دوست نے کہا:
شاید یہ ہماری عادت بن چکی ہے کہ خصوصًا وہ حضرات جو بحث مباحثہ اور علم الکلام میں دسترس رکھتے ہیں وہ دوسرے کے الفاظ پر خصوصًا دھیان دیتے ہیں تاکہ ان پر گرفت کی جاسکے۔
میں نے تو روزمرہ میں استعمال کیا تھا وہ جملہ اور میری قطعًا کوئی ایسی نیت نہیں تھی۔
بس اتنا جانتا ہوں کہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔۔۔۔
السلام علیکم!
شاکرعزیز(دوست)بھائی میری نیت گرفت کرنے کی نہیں تھی۔نیت صرف اصلاح اور سمجھانے کی تھی اور سمجھانا ترک نہیں کرنا چاہیے۔
ترجمہء کنزالایمان:اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔(پارہ27،سورۃ الذریت،آیت نمبر55)
پھر بھی اگر میری وجہ سے آپ کی دل آزای ہوئی تو میں معذرت چاہتا ہوں۔میرے ذہن میں جو بات تھی وہ میں فیضان سنّت سے پڑھی تھی وہ یہاں لکھ رہا ہوں اسے پڑھ کر آپ خود نتیجہ اخذ فرما لیں۔
فیضان سنّت(تخریج شدہ)صفحہ26(باب فیضان بسم اللہ) پر ہے۔
"بعض لوگ اس طرح کہہ دیتے ہیں ،"بسم اللہ کیجئے!" "آؤ جی بسم اللہ"، "میں نے بسم اللہ کرڈالی"،تاجر حضرات جو دن میں پہلا سودا بیچتے ہیں اس کو عموما "بونی"کہا جاتا ہے مگر بعض لوگ اس کو بھی "بسم اللہ"کہتے ہیں،مثلا"میری تو آج ابھی تک بسم اللہ ہی نہیں ہوئی!" جن جملوں کی مثالیں پیش کی گئی یہ سب غلط ہیں۔اسی طرح کھانا کھاتے وقت اگر کوئی آ جاتا ہے تو اکثر کھانے والا اس سے کہتا ہے،آئیےآپ بھی کھا لیجئے،عام طور پر جواب ملتا ہے،"بسم اللہ" یا اس طرح کہتے ہیں،"بسم اللہ کیجئے!" بہار شریعت حصہ 16صفحہ32پر ہے کہ،"اس موقع پر اس طرح بسم اللہ کہنے کوعلماء نے بہت سخت ممنوع قرار دیاہے۔"ہاں یہ کہہ سکتے ہيں کہ بسم اللہ پڑھ کر کھا لیجئے۔بلکہ ایسے موقع پر دعائیہ الفاظ کہنا بہتر ہے،مثلا بارک اللہ لنا ولکم یعنی اللہ عزوجل ہمیں اور تمہیں برکت دے۔یا اپنی مادری زبان میں کہہ دیجئے۔اللہ عزوجل برکت دے۔