****قرآن، کائنات اور انسان****

ف۔قدوسی

محفلین
ہدایت کا قانون
چونکہ اللہ تعالی نے ہماری موجودہ زندگی کو آزمایش کے اصول پر تخلیق کیا ہے لہذا وہ زبردستی انسانوں کو صحیح راستے کی طرف نہیں موڑتا، ورنہ آزمایش کا بنیادی تصور ہی ختم ہو جائے۔ پیغام اور پیغامبر کی ضرورت نہ رہے۔ زندگی اور موت کا سلسلہ بے معنی ہو جائے، بلکہ پوری کائنات کی تخلیق ہی بے مقصد ہو جائے۔
اللہ تعالی نے انسان کو ارادے اور انتخاب کی آزادی دے رکھی ہے، خیر و شر کی پہچان کی صلاحیت وجدانی طور پر ہمارے اندر رکھ دی ہے، اب اگر ہم اس صلاحیت سے کام نہ لیں اور اسے ضائع کر کے اندھے، بہرے بن جائیں تو اللہ تعالی ہمیں زبردستی ہدایت کی طرف نہیں لائے گا، ورنہ سزا و جزا کا تصور ہی بے معنی ہو جائے گا۔
ہدایت سے متعلق اللہ تعالی کا قانون تمام انسانوں کے لیے یہ ہے کہ وہ صرف اسے ہدایت دیتا ہے جو پہلے خود ہدایت کا طلب گار بنے۔ اس کا قانون اندھا، بہرہ (جیسا کہ لوگ خیال کرتے ہیں) نہیں ہے کہ ایک شخص ہدایت چاہتا ہی نہیں، وہ اسے زبردستی ہدایت کے راستے پر لے آئے اور دوسرا شخص ہدایت کا طلب گار ہو اور وہ اسے گمراہ کیے رکھے۔ لہذا اللہ تعالی اپنے بندوں کو اسی وقت ہدایت دیتے ہیں جب بندہ خودتہ دل سے ہدایت کا طلب گار بن جائے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے بقول یہ دروازہ صرف اسی کے لیے کھلتا ہے جو اسے کھٹکھٹاتا ہے اور جو اسے کھٹکھٹانے کی زحمت نہیں کرتا، اس کے لیے یہ کبھی نہیں کھلتا۔
قرآن مجید میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ قانون الہی نبیوں کی بیویوں، اولاد اور والدین تک کے لیے تبدیل نہیں ہوا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی اور بیٹا، حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد ایک طرف، اور دوسری طرف فرعون کی بیوی، اس قانون کی واضح مثالیں ہیں۔ انتخاب کی اس آزادی کے متعلق اللہ تعالی سورہ دہر میں فرماتے ہیں:
"ہم نے انسان کو راہ سجھا دی ہے۔ اب وہ چاہے تو شکر گزاری کی روش اپنائے اور چاہے تو ناشکری کی۔" (76:3)
 

ف۔قدوسی

محفلین
زندگی کا صحیح تصور
ہمیں بہت اچھی طرح سے یاد رکھنا چاہیے کہ اس عارضی زندگی میں اگر کسی کو مال اور اقتدار دیاگیا ہے تو وہ بطور انعام نہیں، بلکہ بطور آزمایش دیا گیا ہے اور اگر کسی کو یہ چیزیں حاصل نہیں تو اس میں بھی اس کا امتحان ہے، کیونکہ یہاں کسی کو دے کر آزمایا جا رہا ہے اور کسی کو نہ دے کر۔ دنیا کے مال اور اقتدار کی اللہ تعالی کے نزدیک ایک ذرے کے برابر بھی اہمیت نہیں لیکن ہم لوگوں نے انھیں بڑائی اور کامیابی کا معیار سمجھ رکھا ہے۔ اسی کو واضح کرتے ہوئے سورہ زخرف میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
"اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ لوگ ایک ہی ڈگر پر چل پڑیں گے تو ہم خدائے رحمان سے کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتیں، اور ان کی سیڑھیاں جن سے وہ اپنے بالا خانوں پر چڑھتے ہیں اور ان کے دروازے اور ان کے تخت جن پر وہ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں سب چاندی اور سونے کے بنوا دیتے، یہ تو محض حیات دنیا کی متاع ہے اور آخرت تیرے رب کے ہاں صرف متقیوں کے لیے ہے۔"(43:33-35)
سورہ عنکبوت میں اس دنیوی زندگی کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتے ہیں:
"اور یہ دنیا کی زندگی تو بس وقتی کھیل تماشہ ہے اور آخرت ہی ہے جو اصل زندگی کی جگہ ہے۔ کاش یہ لوگ سمجھتے۔" (29:64)
حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید سمیت تمام الہامی صحیفوں کا پیغام دو جملوں میں یہ ہے کہ ایک با شعور شخص کو ترجیح موجودہ زندگی کو نہیں، بلکہ آنے والی زندگی کو دینی چاہیے، کیونکہ اس میں ہزار مصیبتیں ہیں اور یہ باقی نہیں رہتی اور وہ بہت اعلی، ہر قسم کی مصیبتوں سے پاک اور باقی رہنے والی ہو گی۔
"پر تم لوگ تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، حالانکہ آخرت بہت بہتر اور پائیدار ہے۔ یہی تعلیم اگلے صحیفوں میں بھی ہے۔ موسی اور ابراہیم کے صحیفوں میں۔" (الاعلی 87:16-19)
سو اللہ تعالی نے واضح طور پر دونوں راستے ہمیں سمجھا دیے ہیں اور ان کے انجام سے بھی خبردار کر دیا ہے۔ اب چاہے تو ہم اس دنیا میں اپنے آپ کومسافر یا راہ گیر سمجھ کر اور اللہ کے پیغام کو گائیڈ بنا کر زندگی بسر کریں یا قرآن مجید سے بے پروائی اور کنی کترانے کی روش اپنائے رکھیں، سنی سنائی باتوں اور غلط تصورات میں گم ہو کر اپنے آپ کو دھوکا دیے رکھیں، حتی کہ آخری لمحہ آ پہنچے:
"کیا ایمان کا دعوی کرنے والوں کے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد سے گڑ گڑائیں اور وہ اس کے نازل کردہ حق (یعنی قرآن) کے آگے جھک جائیں۔ اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ بن جائیں جن کو ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ایک طویل مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور آج ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔" (الحدید 57:16)
***
 
Top