قرآن سے متعلق شماریات جمع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ :
۱۔قرآن میں اللہ کے حقوق سے متعلق کل ۱۹۳ آیات ہیں۔
۲۔بندوں کے حقوق سے متعلق ۶۷۳ آیات ہیں۔
۳۔کائنات سے متعلق سائنسی علوم پر ۷۵۰ آیات ہیں۔
ان آیات میں مندرجہ ذیل موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے:
۱۔آسمان اور دنیا کی پیدائش پر غور و فکر کا بیان
۲۔آفتاب کی پیدائش کی حکمتوں پر غور و فکر کا بیان
۳۔چاند کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
۴۔زمین کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
۵۔سمندر کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
۶۔پانی کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
۷۔ہوا کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
۸۔آگ کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
۹۔انسان کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
یہ تو کائناتی موضوعات ہیں جن پر قرآن ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ پوری بات نہیں بتاتا، اشارات دیتا ہے، راستہ سجھاتا ہے۔ ہمیں تلاش پر مائل کرتا ہے۔ پنجابی شعر کے مصداق پلامار کر دیا بجھاتا ہےاور آنکھ کے اشارے سے بات کرتا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ قرآن تو برملا کہتا ہے کہ لوگو ! ذرا دیکھو، غور سے دیکھو۔ سوچو، سمجھو، دیکھو تو ہم نے کیا کیا تخلیق کیا ہے۔ جان لو کہ یہ کائنات ہم نے اس لئے تخلیق کی ہے کہ تم اسے تسخیر کر سکو۔
اسلام تو ان کا مذہب ہے جو مظاہرہ فطرت پر غور و خوض کے عادی ہیں۔ وہ تو غور وفکر سے بے بہرہ ہیں جنہیں بات منوانے کے لئے معجزے کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
ٹالسٹائ روس کا ایک مفکر تھا۔ سفر کے دوران اسے ایک پادری ملا۔ پادری اس کے پاس بیٹھا اور حسب معمول عیسائیت پر باتیں کر رنے لگا۔ ٹالسٹائی اس کی باتیں سنتا رہا، آخر میں پادری نے کہا "عیسائیت واحد مذہب ہے جو ذات باری تعالی کے ثبوت میں ایک معجزہ پیش کرتا ہے"۔
کون سا معجزہ "؟ ٹالسٹائی نے پوچھا۔
پادری بولا "یہ معجزہ کہ حضرت مسیح بغیر باپ کے پیدا ہوئے"۔
ٹالسٹائی نے جواب دیا " محترم پادری صاحب ! میں اس لئے خدا کے وجود کا قائل نہیں ہوا کہ مسیح بغیر باپ کے پیدا ہوئےتھے، میں تو پیدائش کے مسلسل معجزے پر حیران زدہ ہوں میاں بیوی کے ملاپ سے دو حقیر مادے آپس میں مل جاتے اور ایک بچے کی پیدائش کا باعث بن جاتے ہیں۔ کیا عام پیدائش ایک حیران کن معجزہ نہیں ہے"۔
ان کائناتی موضوعات کے علاوہ بھی قرآن میں زمینی علوم پر آیات ہیں، مثلا ان کے موضوع یوں ہیں:
۱۔پرندوں کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
۲۔چوپایوں کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
۳۔شہد کی مکھی کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
۴۔مچھلی کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
۵۔نباتات کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
قرآن کا نواں حصہ سائنسی علوم کے بارے میں ہے۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے قرآن کے ان حصوں کہ کبھی اہمیت نہیں دی جو عقل و دانش اور سائنسی علوم کے متعلق ہیں۔ ہمارے علمائے دین نے اپنے خطبوں میں کبھی ان امور کا ذکر نہیں کیا وہ بھی مجبور ہیں کیونکہ وہ خود ان علوم سے واقفیت نہیں رکھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ دین کا علم کافی ہے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دین علم ہے ؟ سیانے کہتے ہیں کہ دین تو ایک ضابطہ حیات ہے جسے عمل سے تعلق ہے ایمان سے تعلق ہے، علم سے نہیں
چونکہ قرآن نے علم کو فضیلت کا مقام دیا ہے اس لئے مذہب کے اجارہ داروں نے مشھور کر رکھا ہے کہ علم سے قرآن کی مراد علم دین ہے، علم دین ہی سچا علم ہے، باقی علوم تو انسانوں کو کفر کا درس دیتے ہیں۔ اپنی ذاتی اہمیت کو قاّم کرنے کے لئے انسان کو کیا کیا حیلے کرنے پڑتے ہیں!
قرآن کی عظمت کا احساس صرف ان لوگوں کو ہے جو سائنسی علوم سے واقف ہیں، خلفائے راشدین کے دور میں جتنے بھی مسلمان سائنس دان پیدا ہوئے وہ سب قرآن کے مرہون منت تھے، ان کی تصنیفات میں جگہ جگہ قرآن کے حوالے ملتے ہیں۔
ممتاز مفتی کی "تلاش"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔قرآن میں اللہ کے حقوق سے متعلق کل ۱۹۳ آیات ہیں۔
۲۔بندوں کے حقوق سے متعلق ۶۷۳ آیات ہیں۔
۳۔کائنات سے متعلق سائنسی علوم پر ۷۵۰ آیات ہیں۔
ان آیات میں مندرجہ ذیل موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے:
۱۔آسمان اور دنیا کی پیدائش پر غور و فکر کا بیان
۲۔آفتاب کی پیدائش کی حکمتوں پر غور و فکر کا بیان
۳۔چاند کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
۴۔زمین کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
۵۔سمندر کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
۶۔پانی کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
۷۔ہوا کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
۸۔آگ کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
۹۔انسان کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
یہ تو کائناتی موضوعات ہیں جن پر قرآن ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ پوری بات نہیں بتاتا، اشارات دیتا ہے، راستہ سجھاتا ہے۔ ہمیں تلاش پر مائل کرتا ہے۔ پنجابی شعر کے مصداق پلامار کر دیا بجھاتا ہےاور آنکھ کے اشارے سے بات کرتا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ قرآن تو برملا کہتا ہے کہ لوگو ! ذرا دیکھو، غور سے دیکھو۔ سوچو، سمجھو، دیکھو تو ہم نے کیا کیا تخلیق کیا ہے۔ جان لو کہ یہ کائنات ہم نے اس لئے تخلیق کی ہے کہ تم اسے تسخیر کر سکو۔
اسلام تو ان کا مذہب ہے جو مظاہرہ فطرت پر غور و خوض کے عادی ہیں۔ وہ تو غور وفکر سے بے بہرہ ہیں جنہیں بات منوانے کے لئے معجزے کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
ٹالسٹائ روس کا ایک مفکر تھا۔ سفر کے دوران اسے ایک پادری ملا۔ پادری اس کے پاس بیٹھا اور حسب معمول عیسائیت پر باتیں کر رنے لگا۔ ٹالسٹائی اس کی باتیں سنتا رہا، آخر میں پادری نے کہا "عیسائیت واحد مذہب ہے جو ذات باری تعالی کے ثبوت میں ایک معجزہ پیش کرتا ہے"۔
کون سا معجزہ "؟ ٹالسٹائی نے پوچھا۔
پادری بولا "یہ معجزہ کہ حضرت مسیح بغیر باپ کے پیدا ہوئے"۔
ٹالسٹائی نے جواب دیا " محترم پادری صاحب ! میں اس لئے خدا کے وجود کا قائل نہیں ہوا کہ مسیح بغیر باپ کے پیدا ہوئےتھے، میں تو پیدائش کے مسلسل معجزے پر حیران زدہ ہوں میاں بیوی کے ملاپ سے دو حقیر مادے آپس میں مل جاتے اور ایک بچے کی پیدائش کا باعث بن جاتے ہیں۔ کیا عام پیدائش ایک حیران کن معجزہ نہیں ہے"۔
ان کائناتی موضوعات کے علاوہ بھی قرآن میں زمینی علوم پر آیات ہیں، مثلا ان کے موضوع یوں ہیں:
۱۔پرندوں کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
۲۔چوپایوں کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
۳۔شہد کی مکھی کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
۴۔مچھلی کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
۵۔نباتات کی پیدائش کی حکمتوں کا بیان
قرآن کا نواں حصہ سائنسی علوم کے بارے میں ہے۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے قرآن کے ان حصوں کہ کبھی اہمیت نہیں دی جو عقل و دانش اور سائنسی علوم کے متعلق ہیں۔ ہمارے علمائے دین نے اپنے خطبوں میں کبھی ان امور کا ذکر نہیں کیا وہ بھی مجبور ہیں کیونکہ وہ خود ان علوم سے واقفیت نہیں رکھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ دین کا علم کافی ہے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دین علم ہے ؟ سیانے کہتے ہیں کہ دین تو ایک ضابطہ حیات ہے جسے عمل سے تعلق ہے ایمان سے تعلق ہے، علم سے نہیں
چونکہ قرآن نے علم کو فضیلت کا مقام دیا ہے اس لئے مذہب کے اجارہ داروں نے مشھور کر رکھا ہے کہ علم سے قرآن کی مراد علم دین ہے، علم دین ہی سچا علم ہے، باقی علوم تو انسانوں کو کفر کا درس دیتے ہیں۔ اپنی ذاتی اہمیت کو قاّم کرنے کے لئے انسان کو کیا کیا حیلے کرنے پڑتے ہیں!
قرآن کی عظمت کا احساس صرف ان لوگوں کو ہے جو سائنسی علوم سے واقف ہیں، خلفائے راشدین کے دور میں جتنے بھی مسلمان سائنس دان پیدا ہوئے وہ سب قرآن کے مرہون منت تھے، ان کی تصنیفات میں جگہ جگہ قرآن کے حوالے ملتے ہیں۔
ممتاز مفتی کی "تلاش"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔