محب علوی
مدیر
اس وقت قدیر میرے ساتھ براجمان ہے ، یقین نہیں آتا مگر شکل سے معصومیت ٹپک رہی ہے گو باتوں سے اب بھی وہ شرارت عیاں ہے جو تحریروں اور ٹیلی فون پر ہوتی ہے۔ ابھی فاتح اور ساجد آنلائن ہیں اور قدیر کے سامنے ہی قدیر کی بھرپور عزت افزائی ہو رہی ہے جس پر قدیر میرے ساتھ بیٹھا ضبط کی حدوں کو چھوتا ہوا اپنے موبائل پر میسج کرنے میں مصروف ہوگیا ہے۔ قدیر اپنی زبان دانی کے جوہر ساتھ ساتھ دکھا رہے ہیں اور نیٹ کی سست روی پر ان کا فرمانا ہے کہ
اسے کہتے ہیں کتے فیل ہوجانا
فاتح کو بتایا کہ قدیر میرے ساتھ ہے تو اس نے فورا یہ مطالبہ داغ دیا کہ اس کے بلاگ کا یوزر نیم اور پاس ورڈ اسے دیا جائے جو اب تک نہیں ملا ہے۔
قدیر کی شہرت بہت ہے چاہے اچھی ہے یا بری اس سے غرض نہیں(مجھے قدیر کو البتہ فکر لاحق ہے کہ وہ بدنام بہت ہے) ویسے بھی شیفتہ کہہ گئے ہیں قدیر کے لیے
بدنام گر ہوں تو کیا نام نہ ہوگا
قدیر کا ملتان سے نکلنا ( ہو کر ) اسلام آباد کے لیے ( سیاسی پناہ اور فوائد حاصل کرنے کے واسطے ) ، یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور مختلف شہروں سے اردو بلاگرز کے تشویش بھری پیغامات وصول ہونے لگے۔ سب سے پہلے دبئی سے فاتح نے قدیر کے لیے ایک گانا بھیجا اور کہا کہ یہ خاص ملتانی بزرگ کے لیے تحفہ ہے جس پر قدیر تپ اٹھا اور کہا کہ دھیان سے پہلے ہی محب نے بڑی بھیڑی کی ہے اور میں تم دونوں کی واٹ لگاؤں گا ایسی اپنے بلاگ پر کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ بھی کہا کہ میں بزرگ نہیں ایک ‘معصوم‘ سا ‘بچہ‘ ہوں اور گواہی کے لیے مجھے آگے کیا ، اب میں گواہی تو دوں مگر پوری اور آپ سمجھ جائیں گے کہ قدیر کتنا معصوم ہے اور کتنا بچہ ۔ قدیر کسی زمانے میں خود کو پپو بچہ بھی سمجھتا تھا شکر ہے اب صرف معصوم ہی سمجھتا ہے۔ قدیر کا حلیہ کچھ یوں ہے
قد نکلتا ہوا ( اب کتنا نکلے گا یہ اللہ کو ہی پتہ ہے )
رنگ آتا جاتا ( شاید میں نے پہلی دفعہ دیکھا اس لیے )
چہرہ مسکراتا ہوا
کمر پتلی اور ٹانگیں لمبی
بال اڑتے ہوئے
قدیر کو لے کر میں فورا گھر آ گیا ورنہ قدیر ضرور کسی کے گھر چلا جاتا۔ پہلے جوس سے قدیر کی تواضع کی تاکہ بعد میں خاطر خواہ تواضع کی جا سکے، کچھ دیر بعد نعمان کو خبر ہوئی تو اس نے بھی قدیر کی باتوں میں ‘تواضع‘ کی اور کہا کہ اس کی تواضع جب وہ آئے گا تو قدیر کرکے حساب برابر کر لے۔
ذرا دیر گزری تھی کہ ساجد اقبال کا میسج آیا کہ ملتان سے مسلم لیگ ( ن ) کا ایک سپورٹر اپنے قائد کے استقبال کے لیے اسلام آباد روانہ ہوگیا ہے جیسے ہی اسلام آباد پہنچے گرفتار کر لیا جائے ، اس کے بعد قدیر کی جی میل پر کافی عزت افزائی کی اور شام میں پھر میسج کیا کہ
ملتانی مٹی کا نمونہ چلا گیا کہ نہیں
اس کے بعد اجمل صاحب کا یہ پیغام موصول ہوا
یہ خبر ملی ہے کہ گرم میدانی علاقے سے ایک خوبصورت جوان ۔ مجھے صحیح پتہ نہیں ۔ آپ کے ہاں مہمان ہیں ۔
آپ کیلئے آم بھی لائے ہیں یا خالی ہاتھ ہی آئے ہیں ؟
میں نے انہیں بتایا کہ قدیر اور آم اور میرے لیے ، خوشی سے مر نہ جاتا گر یہ لے آتا اس لیے ہی شاید یہ بے مروت نہیں لے کر آیا۔ انہوں نے اس بات پر قدیر کی خوب ‘عزت‘ کی ۔
کچھ دیر نہ گذری تھی کہ رضوان کا فون آ گیا ، رضوان نے قدیر سے بات کی اور قدیر کو خوب ہلا شیری دی جس سے قدیر کا کچھ حوصلہ ہوا اور اب تک کی عزت کو وہ برداشت کرنے کے قابل ہوا۔ اس کے بعد قدیر کے یار غار بدتمیز کا فون آ گیا اور پھر جو قدیر اور بدتمیز نے گفتگو فرمانی شروع کی تو ختم ہونے کا نام ہی نہ لے۔ اتنے میں شمیل آن لائن ہوا اور میں نے اسے خبر کر دی اس نے استفسار کیا کہ قدیر اتنی لمبی بات کس سے کر رہا ہے اتنی لمبی بات تو قدیر نہیں کیا کرتا اور میں کرون تو میری بھی والدہ پریشان ہو جاتی ہیں کہ شمیل کس سے اتنی لمبی بات کررہا ہے۔ شمیل نے قدیر کی شان میں چند قصیدے پڑھے اور کہا کہ محب بھائی میں بہت ٹینس ہوں اس وقت میں بتا نہیں سکتا مجھ پر تمام گھر کی ذمہ داری آئی پڑی ہے اور میں پریشانی میں چائے پر گزارہ کر رہا ہوں ( خیر شمیل کی داستان الم پر ایک علیحدہ پوسٹ کی ضرورت ہے ) ۔ بدتمیز سے میری بھی بات ہوئی اور اس نے خصوصی طرح پر مجھ سے قدیر احمد رانا کی ٹریننگ کرنے کو کہا جسے میں نے بخوشی قبول کر لیا اور کہا کہ میں نے قدیر کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے جس پر بدتمیز کو کچھ تسلی ہوئی اور خاصی لمبی گفتگو اور قدیر کی بھرپور ‘ خاطر مدارت ‘ کے بعد فون رکھا۔
ابھی قدیر روانگی کا سوچ ہی رہا تھا کہ نظامی کا فون آ گیا کہ کیا قدیر تمہاری طرف آیا ہے ، میں نے کہا کہ ہاں کیا تم تک بھی خبر پہنچی گئی کہیں مشرف نے گرفتاری کے لیے بندے تو نہیں دوڑا دیے مگر نظامی نے تسلی دی کہ جب تک وہ ہے کسی اور کو یہ کشٹ اٹھانے کی کیا حاجت وہ خود آ کر قدیر کی گرفتاری عمل میں لاتا ہے ۔ معاملہ کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے قدیر نے راہ فرار اختیار کی اور کل ملنے کے وعدہ فردا پر مجھ سے رخصت ہوگیا۔ خیال تھا کہ آج میں ، قدیر ، ساجد اقبال اور نظامی مل بیٹھیں گے ، نظامی نے کراچی کمپنی پہنچ کر مجھے فون بھی کیا کہ کہاں ہو بھئی اور وہ بھگوڑا کہاں ہے میں کل سے اسے ڈھونڈ رہا ہوں کہاں آ کر اسے پکڑنا ہے ، مجھے افسوس سے نظامی کو بتانا پڑا کہ قدیر ایک بار پھر غچہ دے گیا اور ہمارے ہاتھوں سے پھسل کر نکل گیا۔
اسے کہتے ہیں کتے فیل ہوجانا
فاتح کو بتایا کہ قدیر میرے ساتھ ہے تو اس نے فورا یہ مطالبہ داغ دیا کہ اس کے بلاگ کا یوزر نیم اور پاس ورڈ اسے دیا جائے جو اب تک نہیں ملا ہے۔
قدیر کی شہرت بہت ہے چاہے اچھی ہے یا بری اس سے غرض نہیں(مجھے قدیر کو البتہ فکر لاحق ہے کہ وہ بدنام بہت ہے) ویسے بھی شیفتہ کہہ گئے ہیں قدیر کے لیے
بدنام گر ہوں تو کیا نام نہ ہوگا
قدیر کا ملتان سے نکلنا ( ہو کر ) اسلام آباد کے لیے ( سیاسی پناہ اور فوائد حاصل کرنے کے واسطے ) ، یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور مختلف شہروں سے اردو بلاگرز کے تشویش بھری پیغامات وصول ہونے لگے۔ سب سے پہلے دبئی سے فاتح نے قدیر کے لیے ایک گانا بھیجا اور کہا کہ یہ خاص ملتانی بزرگ کے لیے تحفہ ہے جس پر قدیر تپ اٹھا اور کہا کہ دھیان سے پہلے ہی محب نے بڑی بھیڑی کی ہے اور میں تم دونوں کی واٹ لگاؤں گا ایسی اپنے بلاگ پر کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ بھی کہا کہ میں بزرگ نہیں ایک ‘معصوم‘ سا ‘بچہ‘ ہوں اور گواہی کے لیے مجھے آگے کیا ، اب میں گواہی تو دوں مگر پوری اور آپ سمجھ جائیں گے کہ قدیر کتنا معصوم ہے اور کتنا بچہ ۔ قدیر کسی زمانے میں خود کو پپو بچہ بھی سمجھتا تھا شکر ہے اب صرف معصوم ہی سمجھتا ہے۔ قدیر کا حلیہ کچھ یوں ہے
قد نکلتا ہوا ( اب کتنا نکلے گا یہ اللہ کو ہی پتہ ہے )
رنگ آتا جاتا ( شاید میں نے پہلی دفعہ دیکھا اس لیے )
چہرہ مسکراتا ہوا
کمر پتلی اور ٹانگیں لمبی
بال اڑتے ہوئے
قدیر کو لے کر میں فورا گھر آ گیا ورنہ قدیر ضرور کسی کے گھر چلا جاتا۔ پہلے جوس سے قدیر کی تواضع کی تاکہ بعد میں خاطر خواہ تواضع کی جا سکے، کچھ دیر بعد نعمان کو خبر ہوئی تو اس نے بھی قدیر کی باتوں میں ‘تواضع‘ کی اور کہا کہ اس کی تواضع جب وہ آئے گا تو قدیر کرکے حساب برابر کر لے۔
ذرا دیر گزری تھی کہ ساجد اقبال کا میسج آیا کہ ملتان سے مسلم لیگ ( ن ) کا ایک سپورٹر اپنے قائد کے استقبال کے لیے اسلام آباد روانہ ہوگیا ہے جیسے ہی اسلام آباد پہنچے گرفتار کر لیا جائے ، اس کے بعد قدیر کی جی میل پر کافی عزت افزائی کی اور شام میں پھر میسج کیا کہ
ملتانی مٹی کا نمونہ چلا گیا کہ نہیں
اس کے بعد اجمل صاحب کا یہ پیغام موصول ہوا
یہ خبر ملی ہے کہ گرم میدانی علاقے سے ایک خوبصورت جوان ۔ مجھے صحیح پتہ نہیں ۔ آپ کے ہاں مہمان ہیں ۔
آپ کیلئے آم بھی لائے ہیں یا خالی ہاتھ ہی آئے ہیں ؟
میں نے انہیں بتایا کہ قدیر اور آم اور میرے لیے ، خوشی سے مر نہ جاتا گر یہ لے آتا اس لیے ہی شاید یہ بے مروت نہیں لے کر آیا۔ انہوں نے اس بات پر قدیر کی خوب ‘عزت‘ کی ۔
کچھ دیر نہ گذری تھی کہ رضوان کا فون آ گیا ، رضوان نے قدیر سے بات کی اور قدیر کو خوب ہلا شیری دی جس سے قدیر کا کچھ حوصلہ ہوا اور اب تک کی عزت کو وہ برداشت کرنے کے قابل ہوا۔ اس کے بعد قدیر کے یار غار بدتمیز کا فون آ گیا اور پھر جو قدیر اور بدتمیز نے گفتگو فرمانی شروع کی تو ختم ہونے کا نام ہی نہ لے۔ اتنے میں شمیل آن لائن ہوا اور میں نے اسے خبر کر دی اس نے استفسار کیا کہ قدیر اتنی لمبی بات کس سے کر رہا ہے اتنی لمبی بات تو قدیر نہیں کیا کرتا اور میں کرون تو میری بھی والدہ پریشان ہو جاتی ہیں کہ شمیل کس سے اتنی لمبی بات کررہا ہے۔ شمیل نے قدیر کی شان میں چند قصیدے پڑھے اور کہا کہ محب بھائی میں بہت ٹینس ہوں اس وقت میں بتا نہیں سکتا مجھ پر تمام گھر کی ذمہ داری آئی پڑی ہے اور میں پریشانی میں چائے پر گزارہ کر رہا ہوں ( خیر شمیل کی داستان الم پر ایک علیحدہ پوسٹ کی ضرورت ہے ) ۔ بدتمیز سے میری بھی بات ہوئی اور اس نے خصوصی طرح پر مجھ سے قدیر احمد رانا کی ٹریننگ کرنے کو کہا جسے میں نے بخوشی قبول کر لیا اور کہا کہ میں نے قدیر کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے جس پر بدتمیز کو کچھ تسلی ہوئی اور خاصی لمبی گفتگو اور قدیر کی بھرپور ‘ خاطر مدارت ‘ کے بعد فون رکھا۔
ابھی قدیر روانگی کا سوچ ہی رہا تھا کہ نظامی کا فون آ گیا کہ کیا قدیر تمہاری طرف آیا ہے ، میں نے کہا کہ ہاں کیا تم تک بھی خبر پہنچی گئی کہیں مشرف نے گرفتاری کے لیے بندے تو نہیں دوڑا دیے مگر نظامی نے تسلی دی کہ جب تک وہ ہے کسی اور کو یہ کشٹ اٹھانے کی کیا حاجت وہ خود آ کر قدیر کی گرفتاری عمل میں لاتا ہے ۔ معاملہ کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے قدیر نے راہ فرار اختیار کی اور کل ملنے کے وعدہ فردا پر مجھ سے رخصت ہوگیا۔ خیال تھا کہ آج میں ، قدیر ، ساجد اقبال اور نظامی مل بیٹھیں گے ، نظامی نے کراچی کمپنی پہنچ کر مجھے فون بھی کیا کہ کہاں ہو بھئی اور وہ بھگوڑا کہاں ہے میں کل سے اسے ڈھونڈ رہا ہوں کہاں آ کر اسے پکڑنا ہے ، مجھے افسوس سے نظامی کو بتانا پڑا کہ قدیر ایک بار پھر غچہ دے گیا اور ہمارے ہاتھوں سے پھسل کر نکل گیا۔