ام اویس
محفلین
قرآن مجید سے ذاتی اور قوی تعلق، ربط و مناسبت اور اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ اور اس کے ذریعہ سے ترقی اور قرب الٰہی حاصل کرنے کے سلسلہ میں ایک تجربہ اور مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ :
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ |
اگر بقدر ضرورت عربی زبان کی استعداد اور اس کے سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے تو براہ راست ۔ ورنہ کسی معتبر ترجمہ اور مختصر حاشیہ کے ذریعہ حتی الامکان انسانی تفہیم و تشریح کی مدد پر انحصار اور تفسیروں کی بار بار مراجعت کے بغیر قرآن مجید کی تلاوت ،اس کے سمجھنے اور اس کا لطف لینے کی کوشش کی جائے ۔ اور ایک عرصہ تک اسی پر اکتفا کیا جائے، اور توفیق خداوندی اور اعانت الٰہی سے جو کچھ میسر آئے اس پر ہزار زبان سے شکر کیا جائے۔۔
اس میں سوائے اضطراری موقعوں کے کہ کسی لفظ کی تحقیق، کسی شبہ کے ازالہ اور کسی سبب نزول کی واقفیت کے بغیر کام نہ چلتا ہو، کتب تفسیر ( عربی و اردو) کی تفصیلی بحثوں، مفسرین و مصنفین کی دقیقہ سنجیوں اور نکتہ آفرینیوں سے پرہیز کیا جائے۔ کہ بعض اوقات قرآن مجید کے چشمہ صافی پر انسانی عقول و علوم کا ایسا ہی سایہ پڑ جاتا ہے جیسا کہ کسی صاف شفاف چشمہ پر کنارے کے درختوں کے گھنے سایہ کا، اور پھر اس میں وہ لطافت و اصلیت اور کلام الٰہی کی حلاوت و لذت باقی نہیں رہتی جو اس کی اصل جان ہے۔
بلکہ بعض اوقات یہ تجربہ ہوا ہے کہ پڑھنے والا کسی لائق و ذہین انسان کی تفہیم سے (جس سے وہ پہلے سے متاثر تھا) اس سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہو جاتا ہے جتنا کہ اصل کلام سے اس کو متاثر ہونا چاہیے۔ اور اس کے ذہن کے روزن سے یہ بات اس کے شعور میں داخل ہو جاتی ہے کہ اس کلام کی عظمت و جلال اور اس کا حسن و جمال شاید اس تفہیم کے بغیر سامنے نہ آتا اور کم سے کم یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ انسان کلام الٰہی کو اس کے کسی خاص مفسر یا شارح یا ترجمان کی عینک ہی سے دیکھنے کا عادی بن جاتا ہے۔
-----------
مولانا ابوالحسن علی ندوی، مطالعہ قرآن کے اصول و مبادی ص 192، 193