خاور بلال
محفلین
سید ابوالاعلٰی مودودی کی تحاریر سے ماخوذ اقتباسات۔امید ہے قرآن و حدیث کے حوالے سے جدید ذہن کے شبہات رفع کرنے میں معاون ثابت ہوسکیں گے۔
اسلام ایک علمی و عقلی مذہب
اسلام کی ہدایت سے فائدہ اٹھانے، اور دین کے سیدھے راستے پر قائم رہنے اور اعتقاد و عمل کی گمراہیوں سے بچنے کا انحصار کلیتہ اسی چیز پر ہے جس پر ابتدا سے دینِ الٰہی کی بِنا رکھی گئی ہے، یعنی علم اور عقل۔ خدا کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہر زمانے اور ہر حال میں بہترین رہنما ہے، مگر ان کے لیے جو علم اور عقل رکھتے ہوں، اللہ اور اس کے رسول کی ہدایت کو سمجھیں، اس میں غورو غوض کریں، اس سے اکتسابِ نور اور زندگی کی ہر راہ میں اس نور کو لیکر چلیں۔ رہے وہ لوگ جو تفقہ و تدبر کی نعمت کھوچکے ہیں اور صرف اس لیے مسلمان ہیں کہ ان کے باپ دادا ان کو مسلمان چھوڑ گئے ہیں تو، درِ حقیقت ان کے لیے دین میں کوئی استقامت ہے ہی نہیں۔ وہ ہر وقت گمراہی کے خطرہ میں ہیں۔ گمراہی ان کے اندر سے بھی پھوٹ سکتی ہے اور باہر سے بھی حملہ کرسکتی ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے گردو پیش جو ضلالتیں پھیلی ہوئی ہیں ان میں سے کسی کے پیچھے وہ بغیر جانے بوجھے لگ چلیں۔ کیونکہ ان کے پاس وہ چیز ہے ہی نہیں جو ان کو دین کے سیدھے رستے پر مضبوطی کے ساتھ قائم رکھ سکتی ہے۔
قرآن کی تاویل کا صحیح طریقہ
آپ جس آیت کے معنی سمجھنا چاہتے ہوں، پہلے عربی زبان کے لحاظ سے اس کے الفاظ اور ترکیب پر غور کریں۔ پھر اسے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھیں۔ پھر اسی مضمون سے تعلق رکھنے والی جو دوسری آیات قرآن میں مختلف مقامات پر موجود ہیں ان کو جمع کرکے دیکھیں کہ زیرِ بحث آیت کی ممکن تعبیرات میں سے کونسی تعبیر ان سے مطابقت رکھتی ہے اور کونسی تعبیر ان کے خلاف پڑتی ہے (اور یہ ظاہر ہے کہ ایک شخص کا کوئی قول اگر دو یا زائد تعبیرات کا محتمل ہوتو اس کی وہی تعبیر معتبر سمجھی جائے گی جو اس مضمون کے متعلق اسی شخص کی دوسری تصریحات سے مطابقت رکھتی ہو)۔ اس حد تک قرآن کا مطلب خود قرآن سے معلوم کرنے کی کوشش جب آپ کرلیں تو اس کے بعد یہ بھی دیکھیے کہ جو شخص دراصل اس قرآن کو پیش کرنے والا تھا اس کے قول اور عمل سے قرآن کی زیرِ بحث آیت کے مفہوم پر کیا روشنی پڑتی ہے، اور جولوگ اس کے قریب ترین زمانے میں اس کے پیرو تھے وہ اس آیت کا کیا مطلب سمجھتے تھے۔
اس دور میں قرآن کی صحیح خدمت کیا ہے؟
اللہ جل شانہ نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی کتاب اس اعلان کے ساتھ نازل کی ہے کہ اس میں دین کی تکمیل کردی گئی ہے اور اب دنیا میں نہ کوئی نبی آنے والا ہے نہ کوئی کتاب۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن پوری نوعِ انسانی کے لیے تمام دنیا میں اور تمام زمانوں میں ایک مستقل ہدایت ہے۔ لہٰذا مسلمان ہونے کی حیثیت سے مسائلِ حیات کی ہر بحث میں ہمارا اولین نقطہ آغاز یہ ہونا چاہیے کہ ہمارے لیے اصل سرچشمہ ہدایت یہ کتاب ہے اور رہنمائی حاصل کرنے کے لیے اسی کی طرف ہم رجوع کریں گے۔
ہمارے رہنما اور کارفرما طبقوں میں کچھ عناصر ہیں جو قرآن کو اس دور میں سرچشمہ ہدایت نہیں مانتے یا کم از کم اس میں شک ضرور رکھتے ہیں۔ وہ ایسے اطمینان بخش دلائل کے محتاج ہیں جن سے ان کو یہ یقین حاصل ہوجائے کہ انسان رہنمائی کے لیے خدا کی ہدایت کا محتاج ہے اور یہ قرآن واقعی خدا ہی کی طرف سے ایک محفوظ، کامل اور ابدی ہدایت ہے۔
کچھ دوسرے عناصر ہیں جو دین و دنیا کی تقسیم کا نظریہ اختیار کرچکے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے مخصوص تصورات کے مطابق جس چیز کو دین سمجھ بیٹھا ہے صرف اسی کے دائرے تک قرآن کی ہدایت کو محدود رکھنا چاہتا ہے۔ کچھ اور عناصر ہیں جو قرآن کی ہدایت کو جامع اور ہمہ گیر مانتے ہیں، مگر جب اس سے استفادے کا سوال سامنے آتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ کسی کے لیے رہنمائی کا اصل ماخذ و منبع قرآن سے باہر کسی اور جگہ ہے جہاں سے نظریات و تصورات لاکر وہ قرآن سے ان کی تصدیق و توثیق کرانے کے لیے زور لگارہا ہے۔ اور کسی کی کوشش یہ ہے کہ قرآن کا تعلق نہ صرف سنت سے کاٹ کر، بلکہ پچھلی چودہ صدیوں میں امت کے علماء و فقہاء اور مفسرین نے قرآن کی تشریح اور تعلیماتِ قرآن سے اخذ و استنباط کا جو کچھ کام کیا ہے اس سب سے بے نیاز ہوکر، اس کا اپنا ذہن الفاظِ قرآن سے جو مفہوم اخذ کرتا ہے صرف اس سے ہدایت حاصل کرے۔
یہ تمام مسالک ایسے ہیں جنہیں کوئی معقول آدمی قرآن کی ہدایت سے استفادے کی صحیح صورت نہیں مان سکتا، اور ان کی بنیاد پر امتِ مسلمہ کا کوئی ایک نظامِ فکروعمل بھی نہیں بن سکتا۔ اس لیے ان مسلکوں کے فروغ پانے کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مسلمانوں میں مزید تفرقے رونما ہوں۔ ان کے ذہنوں میں اپنے دین کے متعلق نئی نئی الجھنیں پیدا ہوں اور دنیا کو ہدایتِ الٰہی کی طرف دعوت دینے کے بجائے وہ خود اپنی جگہ ہی اس پریشانی میں مبتلا رہیں کہ وہ ہدایت فی الواقع ہے کیا۔
لغزشِ قدم کے ان مواقع سے جولوگ بچ گئے ہیں ان کے معاملہ میں بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ فی الحقیقت قرآن کو اصل سرچشمہ ہدایت ماننے میں وہ کس حد تک سنجیدہ ہیں۔ ہمارے سنجیدہ ہونے کا اصل تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں عملا سرچشمہ ہدایت کی طرف رجوع کریں، اور جو رہنمائی اس سے ملتی ہے اس کے مطابق اپنے اخلاق و معاملات اور طرزِ زندگی کو، اپنے تمدن اور اس کے قوانین کو، اپنے نظامِ تعلیم اور نظامِ معیشت اور نظامِ سیاست کو فالفعل ڈھالنے کے لیے تیار ہوجائیں۔
ہمیں اس سنجیدگی کو پیدا کرنے کی کوشش سب سے پہلے کرنی چاہیے، کیونکہ جب تک یہ پیدا نہ ہو، مسائلِ زندگی پر قرآنی تعلیمات کے انطباق کی علمی بحثیں کاغذ کی زینت ہی بنی رہیں گی، عمل کی دنیا میں ان کا کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ دنیا صرف ان کاغذی بحثوں سے اسلام کے برحق ہونے کی قائل نہیں ہوسکتی۔ اسے قائل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ہماری قومی زندگی میں اسلام اس کو جلوہ گر نظر آئے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اسلام ایک علمی و عقلی مذہب
اسلام کی ہدایت سے فائدہ اٹھانے، اور دین کے سیدھے راستے پر قائم رہنے اور اعتقاد و عمل کی گمراہیوں سے بچنے کا انحصار کلیتہ اسی چیز پر ہے جس پر ابتدا سے دینِ الٰہی کی بِنا رکھی گئی ہے، یعنی علم اور عقل۔ خدا کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہر زمانے اور ہر حال میں بہترین رہنما ہے، مگر ان کے لیے جو علم اور عقل رکھتے ہوں، اللہ اور اس کے رسول کی ہدایت کو سمجھیں، اس میں غورو غوض کریں، اس سے اکتسابِ نور اور زندگی کی ہر راہ میں اس نور کو لیکر چلیں۔ رہے وہ لوگ جو تفقہ و تدبر کی نعمت کھوچکے ہیں اور صرف اس لیے مسلمان ہیں کہ ان کے باپ دادا ان کو مسلمان چھوڑ گئے ہیں تو، درِ حقیقت ان کے لیے دین میں کوئی استقامت ہے ہی نہیں۔ وہ ہر وقت گمراہی کے خطرہ میں ہیں۔ گمراہی ان کے اندر سے بھی پھوٹ سکتی ہے اور باہر سے بھی حملہ کرسکتی ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے گردو پیش جو ضلالتیں پھیلی ہوئی ہیں ان میں سے کسی کے پیچھے وہ بغیر جانے بوجھے لگ چلیں۔ کیونکہ ان کے پاس وہ چیز ہے ہی نہیں جو ان کو دین کے سیدھے رستے پر مضبوطی کے ساتھ قائم رکھ سکتی ہے۔
قرآن کی تاویل کا صحیح طریقہ
آپ جس آیت کے معنی سمجھنا چاہتے ہوں، پہلے عربی زبان کے لحاظ سے اس کے الفاظ اور ترکیب پر غور کریں۔ پھر اسے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھیں۔ پھر اسی مضمون سے تعلق رکھنے والی جو دوسری آیات قرآن میں مختلف مقامات پر موجود ہیں ان کو جمع کرکے دیکھیں کہ زیرِ بحث آیت کی ممکن تعبیرات میں سے کونسی تعبیر ان سے مطابقت رکھتی ہے اور کونسی تعبیر ان کے خلاف پڑتی ہے (اور یہ ظاہر ہے کہ ایک شخص کا کوئی قول اگر دو یا زائد تعبیرات کا محتمل ہوتو اس کی وہی تعبیر معتبر سمجھی جائے گی جو اس مضمون کے متعلق اسی شخص کی دوسری تصریحات سے مطابقت رکھتی ہو)۔ اس حد تک قرآن کا مطلب خود قرآن سے معلوم کرنے کی کوشش جب آپ کرلیں تو اس کے بعد یہ بھی دیکھیے کہ جو شخص دراصل اس قرآن کو پیش کرنے والا تھا اس کے قول اور عمل سے قرآن کی زیرِ بحث آیت کے مفہوم پر کیا روشنی پڑتی ہے، اور جولوگ اس کے قریب ترین زمانے میں اس کے پیرو تھے وہ اس آیت کا کیا مطلب سمجھتے تھے۔
اس دور میں قرآن کی صحیح خدمت کیا ہے؟
اللہ جل شانہ نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی کتاب اس اعلان کے ساتھ نازل کی ہے کہ اس میں دین کی تکمیل کردی گئی ہے اور اب دنیا میں نہ کوئی نبی آنے والا ہے نہ کوئی کتاب۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن پوری نوعِ انسانی کے لیے تمام دنیا میں اور تمام زمانوں میں ایک مستقل ہدایت ہے۔ لہٰذا مسلمان ہونے کی حیثیت سے مسائلِ حیات کی ہر بحث میں ہمارا اولین نقطہ آغاز یہ ہونا چاہیے کہ ہمارے لیے اصل سرچشمہ ہدایت یہ کتاب ہے اور رہنمائی حاصل کرنے کے لیے اسی کی طرف ہم رجوع کریں گے۔
ہمارے رہنما اور کارفرما طبقوں میں کچھ عناصر ہیں جو قرآن کو اس دور میں سرچشمہ ہدایت نہیں مانتے یا کم از کم اس میں شک ضرور رکھتے ہیں۔ وہ ایسے اطمینان بخش دلائل کے محتاج ہیں جن سے ان کو یہ یقین حاصل ہوجائے کہ انسان رہنمائی کے لیے خدا کی ہدایت کا محتاج ہے اور یہ قرآن واقعی خدا ہی کی طرف سے ایک محفوظ، کامل اور ابدی ہدایت ہے۔
کچھ دوسرے عناصر ہیں جو دین و دنیا کی تقسیم کا نظریہ اختیار کرچکے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے مخصوص تصورات کے مطابق جس چیز کو دین سمجھ بیٹھا ہے صرف اسی کے دائرے تک قرآن کی ہدایت کو محدود رکھنا چاہتا ہے۔ کچھ اور عناصر ہیں جو قرآن کی ہدایت کو جامع اور ہمہ گیر مانتے ہیں، مگر جب اس سے استفادے کا سوال سامنے آتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ کسی کے لیے رہنمائی کا اصل ماخذ و منبع قرآن سے باہر کسی اور جگہ ہے جہاں سے نظریات و تصورات لاکر وہ قرآن سے ان کی تصدیق و توثیق کرانے کے لیے زور لگارہا ہے۔ اور کسی کی کوشش یہ ہے کہ قرآن کا تعلق نہ صرف سنت سے کاٹ کر، بلکہ پچھلی چودہ صدیوں میں امت کے علماء و فقہاء اور مفسرین نے قرآن کی تشریح اور تعلیماتِ قرآن سے اخذ و استنباط کا جو کچھ کام کیا ہے اس سب سے بے نیاز ہوکر، اس کا اپنا ذہن الفاظِ قرآن سے جو مفہوم اخذ کرتا ہے صرف اس سے ہدایت حاصل کرے۔
یہ تمام مسالک ایسے ہیں جنہیں کوئی معقول آدمی قرآن کی ہدایت سے استفادے کی صحیح صورت نہیں مان سکتا، اور ان کی بنیاد پر امتِ مسلمہ کا کوئی ایک نظامِ فکروعمل بھی نہیں بن سکتا۔ اس لیے ان مسلکوں کے فروغ پانے کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مسلمانوں میں مزید تفرقے رونما ہوں۔ ان کے ذہنوں میں اپنے دین کے متعلق نئی نئی الجھنیں پیدا ہوں اور دنیا کو ہدایتِ الٰہی کی طرف دعوت دینے کے بجائے وہ خود اپنی جگہ ہی اس پریشانی میں مبتلا رہیں کہ وہ ہدایت فی الواقع ہے کیا۔
لغزشِ قدم کے ان مواقع سے جولوگ بچ گئے ہیں ان کے معاملہ میں بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ فی الحقیقت قرآن کو اصل سرچشمہ ہدایت ماننے میں وہ کس حد تک سنجیدہ ہیں۔ ہمارے سنجیدہ ہونے کا اصل تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں عملا سرچشمہ ہدایت کی طرف رجوع کریں، اور جو رہنمائی اس سے ملتی ہے اس کے مطابق اپنے اخلاق و معاملات اور طرزِ زندگی کو، اپنے تمدن اور اس کے قوانین کو، اپنے نظامِ تعلیم اور نظامِ معیشت اور نظامِ سیاست کو فالفعل ڈھالنے کے لیے تیار ہوجائیں۔
ہمیں اس سنجیدگی کو پیدا کرنے کی کوشش سب سے پہلے کرنی چاہیے، کیونکہ جب تک یہ پیدا نہ ہو، مسائلِ زندگی پر قرآنی تعلیمات کے انطباق کی علمی بحثیں کاغذ کی زینت ہی بنی رہیں گی، عمل کی دنیا میں ان کا کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ دنیا صرف ان کاغذی بحثوں سے اسلام کے برحق ہونے کی قائل نہیں ہوسکتی۔ اسے قائل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ہماری قومی زندگی میں اسلام اس کو جلوہ گر نظر آئے۔