[ خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ھیں ]
مہوش علی نے"قرآن کےظاھری وباطنی معنی" کےعنوان کےتحت جو کچھ تحریر کیا ھےاسکا بنیادی سبب اپنےاوراپنےھم عقیدہ قدیم وجدید مفسرین کےسماع_موتی کےعقیدےکوبچاناھے-جو انھوں نےموضوع (fabricated) روایات پراستوارکیاھے،باقی موصوفہ نےظاھری و باطنی معنوں کی بحث تو مسئلےکو الجھانےکیلئےچھیڑی ھے، ورنہ سماع_موتی کےباطل عقیدےکا رد صرف سورہ نمل اور فاطرکی آیتوں پرھی موقوف نہیں بلکہ قرآن کی متعدد آیات جوبیان کرتی ھیں کہ مردےقیامت کےدن ھی دوبارہ زندہ کیئےجائیں گےاس گمراہ کن عقیدے کا رد کرتی ھیں-کیونکہ سماع کیلئے حیات شرط ھے،اورجب مردے قیامت سے پہلےزندہ ھی نہیں ھونگےتو پھرسننےسنانےکاسوال ھی پیدا نہیں ھوتا-ملاحظہ ھو ! )البقرة28، مومنون16،مومن11...)
اب رھی موصوفہ کی یہ کنفیوژن کہ: اگرمردےنہیں سنتےتو پھرصالح علیہ سلام اپنی مردہ قوم سےکیوں مخاطب ھوئے.؟ اسکاجواب یہ ھےکہ جب اصول متعین ھےکہ: " مردے قیامت سےپہلےزندہ نہیں ھونگےاور بغیر زندگی کےسننےکاسوال ھی پیدا نہیں ھوتا" تو اب اسطرح کی آیت یاحدیث جس میں مردہ یاجماد (پتھر،بت وغیرہ) سےکلام کیاگیاھواسےسننے پرھرگز محمول نہیں کیاجائیگا-جیسےعمررضی الله عنه کاحجراسود سےکلام کرنا،ابراھیم عليه السلام كا بتوں سےکلام کرنا یا صالح علیہ سلام کااپنی مردہ قوم سےمخاطب ھونا وغیرہ....
البتہ معجزےکی بات الگ ھےکیونکہ معجزہ معمول نہیں ھوتا- جیسےقلیب بدرکےمردوں کا نبی عليه السلام کی بات سننا- [عن عبدالله بن عمر....انهم الآن يسمعون مااقول] حدیث میں"الآن" کا لفظ واضح کررھاھےکہ قلیب بدرکےمردوں کاسنناخاص اس وقت تھا ھر وقت نہیں،اورانس رضی الله عنه سےاس واقعہ کو روایت کرنےوالےان کےشاگرد قتاده کےالفاظ بخاری لائےھیں"احياهم الله" ترجمه: الله نےانہیں زندہ کردیا-ظاھرھےقبل ازقیامت زندہ ھونا معجزہ ھےمعمول نہیں-غورطلب نکتہ یہ ھےکہ اگرصحابه "میت" کے سننےکےقائل ھوتےتو قتادہ رحمةالله عليه کو یہ وضاحت کرنےکی ضرورت ھی پیش نہ آتی، لہذا ثابت ھواکہ جوسننامانتےتھےوہ بطورمعجزہ مانتےتھےعام نہیں.اور عائشہ رضی الله عنھااورعبدالله بن عمررضی الله عنهما کےمابین اختلاف اس واقعےکےمعجزہ ھونےیانہ ھونےمیں ھی تھا-نہ مطلق سماع موتی میں اورنہ ظاھری وباطنی معنوں میں.....امت کی بدنصیبی کہ ان تمام تفصیلات کےباوجود اکابرین مذاہب نےعلمی فریب کاری کےذریعےھرمردے کو زندہ اورسننےوالا قرار دیکر معجزے کو معمول بنادیا- -نتیجتا" قرآن کےبیان کردہ عام قانون دو زندگی دو موت سےصرف قلیب_ بدر کےمردے ھی نہیں بلکہ تمام مردے مستثنی(exempted) ھوگئے- اب قرآن کی وہ آیت جس میں دو زندگی دو موت کاقانون بیان ھواھےمحض تلاوت کیلئےھےاسکا اطلاق (implement) قبرمیں مدفون کسی مردہ لاشے پرنہیں ھوگا____کیونکہ ان سب کا عقیدہ ھےکہ " دفن کےبعد ھرمردہ لاشہ دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی چاپ سنتا ھے"____ الله کےقانون کا صریح انکارکرنےاورمذاق اڑانےکا خمیازہ یہ الله کےعذاب کی شکل میں صدیوں سےبھگت رھےھیں اور آخرت کا ابدی عذاب الگ ھے-
(نوٹ) اس موضوع پرتفصیلی مطالعےکیلئے ڈاکٹرعثمانی رحمةالله عليه کےکتابچے"عذاب_برزخ" اور"ایمان_خالص، دوسری قسط کامطالعہ فرمائیں- -
www.islamic-belief.net