مسلمانوں کی پناہ یا ریاست کی؟
ذمی مسلمانوں سے معاہدہ کر کے مسلمانوں کی پناہ میں ہوتے ہیں۔ حضرت عثمان رض کی پناہ کو رسول ص نے قبول فرمایا۔
آپکے لیے یہ بات نئی ہو گی اور آپ کو کوئی بتائے گا بھی نہیں لیکن رسول ص کا کوئی معاہدہ کوئی جنگ کوئی پناہ کسی ریاست کی تعمیر کے لیے نہ تھی۔ نہ ہی بدر، نہ ہی میثاق مدینہ و حدیبیہ کسی ریاست کے لیے تھی اور نہ ہی تبوک میں سلطنت روما کے سامنے کھڑا ہونا کسی ریاست کے لیے تھا۔
جناب علی ع کا جمل صفین اور نہرون پر جانا کوفہ کی ریاست کے لیے نہ تھا۔ حسین کا کربلا ریاست کے لیے نہ تھا۔غزوہ خیبر یہودیوں کے قلعے پر قبضے کے لیے نہیں تھی۔ سب کا سب ہدایت کے راستے کو صاف و آسان کرنے کے لیے تھا۔ ہر ہر چیز دماغ کو طہارت کی طرف متوجہ رکھنے کے لیے تھا۔ کافر ناپاکی اور مشرک نجس کو عام کرنا چاہتے تھے جبکہ رسول، انکے اہل بیت ع اصحاب رض ہر ہر عمل طہارت کو عام کرنے کے لیے کرتے۔
موجودہ دور میں جماعت اسلامی و مودودی و اسرار احمد، خمینی اور اخوان المسلمون، طاہر القادری اور دیگر کا نظام مصطفے کا نعرہ سیاست اور کھلا دھوکہ ہے۔ یہ دھوکہ دشمن کے لیے تھا لیکن افسوس اچھے خاصے عقل مند مسلمان بھی اس میں آگئے۔