قرآنِ کریم کے ظاہری اور باطنی معانی؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

dxbgraphics

محفلین
یہ کیسا مذاق ہے اسلام کے نام پر کہ

‏السلام عليكم يا اھل القبور
کہنا تو صحیح ٹھرا اور

‏السلام عليك يا رسول اللہ
ٹھرا شرک؟؟؟

ایسا بھونڈا دین البانی میاں اور ان کے چہیتے اہلھدیثوں کو ہی مبارک
[/center]

کل محدثۃ بدعۃ کل بدعۃ ضلالۃ کل ضلالۃ فی النار۔
 
آیت میں توحقیقی مردوں اوربہروں کوھی سنانےکی نفی ھے-اگر بطورتشبیه"موتی"سے مراد کفاربھی لےلیئےجائیں تب بھی نتیجہ یہی نکلتاھےکہ جسطرح مردےاوربہرے نہیں سنتےاسی طرح کافربھی حق بات نہیں سنتے-اورچونکہ حق کوماننےکیلئےتوجہ سےسنناضروری ھےاسی لیئےسورہ انعام 36 میں ارشاد ھوتاھے"انمایستجیب الذین یسمعون والموتی یبعثھم الله...ترجمه: ["مانتے"وھی ھیں جو"سنتے"ھیںاورنہ سننےپرھی انہیں مردہ سےتشبیه دی گئی ھے ناماننےپر نہیں.... پس سورہ انعام کی آیت 36 موصوفہ کےاس سارےفلسفےکوباطل کردیتی ھےجس سےانہوں نےسورہ نمل اورفاطرکی آیت سےسماع_موتی کاعقیدہ ثابت کرنےکی احمقانہ کوشش کی ھے-‏
اب رھی موصوفہ کی یہ کنفیوژن جوانکےاحمقانہ طرزاستدلال کامحرک بنی اورانکی طرف سےسماع_موتی کی زبردست اورحتمی دلیل بھی ھےکہ: اگرمردےنہیں سنتےتوپھرصالح علیہ سلام اپنی مردہ قوم سےکیوں مخاطب ھوئے.؟
اسکاجواب یہ ھےکہ جب اصول متعین ھےکہ مردےنہیں سنتےتواب اسطرح کی آیت یاحدیث جس میں مردہ یاجماد (پتھر،بت وغیرہ) سےکلام کیاگیاھواسےسننےپرھرگز محمول نہیں کیاجائیگا-جیسےعمررضی الله عنه کاحجراسود سےکلام کرنا،ابراھیم عليه السلام كابتوں سےکلام کرنایاصالح علیہ سلام کااپنی مردہ قوم سےمخاطب ھونا وغیرہ.....‏
البتہ معجزےکی بات الگ ھےکیونکہ معجزہ معمول نہیں ھوتا- جیسےقلیب بدرکےمردوں کانبی عليه السلام کی بات سننا-[عن عبدالله بن عمر....انهم الآن يسمعون مااقول]حدیث میں"الآن" کالفظ واضح کررھاھےکہ قلیب بدرکےمردوں کاسنناخاص اس وقت تھاھروقت نہیں.اورانس رضی الله عنه سےاس واقعہ کو روایت کرنےوالےان کےشاگرد
قتاده کےالفاظ بخاری لائےھیں"احياهم الله" ترجمه:‏‎الله نےانہیں زندہ کردیا-ظاھرھےقبل ازقیامت زندہ ھونا معجزہ ھےمعمول نہیں-غورطلب نکتہ یہ ھےکہ اگرصحابه "میت" کے سننےکےقائل ھوتےتوقتادہ کویہ وضاحت کرنےکی ضرورت ھی پیش نہ آتی۔
لہذا ثابت ھواکہ جوسننامانتےتھےوہ بطورمعجزہ مانتےتھےعام نہیں.اور عائشہ رضی الله عنھااورعبدالله بن عمررضی الله عنهما کےمابین اختلاف اس واقعےکےمعجزہ ھونےیانہ ھونےمیں ھی تھا-نہ مطلق سماع موتی میں اورنہ ظاھری وباطنی معنوں میں.اب اصولا"تواس واقعےکی تمام روایات اوراس کےمندرجات کی روشنی میں صحابہ میں اختلاف کی نوعیت متعین کی جانی چاھیئےتھی۔
لیکن افسوس قبرمیں سماع وحیات کاباطل عقیدہرکھنےوالوں کی طرف سےصدیوں سےان ھدایت یافتہ لوگوں پر یہ بہتان لگایاجارھا ھےکہ"سماع موتی"کامسئلہ صحابہ میں اختلافی تھا-‏‎.‎
 

کیماڑی

محفلین
آیت میں توحقیقی مردوں اوربہروں کوھی سنانےکی نفی ھے-اگر بطورتشبیه"موتی"سے مراد کفاربھی لےلیئےجائیں تب بھی نتیجہ یہی نکلتاھےکہ جسطرح مردےاوربہرے نہیں سنتےاسی طرح کافربھی حق بات نہیں سنتے-اورچونکہ حق کوماننےکیلئےتوجہ سےسنناضروری ھےاسی لیئےسورہ انعام 36 میں ارشاد ھوتاھے"انمایستجیب الذین یسمعون والموتی یبعثھم الله...ترجمه: ["مانتے"وھی ھیں جو"سنتے"ھیںاورنہ سننےپرھی انہیں مردہ سےتشبیه دی گئی ھے ناماننےپر نہیں.... پس سورہ انعام کی آیت 36 موصوفہ کےاس سارےفلسفےکوباطل کردیتی ھےجس سےانہوں نےسورہ نمل اورفاطرکی آیت سےسماع_موتی کاعقیدہ ثابت کرنےکی احمقانہ کوشش کی ھے-‏
اب رھی موصوفہ کی یہ کنفیوژن جوانکےاحمقانہ طرزاستدلال کامحرک بنی اورانکی طرف سےسماع_موتی کی زبردست اورحتمی دلیل بھی ھےکہ: اگرمردےنہیں سنتےتوپھرصالح علیہ سلام اپنی مردہ قوم سےکیوں مخاطب ھوئے.؟
اسکاجواب یہ ھےکہ جب اصول متعین ھےکہ مردےنہیں سنتےتواب اسطرح کی آیت یاحدیث جس میں مردہ یاجماد (پتھر،بت وغیرہ) سےکلام کیاگیاھواسےسننےپرھرگز محمول نہیں کیاجائیگا-جیسےعمررضی الله عنه کاحجراسود سےکلام کرنا،ابراھیم عليه السلام كابتوں سےکلام کرنایاصالح علیہ سلام کااپنی مردہ قوم سےمخاطب ھونا وغیرہ.....‏
البتہ معجزےکی بات الگ ھےکیونکہ معجزہ معمول نہیں ھوتا- جیسےقلیب بدرکےمردوں کانبی عليه السلام کی بات سننا-[عن عبدالله بن عمر....انهم الآن يسمعون مااقول]حدیث میں"الآن" کالفظ واضح کررھاھےکہ قلیب بدرکےمردوں کاسنناخاص اس وقت تھاھروقت نہیں.اورانس رضی الله عنه سےاس واقعہ کو روایت کرنےوالےان کےشاگرد
قتاده کےالفاظ بخاری لائےھیں"احياهم الله" ترجمه:‏‎الله نےانہیں زندہ کردیا-ظاھرھےقبل ازقیامت زندہ ھونا معجزہ ھےمعمول نہیں-غورطلب نکتہ یہ ھےکہ اگرصحابه "میت" کے سننےکےقائل ھوتےتوقتادہ کویہ وضاحت کرنےکی ضرورت ھی پیش نہ آتی۔
لہذا ثابت ھواکہ جوسننامانتےتھےوہ بطورمعجزہ مانتےتھےعام نہیں.اور عائشہ رضی الله عنھااورعبدالله بن عمررضی الله عنهما کےمابین اختلاف اس واقعےکےمعجزہ ھونےیانہ ھونےمیں ھی تھا-نہ مطلق سماع موتی میں اورنہ ظاھری وباطنی معنوں میں.اب اصولا"تواس واقعےکی تمام روایات اوراس کےمندرجات کی روشنی میں صحابہ میں اختلاف کی نوعیت متعین کی جانی چاھیئےتھی۔
لیکن افسوس قبرمیں سماع وحیات کاباطل عقیدہرکھنےوالوں کی طرف سےصدیوں سےان ھدایت یافتہ لوگوں پر یہ بہتان لگایاجارھا ھےکہ"سماع موتی"کامسئلہ صحابہ میں اختلافی تھا-‏‎.‎
مذکورہ مضمون سے ھم متفق ھیں
 

کیماڑی

محفلین
صحیح بخاری --- ابو عبد الله محمد بن اسماعیل بخاری --- قلیبِ بدر کی حدیث اور عائشہ رضی الله عنہا کا فتویٰ
بخاری کی قلیب بدر والی صحیح روایت کی یہ بات کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے مردوں کو سنایا مشہور تابعی اس روایت کے راوی قتادہ رحمتہ الله علیہ نے ساتھ میں یہ وضاحت کی کہ "الله نے اس وقت انہیں زندہ کر دیا تھا تاکہ اپنے نبی کی بات ان کو سنائے - یہ سب کچھ ان کی زجر و توبیخ ، ذلت و نامرادی اور حسرت و ندامت کے لیے تھا" (بخاری: کتاب المغازی ، باب: ابو جہل کے قتل کا بیان)
الله نے ان مقتولین کو زندگی بخش دی تاکہ وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا کلام (خطاب) سن سکیں اور نبی صلی الله علیہ وسلم کی بات (یہ خطاب) ان کے لئے ذلت و خواری ، حسرت و ندامت کا باعث بنے -
یعنی ان مشرک مقتولین نے مردہ ہو کر نہیں زندہ ہو کر سنا ، مردے نہیں سنتے ، زندہ کر کہ سنایا گیا تاکہ حق قبول نہ کرنے کی وجہ سے ان کو حسرت و ندامت ہو - اور یہ سنانا نبی صلی الله علیہ وسلم کا معجزہ تھا -نبی صلی الله علیہ وسلم کا ان مردوں سے کلام کے وقت عمر بن خطاب رضی الله عنہ (امت کے سچے جانثار ولی) نے اعتراض بھی کیا تھا - کیونکہ ان کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ مردے نہیں سنتے -
اور یہی رائے اور عقیدہ اس روایت کے بارے میں عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کا بھی تھا کہ مردے نہیں سنتے اور ثبوت میں اور تاویل کے لیے قرآن کی یہ آیت پیش کی "ترجمہ: اے محمد صلی الله علیہ وسلم تم مردوں کو نہیں سنا سکتے" -
ہمیں اس قلیب بدر والی روایت یا اس قسم کی مردوں کے سماع والی دیگر روایات کو مسلمین کی ماں عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کی وضاحت اور تاویل کو سامنے رکھ کر مان لینا چاہیے - کیونکہ زیادہ تر وحی (قرآن) نبی صلی الله علیہ وسلم پر عائشہ رضی الله عنہا کی موجودگی میں نازل ہوئی ہے - ان کے ایمان اور دینی کردار کو جبرائیل علیہ السلام نے سلام کیا تھا - اور یہ سلام اس فرشتے نے الله کے حکم سے کیا تھا کیونکہ یفعلون مایومرون......"فرشتے وہی کرتے ہیں جن کا ان کو (الله کی طرف سے) حکم دیا جاتا ہے" -
یعنی یہ سلام عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا پر الله نے بھیجا تھا جس میں عائشہ رضی الله عنہا کے ایمان اور عقیدے کی الله کی طرف سے توثیق اور تائید بھی ہے اور ان کی تربیت الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم کی زیر نگرانی ہوئی اسی مقام کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے دینی مسائل دریافت کرتے تھے -
جب بحوالہ صحیح روایت عائشہ رضی الله عنہا مردوں کے سننے کی تاویل "جان لینے یا علم ہو جانے" سے کرتی ہیں تو ہمیں اپنے آپ کو یا کسی بھی مفتی امام ، محدث کو عائشہ رضی الله عنہا سے بڑا ایماندار یا قرآن سے زیادہ جاننے والا عالم نہیں سمجھنا چاہیے یہ اسلام ماننے یا اسلام کی خدمت کرنے کا انداز نہیں ، بلکہ ڈھانے اور کمزور کرنے والا انداز ہے - الله کی محکم آیات اور واضح صحیح احادیث کا انکار کر کہ کل قیامت کے دن کوئی بھی الله کے مقابلے میں ایسے لوگوں کو بچانے اور چھڑانے والا نہ ہو گا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹھکانہ جہنم بنا دیا جائے گا الله ہمیں دنیا میں شرک و کفر اور قرآن کے انکار سے اور آخرت میں جہنم کی آگ سے بچائے - (آمین)
عائشہ رضی الله عنہا نے یہ تاویل "جان لینے اور علم ہو جانے" اپنے طرف سے نہیں کی تھی قرآن کی روشنی میں کی تھی قرآن میں بھی اکثر مقامات پر سننے سے مراد جان لینا اور سمجھ لینا ہے - سورة الدھر میں انسان کی تخلیق کے ذکر کے ساتھ فرمایا: فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرً‌ا "ہم نے اسے (انسان کو) سننے اور دیکھنے والا بنایا" (سورة الدھر/سورة الانسان:٢) - یعنی بات کو سمجھنے اور عقل و خرد والا بنایا ورنہ سنتے اور دیکھتے تو جانور بھی ہیں - قیامت کے دن ناکامی کے بعد کفر کہیں گے: لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ‌ "کاش ہم دنیا میں سننے (ماننے) والے اور (سمجھنے) عقل والے ہوتے تو آج جہنمیوں میں سے نہ ہوتے" (سورة الملك:١٠) - یاد رہے کہ ہر زمانے اور خاص کر آخری رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے زمانے کے سارے کافر و مشرک کانوں سے سننے والے تھے قرآن سننے کے بعد ہی وہ مخالفت اور شور کیا کرتے تھے یہاں سننے سے مراد ہے کہ کاش ہم قرآن کی بات سمجھ کر مان لیتے -دوسرے مقام پر فرمایا گیا: إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ "بےشک اس میں سننے والوں کے لیے نشانی ہے" (سورة النحل:٦٥/سورة يونس:٦٧/سورة الروم:٢٣) - یہاں بھی سننے والوں سے مراد عقل والے اور علم والے ہیں - سورة الأنفال میں فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّ۔هَ وَرَ‌سُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ - وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ "اے ایمان والو! الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور روگردانی نہ کرو اور تم سنتے ہو (سننے والے ہو) اور ان لوگوں جیسے نہ ہو جانا جو کہتے ہیں ہم نے سنا لیکن وہ سنتے (مانتے) نہیں" (٢٠ تا ٢١) - وَلَوْ عَلِمَ اللَّ۔هُ فِيهِمْ خَيْرً‌ا لَّأَسْمَعَهُمْ "اور اگر الله نے میں کچھ اچھائی دیکھتا تو ان کو سننے (ماننے اور سمجھنے) کی توفیق بخشتا" (سورة الأنفال:٢٣) - اسی طرح سورة السجدة میں فرمایا کہ ان سے پہلے ہم نے کتنی گنہگار امتوں کو ہلاک کیا جن کے کھنڈرات سے یہ گزرتے ہیں پھر فرمایا: أَفَلَا يَسْمَعُونَ "کیا پس یہ سنتے نہیں؟" - یعنی سمجھ کر ان واقعات سے عبرت حاصل نہیں کرتے؟ ثابت ہوا کہ مسلمین کی ماں عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا نے قلیب بدر کی روایت میں سننے سے مراد سمجھ لینا ، جان لینا ، علم ہو جانا کی تاویل اپنی طرف سے نہیں کی بلکہ قرآن کے مطابق اور اس کی روشنی میں کی ، اس کے برخلاف نہیں کی - اسی طرح عائشہ رضی الله عنہا کی عذاب قبر سے پناہ مانگنے والی روایتیں صحیح ہیں - عائشہ رضی الله عنہا بھی عذاب قبر مانتی تھیں - کیونکہ عذاب قبر حق ہے - لیکن نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد اپنی زندگی میں ہی یہودیہ پر رونے کے حوالے سے عذاب قبر کے ہونے اور قلیب بدر والی روایتوں میں تشریح اور وضاحت فرما دی کہ مردوں پر عذاب ہونا یہ برزخی معاملات ہیں اور اس کا ان گڑھوں (زمینی قبروں) سے کوئی تعلق نہیں - جس گھر (بیت رسول الله صلی الله علیہ وسلم) سے یہ احادیث بیان ہوئی تھیں اس گھر (مدرسئہ اسلام) کے اہل بیت والوں نے مردوں کے نہ سننے اور کافر کو بغیر دفن ہوئے عذاب القبر ہونے کا عقیدہ دیا - اب اگر کوئی باغی گروہ یہ دعویٰ کرے کہ وہ اس گھر اہل بیت والوں سے بھی زیادہ جانتے ہیں اور بڑے عالم ہیں اور اُن کا عقیدہ صحیح نہیں تھا یا اِن کے مدارس نے اُس گھر بیت رسول الله صلی الله علیہ وسلم یعنی پہلے مدرسئہ اسلام سے زیادہ دین کی خدمت کی ہے اور کر رہے ہیں - تو تھوڑا انتظار کریں بہت جلد الله کے پاس حق اور انصاف کے ساتھ فیصلہ ہو جائے گا
 

زیک

مسافر
مذہب کو جتنی عقلی توجیہہ کی جائے اتنا ہی عقل سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ مردوں سے بات ممکن نہیں تو پھر انہیں زندہ کیا ہو گا
 

کیماڑی

محفلین
[ خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ھیں ]


مہوش علی نے"قرآن کےظاھری وباطنی معنی" کےعنوان کےتحت جو کچھ تحریر کیا ھےاسکا بنیادی سبب اپنےاوراپنےھم عقیدہ قدیم وجدید مفسرین کےسماع_موتی کےعقیدےکوبچاناھے-جو انھوں نےموضوع ‏‎(fabricated)‎‏ روایات پراستوارکیاھے،باقی موصوفہ نےظاھری و باطنی معنوں کی بحث تو مسئلےکو الجھانےکیلئےچھیڑی ھے، ورنہ سماع_موتی کےباطل عقیدےکا رد صرف سورہ نمل اور فاطرکی آیتوں پرھی موقوف نہیں بلکہ قرآن کی متعدد آیات جوبیان کرتی ھیں کہ مردےقیامت کےدن ھی دوبارہ زندہ کیئےجائیں گےاس گمراہ کن عقیدے کا رد کرتی ھیں-کیونکہ سماع کیلئے حیات شرط ھے،اورجب مردے قیامت سے پہلےزندہ ھی نہیں ھونگےتو پھرسننےسنانےکاسوال ھی پیدا نہیں ھوتا-ملاحظہ ھو ! ‏‎)‎البقرة28، مومنون16،مومن11...)
اب رھی موصوفہ کی یہ کنفیوژن کہ: اگرمردےنہیں سنتےتو پھرصالح علیہ سلام اپنی مردہ قوم سےکیوں مخاطب ھوئے.؟ اسکاجواب یہ ھےکہ جب اصول متعین ھےکہ: " مردے قیامت سےپہلےزندہ نہیں ھونگےاور بغیر زندگی کےسننےکاسوال ھی پیدا نہیں ھوتا" تو اب اسطرح کی آیت یاحدیث جس میں مردہ یاجماد (پتھر،بت وغیرہ) سےکلام کیاگیاھواسےسننے پرھرگز محمول نہیں کیاجائیگا-جیسےعمررضی الله عنه کاحجراسود سےکلام کرنا،ابراھیم عليه السلام كا بتوں سےکلام کرنا یا صالح علیہ سلام کااپنی مردہ قوم سےمخاطب ھونا وغیرہ....
البتہ معجزےکی بات الگ ھےکیونکہ معجزہ معمول نہیں ھوتا- جیسےقلیب بدرکےمردوں کا نبی عليه السلام کی بات سننا- [عن عبدالله بن عمر....انهم الآن يسمعون مااقول] حدیث میں"الآن" کا لفظ واضح کررھاھےکہ قلیب بدرکےمردوں کاسنناخاص اس وقت تھا ھر وقت نہیں،اورانس رضی الله عنه سےاس واقعہ کو روایت کرنےوالےان کےشاگرد ‏ قتاده کےالفاظ بخاری لائےھیں"احياهم الله" ترجمه:‏‎ ‎الله نےانہیں زندہ کردیا-ظاھرھےقبل ازقیامت زندہ ھونا معجزہ ھےمعمول نہیں-غورطلب نکتہ یہ ھےکہ اگرصحابه "میت" کے سننےکےقائل ھوتےتو قتادہ رحمةالله عليه کو یہ وضاحت کرنےکی ضرورت ھی پیش نہ آتی، لہذا ثابت ھواکہ جوسننامانتےتھےوہ بطورمعجزہ مانتےتھےعام نہیں.اور عائشہ رضی الله عنھااورعبدالله بن عمررضی الله عنهما کےمابین اختلاف اس واقعےکےمعجزہ ھونےیانہ ھونےمیں ھی تھا-نہ مطلق سماع موتی میں اورنہ ظاھری وباطنی معنوں میں.....امت کی بدنصیبی کہ ان تمام تفصیلات کےباوجود اکابرین مذاہب نےعلمی فریب کاری کےذریعےھرمردے کو زندہ اورسننےوالا قرار دیکر معجزے کو معمول بنادیا- -نتیجتا" قرآن کےبیان کردہ عام قانون دو زندگی دو موت سےصرف قلیب_ بدر کےمردے ھی نہیں بلکہ تمام مردے مستثنی‎(exempted)‎‏ ھوگئے- اب قرآن کی وہ آیت جس میں دو زندگی دو موت کاقانون بیان ھواھےمحض تلاوت کیلئےھےاسکا اطلاق‎ (implement)‎‏ قبرمیں مدفون کسی مردہ لاشے پرنہیں ھوگا____کیونکہ ان سب کا عقیدہ ھےکہ " دفن کےبعد ھرمردہ لاشہ دفناکرجانےوالوں کےجوتوں کی چاپ سنتا ھے"____ الله کےقانون کا صریح انکارکرنےاورمذاق اڑانےکا خمیازہ یہ الله کےعذاب کی شکل میں صدیوں سےبھگت رھےھیں اور آخرت کا ابدی عذاب الگ ھے-
(نوٹ) اس موضوع پرتفصیلی مطالعےکیلئے ڈاکٹرعثمانی رحمةالله عليه کےکتابچے"عذاب_برزخ" اور"ایمان_خالص، دوسری قسط کامطالعہ فرمائیں- - ‏www.islamic-belief.net
 
مدیر کی آخری تدوین:
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top