیف ہوتی تھی 'ایک وقت کی یا دو وقت کی بات ہوتی تو خیر لیکن جب دن میں پانچ بار اسے یہی بول سننے پڑتے تو وہ گھبرا جاتی اس نے بڑے بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ اذان میں کالے جادو کے بول ہوتے ہیں اور جوان عورتیں اسے سن کر 'بانگی' ہو جاتی ہیں اگر بن بیاہی نو خیز لڑکی 'ہانگی' ہو جائے تو اسکے بانجھ ہونے کا ڈر ہوتااگر بیاہی ہوئی بیوی 'ہانگی' جائے تو اس کے حمل گرنے لگتے تھے ۔چنانچہ امریک سنگھ کے گھر میں پشت ہا پشت سے یہ رسم تھی کہ ادھر اذان کی آواز فضا میں لہرائی ادھر کسی نے کٹورے کو چمچے سے بجانا شروع کیا کسی نے چمٹے سے لڑایا کوئی کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر بیٹھ گئی کوئی بھاگ کر پچھلی کوٹھڑی میں جا گھسی اور اس طرح بہادر خاندان اپنی لاڈلیوں کی کوکھ کو کالے جادو کے اثر سے بچا کر ہرا بھرا رکھتا آیا تھا "