جاسم محمد
محفلین
قرارداد مقاصد، اسلامی انقلاب اور سیکولر بنگلہ دیش
17/06/2021 جاذب رومی
پاکستان کے مشرقی اور مغربی حصوں پر قرارداد مقاصد کے طویل المیعاد اثرات دو مختلف بلکہ متضاد انداز سے مرتب ہوئے۔ ایک جانب قرارداد مقاصد نے مغربی پاکستان کے مسلمانوں کی مذہبی امنگوں کو ایک آئینی نکاس فراہم کر کے افغانی اور ایرانی طرز کے ملائی انقلاب کا راستہ روک دیا۔ لیکن دوسری جانب قرارداد مقاصد نے مشرقی پاکستان کی ایک چوتھائی غیر مسلم آبادی کو ریاست پاکستان سے بیگانہ کر دیا، اور یہی بیگانگی بالآخر ملک کی تقسیم کا باعث بن گئی۔
مذہب کا عنصر پاکستانی قومیت کی تشکیل میں اہم ترین کردار کا حامل تھا۔ قائد اعظم نے مطالبۂ پاکستان کی منطقی اساس دو قومی نظریے پر قائم کی۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین تہذیبی اور ثقافتی تفرقات کو ”کانگریس لیگ سیاسی کشمکش“ اور ہندو مسلم فسادات نے ناقابل تردید اور ناقابل مفاہمت حقیقت میں بدل دیا۔
تحریک پاکستان کے دور عروج میں ”پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ“ اور ”مسلم ہے تو لیگ میں آ“ جیسے نعروں نے تحریک کو الوہی جہت عطا کی۔ پاکستان کا قیام غلبۂ اسلام کے خدائی مشن کی ایک کڑی بن گیا اور مسلمانان ہند اسلامی ریاست کے قیام کی ”ربانی منشا“ کی تکمیل کے لیے مسلم لیگ کے جھنڈے تلے متحد ہو گئے۔
صوبوں کی تقسیم اور تبادلۂ آبادی کے معاشرتی اثرات نے نوزائیدہ ریاست میں مذہبی سیاست کے لیے ماحول مزید سازگار کر دیا۔ مذہب سے والہانہ عقیدت رکھنے والے متوسط اور غریب طبقے کے مسلمان اپنے تمام مسائل کا حل اسلامی نظام کے نفاذ میں دیکھنے لگے۔ اس تمام صورتحال میں حکمران طبقے کے لیے، سیکولر رجحانات اور طرز زندگی کے باوجود، مذہب کی قوم ساز قوت کو نظر انداز کرنا مشکل تھا۔
اگرچہ بانی پاکستان دستور ساز اسمبلی میں واضح طور پر مذہب کو سیاست سے جدا رکھنے کی پالیسی کا اعلان کر چکے تھے۔ لیکن مطالبۂ نفاذ اسلام عوامی امنگوں کا ترجمان تھا اور عوامی امنگوں کے آئینی بہاؤ میں رکاوٹ انقلاب کے سیلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔
پاکستان کے ہمسایہ میں واقع دونوں اسلامی ممالک یعنی ایران اور افغانستان، انقلابی عمل کے ذریعے ملائیت کے نفاذ کے تجربے سے گزرے۔ جبکہ، دوسری جانب، قرارداد مقاصد سے وابستہ توقعات اور خدشات کے برعکس، پاکستان میں ملائی حکومت کے قیام کا خواب یا خوف کبھی بھی حقیقت پذیر نہیں ہو سکا۔
ایران میں مذہبی حکومت عوامی احتجاج کے نتیجہ قائم ہوئی، جبکہ افغانستان میں مذہبی طبقات مسلح جدوجہد کے نتیجے میں برسر اقتدار آئے۔ ہر دو صورتوں میں انقلاب کی بنیادی وجہ، حکومت کی جانب سے عوام کے مذہبی جذبات کو یکسر نظر انداز کیا جانا ثابت ہوئی۔ ایران میں امریکی رسوخ کے تحت مغربیت کا فروغ ایرانی باشندگان میں بے چینی کا موجب بنا، جبکہ افغانستان میں روسی حمایت یافتہ کمیونسٹ انقلاب کی برپائی، اسلام پسندوں کی کامیاب مسلح جد و جہد کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئی۔
اس کے برعکس پاکستان میں قرارداد مقاصد نے پاکستان کے مسلمانوں کی مذہبی امنگوں کو ایک آئینی نکاس (constitutional vent) فراہم کیا۔ اس دستوری روشندان کی غیر موجودگی میں عین ممکن تھا کہ قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصے میں پاکستان میں ایران کی طرز کا اسلامی انقلاب رونما ہو جاتا یا پھر افغانستان کی طرز کی خانہ جنگی برپا ہو جاتی جس میں اسلام پسند ایک طرف اور لبرل اور پروگریسیو قوتیں دوسری طرف ہوتیں۔
قرارداد مقاصد نے پاکستان میں ایک ایسا آئینی بندوبست فراہم کر دیا تھا کہ جس میں مذہب پسند عوام اور اور سیکولر اشرافیہ دونوں ایک گھاٹ سے پانی پی سکتے تھے۔ خطے کی سیاسی تاریخ کے تناظر اور ”موجودہ پاکستان“ (سابقہ مغربی پاکستان) کے معروضی حالات کے پیش نظر یہ دعویٰ قرین از قیاس معلوم ہوتا ہے کہ قرارداد مقاصد نے پاکستانی عوام کی اسلامی نظام کے نفاذ کی امنگوں کو ایک دستوری نکاس مہیا کر کے پاکستان میں افغانی اور ایرانی طرز کے ملائی انقلاب کا راستہ ہمیشہ کے لیے روک دیا۔
پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں کی ریاست اور جمہوری عمل سے وابستگی کو قرارداد مقاصد کا اہم ترین نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ قرارداد مقاصد نے ”نظریاتی مقبولیت“ کی حامل مذہبی جماعتوں کے لیے غیر جمہوری اور انقلابی جدوجہد کا جواز ختم کر دیا۔ انقلابی راہ مسدود ہو جانے کے بعد انتخابی میدان میں بھی ان جماعتوں نے مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ نتیجتاً پاکستان میں بنیاد پرست مذہبی طبقہ عملی طور پر کبھی بھی اقتدار پر قابض نہیں ہو سکا۔
پاکستان کی اسٹرٹیجک اہمیت، فوجی اور ایٹمی اثاثوں، اور تہذیبوں کے تصادم کے عالمی سیاسی منظرنامے کے پیش نظر پاکستان میں بنیاد پرست مذہبی قوتوں کا برسر اقتدار نہ آ سکنا قومی اور عالمی سطح پر انتہائی دور رس امکانی نتائج کا حامل ہے۔
مغربی پاکستان کے برعکس مشرقی پاکستان میں قرارداد مقاصد کے نتائج مختلف انداز سے مرتب ہوئے۔ قرارداد مقاصد کی منظوری کے وقت بنگال کا صوبہ پاکستانی وفاق میں شامل سب سے بالاتر اکائی تھا اور اس خطے میں غیر مسلم آبادی کا تناسب کم و بیش 25 فیصد تھا۔ قرارداد مقاصد کے ذریعے ریاست نے مغربی پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں کو تو مطمئن کر دیا مگر اس کی قیمت اسے مشرقی پاکستان کی کم و بیش ایک چوتھائی آبادی کی بے اطمینانی کی صورت میں چکانا پڑی۔
دستور ساز اسمبلی کے مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والے ہندو اراکین نے قرارداد مقاصد پر بحث کے دوران پاکستان میں غیر مسلموں کے مستقبل کے حوالے سے سخت مایوسی کا اظہار کیا۔ ان کی مایوسی کے بنگال کی سیاسی فضا پر کیا اثرات مرتب ہوئے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو دہائیوں بعد جب بنگال کا صوبہ پاکستان سے الگ ہوا تو سیکولر ازم کو بنگلہ دیش کی نو آزاد مسلم اکثریتی ریاست کے دستور کے چار بنیادی ستونوں میں سے ایک شمار کیا گیا، جو اس بات کا مظہر ہے کہ بنگالی صوبے کے باسی، بالعموم، مغربی پاکستان کے اسلامی نظریاتی مشن میں شریک نہیں تھے۔ لہذا یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ صوبہ بنگال کی علیحدگی میں، دیگر اسباب کے ساتھ ساتھ، قرارداد مقاصد کی منظوری بھی ایک اہم سبب تھا۔
دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد پر بحث کے دوران بنگال کے ہندو اراکین اسمبلی کی جانب سے اسلامی ریاست کے تین اہم تصورات، ”اقتدار اعلیٰ، اسلامی جمہوریت اور اسلامی مساوات“ کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا گیا۔ یہ خدشات قرارداد مقاصد کے دو نکات سے متعلق تھے۔ اول یہ کہ اقتدار اعلیٰ کا مالک خدائے بزرگ و برتر کی ذات ہے اور ریاست اپنا اختیار اللہ کی مقررہ حدود کے مطابق استعمال کرے گی، دوم یہ کہ ریاست میں اسلام کے مطابق جمہوریت، مساوات اور انصاف کے اصولوں کا اتباع کیا جائے گا۔
اقتدار اعلیٰ کے حوالے سے ہندو اراکین کا کہنا تھا کہ ریاست میں اقتدار کا سرچشمہ عوام کو ہونا چاہیے جو اپنی طاقت کو ریاست کے وسیلے سے نافذ کریں۔ کیونکہ اگر ریاست اپنا اختیار اللہ کی مقررہ حدود کے مطابق استعمال کرے گی (جیسا کہ قرارداد کے متن میں درج ہے ) تو پھر یہ سوال پیدا ہو گا کہ وہ حدود کیا ہیں اور ان حدود کا تعین کون کرے گا، اور کسی اختلاف کی صورت میں تشریح کا حق کس کو حاصل ہو گا؟ اس صورت میں یہ خدشہ قطعی بیجا نہیں ہے کہ عملی طور پر اقتدار اعلیٰ مذہبی تشریحات پر اجارہ رکھنے والے مذہبی علماء کے ہاتھ میں آ جائے گا۔
جمہوریت کے اسلامی تصور کے حوالے سے ان خدشات کا اظہار کیا گیا کہ سیاسی اسلام کی مقبول عام فکر کے مطابق اسلام میں جمہوریت نہیں ہے۔ اسمبلی مباحثہ کے دوران ہندو اراکین نے ایک مخصوص طبقہ فکر ( مودودی جس کے ترجمان ہیں ) کے ”باعث تشویش“ اسلامی سیاسی افکار کا تذکرہ کیا کہ جن کے مطابق ”جمہوری طرز حکومت میں حاکمیت اعلیٰ ملک کے عام باشندوں کو حاصل ہوتی ہے، وہ جس قانون کو چاہیں نافذ کریں اور جس قانون کو چاہیں منسوخ کر دیں۔ لیکن اسلام قانون ساز کے اس کلی نوعیت کے اختیار کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ اسلام میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعے ایک بالاتر قانون عطا کیا ہے جس کی اطاعت بہر صورت لازم ہے خواہ اکثریت اس اطاعت پہ بالرضا راغب ہو یا نہیں۔ لہذا ان معنوں میں اسلام جمہوریت نہیں ہے“ ۔
غیر مسلم اراکین کی جانب سے تیسرا اعتراض اسلام میں مساوی حقوق کے تصور پر یہ کیا گیا کہ اسلامی ریاست میں ایک غیر مسلم فرد ریاستی انتظامیہ کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ چنانچہ، بقول چٹوپادھیائے، قرارداد میں درج ”اسلام کے عطا کردہ مساوی حقوق کے الفاظ بہروپ (کیموفلاج) ہیں۔ یہ ہم غیر مسلموں کے لیے محض ایک چکمہ ہے۔ اسلام کے مطابق حقوق مساوی نہیں ہو سکتے، کیونکہ ایک غیر مسلم کبھی اسلامی ریاست کا سربراہ نہیں بن سکتا“ ۔
یہ بات دلچسپ ہے کہ اس مخصوص اعتراض کے جواب میں لیاقت علی خان کا کہنا تھا کہ یہ مفروضہ غلط فہمی پر مبنی ہے اور اسلام غیر مسلم کی حکومتی سربراہی پر کوئی قدغن عائد نہیں کرتا ہے۔ جبکہ علامہ شبیر احمد عثمانی نے اپنی اسمبلی تقریر میں یہ موقف اختیار کیا کہ ایک نظریاتی ریاست کی سربراہی کسی ایسے شخص کو نہیں سونپی جا سکتی جو ریاستی نظریے کو تسلیم نہیں کرتا ہو۔ لہذا غیر مسلمان اسلامی ریاست کی انتظامی مشنری کا حصہ تو ہو سکتے ہیں لیکن انہیں ریاستی پالیسی بنانے اور ریاست کے دفاع اور بقاء جیسے کلیدی امور کی ذمہ داری نہیں سونپی جا سکتی۔
ملک کی اولین دستوری دستاویز نے دستور ساز اسمبلی کو مذہبی خطوط پر تقسیم کر دیا۔ مسلم اراکین قرارداد کی منظوری کے لیے غیر مسلم اراکین کا تعاون حاصل نہیں کر سکے۔ اسمبلی کی مسلمان اکثریت نے قرارداد مقاصد کے متن کے حوالے غیر مسلم اراکین کی جانب سے پیش کردہ تمام ترمیمات رد کر دیں۔ یہ صورتحال غیر مسلم اراکین اسمبلی کے لیے مایوس کن تھی۔
اسمبلی سیشن کی آخری تقریر میں کانگریس کی پارلیمانی پارٹی کے لیڈر سریس چندر چٹوپادھیائے نے قرارداد کے حوالے سے اپنی مایوسی کا اظہار ایسے الفاظ میں کیا جن میں علیحدگی کی سوچ کو صاف پڑھا جا سکتا تھا۔ اس تقریر کے متعلقہ اقتباسات ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں :
”ہم مشرقی بنگال کے رہنے والے ہیں۔ وہاں کی ایک چوتھائی آبادی اب بھی غیر مسلم ہے۔ اس لئے یہ ہمارا فرض ہے، اور مفاد بھی، کہ جو بھی دستور بنایا جا رہا ہے اس کو پرکھیں۔ ہم مشرقی بنگال چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ یہ ہماری مادر وطن ہے۔ نسل در نسل ہم مشرقی بنگال میں اپنے مسلمان پڑوسیوں کے ساتھ امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہتے آ رہے ہیں۔ لہذا مجھے اس بات کی فکر ہے کہ یہاں کا دستور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ساتھ غیر مسلموں کے لیے بھی قابل قبول ہو۔ میں نے اس قرارداد کو غور سے پڑھا ہے۔ لیکن میں اپنے آپ کو اس قرار داد کی حمایت کرنے پر آمادہ نہیں کر سکا، اور میری پارٹی کے لیے میری ہدایت یہی ہوگی کہ اس قرارداد کی مخالفت کریں۔
میں افسردگی کے ساتھ خود کو قائد اعظم کے وہ عظیم الفاظ یاد دلاتا ہوں کہ جب انہوں نے کہا تھا کہ ریاستی معاملات میں ہندو ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان مسلمان نہیں رہے گا۔ لیکن افسوس ان کی وفات کے کچھ ہی عرصے بعد آپ فی الحقیقت ایک ریاستی مذہب کا اعلان کرنے جا رہے ہیں۔ آپ ”اکثریت کے استبداد پر مبنی ریاست“ تخلیق کرنے کا عزم کر چکے ہیں۔ بلکہ شاید آپ ایسا کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ قائد اعظم کے برعکس آپ میں وہ جرات نہیں ہے کہ باقی تمام دنیا کی طرح آپ بھی سیاست کو مذہب سے جدا سکیں۔ مجھے اس قرارداد میں جو آواز سنائی دے رہی ہے وہ پاکستان کے عظیم تخلیق کار قائد اعظم کی آواز نہیں ہے۔ نہ ہی وہ وزیر اعظم پاکستان محترم جناب لیاقت علی خان کی آواز ہے۔ بلکہ وہ اس ملک کے علماء کی آواز ہے۔
میں جانتا ہوں کہ آپ یہ قرارداد منظور کر سکتے ہیں کیونکہ آپ اکثریت میں ہیں اور میں اکثریت کے جبر سے واقف ہوں۔ لیکن ہم اس قرارداد پر رضامندی کی مہر ثبت نہیں کر سکتے۔ اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے ہمیں اس کی مخالفت کرنا ہوگی۔ ہم یہ قرارداد قبول کر کے خودکشی نہیں کر سکتے۔
اس سوچ میں میری راتیں آنکھوں میں کٹ رہی ہیں کہ اب میں اپنے لوگوں سے کیا کہوں گا جنہیں میں ایک عرصے سے یہ سمجھاتا آ رہا ہوں کہ وہ اپنی جائے پیدائش کی سکونت ترک مت کریں۔ وہ لوگ بے یقینی کی ایک ایسی صورتحال سے گزر رہے ہیں جس کا حقیقی تصور اس ایوان میں بیٹھ کر نہیں کیا جا سکتا۔ امراء اور افسران ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ معاشی حالات تباہ کن ہیں۔ فاقہ کشی پھیل رہی ہے۔ عورتیں بے لباس ہیں۔ تجارت اور ملازمتوں کے بغیر لوگوں کی زندگیاں تباہ ہو رہی ہیں۔ انتظامیہ ظالمانہ حد تک رجعتی ہے۔ ہماری ثقافت، زبان اور رسم الخط پر بلڈوزر پھیرا جا رہا ہے اور اس سب سے بڑھ کے یہ قرارداد، جس کے ذریعے آپ ہمیں ایک کمتری اور مذلت کی دائمی حالت میں دھکیل رہے ہیں۔ امید کی تمام کرنوں اور عزت دار زندگی کے تمام امکانات پر ایک گہرا پردہ کھینچا جا رہا ہے۔
اس سب کے بعد میں اپنے لوگوں کو کیا مشورہ دوں؟ کس دل سے میں انہیں کہوں گا کہ وہ جی کڑا رکھیں؟ لیکن مجھے احساس ہے کہ آپ لوگوں سے یہ سب کہنا فضول ہے۔ آپ لوگوں سے استدلال کرنا بیکار ہے۔ آپ لوگ اپنے آپ کو اس انکسار کا اہل ثابت نہیں کیا جو فتح مندی کے جذبات سے پیدا ہوتا ہے اور جس کی تلقین مذہب کرتا ہے۔ سو آپ اپنا راستہ اختیار کریں۔ میری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں ”۔
قرارداد مقاصد، اسلامی انقلاب اور سیکولر بنگلہ دیش - ہم سب
17/06/2021 جاذب رومی
پاکستان کے مشرقی اور مغربی حصوں پر قرارداد مقاصد کے طویل المیعاد اثرات دو مختلف بلکہ متضاد انداز سے مرتب ہوئے۔ ایک جانب قرارداد مقاصد نے مغربی پاکستان کے مسلمانوں کی مذہبی امنگوں کو ایک آئینی نکاس فراہم کر کے افغانی اور ایرانی طرز کے ملائی انقلاب کا راستہ روک دیا۔ لیکن دوسری جانب قرارداد مقاصد نے مشرقی پاکستان کی ایک چوتھائی غیر مسلم آبادی کو ریاست پاکستان سے بیگانہ کر دیا، اور یہی بیگانگی بالآخر ملک کی تقسیم کا باعث بن گئی۔
مذہب کا عنصر پاکستانی قومیت کی تشکیل میں اہم ترین کردار کا حامل تھا۔ قائد اعظم نے مطالبۂ پاکستان کی منطقی اساس دو قومی نظریے پر قائم کی۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین تہذیبی اور ثقافتی تفرقات کو ”کانگریس لیگ سیاسی کشمکش“ اور ہندو مسلم فسادات نے ناقابل تردید اور ناقابل مفاہمت حقیقت میں بدل دیا۔
تحریک پاکستان کے دور عروج میں ”پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ“ اور ”مسلم ہے تو لیگ میں آ“ جیسے نعروں نے تحریک کو الوہی جہت عطا کی۔ پاکستان کا قیام غلبۂ اسلام کے خدائی مشن کی ایک کڑی بن گیا اور مسلمانان ہند اسلامی ریاست کے قیام کی ”ربانی منشا“ کی تکمیل کے لیے مسلم لیگ کے جھنڈے تلے متحد ہو گئے۔
صوبوں کی تقسیم اور تبادلۂ آبادی کے معاشرتی اثرات نے نوزائیدہ ریاست میں مذہبی سیاست کے لیے ماحول مزید سازگار کر دیا۔ مذہب سے والہانہ عقیدت رکھنے والے متوسط اور غریب طبقے کے مسلمان اپنے تمام مسائل کا حل اسلامی نظام کے نفاذ میں دیکھنے لگے۔ اس تمام صورتحال میں حکمران طبقے کے لیے، سیکولر رجحانات اور طرز زندگی کے باوجود، مذہب کی قوم ساز قوت کو نظر انداز کرنا مشکل تھا۔
اگرچہ بانی پاکستان دستور ساز اسمبلی میں واضح طور پر مذہب کو سیاست سے جدا رکھنے کی پالیسی کا اعلان کر چکے تھے۔ لیکن مطالبۂ نفاذ اسلام عوامی امنگوں کا ترجمان تھا اور عوامی امنگوں کے آئینی بہاؤ میں رکاوٹ انقلاب کے سیلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔
پاکستان کے ہمسایہ میں واقع دونوں اسلامی ممالک یعنی ایران اور افغانستان، انقلابی عمل کے ذریعے ملائیت کے نفاذ کے تجربے سے گزرے۔ جبکہ، دوسری جانب، قرارداد مقاصد سے وابستہ توقعات اور خدشات کے برعکس، پاکستان میں ملائی حکومت کے قیام کا خواب یا خوف کبھی بھی حقیقت پذیر نہیں ہو سکا۔
ایران میں مذہبی حکومت عوامی احتجاج کے نتیجہ قائم ہوئی، جبکہ افغانستان میں مذہبی طبقات مسلح جدوجہد کے نتیجے میں برسر اقتدار آئے۔ ہر دو صورتوں میں انقلاب کی بنیادی وجہ، حکومت کی جانب سے عوام کے مذہبی جذبات کو یکسر نظر انداز کیا جانا ثابت ہوئی۔ ایران میں امریکی رسوخ کے تحت مغربیت کا فروغ ایرانی باشندگان میں بے چینی کا موجب بنا، جبکہ افغانستان میں روسی حمایت یافتہ کمیونسٹ انقلاب کی برپائی، اسلام پسندوں کی کامیاب مسلح جد و جہد کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئی۔
اس کے برعکس پاکستان میں قرارداد مقاصد نے پاکستان کے مسلمانوں کی مذہبی امنگوں کو ایک آئینی نکاس (constitutional vent) فراہم کیا۔ اس دستوری روشندان کی غیر موجودگی میں عین ممکن تھا کہ قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصے میں پاکستان میں ایران کی طرز کا اسلامی انقلاب رونما ہو جاتا یا پھر افغانستان کی طرز کی خانہ جنگی برپا ہو جاتی جس میں اسلام پسند ایک طرف اور لبرل اور پروگریسیو قوتیں دوسری طرف ہوتیں۔
قرارداد مقاصد نے پاکستان میں ایک ایسا آئینی بندوبست فراہم کر دیا تھا کہ جس میں مذہب پسند عوام اور اور سیکولر اشرافیہ دونوں ایک گھاٹ سے پانی پی سکتے تھے۔ خطے کی سیاسی تاریخ کے تناظر اور ”موجودہ پاکستان“ (سابقہ مغربی پاکستان) کے معروضی حالات کے پیش نظر یہ دعویٰ قرین از قیاس معلوم ہوتا ہے کہ قرارداد مقاصد نے پاکستانی عوام کی اسلامی نظام کے نفاذ کی امنگوں کو ایک دستوری نکاس مہیا کر کے پاکستان میں افغانی اور ایرانی طرز کے ملائی انقلاب کا راستہ ہمیشہ کے لیے روک دیا۔
پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں کی ریاست اور جمہوری عمل سے وابستگی کو قرارداد مقاصد کا اہم ترین نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ قرارداد مقاصد نے ”نظریاتی مقبولیت“ کی حامل مذہبی جماعتوں کے لیے غیر جمہوری اور انقلابی جدوجہد کا جواز ختم کر دیا۔ انقلابی راہ مسدود ہو جانے کے بعد انتخابی میدان میں بھی ان جماعتوں نے مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ نتیجتاً پاکستان میں بنیاد پرست مذہبی طبقہ عملی طور پر کبھی بھی اقتدار پر قابض نہیں ہو سکا۔
پاکستان کی اسٹرٹیجک اہمیت، فوجی اور ایٹمی اثاثوں، اور تہذیبوں کے تصادم کے عالمی سیاسی منظرنامے کے پیش نظر پاکستان میں بنیاد پرست مذہبی قوتوں کا برسر اقتدار نہ آ سکنا قومی اور عالمی سطح پر انتہائی دور رس امکانی نتائج کا حامل ہے۔
مغربی پاکستان کے برعکس مشرقی پاکستان میں قرارداد مقاصد کے نتائج مختلف انداز سے مرتب ہوئے۔ قرارداد مقاصد کی منظوری کے وقت بنگال کا صوبہ پاکستانی وفاق میں شامل سب سے بالاتر اکائی تھا اور اس خطے میں غیر مسلم آبادی کا تناسب کم و بیش 25 فیصد تھا۔ قرارداد مقاصد کے ذریعے ریاست نے مغربی پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں کو تو مطمئن کر دیا مگر اس کی قیمت اسے مشرقی پاکستان کی کم و بیش ایک چوتھائی آبادی کی بے اطمینانی کی صورت میں چکانا پڑی۔
دستور ساز اسمبلی کے مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والے ہندو اراکین نے قرارداد مقاصد پر بحث کے دوران پاکستان میں غیر مسلموں کے مستقبل کے حوالے سے سخت مایوسی کا اظہار کیا۔ ان کی مایوسی کے بنگال کی سیاسی فضا پر کیا اثرات مرتب ہوئے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو دہائیوں بعد جب بنگال کا صوبہ پاکستان سے الگ ہوا تو سیکولر ازم کو بنگلہ دیش کی نو آزاد مسلم اکثریتی ریاست کے دستور کے چار بنیادی ستونوں میں سے ایک شمار کیا گیا، جو اس بات کا مظہر ہے کہ بنگالی صوبے کے باسی، بالعموم، مغربی پاکستان کے اسلامی نظریاتی مشن میں شریک نہیں تھے۔ لہذا یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ صوبہ بنگال کی علیحدگی میں، دیگر اسباب کے ساتھ ساتھ، قرارداد مقاصد کی منظوری بھی ایک اہم سبب تھا۔
دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد پر بحث کے دوران بنگال کے ہندو اراکین اسمبلی کی جانب سے اسلامی ریاست کے تین اہم تصورات، ”اقتدار اعلیٰ، اسلامی جمہوریت اور اسلامی مساوات“ کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا گیا۔ یہ خدشات قرارداد مقاصد کے دو نکات سے متعلق تھے۔ اول یہ کہ اقتدار اعلیٰ کا مالک خدائے بزرگ و برتر کی ذات ہے اور ریاست اپنا اختیار اللہ کی مقررہ حدود کے مطابق استعمال کرے گی، دوم یہ کہ ریاست میں اسلام کے مطابق جمہوریت، مساوات اور انصاف کے اصولوں کا اتباع کیا جائے گا۔
اقتدار اعلیٰ کے حوالے سے ہندو اراکین کا کہنا تھا کہ ریاست میں اقتدار کا سرچشمہ عوام کو ہونا چاہیے جو اپنی طاقت کو ریاست کے وسیلے سے نافذ کریں۔ کیونکہ اگر ریاست اپنا اختیار اللہ کی مقررہ حدود کے مطابق استعمال کرے گی (جیسا کہ قرارداد کے متن میں درج ہے ) تو پھر یہ سوال پیدا ہو گا کہ وہ حدود کیا ہیں اور ان حدود کا تعین کون کرے گا، اور کسی اختلاف کی صورت میں تشریح کا حق کس کو حاصل ہو گا؟ اس صورت میں یہ خدشہ قطعی بیجا نہیں ہے کہ عملی طور پر اقتدار اعلیٰ مذہبی تشریحات پر اجارہ رکھنے والے مذہبی علماء کے ہاتھ میں آ جائے گا۔
جمہوریت کے اسلامی تصور کے حوالے سے ان خدشات کا اظہار کیا گیا کہ سیاسی اسلام کی مقبول عام فکر کے مطابق اسلام میں جمہوریت نہیں ہے۔ اسمبلی مباحثہ کے دوران ہندو اراکین نے ایک مخصوص طبقہ فکر ( مودودی جس کے ترجمان ہیں ) کے ”باعث تشویش“ اسلامی سیاسی افکار کا تذکرہ کیا کہ جن کے مطابق ”جمہوری طرز حکومت میں حاکمیت اعلیٰ ملک کے عام باشندوں کو حاصل ہوتی ہے، وہ جس قانون کو چاہیں نافذ کریں اور جس قانون کو چاہیں منسوخ کر دیں۔ لیکن اسلام قانون ساز کے اس کلی نوعیت کے اختیار کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ اسلام میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعے ایک بالاتر قانون عطا کیا ہے جس کی اطاعت بہر صورت لازم ہے خواہ اکثریت اس اطاعت پہ بالرضا راغب ہو یا نہیں۔ لہذا ان معنوں میں اسلام جمہوریت نہیں ہے“ ۔
غیر مسلم اراکین کی جانب سے تیسرا اعتراض اسلام میں مساوی حقوق کے تصور پر یہ کیا گیا کہ اسلامی ریاست میں ایک غیر مسلم فرد ریاستی انتظامیہ کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ چنانچہ، بقول چٹوپادھیائے، قرارداد میں درج ”اسلام کے عطا کردہ مساوی حقوق کے الفاظ بہروپ (کیموفلاج) ہیں۔ یہ ہم غیر مسلموں کے لیے محض ایک چکمہ ہے۔ اسلام کے مطابق حقوق مساوی نہیں ہو سکتے، کیونکہ ایک غیر مسلم کبھی اسلامی ریاست کا سربراہ نہیں بن سکتا“ ۔
یہ بات دلچسپ ہے کہ اس مخصوص اعتراض کے جواب میں لیاقت علی خان کا کہنا تھا کہ یہ مفروضہ غلط فہمی پر مبنی ہے اور اسلام غیر مسلم کی حکومتی سربراہی پر کوئی قدغن عائد نہیں کرتا ہے۔ جبکہ علامہ شبیر احمد عثمانی نے اپنی اسمبلی تقریر میں یہ موقف اختیار کیا کہ ایک نظریاتی ریاست کی سربراہی کسی ایسے شخص کو نہیں سونپی جا سکتی جو ریاستی نظریے کو تسلیم نہیں کرتا ہو۔ لہذا غیر مسلمان اسلامی ریاست کی انتظامی مشنری کا حصہ تو ہو سکتے ہیں لیکن انہیں ریاستی پالیسی بنانے اور ریاست کے دفاع اور بقاء جیسے کلیدی امور کی ذمہ داری نہیں سونپی جا سکتی۔
ملک کی اولین دستوری دستاویز نے دستور ساز اسمبلی کو مذہبی خطوط پر تقسیم کر دیا۔ مسلم اراکین قرارداد کی منظوری کے لیے غیر مسلم اراکین کا تعاون حاصل نہیں کر سکے۔ اسمبلی کی مسلمان اکثریت نے قرارداد مقاصد کے متن کے حوالے غیر مسلم اراکین کی جانب سے پیش کردہ تمام ترمیمات رد کر دیں۔ یہ صورتحال غیر مسلم اراکین اسمبلی کے لیے مایوس کن تھی۔
اسمبلی سیشن کی آخری تقریر میں کانگریس کی پارلیمانی پارٹی کے لیڈر سریس چندر چٹوپادھیائے نے قرارداد کے حوالے سے اپنی مایوسی کا اظہار ایسے الفاظ میں کیا جن میں علیحدگی کی سوچ کو صاف پڑھا جا سکتا تھا۔ اس تقریر کے متعلقہ اقتباسات ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں :
”ہم مشرقی بنگال کے رہنے والے ہیں۔ وہاں کی ایک چوتھائی آبادی اب بھی غیر مسلم ہے۔ اس لئے یہ ہمارا فرض ہے، اور مفاد بھی، کہ جو بھی دستور بنایا جا رہا ہے اس کو پرکھیں۔ ہم مشرقی بنگال چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ یہ ہماری مادر وطن ہے۔ نسل در نسل ہم مشرقی بنگال میں اپنے مسلمان پڑوسیوں کے ساتھ امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہتے آ رہے ہیں۔ لہذا مجھے اس بات کی فکر ہے کہ یہاں کا دستور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ساتھ غیر مسلموں کے لیے بھی قابل قبول ہو۔ میں نے اس قرارداد کو غور سے پڑھا ہے۔ لیکن میں اپنے آپ کو اس قرار داد کی حمایت کرنے پر آمادہ نہیں کر سکا، اور میری پارٹی کے لیے میری ہدایت یہی ہوگی کہ اس قرارداد کی مخالفت کریں۔
میں افسردگی کے ساتھ خود کو قائد اعظم کے وہ عظیم الفاظ یاد دلاتا ہوں کہ جب انہوں نے کہا تھا کہ ریاستی معاملات میں ہندو ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان مسلمان نہیں رہے گا۔ لیکن افسوس ان کی وفات کے کچھ ہی عرصے بعد آپ فی الحقیقت ایک ریاستی مذہب کا اعلان کرنے جا رہے ہیں۔ آپ ”اکثریت کے استبداد پر مبنی ریاست“ تخلیق کرنے کا عزم کر چکے ہیں۔ بلکہ شاید آپ ایسا کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ قائد اعظم کے برعکس آپ میں وہ جرات نہیں ہے کہ باقی تمام دنیا کی طرح آپ بھی سیاست کو مذہب سے جدا سکیں۔ مجھے اس قرارداد میں جو آواز سنائی دے رہی ہے وہ پاکستان کے عظیم تخلیق کار قائد اعظم کی آواز نہیں ہے۔ نہ ہی وہ وزیر اعظم پاکستان محترم جناب لیاقت علی خان کی آواز ہے۔ بلکہ وہ اس ملک کے علماء کی آواز ہے۔
میں جانتا ہوں کہ آپ یہ قرارداد منظور کر سکتے ہیں کیونکہ آپ اکثریت میں ہیں اور میں اکثریت کے جبر سے واقف ہوں۔ لیکن ہم اس قرارداد پر رضامندی کی مہر ثبت نہیں کر سکتے۔ اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے ہمیں اس کی مخالفت کرنا ہوگی۔ ہم یہ قرارداد قبول کر کے خودکشی نہیں کر سکتے۔
اس سوچ میں میری راتیں آنکھوں میں کٹ رہی ہیں کہ اب میں اپنے لوگوں سے کیا کہوں گا جنہیں میں ایک عرصے سے یہ سمجھاتا آ رہا ہوں کہ وہ اپنی جائے پیدائش کی سکونت ترک مت کریں۔ وہ لوگ بے یقینی کی ایک ایسی صورتحال سے گزر رہے ہیں جس کا حقیقی تصور اس ایوان میں بیٹھ کر نہیں کیا جا سکتا۔ امراء اور افسران ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ معاشی حالات تباہ کن ہیں۔ فاقہ کشی پھیل رہی ہے۔ عورتیں بے لباس ہیں۔ تجارت اور ملازمتوں کے بغیر لوگوں کی زندگیاں تباہ ہو رہی ہیں۔ انتظامیہ ظالمانہ حد تک رجعتی ہے۔ ہماری ثقافت، زبان اور رسم الخط پر بلڈوزر پھیرا جا رہا ہے اور اس سب سے بڑھ کے یہ قرارداد، جس کے ذریعے آپ ہمیں ایک کمتری اور مذلت کی دائمی حالت میں دھکیل رہے ہیں۔ امید کی تمام کرنوں اور عزت دار زندگی کے تمام امکانات پر ایک گہرا پردہ کھینچا جا رہا ہے۔
اس سب کے بعد میں اپنے لوگوں کو کیا مشورہ دوں؟ کس دل سے میں انہیں کہوں گا کہ وہ جی کڑا رکھیں؟ لیکن مجھے احساس ہے کہ آپ لوگوں سے یہ سب کہنا فضول ہے۔ آپ لوگوں سے استدلال کرنا بیکار ہے۔ آپ لوگ اپنے آپ کو اس انکسار کا اہل ثابت نہیں کیا جو فتح مندی کے جذبات سے پیدا ہوتا ہے اور جس کی تلقین مذہب کرتا ہے۔ سو آپ اپنا راستہ اختیار کریں۔ میری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں ”۔
قرارداد مقاصد، اسلامی انقلاب اور سیکولر بنگلہ دیش - ہم سب