فُرْقَانُ
تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّل الْفُرْقَانَ عَلَی عَبْدِہ
(الفرقان۔۱:۲۵)
وَأَنْزَلَ التوراۃ والانجیل من قبل ھدیً للناس
وأنزل الفرقان
(آل عمران۔۲:۳-۴)
فُرْقَان کسے کہتے ہیں:
جارج سیل ایک مغربی مترجم قرآن ہے اس کے بقول بہت سے عبرانی علماء کی شہادتوں کی بنا پر فرقان عبرانی زبان سے ماخوذ ہے۔ یہود اپنی مذہبی کتاب کے اجزا کو فرقہ اور فرق کہتے تھے، اسی لفظ سے اسلام نے اپنی مذہبی کتاب کے لیے فرقان کا لفظ اخذ کیا ہے۔
لیکن یہ رائے درست نہیں۔ اس لیے کہ خود عربی زبان میں یہ دونوں الفاظ انہی معانی میں مستعمل ہیں، خود قرآن کریم میں یہ دونوں الفاظ ان ہی معنوں میں آئے ہیں ملاحظہ فرمائیں: توبہ۔آیت:۱۲۲ اور شعرا۔آیت:۶۳۔
اب یہ تو ممکن ہے کہ عبرانی میں یہ الفاظ عربی سے اخذ کیے گئے ہوں۔
بعض علماء اسلام کہتے ہیں کہ فرقان کے معنی حصہ اور تقسیم کرنے کے ہیں، چونکہ قرآن منزل، پاروں، سورہ، رکوع اور آیت میں منقسم ہے اس لیے اس کو فرقان کہتے ہیں، لیکن یہ معنی زیادہ مناسب نہیں۔
اب اس لفظ کے اصل معنی تلاش کرنے کے لیے ہم قرآن ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
چنانچہ مرسلات۔۷۷ میں فارق کے معنی فیصلہ کن کے آئے ہیں۔
انفال ۴۱ میں جنگ بدر کو 'یوم الفرقان' سے تعبیر کیا ہے، کیونکہ اس جنگ میں کفرواسلام اور حق وباطل کا فیصلہ ہوا تھا۔ چنانچہ یہاں بھی فیصلہ کن کے معنی میں ہی ہے۔
نیز اور بھی دیگر آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فرقان کے معنی فیصلہ کرنے یا فیصل کے ہیں۔
اب ایک بات مزید یہ کہ پورے قرآن میں فرقان صرف توراۃ اور قرآن کو کہا گیا، ان کے علاوہ دیگر انبیاء کی کتب کے لیے نہیں استعمال ہوا۔ ایسا اس لیے ہے کہ قرآن اور توراۃ کے سوا عموماً دوسری کتابیں اخلاقی اور روحانی احکام پر مشتمل ہیں، جبکہ قرآن اور توراۃ میں قانون بیان ہوا ہے، اور حق وباطل میں امتیاز قانون کا فرض ہوتا ہے۔ لیکن ان دونوں کتابوں میں اخلاقی احکام بھی بیان ہوئے ہیں اس لیے فرقان کے ساتھ ان کتابوں کو ہدی اور ضیاء بھی فرمایا گیا۔ ملاحظہ فرمائیں انبیاء۔۸۳ اور بقرہ۔۱۵۸۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیں الندوہ اگست ۱۹۱۱۔