اختر شیرانی قرار چھِين ليا بے قرار چھوڑ گئے

صائمہ شاہ

محفلین
قرار چھِين ليا بے قرار چھوڑ گئے
بہار لے گئے يادِ بہار چھوڑ گئے

ہماری چشمِ حزيں کا خيال کچھ نہ کيا
وہ عمر بھر کے لئے اشکبار چھوڑ گئے
جسے سمجھتے تھے اپنا وہ اتنی مدّت سے
اسی کو آج وہ بيگانہ وار چھوڑ گئے

رگوں میں اک طبش دردکار جاگ اٹھی
دلوں ميں اک خلشِ انتظار چھوڑ گئے
ہوائے شام سے آنے لگی صدائے فغاں
فضائے شوق کو ماتم گُسار چھوڑ گئے

نشاطِ محفل ليل و نہار لوٹ ليا
نصيب ميں غمِ ليل و نہار چھوڑ گئے
گھٹائيں چھائی ہيں ساون ہے مينہ برستا ہے
وہ کس سمے ميں ہميں اشکبار چھوڑ گئے

دلِ حزيں ہے اب اور عہدِ رفتہ کا ماتم
چمن کے سينے پہ داغِ بہار چھوڑ گئے
چھڑا کے دامنِ اميدِ دل کے ہاتھوں سے
سوادِ ياس ميں ماتم گُسار چھوڑ گئے

نہ آيا رحم ميرے آنسوؤں کی مِنت پر
کيا قبول نہ پھولوں کا ہار چھوڑ گئے
اميد و شوق سے آباد تھا ہمارا دل
اميد و شوق کہاں اک مزار چھوڑ گئے

تمام عمر ہے اب اور فراق کی راتيں
يہ نقشِ گيسوئے مشکيں بہار چھوڑ گئے
ترس رہے ہيں مسرّت کو عشق کے ارماں
ہميں ستم زدہ و سوگوار چھوڑ گئے

اميدِ خستہ، سکوںِ مضطرب، خوشئ بسمل
جہانِ شوق کو آشفتہ کار چھوڑ گئے
نگاہ درد کی غرض حزيں قبول نہ کی
ہميں وہ غمزدہ و دلفگار چھوڑ گئے

کسے خبر ہے کہ اب پھر کبھی مليں نہ مليں
نظر ميں ايک ابدی انتظار چھوڑ گئے
ہماري ياد بُھلا کر وہ چل ديے اختر
اور اپنی ياد، فقط يادگار چھوڑ گئے
 

فرخ منظور

لائبریرین
رخصتِ دائمی​
قرار چھین لیا بے قرار چھوڑ گئے
بہار لے گئے ، یادِ بہار چھوڑ گئے
ہماری چشمِ حزیں کا خیال کچھ نہ کیا
وہ عمر بھر کے لئے اشکبار چھوڑ گئے​
جسے سمجھتے تھے اپنا وہ اتنی مدت سے
اسی کو آج وہ بیگانہ وار چھوڑ گئے
رگوں میں اِک تپش درد کار جاگ اُٹھی
دلوں میں اک خلشِ انتظار چھوڑ گئے​
ہوائے شام سے آنے لگی صدائے فغاں
فضائے شوق کو ماتم گُسار چھوڑ گئے
نشاطِ محفلِ لیل و نہار لُوٹ لیا
نصیب میں غمِ لیل و نہار چھوڑ گئے​
گھٹائیں چھائی ہیں، ساون ہے مینہ برستا ہے
وہ کس سمے میں ہمیں اشکبار چھوڑ گئے
دلِ حزیں ہے اب اور عہدِ رفتہ کا ماتم
چمن کے سینے پہ داغِ بہار چھوڑ گئے​
دلِ حزیں ہے اب اور عہدِ رفتہ کا ماتم
چمن کے سینے پہ داغ بہار چھوڑ گئے
چھڑا کے دامنِ اُمید دل کے ہاتھوں سے
سوادِ یاس میں ماتم گسار چھوڑ گئے​
نہ آیا رحم، مرے آنسوؤں کي منت پر
کیا قبول نہ پھولوں کا ہار چھوڑ گئے
تمام عمر ہے اب اور فراق کی راتیں
یہ نقشِ گیسوئے مشکیں بہار چھوڑ گئے​
اُمید و شوق سے آباد تھا ہمارا دل
اُمید و شوق کہاں اِک مزار چھوڑ گئے
ترس رہے ہیں مسرّت کو عشق کے ارماں
ہمیں ستم زدہ و سوگوار چھوڑ گئے​
اُمید خستہ سُکوں مضطرِب، خوشی بسمل
جہانِ شوق کو آشفتہ کار چھوڑ گئے
نگاہِ درد کی عرضِ حزیں قبول نہ کی
ہمیں وہ غمزدہ و دل فگار چھوڑ گئے​
کسے خبر ہے کہ اب پھر کبھی ملیں نہ ملیں
نظر میں اِک ابدی انتظار چھوڑ گئے
ہماری یاد بھلا کر وہ چل ديئے اخترؔ
اور اپنی یاد ، فقط یادگار چھوڑ گئے​

(اختر ؔشیرانی)​
 
Top