تفسیر سورت الفجر؛
شروع کرتاہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم والاہے ۔
ترجمہ:۔قسم ہے فجر کی ۔ اوردس راتوں کی ۔ اورجفت اور طاق کی ۔ اوررات کی جب وہ چلنے لگے۔ کہ ان میں عقلمند کے واسطے کافی قسم ہے؟۔ کیاتونے نہ دیکھاکہ تیرے رب نے عادیوں کے ساتھ کیاکیا۔ارم والے جو عادی جو بلندقامت تھے۔ جن جیسے لوگ دوسروں شہروں میں پیدانہیں کئے گئے۔ اورثمودیوں کے ساتھ جنہوں نے وادی میں بڑے بڑے پتھر تراشے تھے۔ اورفرعون کے ساتھ جو میخوں والاتھا۔ ان سبھوں نے شہروں میں سر اٹھارکھاتھا۔ اوربہت فسادمچارکھاتھا۔ آخر تیرے رب نے ان سب پر عذاب کاکوڑابرسایا۔ یقینا تیرارب گھات میں ہے۔
تفسیرسورت الفجر؛۔
نسائی شریف میں ہے کہ حضرت معاذ (رضی اللہ تعالی عنہ)نے نماز پڑھائی ایک شخص آیااورجماعت میں شامل ہوگیا، حضرت معاذ(رضی اللہ تعالی عنہ)نے نماز میں قرات لمبی کی ، اس نے مسجدکے ایک گوشے میں اپنی نماز پڑھ لی پھرفارغ ہوکرچلاگیا۔ حضرت معاذ(رضی اللہ تعالی عنہ)کوبھی یہ واقعہ معلوم ہواتوآنحضرت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی خدمت میں آکربطورشکایت یہ واقعہ بیان کیاآپ نے اس جوان کو بلاکرپوچھاتواس نے کہاحضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) میں کیاکرتامیں ان کے پیچھے نماز پڑھ رہاتھاانہوں نے لمبی قرات شروع کی تومیں گھوم کر مسجد کے کونے میں اپنی نماز پڑھ لی پھراپنی اونٹنی کوچارہ ڈالاآپ نے فرمایااے معاذ کیاتوفتنے میں ڈالنے والاہے توان سورتوں سے کہاں ہے؟سبح اسم ربک الاعلی والشمس وضحاھا،والفجر،واللیل اذایغشی۔(نسائی فی الکبری(۶۔۵۵)(صحیح)
شفع اوروترسے کیامرادہے اورقوم عادکاقصہ؛٭٭(آیت :۱۔۱۴)فجرتوہرشخص جانتاہے یعنی صبح اوریہ مطلب یہی ہے کہ بقرہ عیدکے دن کی صبح اوریہ مرادبھی ہے صبح کے وقت کی نمازاورپورادن اوردس راتوں سے مرادذی الحجہ مہینے کی پہلی دس راتیں،(تفسیرطبری(۲۴۔۳۹۶)چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ کوئی عبادت ان دس دنوں کی عبادت سے افضل نہیں، لوگوں نے پوچھااللہ کی راہ کاجہادبھی نہیں؟ فرمایایہ بھی نہیں،مگروہ شخص جوجان مال لے کرنکلااورپھرکچھ بھی ساتھ لے کرنہ پلٹا(بخاری،کتاب العیدین:باب فصل العمل فی ایام تشریق،ح۹۶۹)بعض نے کہاہے محرم کے پہلے دس دن مرادہیں۔
حضرت ابن عباس(رضی اللہ تعالی عنہ) فرماتے ہیں رمضان شریف کے پہلے کے دن دن، لیکن صحیح قول پہلاہی ہے یعنی ذی الحجہ کی شروع کی دس راتیں مسنداحمدمیں ہے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) فرماتے ہیں کہ عشرسے مراد عیدالاضحی کے دس دن ہیں اور وترسے مرادعرفے کادن ہے اورشفع سے مرادقربانی کادن ہے۔(احمد(۳!۳۲۷)(۲۲!۳۸۸)حسن۔ اس کی اسنادمیں توکوئی مضائقہ نہیں لیکن متن میں نکارت ہے واللہ اعلم۔ وترسے مرادعرفے کادن یہ نویں تاریخ ہوتی ہے تو شفع سے مراددسویں تاریخ یعنی بقرہ عیدکادن ہے،وہ طاق ہے یہ جفت ہے۔حضرت واصل بن سائب نے حضرت عطاء سے پوچھاکہ وترسے مرادیہی وترنمازہے؟آپ نے فرمایانہیں،شفع عرفہ کادن ہے اوروترعیدالاضحی کی رات ہے ۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کرپوچھاکہ شفع کیاہے اوروترکیاہے؟آپ نے فرمایا۔فمن تعجل فی یومین۔(سور ت بقرہ۔۲۰۳)میں جودودن کاذکرہے وہ شفع ہے اورمن تاخرمیں جوایک دن ہے وہ وترہے،آپ نے یہ بھی فرمایاکہ ایام تشریق کادرمیانی دن شفع ہے اورآخری وترہے۔
صحیحین کی حدیث میں ہے اللہ تعالی کے ایک کم ایک سونام ہیں جوانہیں یادکرلے جنتی ہے ، وہ وترہے وترکادوست رکھتاہے۔(بخاری ،کتاب الدعوات :باب للب مائۃ اسم غیرواحدت،ح۶۴۱۰،مسلم،کتاب الذکرالدعاء: باب فی اسماء اللہ تعالی و فضل من احصاھا،ح،۲۶۷۷)زیدبن اسلم فرماتے ہیں اس سے مرادتمام مخلوق ہے ،اس میں شفع بھی ہے اوروتربھی۔ یہ بھی کہاگیاہے کہ مخلوق شفع اوراللہ وترہے،یہ بھی کہاگیاہے کہ شفع صبح کی نماز اوروترمغرب کی نماز ہے۔ یہ بھی کہاگیاہے کہ شفع سے مرادجوڑتوڑاوروترسے مراداللہ عزوجل، جیسے آسمان زمین، تری خشکی، جن انس، سورج چاندوغیرہ۔ قرآن میں ہے ۔ومن کل شیء خلقنازوجین لعلکم تذکرون۔(سورت ذرایات:۴۹)ہم نے ہرچیزکوجوڑجوڑپیداکیاہے تاکہ تم عبرت حاصل کرلویعنی جان لوکہ ان تمام چیزوں کاخالق اللہ واحدہے جس کاکوئی شریک نہیں، یہ بھی کہاگیاہے اس سے مرادگنتی ہے جس میں جفت بھی ہے اورطاق بھی ہے۔ ایک حدیث میں شفع سے مراددودن اوروترسے مرادتیسرادن ۔ یہ حدیث اس حدیث کے مخالف ہے جواس سے پہلے گزرچکی ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مرادنمازہے کہ اس میں شفع ہے جیسے صبح کی دوظہر، عصراورعشاء کی چاراوروترہے جیسے مغرب کی تین رکعتیں جودن کے وترہیں اوراسی طرح آخری رات کاوتر، ایک مرفوع حدیث میں مطلق نماز کے لفظ کے ساتھ مروی ہے،بعض صحابہ سے فرض نماز مروی ہے۔(ترمذی ، کتاب تفسیرالقرآن :باب ومن سورت الفجر،ح ۳۳۴۲(ضعیف اس کی سندمیں ایک راوی مجہول ہے)۔لیکن یہ مرفوع حدیث زیادہ ٹھیک یہی معلوم ہوتاہے کہ حضرت عمران بن حصین پرموقوف ہے واللہ اعلم۔
امام ابن جریرنے ان آٹھ نواقوال میں سے کسی کوفیصل قرارنہیں دیا۔ پھرفرماتاہے رات کی قسم جب جانے لگے اوریہ معنی کئے گئے کہ جب آنے لگے(تفسیرطبری(401/24)بلکہ یہی معنی زیادہ مناسب اوروالفجرسے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں فجرکہتے ہیں رات کے جانے کو اوردن کے آنے تویہاں رات کاآنااوردن کاجانامراد ہوگاجیسے ۔ واللیل اذاعسعس والصبح اذاتنفس(سورت تکویر:18:17)میں عکرمہ فرماتے ہیں مرادمزدلفہ کی رات ہے۔حجرسے مرادعقل ہے ، حجرکہتے ہیں روک کوچونکہ عقل بھی غلط کاریوں اورجھوٹی باتوں سے روک دیتی ہے اس لئے اسے عقل کہتے ہیں،حطیم کوبھی حجرالبیست اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ طواف کو کعبۃ اللہ کی شامی دیوارسے روک دیتاہے،اسی سے ماخوذہے حجریمانہ اوراسی لئے عرب کہتے ہیں ۔ حجرالحاکم علی فلاں،جبکہ کسی شخص کوبادشاہ تصرف سے روک دے اور کہتے ہیںکہ ۔حجرامحجورا(سورت فرقان۔22)توفرماتاہے ان میں عقل مندوں کے لئے قابل عبرت قسم ہے، کہیں توقسمیں ہیں عبادتوں کی، کہیں عبادت کے وقتوں کی جیسے حج نماز وغیرہ کہ جن سے اس کے نیک بندے اس کاقرب اوراسکی نزدیکی حاصل کرتے ہیں اوراس کے سامنے اپنی پستی اورخودفراموشی ظاہرکرتے ہیں، جب ان پرہیزگارنیک کارلوگوں کااوران کی عاجزی اورتواضع کاخشوع خضوع کاذکرکیاتواب ان کے ساتھ ہی ان کے خلاف جو سرکش اوربدکارلوگ ہیں ان کاذکرہورہاہے، توفرماتاہے کہ کیاتم نے نہ دیکھاکہ کس طرح اللہ تعالی نے عادیوں کوغارت کردیاجوکہ سرکش اورمتکبرتھے،اللہ کی نافرمانی، رسول کی تکذیب اوربدیوں پرجھک پڑے تھے۔ ان میں خدا کے رسول حضرت ہودعلیہ السلام آئے تھے، یہ عاداعالی ہیں جوعادین ارم بن سام بن نوح کی اولادمیں تھے، اللہ تعالی نے ان میں سے ایماندارکوتونجات دے دی اورباقی بے ایمانوں کوتیزوتندخوفناک اورہلاک آفریں ہواؤں سے ہلاک کیا، سات راتیں اورآٹھ دن تک یہ غضب ناک آندھی چلتی رہی اورسارے کے سارے اس طرح غارت ہوگئے کہ ان کے سرالگ تھے اوردھڑالگ تھے، ان میں سے ایک بھی باقی نہ رہا،جس کامفصل بیان قرآن کریم میں کئی جگہ ہے۔
سورئ الحاقہ میں بھی بیان ہے ۔ ارم ذات العماد۔یہ عاد کی تفسیربطورعطف بیان کے لئے تاکہ بخوبی وضاحت ہوجائے یہ لوگ مضبوط اوربلندستونوں والے گھروں میں رہتے تھے اوراپنے زمانے کے اورلوگوں سے بہت بڑے تن وتوش والے قوت و طاقت والے تھے اسی لئے حضرت ہودعلیہ السلام نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایاتھا۔واذکرواذجعلکم خلفائ(سورت اعراف :69)۔یعنی یاد کروکہ خدائے تعالی نے تمہیں قوم نوح کے بعد زمین پرخلیفہ بنایاہے اورتمہیں جسمانی کشادگی پوری دی ، تمہیں چاہیے کہ خداکی نعمتوں کویادکرواورزمین میں فسادی بن کرنہ رہو۔اورجگہ ہے کہ عادیوں نے ناحق زمین میں سرکشی کی اوربول اٹھے کہ ہم سے زیادہ قوت والا اورکون ہے؟ کیاوہ بھول گئے کہ ان کاپیداکرنے والاان سے بہت ہی زبردست طاقت و قوت والاہے۔
یہاں بھی ارشادہوتاہے کہ اس قبیلے جیسے طاقتوراورشہروں میں نہ تھے، بڑی طویل القامت قوی الجثہ ارم ان کادارالسلطنت تھا، انہیں ستونوں والے کہاجاتاتھااس لئے بھی کہ یہ لوگ بہت درازقدتھے بلکہ صحیح وجہ یہی ہے مثلھا۔ کی ضمیرکامرجع عمادبتلایاگیاہے،ان جیسے اورشہروں میں نہ تھے،یہ احقاف میں بنے ہوئے لمبے لمبے ستون تھے اوربعض نے ضمیرکامرجع قبیلہ بتلایاہے یعنی اس قبیلے جیسے لوگ اورشہروں میں نہ تھے اوریہی قول ٹھیک ہے اوراگلاقول ضعیف ہے اسی لئے بھی کہ یہی مرادہوتی تو۔لم یجعل۔کہاجاتانہ کہ ۔لم یخلق۔ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) فرماتے ہیں ان میں اس قدرزوروطاقت تھی کہ ان میں کوئی اٹھتااورایک بڑی چٹان لے کرکسی قبیلے پر پھینک دیتاتوبیچارے سب کے سب دب کرمرجاتے۔
حضرت ثوربن زیدویلی فرماتے ہیں میںنے ایک ورق پرلکھاہوایہ پڑھاہے کہ میں شدادبن عادہوں، میں نے ستون بلندکئے ہیں، میں نے ہاتھ مضبوط کئے ہیں، میں نے سات ذراع کے خزانے جمع کئے ہیں جو امت محمد(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نکالے گی، غرض خواہ یوں کہو کہ وہ عمدہ اونچے اورمضبوط مکانوں والے تھے خواہ یوں کہوکہ وہ بلند و بالاستونوں والے تھے یایوں کہوکہ وہ بہترین ہتھیاروں والے تھے یایوں کہولمبے لمبے قدوالے تھے، مطلب یہ ہے کہ ایک قوم تھی جن کاذکرقرآن کریم میں کئی جگہ ثمودیوں کے ساتھ آچکاہے، یہاں بھی اسی طرح عادیوں اور ثمودیوں کادونوں کاذکرہے واللہ اعلم۔
بعض حضرات نے یہ بھی کہ کہ ۔ارم ذات العماد۔ایک شہرہے یاتودمشق یااسکندریہ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں معلوم ہوتااس لئے کہ عبارت کاٹھیک مطلب نہیں بنتاکیونکہ یاتویہ بدل ہوسکتاہے یاعطف بیان، دوسرے اس لئے بھی کہ یہاں یہ بیان مقصودہے کہ ہرایک سرکش قبیلے کوخدانے بربادکیاجن کانام عادی تھانہ کہ کسی شہرکو،میں نے اس بات کویہاں اس لئے بیان کردیاتاکہ جن مفسرین کی جماعت نے یہاں یہ تفسیرکی ہے ان سے کوئی شخص دھوکے میں نہ پڑجائے، وہ لکھتے ہیں کہ یہ ایک شہرکانام ہے جس کی ایک اینٹ سونے کی ہے دوسری چاندی کی ،اس کے مکانات باغات محلے وغیرہ سب چاندی سونے کے ہیں،کنکرلؤلؤاورجواہرہیں، مٹی مشک ہے ،نہریں بہہ رہی ہیں، پھل تیارہیں، کوئی رہنے سہنے والانہیں، درودیوارخالی ہیں، کوئی ہاں ہوں کرنے والابھی نہیں، یہ شہر منتقل ہوتارہتاہے کبھی شام میں کبھی یمن میں کبھی عراق میں کبھی کہیں کبھی کہیںوغیرہ۔ یہ سب خرافات بنواسرائیل کی ہیں، ان کے بدینوں نے یہ گھڑنٹ گھڑی ہے تاکہ جاہلوں میں باتیں بنائیں۔
جلی وغیرہ نے بیان کیاہے کہ ایک اعرابی حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اپنے گم شدہ اونٹوں کوڈھونڈرہاتھاکہ جنگل بیابان میں اس نے اسی صفت کاایک شہر دیکھااوراس میں گیاگھوماپھرا،پھرلوگوں سے آکرذکرکیا، لوگ بھی وہاں گئے لیکن پھر کچھ نظرنہ آیا۔
ابن ابی حاتم نے یہاں ایسے قصے بہت سے لمبے چوڑے نقل کئے ہیں، یہ حکایت بھی صحیح نہیں اوراگریہ اعرابی والاقصہ سنداصحیح مان لیں توممکن ہے اسے ہوس اورخیال ہواوراپنے خیال میں اس نے یہ نقشہ جمالیاہواورخیالات کی پختگی اورعقل کی کم نے اسے یقین دلادیاہوکہ وہ صحیح طورپریہی دیکھ رہاہے اورفی الواقع یوں بھی ہو۔
ٹھیک اسی طرح جوجاہل حریص اورخیالات کے کچے ہوں سمجھتے ہیں کہ کسی خاص زمین تلے سونے چاندی کے پل ہیں اورقسم قسم کے جواہر یاقوت لؤ لؤاورموتی ہیں اکسیرکبیر ہے لیکن ایسے چند مواقع ہیں کہ وہاں لوگ پہنچ نہیں سکتے مثلا خزانے کے منہ پر کوئی اژدھابیٹھاہے کسی جن کاپہرہ ہے وغیرہ، یہ سب فضول قصے اوربناوٹی باتیں ہیں، انہیں گھڑگھڑاکربے وقوفوں اورمال کے حریصوں کو اپنے دام میں پھانس کر ان سے کچھ وصول کرنے کے لئے مکاروں نے مشہورکررکھے ہیں، پھر کبھی چلے کھینچنے کے بہانے سے، کبھی نجورکے بہانے سے، کبھی کسی اورطرح سے ان کے یہ مکارروپے وصول کرلیتے ہیں اوراپناپیٹ پالتے ہیں،ہاں یہ ممکن ہے کہ زمین سے جاہلیت کایامسلمانوں کے زمانے کاکسی کاگاڑاہوامال نکل آئے تواس کاپتہ جسے چل جائے وہ اس کے ہاتھ لگ جاتاہے، نہ وہاں کوئی مارگنج ہوتاہے نہ کوئی دیوبھوت جن پری جس طرح ان لوگوں نے مشہورکررکھاہے، یہ بالکل غیرصحیح ہے، یہ ایسے ہی لوگوں کی گھڑنت ہے یاان جیسے لوگوں سے سنی سنائی ہے اللہ سبحانہ وتعالی نیک سمجھ دے۔
امام ابن جریرنے بھی فرمایاہے کہ ممکن ہے اس سے قبیلہ مرادہواورممکن ہے شہرمرادہولیکن ٹھیک نہیں یہاں توصاف ظاہرہوتاہے کہ ایک قوم کاشہر ہے نہ کہ ذکرکااسی لئے اس کے بعدثمودیوں کاذکرکیاکہ وہ ثمودی جوپتھروں کاتراش لیاکرتے تھے، جیسے اورجگہ ہے۔وتنحتون من بیوتافارھین(سورت شعراء:149)یعنی تم پہاڑوں میں اپنے کشادہ آرام دہ مکانات اپنے ہاتھوں پتھروں میں تراش لیاکرتے تھے،اس کے ثبوت میں کہ اس کے معنی تراش لینے کے ہیں عربی شعربھی ہے۔ابن اسحاق فرماتے ہیں ثمودی عرب تھے، وادی القری میں رہتے تھے،عادیوں کاقصہ پوراپوراسورت اعراف میں ہم بیان کرچکے ہیں اب اعادہ کی ضرورت نہیں پھرفرمایامیخوں والافرعون، اوتارکے معنی ابن عباس نے لشکروں کے کئے ہیں جو کہ اس کے کاموں کامضبوط کرتے رہتے تھے(تفسیرطبری۔409-24)یہ بھی مروی ہے کہ فرعون غصے کے وقت لوگوں کے ہاتھ پاؤں میں میخیں گڑواکرمرواڈالتاتھا(تفسیرطبری۔409-24)چورنگ کرکے اوپرسے بڑاپتھرپھینکتاتھاجس سے اس کاکچومرنکل جاتاتھا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسیوں اورمیخوں سے اس کے سامنے کھیل کئے جاتے تھے، اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس نے اپنی بیوی صاحبہ کو جو مسلمان ہوگئی تھیں لٹاکردونوں ہاتھوں اوردونوں پاؤں میں میخیں گاڑیں، پھربڑاساچکی کاپتھران کی پیٹھ پر مارکرجان لے لی، اللہ ان پر رحم کرے۔(حاکم۔523-2عن ابن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ حاکم اور ذہبی نے اسے صحیح کہاہے)
پھرفرمایا کہ ان لوگوں نے سرکشی پر کمر باندھ لی تھی اورفسادی لوگ تھے لوگوں کوحقیر وذلیل جانتے تھے اورہرایک کوایذاپہنچاتے تھے۔ نیتجہ یہ ہوا کہ خداکے عذاب کاکوڑابرس پڑا، وبال آیاجوٹالے نہ ٹلا، ہلاک و برباداورتہس نہس ہوگئے۔ تیرارب گھات میں ہے ،دیکھ رہاہے ،سن رہاہے، سمجھ رہاہے، وقت مقررہ پرہربرے بھلے کو نیکی بدی کی جزاسزادے گا، یہ سب لوگ اس کے پاس جانے والے تن تنہااس کے سامنے کھڑے ہونے والے ہیں اوروہ عدل وانصاف کے ساتھ ان میں فیصلے کرے گااورہرشخص کوپوراپورادے گاجس کاوہ مستحق تھا، وہ ظلم و جورسے پاک ہے۔
یہاں پریہ ابن ابی حاتم نے ایک حدیث واردکی ہے جوبہت غریب ہے جس کی سندمیں کلام ہے اورصحت میں بھی نظرہے،اس میں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایااے معاذمومن حق کاقیدی ہے،اے معاذمومن تودغدغے میں ہی رہتاہے جب تک پل صراط سے پارنہ جائے۔ اے معاذمومن کوقرآن نے بہت سی دلی خواہشوں سے روک رکھاہے تاکہ وہ ہلاکت سے بچ جائے، قرآن اس کی دلیل ہے ،خوف اس کی حجت ہے، شوق اس کی سواری ہے، نماز اس کی پناہ ،روزہ اس کی ڈھال ہے ،صدقہ اسکاچھٹکاراہے،سچائی اس کاامیرہے شرم اس کاوزیرہے اوراس کارب ان سب کے بعداس پر واقف و آگاہ ہے وہ تیزنگاہوں سے اسے دیکھ رہاہے۔ اس کے راوی یونس خداء اورابوحمزہ مجہول ہیں، پھراس میں ارسال بھی ہے، ممکن ہے یہ ابوحمزہ ہی کاکلام ہو۔ اسی ابن ابی حاتم میں ہے کہ ابن عبدالکلاعی نے اپنے ایک وعظ میں کہالوگوجہنم کے ساتھ پل ہیں ،ان سب پرپل صراط ہے پہلے ہی پل پرلوگ روکے جائے گے،یہاں نماز کاحساب کتاب ہوگا، یہاں سے نجات مل گئی تودوسرے پل پر روک ہوگی یہاں پر ایمانتداری کاسوال ہوگاجوامانت دارہوگااس نے نجات پائی اورجوخیانت والانکلاہلاک ہوا۔
تیسرے پل پر صلہ رحمی کی پرسش ہوگی اس کے کاٹنے والے یہاں سے نجات نہ پاسکیں گے اورہلاک ہوں گے، رشتہ داری یعنی صلہ رحمی وہیں موجودہوں گی اوریہ کہہ رہی ہوں گی کہ خدایاجس نے مجھے جوڑاتواسے جوڑجس نے مجھے توڑاتواسے توڑ، یہی معنی ہیں ۔ ان ربک لبالمرصاد۔ یہ اثراتناہی پورانہیں۔
ترجمہ:۔انسان کایہ حال ہے کہ جب اس کارب آزمائے اورعزت ونعمت دے تو کہنے لگتاہے کہ میرے رب نے میرااکرام کیا۔اورجب اس کاامتحان لیتے ہوئے اس کی روزی تنگ کردے توکہنے لگتاہے کہ میرے رب نے میری اہانت کی۔ایساہرگزنہیں بلکہ بات یہ ہے کہ تم یتیموں کی عزت نہیں کرتے۔ اورمسکینوں کے کھلانے کی ایک دوسروں کورغبت نہیں دیتے۔اورمردوں کی میراث سمیٹ سمیٹ کرکھاتے ہو۔اورمال کوجی بھرکرعزیزرکھتے ہو۔
وسعت رزق کواکرام نہ سمجھوبلکہ امتحان سمجھو۔٭٭(آیت نمبر:20-15)مطلب یہ ہے کہ جولوگ وسعت اورکشادگی پاکریوں سمجھ بیٹھتے ہیں کہ خدا نے ان پراکرام کیایہ غلط ہے بلکہ دراصل یہ امتحان ہے،جیسے کہ ایک اورجگہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں۔ایحسبون انمانمدھم۔(سورت مومنون:55)۔یعنی مال و اولادکے بڑھ جانے کویہ لوگ نیکیوں کی بڑھوتری سمجھتے ہیں دراصل یہ ان کی بے سمجھی ہے،اسی طرح اس کے برعکس بھی یعنی تنگی ترشی کوانسان اپنی اہانت سمجھ بیٹھتاہے حالانکہ دراصل یہ بھی خداکی طرف سے آزمائش ہے اسی لئے یہاں۔کلا۔کہہ کران دونوں خیالات کی تردیدکی کہ یہ واقعہ نہیں جسے خدامال کی وسعت دے اس سے وہ خوش ہے اورجس پر تنگی کرے اس سے ناخوش ہے بلکہ دارومدارخوشی اورناخوشی کاان دونوں حالتوں میں عمل پر ہے،غنی ہوکرشکرگذاری کرے تو خداکامحبوب اورفقیرہوکرصبرکرے تو اللہ کامحبوب۔
خدائے تعالی اس طرح اوراس طرح آزماتاہے پھریتیم کی عزت کرنے کاحکم ہے۔حدیث میں ہے کہ سب سے اچھاگھروہ ہے جس میں یتیم ہواوراس کی اچھی پرورش ہورہی ہواوربدترین گھروہ ہے جس میں یتیم ہواوراس سے بدسلوکی کی جاتی ہو،پھرآپ نے انگلی اٹھاکرفرمایامیں اوریتیم کاپالنے والاجنت میں اسی طرح ہوں گے یعنی قریب قریب۔(ابن ماجہ،کتاب الادب:باب حق الیتیم،ح 3679(ضعیف)اس کی سندمیں یحیی بن ابی سلیمان ضعیف راوی ہے۔
ابوداؤدکی حدیث میں ہے کہ کلمہ کی اوربیچ کی انگلی ملاکرانہیں دکھاکرآپ نے فرمایامیں اوریتیم کاپالنے والاجنت میں اس طرح ہوںگے۔(بخاری،کتاب الطلاق:باب اللعان،ح 5304،ابوداؤد،کتاب الادب:باب فی من ضم یتیما،ح5150)پھرفرمایاکہ یہ لوگ فقیروں مسکینوں کے ساتھ سلوک احسان کرنے انہیں کھاناپینادینے کی ایک دوسرے کورغبت و لالچ نہیں دلاتے اوریہ عیب بھی ان میں ہے کہ میراث کامال حلال ہویاحرام ہضم کرجاتے ہیں اورمال کی محبت بھی ان میں بے طرح ہے۔
ترجمہ:۔یقینا ایک وقت زمین بالکل برابر پست کرکے بچھادی جائے گی۔اورتیرارب خود آجائے گااورفرشتے صفیں باندھ باندھ کرآجائیں گے۔اورجس دن جہنم بھی لائی جائے گی اس دن انسان عبرت حاصل کرلے گالیکن آج عبرت کافائدہ کہاں؟۔وہ کہے گاکہ کاش کہ میں اپنی اس زندگی کے لئے کچھ نیک اعمال بھیج دیتا۔پس آج اللہ کے عذابوں جیساعذاب کسی کانہ ہوگا۔ نہ اس کی قیدوبندجیسی کسی کی قیدوبندہوگی۔ اے اطمینان والی روح۔لوٹ چل اپنے رب کی طرف تواس سے راضی وہ تجھ سے خوش۔پس میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا۔اورمیری جنت میں چلی جا۔
سجدوں کی برکتیں۔٭٭(آیت :30-21)قیامت کے ہولناک حالات کابیان ہورہاہے کہ بالیقین اس دن زمین پست کردی جائے گی، اونچی نیچی زمین برابرکردی جائے گی اوربالکل صاف ہموارہوجائے گی، پہاڑزمین کے برابرکردیئے جائیں گے، تمام مخلوق قبر سے نکل آئے گی، خودخدائے تعالی مخلوق کے فیصلے کرنے کے لئے آجائے گا،یہ اس عام شفاعت کے بعد تمام اولادآدم کے سردارحضرت محمدمصطفی(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی ہوگی اوریہ شفاعت اس وقت ہوگی جبکہ تمام مخلوق ایک ایک بڑے بڑے پیغمبر کے پاس ہوآئے گی اورہرنبی کہہ دے گامیں اس قابل نہیں،پھرسب کے سب حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے پاس آئیں گے اورآپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)فرمائیں گے کہ ہاں ہاں میں اس کے لئے تیارہوں، پھرآپ جائیں گے اورخداکے سامنے سفارش کریں گے کہ وہ پروردگارلوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لئے تشریف لائے،یہی پہلی شفاعت ہے اوریہی وہ مقام حمودہے جس کامفصل بیان سورت سبحان میں گذرچکاہے۔پھراللہ تعالی رب العالمین فیصلے کے لئے تشریف لائے گا،اس کے آنے کی کیفیت وہی جانتاہے، فرشتے بھی اس کے آگے آگے صف بستہ حاضر ہوں گے، جنہم بھی لائی جائے گی۔
صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)فرماتے ہیں جنہم کی اس روزسترہزارلگامیں ہوں گی، ہرلگام پرسترہزارفرشتے ہوں گے جواسے گھسیٹ رہے ہوں گے(مسلم ،کتاب الجنۃ:باب جھنم اعاذنااللہ منھا،ح 2842)یہی روایت خودحضرت عبداللہ بن مسعود(رضی اللہ تعالی عنہ)سے بھی مروی ہے۔اس دن انسان اپنے نئے پرانے تمام اعمال کویادکرنے لگے گا،برائیوں پرپچھتائے گا،نیکیوں کے نہ کرنے یاکم کرنے پرافسوس کرے گا، گناہوں پرنادم ہوگا۔مسنداحمدمیں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)فرماتے ہیں اگرکوئی بندہ اپنے پیداہونے سے لے کرمرتے دم تک سجدے میں پڑارہے اورخداکاپورااطاعت گذاررہے پھربھی اپنی اس عبادت کوقیامت کے دن حقیراورناچیزسمجھے گااورچاہے گاکہ میں دنیاکی طرف اگرلوٹایاجاؤں تواجروثواب کے کام اورزیادہ کروں۔(احمد(185/4)(197/29)(ضعیف )بقیہ بن ولیدمدلس کے سماع کی صراحت موجودنہیں)۔
پھراللہ تعالی فرماتاہے کہ اس دن خداکے عذابوں جیساعذاب کسی اورکانہ ہوگاجووہ اپنے نافرمان اورنافرجام بندوں کوکرے گانہ اس جیسی زبردست پکڑدکڑقیدوبندکسی کی ہوسکتی ہے ،زبانیہ فرشتے بدترین بیڑیاں اورہتھکڑیاں انہیں پہنائے ہوئے ہوں گے، یہ توہوابدبختوں کاانجام اب نیک بختوں کاحال سنیئے جوروحیں سکون اوراطمینان والی ہیں، پاک اورثابت ہیں،حق کی ساتھی ہیں ان سے موت کے وقت اورقبر سے اٹھنے کے وقت کہا جائے گاکہ تواپنے رب کی طرف ،اس کے پڑوس کی طرف ، اس کے ثواب اوراجرکی طرف، اس کی جنت اوررضامندی کی طرف لوٹ چل،یہ خداسے خوش ہے اورخدااس سے راضی ہے اوراتنادے گایہ بھی خوش ہوجائے گاتومیرے خاص بندوں میں آجااورمیری جنت میں داخل ہوجا۔حضرت ابن عباس (رضی اللہ تعالی عنہ)فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت عثمان بن عفان (رضی اللہ تعالی عنہ)کے بارے میں اتری۔بریدہ (رضی اللہ تعالی عنہ)فرماتے ہیں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب (رضی اللہ تعالی عنہ)کے باری میں اتری۔
حضرت عبداللہ(رضی اللہ تعالی عنہ)سے یہ بھی مروی ہے کہ قیامت کے دن اطمینان والی روحوں سے کہاجائے گاتواپنے رب یعنی اپنے جسم طرف لوٹ جاجسے تودنیامیں آبادکئے ہوئے تھی،تم دونوں آپس میں ایک دوسرے سے راضی رضامندہو،یہ بھی مروی ہے کہ حضرت عبداللہ اس آیت کو۔فادخلی فی عبدی۔پڑھتے تھے یعنی اے روح میرے بندے میں یعنی اس کے جسم میں چلی جالیکن یہ غریب ہے اورظاہرقول پہلاہی ہے،جیسے اورجگہ ہے۔ثم ردوالی اللہ مولاھم الحق(سورت انعام:52)یعنی پھرسب کے سب اپنے سچے مولاکی طرف لوٹائے جائیں گے،اورجگہ ہے ۔وان مردناالی اللہ(سورتمؤمن:43)یعنی ہمارالوٹناخداکی طرف یعنی اس کے حکم کی طرف اوراس کے سامنے ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہ آیتیںحضرت صدیق اکبر(رضی اللہ تعالی عنہ)کی موجودگی میں اتریں توآپ نے کہاکتنااچھاقول ہے،حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایاتمہیں بھی یہی کہاجائے گا۔(تفسیردرمنٹور(513/
دوسری روایت میں ہے کہ حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے سامنے سعیدبن جبیرنے یہ آیتیں پڑھیں توحضرت صدیق (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے یہ فرمایاجس پر آپ نے یہ خوش خبری سنائی کہ تجھے فرشتہ موت کے وقت یہی کہے گا۔
ابن ابی حاتم میں یہ روایت بھی ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالی عنہ)مفسرالقرآن خیرالامت پیغمبراللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے چچازادبھائی کاطائف میں انتقال ہواتوایک پرندآیاجس جیساپرندکبھی زمین پردیکھانہیں گیاوہ نعش میں چلاگیاپھرنکلتے ہوئے نہیں دیکھاگیا،جب آپ کودفن کردیاگیاتوقبرکے کونے سے اسی آیت کی تلاوت کی آوازآئی اوریہ نہ معلوم ہوسکاکہ کون پڑھ رہاہے(حاکم (544-543/3۔اصابۃ(131-130/4(حسن )یہ واقعہ مختلف طرق سے مروی ہے)یہ روایت طبرانی میں بھی ہے ابوہاشم قباث بن زرین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جنگ روم میںہم دشمنوں کے ہاتھ قیدہوگئے ،شاہ روم نے ہمیں اپنے سامنے بلایااورکہایاتم اس دین کوچھوڑدویاقتل ہونامنظورکرلو،ایک ایک کووہ یہ کہتاکہ ہمارادین قبول کردوورنہ جلادکوحکم دیتاہوں کہ تمہاری گردن مارے، تین شخص تومرتدہوگئے جب چوتھاآیاتواس نے صاف انکارکیابادشاہ کے حکم سے اس کی گردن اڑادی گئی اورسرکونہرمیں ڈال دیاگیا،وہ نیچے ڈوب گیااورذراسی دیرمیں پانی پرآگیااوران تینوں کی طرف دیکھ کرکہنے لگاکہ اے فلاں اوراے فلاں اوراے فلاں ان کے نام لے کرانہیں آوازدی جب یہ متوجہ ہوئے سب درباری لوگ بھی دیکھ رہے تھے اورخودبادشاہ بھی تعجب کے ساتھ سن رہاتھااس مسلمان شہیدکے سرنے کہاسنوخداتعالی فرماتاہے ۔یاایھاالنفس المطمئنعہ ارجعی الی ربک راضیہ مرضیئہ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی۔اتناکہہ کروہ سرپھرپانی میں غوطہ لگاگیا،اس واقعہ کااتنااثرہواکہ قریب تھاکہ نصرانی اسی وقت مسلمان ہوجاتے بادشاہ نے اسی وقت درباربرخاست کرادیااورتینوں پھرمسلمان ہوگئے اورہم سب یونہی قیدمیں رہے گاآخرخلیفہ ابوجعفرمنصورکی طرف سے ہمارافدیہ آگیااورہم نے نجات پائی۔
ابن عساکرمیں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے ایک شخص سے کہا یہ دعاپڑھاکر۔اللھم انی اسئلک نفسابک مطمئینتہ نومن بلقائک وترضی بقضالک وتقنع بعطائک۔خدایامیں تجھ سے ایسانفس طلب کرتاہوں جوتیری ذات پراطمینان اوربھروسہ رکھتاہوتیری ملاقات پرایمان رکھتاہوتیری قضاپرراضی ہوتیرے دیئے ہوئے قناعت کرنے والاہو،سورت والفجرکی تفسیرختم ہوئی فاالحمداللہ۔