صرف علی
محفلین
یہاں قرآن ذٰلِکَ اَزْکیٰ لَھُمْ کے مسئلے کو بیان کر رہا ہے۔ قرآن کہہ رہا ہے کہ یہ حکم تمہاری روح کو پاک کرنے کے لئے ہے۔ کیا مطلب؟ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ اسلام انسانی فطرت کی طلب سے زیادہ مقدار میں ذہن و فکر کو جنسی شہوت کی جانب مشغول کرنا اور شہوت بھڑکانے والے عوامل فراہم کرنا نہیں چاہتا۔
انسان ان چیزوں کے متعلق غور و فکر نہیں کرتا جو اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو اور چونکہ لوگ اپنی شرمگاہوں کو ڈھانپ کر رکھتے ہیں (البتہ یہ بات اسلامی روایت کا حصہ ہے یورپین تہذیب کا نہیں) اس لئے ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی شخص دوسرے کی شرمگاہ کے متعلق غور کرے۔ یہ بات ”مفغول عنہ“ ہے۔ یعنی انسان ان کے طرف متوجہ ہی نہیں ہوتا۔ انسان کی سوچ، اس کا ذہن، دل اور خیال اس سے بلند تر اور منزہ تر ہے کہ وہ ان مسائل پر سوچے اور نہ ہی اس کی حاجت ہے۔
(اسلام نے شرمگاہ کو ڈھانپنے کا حکم دیا ہے) تاکہ آپ کا دل و دماغ ان مسائل پر توجہ کرنے سے محفوظ رہے کہ فلاں شخص کی شرمگاہ ایسی ہے اور دوسرے کی یوں ہے، اور نہ ہی کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش آئے (اسلام نے شرمگاہ ڈھانپنے کا حکم دیا ہے) اور اس حکم کا بہت بڑا نتیجہ برآمد ہوا ہے۔ نتیجہ یہی ہے کہ اس نے اپنے پیروکاروں کے دل و دماغ کو اس کے متعلق سوچنے سے بچائے رکھا ہے۔ مسلمان شرمگاہ کے متعلق مطلق نہیں سوچتے۔ یورپ میں جو ناپسندیدہ اقدار پھیلی ہوئی ہیں او رتدریجاً پھیل رہی ہے، خصوصاً شمالی یورپ میں جس پسندیدہ بات کا بہت زیادہو رواج ہے دوسرے مقامات پر بھی رواج ہو رہا ہے اور رسل جیسے افراد جس کی رغبت دلا رہے ہیں وہ مسئلہ شرمگاہ کو ننگا کرنے اور اسے ڈھانپنے کے خلاف تحریک چلانے کا ہے۔ رسل نے تربیت کے بارے میں ایک کتاب تحریر کی ہے۔ اس کا نام بھی اس نے ”تربیت کے بارے میں“ رکھا ہے۔ اس میں بہت تاکید کے ساتھ کہتا ہے کہ شرمگاہ چھپانے کی بات سرے سے ختم ہو جانی چاہئے، جبکہ قرآن شرمگاہ کو ڈھانپنے پر بہت زور دیتا ہے۔ خصوصاً یہ جو اس نے بعد میں فرمایا ہے کہ ذٰلِکَ اَزْکیٰ لَھُمْ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرُ م بِمَا یَصْنَعُوْنَ۔“ تو قرآن کہنا چاہتا ہے کہ ہم بہتر جانتے ہیں، اسی لئے ہم نے اسے بیان کیا ہے۔
تو بعض مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ اس آیت یَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ کا مطلب یہ ہے کہ ”اپنی شرمگاہووں کو دوسروں کی نظروں سے بچا کر رکھیں، ان کو ڈھانپ کر رکھیں۔ “ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَرِھِمْ ”اپنی آنکھیں نیچی رکھیں۔“ اور نہ دیکھیں۔ کس چیز کو نہ دیکھیں۔؟ مفسرین کا کہنا ہے کہ شرمگاہوں کو نہ دیکھیں۔ لیکن ہماری رائے میں یہ آیت اعم ہے ”یَحْفَظُوْا فَرُوْجَھُمُ بھی اعم ہے اور یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ بھی۔ روایات میں جو بیان ہوا ہے کہ قرآن میں جس جگہ بھی شرمگاہ کی حفاظت کرنے کی بات ہو تو وہ زنا سے مربوط ہے۔ لیکن اس مقام پر اس سے نظر کرنا ہے تو بعید نہیں کہ یہاں دونوں ہی مراد ہوں اور یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ“ مجھ کو تقریباً یقین ہے کہ یہ آیت شرمگاہو کی طرف نگاہ کرنے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ یہ آیت غیر شرمگاہ کی طرف نظر کرنے سے مخصوص ہو۔ ”غَضَّ“ کا مطلب ہے کم کرنا۔ ”غَضَّ بَصر“ یعنی کم دیکھنا یعنی ٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھنا۔
بعد کی آیت میں ارشاد ہوتا ہے ”وَقُلْ لِلْمُوٴْمِنَاتِ یَغْضُضُنَ مِنْ اَبْصَارِ ھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ۔“ مسلمان عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ وہ بھی اس کی پابندی کریں۔ اگر شرمگاہ مراد ہو تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی شرمگاہوں کو نہ دیکھیں اور اپنے دامن کو زنا سے آلودہ نہ کریں۔ بعض دیگر مفسرین کے نظریئے کے مطابق آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی آنکھوں کو دوسروں کی شرمگاہوں کی طرف نگاہ کرنے سے آلودہ نہ کریں۔ ”غضِ بصر“ اور حفظِ فرج کے متعلق گزشتہ آیت میں جو مطالب بیان ہوئے ہیں ان کی طرف یہ آیت بھی اشارہ کر رہی ہے۔ عورتوں کو پردے کے متعلق دوسرے احکام بھی دیئے گئے ہیں۔ قرآن فرماتا ہے۔ ”وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلاَّ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلیٰ جُیُوْبِھِنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلاَّ لِبُعُوْ لَتِھِنَّ “ (سُورہٴ نُور، آیت ۳۱) جو کہ تفصیل طلب ہیں۔ ان کو بعد والی تقریر میں آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہِ الطَّاھِرِیْنَ
انسان ان چیزوں کے متعلق غور و فکر نہیں کرتا جو اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو اور چونکہ لوگ اپنی شرمگاہوں کو ڈھانپ کر رکھتے ہیں (البتہ یہ بات اسلامی روایت کا حصہ ہے یورپین تہذیب کا نہیں) اس لئے ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی شخص دوسرے کی شرمگاہ کے متعلق غور کرے۔ یہ بات ”مفغول عنہ“ ہے۔ یعنی انسان ان کے طرف متوجہ ہی نہیں ہوتا۔ انسان کی سوچ، اس کا ذہن، دل اور خیال اس سے بلند تر اور منزہ تر ہے کہ وہ ان مسائل پر سوچے اور نہ ہی اس کی حاجت ہے۔
(اسلام نے شرمگاہ کو ڈھانپنے کا حکم دیا ہے) تاکہ آپ کا دل و دماغ ان مسائل پر توجہ کرنے سے محفوظ رہے کہ فلاں شخص کی شرمگاہ ایسی ہے اور دوسرے کی یوں ہے، اور نہ ہی کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش آئے (اسلام نے شرمگاہ ڈھانپنے کا حکم دیا ہے) اور اس حکم کا بہت بڑا نتیجہ برآمد ہوا ہے۔ نتیجہ یہی ہے کہ اس نے اپنے پیروکاروں کے دل و دماغ کو اس کے متعلق سوچنے سے بچائے رکھا ہے۔ مسلمان شرمگاہ کے متعلق مطلق نہیں سوچتے۔ یورپ میں جو ناپسندیدہ اقدار پھیلی ہوئی ہیں او رتدریجاً پھیل رہی ہے، خصوصاً شمالی یورپ میں جس پسندیدہ بات کا بہت زیادہو رواج ہے دوسرے مقامات پر بھی رواج ہو رہا ہے اور رسل جیسے افراد جس کی رغبت دلا رہے ہیں وہ مسئلہ شرمگاہ کو ننگا کرنے اور اسے ڈھانپنے کے خلاف تحریک چلانے کا ہے۔ رسل نے تربیت کے بارے میں ایک کتاب تحریر کی ہے۔ اس کا نام بھی اس نے ”تربیت کے بارے میں“ رکھا ہے۔ اس میں بہت تاکید کے ساتھ کہتا ہے کہ شرمگاہ چھپانے کی بات سرے سے ختم ہو جانی چاہئے، جبکہ قرآن شرمگاہ کو ڈھانپنے پر بہت زور دیتا ہے۔ خصوصاً یہ جو اس نے بعد میں فرمایا ہے کہ ذٰلِکَ اَزْکیٰ لَھُمْ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرُ م بِمَا یَصْنَعُوْنَ۔“ تو قرآن کہنا چاہتا ہے کہ ہم بہتر جانتے ہیں، اسی لئے ہم نے اسے بیان کیا ہے۔
تو بعض مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ اس آیت یَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ کا مطلب یہ ہے کہ ”اپنی شرمگاہووں کو دوسروں کی نظروں سے بچا کر رکھیں، ان کو ڈھانپ کر رکھیں۔ “ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَرِھِمْ ”اپنی آنکھیں نیچی رکھیں۔“ اور نہ دیکھیں۔ کس چیز کو نہ دیکھیں۔؟ مفسرین کا کہنا ہے کہ شرمگاہوں کو نہ دیکھیں۔ لیکن ہماری رائے میں یہ آیت اعم ہے ”یَحْفَظُوْا فَرُوْجَھُمُ بھی اعم ہے اور یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ بھی۔ روایات میں جو بیان ہوا ہے کہ قرآن میں جس جگہ بھی شرمگاہ کی حفاظت کرنے کی بات ہو تو وہ زنا سے مربوط ہے۔ لیکن اس مقام پر اس سے نظر کرنا ہے تو بعید نہیں کہ یہاں دونوں ہی مراد ہوں اور یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ“ مجھ کو تقریباً یقین ہے کہ یہ آیت شرمگاہو کی طرف نگاہ کرنے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ یہ آیت غیر شرمگاہ کی طرف نظر کرنے سے مخصوص ہو۔ ”غَضَّ“ کا مطلب ہے کم کرنا۔ ”غَضَّ بَصر“ یعنی کم دیکھنا یعنی ٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھنا۔
بعد کی آیت میں ارشاد ہوتا ہے ”وَقُلْ لِلْمُوٴْمِنَاتِ یَغْضُضُنَ مِنْ اَبْصَارِ ھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ۔“ مسلمان عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ وہ بھی اس کی پابندی کریں۔ اگر شرمگاہ مراد ہو تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی شرمگاہوں کو نہ دیکھیں اور اپنے دامن کو زنا سے آلودہ نہ کریں۔ بعض دیگر مفسرین کے نظریئے کے مطابق آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی آنکھوں کو دوسروں کی شرمگاہوں کی طرف نگاہ کرنے سے آلودہ نہ کریں۔ ”غضِ بصر“ اور حفظِ فرج کے متعلق گزشتہ آیت میں جو مطالب بیان ہوئے ہیں ان کی طرف یہ آیت بھی اشارہ کر رہی ہے۔ عورتوں کو پردے کے متعلق دوسرے احکام بھی دیئے گئے ہیں۔ قرآن فرماتا ہے۔ ”وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلاَّ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلیٰ جُیُوْبِھِنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلاَّ لِبُعُوْ لَتِھِنَّ “ (سُورہٴ نُور، آیت ۳۱) جو کہ تفصیل طلب ہیں۔ ان کو بعد والی تقریر میں آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہِ الطَّاھِرِیْنَ