امن وسیم
محفلین
بھائی جان مثالیں ہوتی ہی فرضی ہیں۔ خود قرآن پاک میں جگہ جگہ ایسی مثالیں بیان کی گئی ہیں جو فرضی ہیں۔ اللّٰہ تعالی نےہماری نصیحت کیلیے طریقہ ہی یہی اختیار کیا ہے کہ گزرے ہوئے واقعات میں سے جو سبق ( عبرت ) حاصل ہو وہ بیان کیا جائے اور مثالوں کے ذریعے ہر نقطہ سمجھایا جائے۔ سورہ بقرہ (۲۶) میں ہے :آپ کی وضو والی مثال محض مفروضہ پر قائم ہے۔ ورنہ حقیقت میں یہ صورتحال آج تک نہیں دیکھی کہ کوئی نماز کے لیے وضو کرے اور نماز نہ پڑھے۔
اللہ اِس بات سے نہیں شرماتا کہ (کسی حقیقت کی وضاحت کے لیے ) وہ مچھر یا اِس سے بھی حقیر کسی چیز ( مثلا مکھی ، مکڑی وغیرہ ) کی تمثیل بیان کرے۔ پھر جو ماننے والے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ اُن کے پروردگار کی طرف سے حق آیا ہے، اور جو نہیں مانتے، وہ کہتے ہیں کہ اِس مثال سے اللہ نے کیا چاہا؟ (اِس طرح) اللہ بہتوں کو اِس سے گمراہ کرتا اور بہتوں کو راہ دکھاتا ہے ، اور (حقیقت یہ ہے کہ) وہ اِس سے گمراہ تو ایسے سرکشوں ہی کو کرتا ہے۔ ( بقرہ ۲۶)
جبکہ اس آیت سے دس آیتیں پیچھے اللّٰہ تعالی نے ایک مثال بیان کی ہے:
اِن کی مثال بالکل ایسی ہے، جیسے (اندھیری رات میں) کسی شخص نے الاؤ جلایا، پھر جب آگ نے اُس کے ماحول کو روشن کر دیا تو (جن کے لیے آگ جلائی گئی تھی )، اللہ نے اُن کی روشنی سَلْب کر لی اور اُنھیں اِس طرح اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ وہ کچھ دیکھ نہیں سکتے۔ ( بقرہ ۱۷ )
یہی مثال آیت ۲۰ تک جاتی ہے:
یا بالکل ایسی ہے جیسے آسمان سے بارش ہو رہی ہے ۔ اُس میں اندھیری گھٹائیں بھی ہیں اور کڑک اور چمک بھی۔ وہ کڑک کے مارے اپنی موت کے ڈر سے انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونسے لے رہے ہیں، دراں حالیکہ اِس طرح کے منکروں کو اللہ ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ ( بقرہ ۱۹ )
ان آیات میں اللّٰہ کی عطا کردہ ہدایت اور اس کے مقابلے میں کافروں کے رویے کا ذکر ہے۔ بظاہر تو ہدایت، اس کو قبول کرنے سے انکار، حقیقت سے انکار کا بجلی، کڑک، گرج، چمک سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن اللّٰہ تعالی اسی طرح سے مثالیں بیان کرتا ہے جو روزمرہ کے عوامل ہوں جن کو سمجھنا آسان ہو۔
میں نے جو مثال بیان کی اس میں مماثلت یہی ہے کہ جس طرح وضو نماز کی ایک شرط ہے ویسے ہی تلاوت، تدبر کی شرط ہے کہ پڑھے بغیر سمجھیں گے کیسے؟