الف نظامی
لائبریرین
سید نصیر الدین نصیر اپنی کتاب قرآن مجید کے آدابِ تلاوت میں لکھتے ہیں:
قرآن مجید کی تلاوت غمگین اور درد آمیز لہجے میں کی جائے کیوں کہ قرآنِ کریم کا نزول بھی حزن و غم کی کیفیات لے کر ہوا۔ یہاں ایک بات قابلِ ذکر سمجھتا ہوں کہ میں جب اعراس کی محفل میں قرات و تجوید میں اپنے استادِ محترم حضرت قاری محبوب علی لکھنوی ؒ کے ساتھ تلاوت کرتا تو میرے استادِ محترم اکثر رویا کرتے تھے اور بعض اوقات تو جب وہ کوئی آیتِ کریمہ بلند آواز میں پڑھتے تو اختتامی لمحات میں ان کی آواز بھرا جاتی تھی اور دورانِ تلاوت مسلسل ہچکیاں بندھ جاتیں اور آنسو جاری رہتے۔
اللہ اللہ کیا لوگ تھے۔ وہ حسنِ صوت سے زیادہ مخارج کی تصحیح پر زور دیا کرتے تھے۔ پڑھنے والوں کے ساتھ سننے والوں کا بھی یہی عالم ہوتا۔ قرآن کی صدا کے عنوان کے تحت ، میری درج ذیل رباعی کچھ اسی مضمون کی ہے
پیشِ نظر اِس امر کو رکھتا کوئی
اسبابِ نزول بھی سمجھتا کوئی
قرآن سمجھ کر پڑھ رہے ہیں سب لوگ
قرآن سمجھ کے کاش پڑھتا کوئی
مجھے یاد ہے کہ میں ایک مرتبہ حضرت پیرانِ پیر شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کے عرس کی آخری محفل میں تلاوت کر رہا تھا۔ جب میں وقف کیا تو زور سے " اللہ " کی آواز آئی۔ اگرچہ وہ میرے لڑکپن کا دور تھا اِس لیے مجھے اِن کیفیات کا ادراک نہیں تھا۔ اس کے باوجود مجھ پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ میرا سارا وجود لرزنے لگا اور میں چند لمحوں کے لیے حواس باختہ ہو کر خاموش ہوگیا۔ یہ شخصیت حضرت حافظ معشوق علی خان رامپوری ؒ کی تھی جو میرے ساتھ بیٹھتے روتے جا رہے تھے۔ یہ منظر میرے جد امجد حضرت قبلہ بابو جی ؒ دیکھ رہے تھے۔
میں نے بارہا مجلس میں دیکھ کہ حضرت بابو جی ؒ پر بھی سماعتِ آیات کے وقت کیفیتِ گریہ اور ہیبتِ الہیہ طاری رہتی۔ یہ بات نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب تک میر مجلس پر کیفیتِ جذب طاری نہ ہو اور وہ قرآن کے آدابِ سماعت سے بھی پوری طرح آشنا نہ ہو تو محفل پر کیا خاک اثر پڑے گا۔ آج کل تو معاملہ اس کے برعکس ہے۔ نہ وہ پڑھنے والے رہے اور نہ وہ سننے والے۔ اب تو قرآن مجید کی تلاوت آغازِ محافل کی ضرورت کی حد تک رسما کی جاتی ہے۔
میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ کے دور میں پشاور کے قاری غلام محمد ؒ جب نماز میں تلاوت کرتے تو خود بھی روتے اور مقتدی بھی زار و قطار رو دیا کرتے تھے۔ میرے خیال میں حسنِ صوت سے زیادہ تلاوتِ قرآن کا تعلق انسان کی داخلی کیفیات سے ہے۔ ہم نے بڑے بڑے خوش الحان قرا کی تلاوت کو سنا ہے مگر ان کی تلاوت سے دل پر اتنا اثر نہیں ہوا لیکن جب بعض ایسے حضرات کو پڑھتے سنا جن کی آواز میں کوئی خاص ترنم بھی نہ تھا مگر ان کی ادائیگیِ لفظ اور للہیت کے جذبے نے دنیائے دل کو زیر و زبر کر کے رکھ دیا۔ آج کل محافل میں اکثر قراء داد وصول کرنے کے جس انداز اور جس زیر و بم سے قرآن پڑھتے ہیں یہ سلف صالحین کے طریقہ تلاوت سے یکسر مختلف ہے۔ ایسی نمائشی تلاوت کے لیے احادیث نبویہ میں وعید وارد ہے جیسا کہ سابقا حضرت امام شافعی ؒاور دیگر اکابر کے اقول کے تحت قرآن مجید کی تلاوت کے سلسلے میں تشریح نقل کی گئی ہے۔ اس سے یہ امر پایہ ثبوت تک پہنچتا ہے کہ
(اول) قرآن مجید کی تلاوت کے وقت آواز کی عمدگی کو ملحوظ رکھنا چاہیے یعنی پڑھنے والا جس قدر عمدہ پڑھ سکے ، پڑھے۔
(دوم) دنیا و مافیہا سے لاتعلق ہو کر پوری یکسوئی سے تلاوت میں مگن ہو۔
(سوم) غم اور حزن و ملال کی کیفیت میں ڈوب کر تلاوت کرے
(چہارم) ہر طرف سے دھیان ہٹا کر تلاوت میں مشغول اور منہمک ہو۔
قارئین ! کیا اِس دور میں آپ کو ایسے قراء اور ایسے مخلص قرآن خواں حضرات کہیں نظر آتے ہیں؟ یقینا آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔ تو پھر آئیے! ہم آج سے یہ عہد کریں کہ ہم دیگر وظائف خوانی کے بجائے اپنا زیادہ سے زیادہ وقت نہ صرف قرآن خوانی پر صرف کریں گے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قرآن فہمی کی بھی پوری کوشش کریں گے۔ تدبر فی القرآن کی تلقین کے سلسلے میں میری درج ذیل رباعی پڑھ لیجئے
کچھ راہِ عمل بھی چل ،روایت ہی نہ کر
احسان بھی کچھ مان ، شکایت ہی نہ کر
آیات کے کچھ نہ کچھ معانی بھی سمجھ
قرآن کے لفظوں کی تلاوت ہی نہ کر
تدبر نزولِ قرآن کا حقیقی منشا و مدعا ہے اور قرآن مجید میں متعدد مقامات پر تدبر فی القرآن کا حکم دیا گیا ہے اور جہاں تدبر و ترنم جمع ہو جائیں تو پھر معاملہ نور علی نور والا ہو جاتا ہے۔
قرآن مجید کی تلاوت غمگین اور درد آمیز لہجے میں کی جائے کیوں کہ قرآنِ کریم کا نزول بھی حزن و غم کی کیفیات لے کر ہوا۔ یہاں ایک بات قابلِ ذکر سمجھتا ہوں کہ میں جب اعراس کی محفل میں قرات و تجوید میں اپنے استادِ محترم حضرت قاری محبوب علی لکھنوی ؒ کے ساتھ تلاوت کرتا تو میرے استادِ محترم اکثر رویا کرتے تھے اور بعض اوقات تو جب وہ کوئی آیتِ کریمہ بلند آواز میں پڑھتے تو اختتامی لمحات میں ان کی آواز بھرا جاتی تھی اور دورانِ تلاوت مسلسل ہچکیاں بندھ جاتیں اور آنسو جاری رہتے۔
اللہ اللہ کیا لوگ تھے۔ وہ حسنِ صوت سے زیادہ مخارج کی تصحیح پر زور دیا کرتے تھے۔ پڑھنے والوں کے ساتھ سننے والوں کا بھی یہی عالم ہوتا۔ قرآن کی صدا کے عنوان کے تحت ، میری درج ذیل رباعی کچھ اسی مضمون کی ہے
پیشِ نظر اِس امر کو رکھتا کوئی
اسبابِ نزول بھی سمجھتا کوئی
قرآن سمجھ کر پڑھ رہے ہیں سب لوگ
قرآن سمجھ کے کاش پڑھتا کوئی
مجھے یاد ہے کہ میں ایک مرتبہ حضرت پیرانِ پیر شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کے عرس کی آخری محفل میں تلاوت کر رہا تھا۔ جب میں وقف کیا تو زور سے " اللہ " کی آواز آئی۔ اگرچہ وہ میرے لڑکپن کا دور تھا اِس لیے مجھے اِن کیفیات کا ادراک نہیں تھا۔ اس کے باوجود مجھ پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ میرا سارا وجود لرزنے لگا اور میں چند لمحوں کے لیے حواس باختہ ہو کر خاموش ہوگیا۔ یہ شخصیت حضرت حافظ معشوق علی خان رامپوری ؒ کی تھی جو میرے ساتھ بیٹھتے روتے جا رہے تھے۔ یہ منظر میرے جد امجد حضرت قبلہ بابو جی ؒ دیکھ رہے تھے۔
میں نے بارہا مجلس میں دیکھ کہ حضرت بابو جی ؒ پر بھی سماعتِ آیات کے وقت کیفیتِ گریہ اور ہیبتِ الہیہ طاری رہتی۔ یہ بات نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب تک میر مجلس پر کیفیتِ جذب طاری نہ ہو اور وہ قرآن کے آدابِ سماعت سے بھی پوری طرح آشنا نہ ہو تو محفل پر کیا خاک اثر پڑے گا۔ آج کل تو معاملہ اس کے برعکس ہے۔ نہ وہ پڑھنے والے رہے اور نہ وہ سننے والے۔ اب تو قرآن مجید کی تلاوت آغازِ محافل کی ضرورت کی حد تک رسما کی جاتی ہے۔
میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ کے دور میں پشاور کے قاری غلام محمد ؒ جب نماز میں تلاوت کرتے تو خود بھی روتے اور مقتدی بھی زار و قطار رو دیا کرتے تھے۔ میرے خیال میں حسنِ صوت سے زیادہ تلاوتِ قرآن کا تعلق انسان کی داخلی کیفیات سے ہے۔ ہم نے بڑے بڑے خوش الحان قرا کی تلاوت کو سنا ہے مگر ان کی تلاوت سے دل پر اتنا اثر نہیں ہوا لیکن جب بعض ایسے حضرات کو پڑھتے سنا جن کی آواز میں کوئی خاص ترنم بھی نہ تھا مگر ان کی ادائیگیِ لفظ اور للہیت کے جذبے نے دنیائے دل کو زیر و زبر کر کے رکھ دیا۔ آج کل محافل میں اکثر قراء داد وصول کرنے کے جس انداز اور جس زیر و بم سے قرآن پڑھتے ہیں یہ سلف صالحین کے طریقہ تلاوت سے یکسر مختلف ہے۔ ایسی نمائشی تلاوت کے لیے احادیث نبویہ میں وعید وارد ہے جیسا کہ سابقا حضرت امام شافعی ؒاور دیگر اکابر کے اقول کے تحت قرآن مجید کی تلاوت کے سلسلے میں تشریح نقل کی گئی ہے۔ اس سے یہ امر پایہ ثبوت تک پہنچتا ہے کہ
(اول) قرآن مجید کی تلاوت کے وقت آواز کی عمدگی کو ملحوظ رکھنا چاہیے یعنی پڑھنے والا جس قدر عمدہ پڑھ سکے ، پڑھے۔
(دوم) دنیا و مافیہا سے لاتعلق ہو کر پوری یکسوئی سے تلاوت میں مگن ہو۔
(سوم) غم اور حزن و ملال کی کیفیت میں ڈوب کر تلاوت کرے
(چہارم) ہر طرف سے دھیان ہٹا کر تلاوت میں مشغول اور منہمک ہو۔
قارئین ! کیا اِس دور میں آپ کو ایسے قراء اور ایسے مخلص قرآن خواں حضرات کہیں نظر آتے ہیں؟ یقینا آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔ تو پھر آئیے! ہم آج سے یہ عہد کریں کہ ہم دیگر وظائف خوانی کے بجائے اپنا زیادہ سے زیادہ وقت نہ صرف قرآن خوانی پر صرف کریں گے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قرآن فہمی کی بھی پوری کوشش کریں گے۔ تدبر فی القرآن کی تلقین کے سلسلے میں میری درج ذیل رباعی پڑھ لیجئے
کچھ راہِ عمل بھی چل ،روایت ہی نہ کر
احسان بھی کچھ مان ، شکایت ہی نہ کر
آیات کے کچھ نہ کچھ معانی بھی سمجھ
قرآن کے لفظوں کی تلاوت ہی نہ کر
تدبر نزولِ قرآن کا حقیقی منشا و مدعا ہے اور قرآن مجید میں متعدد مقامات پر تدبر فی القرآن کا حکم دیا گیا ہے اور جہاں تدبر و ترنم جمع ہو جائیں تو پھر معاملہ نور علی نور والا ہو جاتا ہے۔
آخری تدوین: