سیما علی
لائبریرین
بِسْمِ اللَّ۔هِ الرَّحْمَ۔ٰنِ الرَّحِيمِ
إِذَا جَاء نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ﴿1﴾ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا ﴿2﴾ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ﴿3﴾
(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
جب اللہ کی مدد اور اس کی فتح و فیروزی آجائے۔ (1) اور آپ دیکھ لیں کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں۔ (2) تو (اس وقت) اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کریں اور اس سے مغفرت طلب کیجئے۔ بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ (3)
تفسیر
بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ ...
حضرت انس ⌈ رضی اللہ عنہ ⌉ فرماتے ہیں کہ سورہ اذا جآءَ کا ثواب چوتھائی قرآن مجید کا ہے . ... ابن عباس ⌈رضی اللہ عنہ ⌉فرماتے ہیں کہ سورہ نصر قرآن کی آخری سورت ہے ...
سورہ کی تلاوت کی فضیلت:
یہ سورہ مدینہ میں ہجرت کے بعد نازل ہو اہے اور اس میں ایک بہت بڑی کامیابی اور فتح عظیم کی بشارت ہے کہ اس کے بعد لوگ گروہ در گروہ خدا کے دین میں داخل ہو ںگے، لہٰذ اس عظیم نعمت کا شکر ادا کرنے کے لئے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تسبیح حمد الٰہی اور استغفار کرنے کی دعوت دی گئی ہے ۔
اگر چہ اسلام میں بہت سی فتوحات ہوئی ہیں لیکن اوپر والی بات کے پورا ہونے کے طور پر ” فتح مکہ کے سوا اور کوئی فتح نہیں تھی۔
خصوصاً جبکہ بعض روایات کے مطابق عربوں کا نظریہ یہ تھا کہ اگر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ کو فتح کر لیا اور وہ اس پر مسلط ہو گئے ،تو یہ ان کے حقانیت کی دلیل ہوگی، کیونکہ اگر وہ حق پر نہ ہوئے تو خداانہیں اس قسم کی اجاز نہیں دے گا ، جیساکہ اس نے ” ابرہہ “ کے عظیم لشکر کو اس قسم کی اجازت نہیں دی تھی ۔ اسی بناء پر مشرکینِ عرب فتح مکہ کے بعد گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہوگئے ۔
بعض نے یہ کہا ہے کہ یہ سورہ ” صلح حدیبیہ“ کے بعد فتح مکہ سے دو سال پہلے ، ہجرت کے چھٹے سال نازل ہوا۔
لیکن یہ بات، جس کے بارے میں بعض نے احتمال دیا ہے کہ یہ فتح مکہ کے بعد ہجرت کے دسویں سال حجة الوداع میں نازل ہوا ، بہت ہی بعید ہے ،کیونکہ اس سورہ کی تعبیریں اس معنی کے ساتھ ساز گار نہیں ہے، کیو نکہ یہ مستقبل سے مراط ایک حا دثہ کی خبردیتا ہے نہ کہ گز شتہ کی
اس سورہ کا ایک نام سورہ” تودیع“ہے۔( تو دیع یعنی خدا حا فظ) کیو نکہ اس میں ضمنی طور پر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کی خبرہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ جس وقت یہ سورہ نا زل ہوا اور پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
نے اس کی اپنے اصحاب کے سامنے
تلا وت کی تو سب کے سب بہت خوش اور مسرور ہو ئے، لیکن پیغمبر کے چچا عباس ۻ اس کو سن کر رونے لگے پیغمبر نے فر مایا:
اے چچا ! جان آپ کیوں رو رہے ہیں؟
عرض کیا: میرا گمان یہ ہے کہ اس سورہ میں آپ کی رحلت کی خبر دی گئی ہے تو رسولِ خدا نے فر مایا: یہی بات ہے جو آپ کہہ ر ہے ہیں 1
اس بارے میں کہ یہ مطلب اس سورہ کے کس جملہ سے معلوم ہوتا ہے، مفسرین کے در میان اختلاف ہے کیو نکہ آیات کے ظاہر میں تو فتح اور کامیابی کی بشارت کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے۔ظاہراََ اس مفہوم کا اس بات سے استفادہ کیا گیا ہے کہ یہ سورہ اس بات کی دلیل ہے کہ پیغمبر۔صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسا لت آخرت کو پہنچ رہی ہے، آپ کا دین مکمل طور پرثابت اور مستقر ہو چکا ہے اور یہ معلوم ہے کہ ایسی حالت میںسرائے فانی سے جہان باقی کی طرف رحلت کی تو قع پورے طور پر قا بل پیش بینی ہے۔
إِذَا جَاء نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ﴿1﴾ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا ﴿2﴾ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ﴿3﴾
(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
جب اللہ کی مدد اور اس کی فتح و فیروزی آجائے۔ (1) اور آپ دیکھ لیں کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں۔ (2) تو (اس وقت) اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کریں اور اس سے مغفرت طلب کیجئے۔ بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ (3)
تفسیر
بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ ...
حضرت انس ⌈ رضی اللہ عنہ ⌉ فرماتے ہیں کہ سورہ اذا جآءَ کا ثواب چوتھائی قرآن مجید کا ہے . ... ابن عباس ⌈رضی اللہ عنہ ⌉فرماتے ہیں کہ سورہ نصر قرآن کی آخری سورت ہے ...
سورہ کی تلاوت کی فضیلت:
یہ سورہ مدینہ میں ہجرت کے بعد نازل ہو اہے اور اس میں ایک بہت بڑی کامیابی اور فتح عظیم کی بشارت ہے کہ اس کے بعد لوگ گروہ در گروہ خدا کے دین میں داخل ہو ںگے، لہٰذ اس عظیم نعمت کا شکر ادا کرنے کے لئے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تسبیح حمد الٰہی اور استغفار کرنے کی دعوت دی گئی ہے ۔
اگر چہ اسلام میں بہت سی فتوحات ہوئی ہیں لیکن اوپر والی بات کے پورا ہونے کے طور پر ” فتح مکہ کے سوا اور کوئی فتح نہیں تھی۔
خصوصاً جبکہ بعض روایات کے مطابق عربوں کا نظریہ یہ تھا کہ اگر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ کو فتح کر لیا اور وہ اس پر مسلط ہو گئے ،تو یہ ان کے حقانیت کی دلیل ہوگی، کیونکہ اگر وہ حق پر نہ ہوئے تو خداانہیں اس قسم کی اجاز نہیں دے گا ، جیساکہ اس نے ” ابرہہ “ کے عظیم لشکر کو اس قسم کی اجازت نہیں دی تھی ۔ اسی بناء پر مشرکینِ عرب فتح مکہ کے بعد گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہوگئے ۔
بعض نے یہ کہا ہے کہ یہ سورہ ” صلح حدیبیہ“ کے بعد فتح مکہ سے دو سال پہلے ، ہجرت کے چھٹے سال نازل ہوا۔
لیکن یہ بات، جس کے بارے میں بعض نے احتمال دیا ہے کہ یہ فتح مکہ کے بعد ہجرت کے دسویں سال حجة الوداع میں نازل ہوا ، بہت ہی بعید ہے ،کیونکہ اس سورہ کی تعبیریں اس معنی کے ساتھ ساز گار نہیں ہے، کیو نکہ یہ مستقبل سے مراط ایک حا دثہ کی خبردیتا ہے نہ کہ گز شتہ کی
اس سورہ کا ایک نام سورہ” تودیع“ہے۔( تو دیع یعنی خدا حا فظ) کیو نکہ اس میں ضمنی طور پر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کی خبرہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ جس وقت یہ سورہ نا زل ہوا اور پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
نے اس کی اپنے اصحاب کے سامنے
تلا وت کی تو سب کے سب بہت خوش اور مسرور ہو ئے، لیکن پیغمبر کے چچا عباس ۻ اس کو سن کر رونے لگے پیغمبر نے فر مایا:
اے چچا ! جان آپ کیوں رو رہے ہیں؟
عرض کیا: میرا گمان یہ ہے کہ اس سورہ میں آپ کی رحلت کی خبر دی گئی ہے تو رسولِ خدا نے فر مایا: یہی بات ہے جو آپ کہہ ر ہے ہیں 1
اس بارے میں کہ یہ مطلب اس سورہ کے کس جملہ سے معلوم ہوتا ہے، مفسرین کے در میان اختلاف ہے کیو نکہ آیات کے ظاہر میں تو فتح اور کامیابی کی بشارت کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے۔ظاہراََ اس مفہوم کا اس بات سے استفادہ کیا گیا ہے کہ یہ سورہ اس بات کی دلیل ہے کہ پیغمبر۔صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسا لت آخرت کو پہنچ رہی ہے، آپ کا دین مکمل طور پرثابت اور مستقر ہو چکا ہے اور یہ معلوم ہے کہ ایسی حالت میںسرائے فانی سے جہان باقی کی طرف رحلت کی تو قع پورے طور پر قا بل پیش بینی ہے۔