قران و سنت کے سایے میں ::: اللہ کی رحمت کی کیفیت اور وسعت کا کچھ اندازہ


:::::: قران و سنت کے سایے میں ::: اللہ کی رحمت کی کیفیت اور وسعت کا کچھ اندازہ :::::::​
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ و الصلاۃ و السلام علیٰ رسول اللہ الذی لم ینطق عن الھویٰ ، ان ھُوَ اِلا وحی یوحی ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے اپنا یہ پیغام ادا کروایا :::
(((((( قُل لِمَن مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرضِ قُل لِلَّهِ كَتَبَ عَلَى نَفسِهِ الرَّحمَةَ لَيَجمَعَنَّكُم إِلَى يَومِ القِيَامَةِ لا رَيبَ فِيهِ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُم فَهُم لا يُؤمِنُونَ ::: ( اے محمد ) فرمایے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ کس کی ملکیت ہے (اور جواباً خود ہی یہ بھی ) فرما دیجیے کہ اللہ کی ہے ،(لیکن ہر ایک چیز کا مالک ہونے کے باوجود) اللہ نے اپنے آپ پر رحمت فرض کر رکھی ہے اس میں کوئی شک نہیں (کہ) اللہ ضرور تُم سب کو قیامت والے دِن کی طرف اکٹھا فرمائے گا (لیکن) جنہوں نے اپنی جانوں کا نقصان کر لیا ہے وہ ایمان لانے والے نہیں))))) سورت الأنعام/آیت 12،
پس اللہ سبحانہُ و تعالیٰ بغیر کسی شک و شبہے کے ، بغیر کسی شریک اور بغیر کسی تنازعہ کے ہر ایک چیز کا اکیلا مالک ہے ، لیکن اس کے باوجود یہ اللہ کا اپنی مخلوق پر کرم ہے ، مہربانی ہے ، کہ اس نے اپنے آپ پر رحمت فرض کر لی ، اور خود اپنی ہی مشیئت اور ارداے سے کر لی ، کسی کے کہنے سننے پر نہیں ، اور نہ ہی کسی اور نے اُس پر یہ فرض کیا نہ ہی کوئی ایسا تھا جو اللہ پر کچھ فرض کر سکتا اور ہی کوئی ایسا ہے اور نہ ہی کبھی بھی کوئی ایسا ہو سکتا ہے ، یہ سب اللہ کی عظیم تر بزرگی والی لا شریک ربوبیت ہے اور اس کا اپنی مخلوق پر رحم و شفقت ہے کہ اس نے اپنی مخلوق کے ساتھ اپنے رویے کے لیے یہ قانون بنا لیا کہ وہ اُس کے ساتھ رحم والا معاملہ ہی فرمائے گا ، دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ،
::::::: لہذا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی اصل بنیاد ہے ، بنیادی قانون ہے جس کے مطابق وہ اپنی مخلوق کے معاملات نمٹاتا ہے ، حتیٰ کہ جب وہ اپنی مخلوق میں سے کسی کو کسی مُصیبت ، کسی پریشانی ، کسی غم ، کسی بیماری وغیرہ میں مبتلا کرتا ہے تو وہ بھی اس کی رحمت ہی ہوتی ہے ،
وہ یوں کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کچھ ایسے لوگ تیار کرتا ہے جو اُس کی طرف سے دیے گئے امتحانات میں پورے اُتر کر اس کی امانت کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہوتے ہیں اور یوں اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو دُنیا اور آخرت کی عزت اور بلندی عطاء فرماتا ہے ،
::::::: اِس معاملے کو دوسرے پہلووں سے دیکھیے تو اللہ کی رحمت کے مزید جلوے دکھائی دیتے ہیں کہ ،
::::::: اللہ اپنی مخلوق میں سے جب کسی کو کسی طور آزماتا ہے تو اس میں ایک حِکمت یہ بھی ہوتی ہے کہ مخلوق کی صفوں میں اچھے اور برے کی تمیز ہو جائے ، تابع فرمان اور نا فرمان الگ الگ نظر آ جائیں ، ہدایت یافتہ اور گمراہ کی پہچان ہو جائے
::::::: اور اس طرح اللہ تعالیٰ یہ ظاہر فرماتا ہے کہ کون اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی و آلہ وسلم کی تابع فرمانی کرتا ہے اور کون بہانے بازیاں کرتے ہوئے نافرمانی کی راہ کی طرف پلٹ جاتا ہے ،
::::::: اور اس طرح اللہ تعالیٰ ان کو ھلاک کرتا ہے جو اللہ کی واضح نشانیوں اور احکام سے رو گردانی کرتے ہیں اور ان کو بچاتا ہے جو اللہ کی واضح نشانیاں اور احکام کے پابند رہتے ہیں ،
::::::: اللہ کی رحمت ازل سے ہے اور ابد تک رہنے والی ہے ، اس کا مشاھدہ ہمیں صدیوں سے ہر ایک نسل کے ہر ایک عمر کے لوگوں میں ہوتا ہے ، پس کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں ہوتا جس میں اللہ کی رحمت اللہ کے بندوں میں میسر نہ ہوتی ہو ،
ہم نے یہاں اللہ کی طرف سے دکھ تکلیف وغیرہ میں اس کی رحمت کا ذکر اس لیے کیا کہ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں اکثر لوگ دھوکے کا شکار ہو جاتے ہیں ، شیطانوں کے وساوس میں پھنس جاتے ہیں ، اور اس طرح کہ لوگوں کا ظاہر و باطن دل و آنکھیں سب ہی دھوکے اور وساوس کا شکار ہو جاتے ہیں ،
:::::::لہذا ہمیں اللہ کی رحمت کی موجودگی کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے اور کسی دھوکے یا وسوسے کا شکار ہونے کے بجائے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کی ہر وقت میسر رہنے والی رحمت میں سے کوئی ایک رحمت بھرا لمحہ ایسا بھی ہوتا ہے ، جو ایمان والے دِل کے لیے اللہ کی خاص رحمتوں کے دروازے کھولنے والا ہوتا ہے ، پس جس کسی کو یہ خاص رحمت میسر ہو جائے تو وہ اللہ کو پہچان جاتا ہے ، اللہ سے اس کا تعلق قائم ہو جاتا ہے وہ تعلق جو اللہ کو مطلوب اور محبوب ہے ، اور وہ دِل اور صاحبءِ دِل اللہ کے بارے میں ، اللہ کی طرف اور اللہ سے مکمل ترین طور پر مطمئن ہو جاتے ہیں ،
اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت کی وسعت کو سمجھنا اور پھر اس کی کیفیت کو کوئی انسان محسوس تو کر سکتا ہے لیکن اسے بیان کرنا کسی انسان کے بس کا کام ہی نہیں ، کیونکہ وہ سب کچھ کسی انسان کے بیان میں آ ہی نہیں سکتا ،
اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں انسانوں کے خالق کی وحی کا ذریعہ ہی اپنانا ہو گا کیونکہ وہ اپنی مخلوق کے بارے میں خود مخلوق سے زیادہ جانتا ہے
((((( ألا یَعلمُ مَن خَلق و ھُوَ اللَطِیفُ الخَبِیر ::: کیا وہ نہیں جانتا جس نے تخلیق فرمایا اور وہ ہلکا (یعنی بہت باریکی سے اندر تک کی ) خوب خبر رکھنے والا ہے ))))) سورت المُلک / آیت 14،
اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمان میں جس سے ہم نے اپنی بات کا آغاز کیا ، اس فرمان میں یہ بتایا کہ اس نے اپنے آپ پر رحمت کو فرض کر لیا ہے ، اور پھر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر وحی فرما کر اُن کی زبان مبارک سے ہمیں اس کی خبر دِلوائی ، جی وحی کے ذریعے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اللہ کی طرف سے کی گئی وحی کے مطابق بات فرماتے تھے اپنی طرف سے کچھ نہ فرماتے تھے ، اس کی گواہی خود اللہ تعالیٰ نے دی اور فرمایا ((((( و ما یَنطقُ عَن الھَوایٰ o اِن ھُوَ اِلّا وحیٌ یُوحیٰ ::: اور (محمد ) اپنی طرف سے بات نہیں کرتے o ان کی بات تو صرف وحی ہے جو (ان کی طرف) کی جاتی ہے ))))) سورت النجم /آیات 3 ، 4 ،
وحی کے مطابق کلام فرمانے والے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں اللہ کی رحمت کی وسعت اور کیفیت کے بارے میں کیا سمجھایا ملاحظہ فرمایے :::
خلیفہ دوئم بلا فصل أمیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ """ ایک دفعہ کچھ قیدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سامنے لائے گئے تو ان میں ایک ایسی عورت بھی تھی ( جو اپنے بچے کو دودھ پلانے کے لیے بے تاب تھی اور اس کی حالت کچھ ایسی تھی کہ جیسے ) اس کی چھاتیوں سے دودھ نکل ہی جانے والا تھا اور وہ قیدیوں میں (اپنا) بچہ ڈھونڈھ رہی تھی جو اسے مل گیا تو اس نے فوراً اس کو پکڑ کر اپنے پیٹ کے ساتھ چمٹا لیا اور اسے دودھ پلانے لگی ( یہ منظر دیکھ کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہم سے فرمایا ((((( أَتُرَونَ هَذهِ طَارِحَةً وَلَدَهَا في النَّارِ ::: کیا تُم لوگ یہ خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟ ))))) ہم سب نے عرض کیا """ لَا وَهِيَ تَقدِرُ على أَن لَا تَطرَحَهُ ::: جی نہیں باوجود اس کے کہ یہ عورت ایسا کرنے کی طاقت رکھتی ہے ( یہ عورت ایسا نہیں کرے گی ) """ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((((( لَلَّهُ أَرحَمُ بِعِبَادِهِ من هذه بِوَلَدِهَا ::: یہ عورت اپنے بچے پر جس قدر رحم کرتی ہے اللہ تو اپنے بندوں کے ساتھ اس سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ))))) متفقٌ علیہ ، صحیح البخاری /حدیث5653 /کتاب الادب / باب18 ، صحیح مُسلم /حدیث2754 /کتاب التوبہ /باب 4 ،
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((((( جَعَلَ الله الرَّحمَةَ مِائَةَ جُزءٍ فَأَمسَكَ عِندَهُ تِسعَةً وَتِسعِينَ وَأَنزَلَ في الأرض جُزءًا وَاحِدًا فَمِن ذلك الجُزءِ تَتَرَاحَمُ الخَلَائِقُ حتى تَرفَعَ الفُرسُ حَافِرَهَا عن وَلَدِهَا خَشيَةَ أَن تُصِيبَهُ ::: اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے بنائے اور ان میں سے ننانوے حصے اپنے پاس روک لیے اور زمین میں ایک حصہ نازل فرمایا پس اسی ایک حصے میں سے تمام تر مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے یہاں تک ایک گھوڑی اپنے ناخن تک اپنے بچے سے دور رکھتی ہے کہ کہیں وہ ناخن اس بچے کو تکلیف نہ دیں ))))) متفقٌ علیہ، صحیح البخاری /حدیث 5654 /کتاب الادب /باب19،صحیح مُسلم/ حدیث2752 /کتاب التوبہ /باب 4 ،(مذکورہ بالا الفاظ صحیح البخاری کی روایت کے ہیں ، صحیح مُسلم کی روایت میں " الفرس " کی جگہ " الدابۃ " ہے )
ان دو مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو سمجھنے کے لیے اللہ کی مخلوق میں سے اس ہستی کی رحمت کا ذکر ہے جسے بلا نزاع دنیا کی ہر قوم سب سے زیادہ رحیم مانتی ہے حتیٰ کہ جانوروں میں بھی اور وہ ہستی ہے """ ماں """ ،
ماں کی اپنی اولاد کے لیے رحمت کی مثال دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ سمجھایا ہے ماں کی رحمت اللہ ارحم الراحمین کی رحمت کے سامنے ایک فیصد بھی نہیں کیونکہ اللہ نے اپنی رحمت میں سے ننانوے حصے اپنے پاس رکھے ہیں اور صرف ایک حصہ اپنی تمام تر مخلوق میں بانٹا ہے ، اور اللہ کی مخلوق میں اربوں کھربوں مائیں ہیں ، اس حساب کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ کی رحمت کی وسعت کا اندازہ کرنا بھی انسانی عقل کی حدود سے خارج ہے ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ کی طرف سے وحی ہونے پر ہی اللہ کی رحمت کی وسعت کا یہ مذکورہ بالا بیان فرمایا ، مزید یہ خوشخبری بھی دی کہ ((((( لَمَّا خَلَقَ الله الخَلقَ كَتَبَ في كِتَابِهِ وهو يَكتُبُ على نَفسِهِ وهو وَضعٌ عِندَهُ على العَرشِ إِنَّ رَحمَتِي تَغلِبُ غَضَبِي ::: جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق تخلیق فرمائی تو اپنی کتاب میں لکھا اور وہ اپنے آپ پر لکھا رہا تھا کہ میری رحمت میرے غصے پر غالب رہے گی اور وہ کتاب اللہ کے پاس عرش کے اوپر رکھی ہے ))))) متفقٌ علیہ ، صحیح البخاری/حدیث6969 /کتاب التوحید/باب 15 ، صحیح مُسلم/حدیث2751 /کتاب / باب4 ،
یہ حدیث مبارک ہمارے رواں موضوع کے علاوہ اس بات کے ڈھیروں دلائل میں سے ایک ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود نہیں بلکہ اپنےعرش کے اوپر ہے ،
ان مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں ہمیں اللہ کی رحمت کی وسعت اور اللہ کے غصے پر اللہ کی رحمت کے غالب ہونے کی خوشخبریاں دی گئی ہیں ، بس اس رحمت کو حاصل کرنے کے لیے ہمارا کام صرف اتنا سا ہے کہ ہم اللہ کی ناراضگی والے ہر کام سے بچتے رہیں اور اللہ کی رحمت کو پہچانیں اور اس کو حاصل کرنے کے ہر موقعے سے بھر پور فائدہ اٹھائیں ((((( رَحمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ المُحسِنِين ::: اللہ کی رحمت احسان والوں کے قریب ہے ))))) سورت الاعراف /آیت 56 ،
اور اس کی رحمت سے ہر گز مایوس نہ ہوں ،
((((( وَمَن يَقنَطُ مِن رَّحمَةِ رَبِّهِ إِلاَّ الضَّآلُّونَ ::: اور اللہ کی رحمت سے سوائے گمراہ لوگوں کے کوئی اور مایوس نہیں ہوتا ))))) سورت الحَجر / آیت 56 ،
اور اللہ کی رحمت کے حصول کی کوشش میں اُس کی اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تابع فرمانی پر قائم رہیں نہ کہ یہ سوچ کرکہ """ اللہ تو غفور و رحیم ہے """ اللہ کی اور اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نافرمانی والے کام کریں ،
جس طرح اللہ کی رحمت حاصل ہونے کا یقین ہونا لازم ہے اسی طرح اس کی طرف سے گرفت ہونے اور عذاب مل سکنے کا خوف ہونا بھی لازم ہے ،
ایمان کی صفات میں ، ایمان والوں کے صفات میں ان دونوں کیفیات ساتھ ساتھ ہونا ایمان کی درستگی اور تکمیل کا جز ہیں ،

اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے ((((( إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ::: بے شک آپ کا رب بہت ہی تیزی سے سزا دینے والا ہے اور بے شک وہ مغفرت اور رحم کرنے والا ہے ))))) سورت الأعراف / آیت 167 ،
غور فرمایے ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مغفرت اور رحمت کی خوش خبری سنانے سے پہلے اپنے عذاب کی خبر دی ہے ، کہ اس کی مغفرت اور رحمت کی خبروں پر ہی مگن نہ رہا جائے اس کے عذاب کی خبروں پر ہوشیار بھی رہا جائے ،
اور فرمایا ((((( وَالَّذِينَ هُم مِّن عَذَابِ رَبِّهِم مُّشفِقُونَ ::: اور (ایمان والے وہ ہیں ) جو اُن کے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں {27} إِنَّ عَذَابَ رَبِّهِم غَيرُ مَأمُونٍ ::: بے شک اُن کے رب کے عذاب سے محفوظ رہنے کا معاملہ یقینی نہیں {28} ))))) سورت المعارج ،
اس معاملے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بھی اپنی قران بیان کرنے کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ، اللہ کی وحی کے مطابق مختلف مواقع پر مختلف انداز و الفاظ میں واضح فرمایا ، یہاں میں صرف ایک حدیث مبارک نقل کرتا ہوں ، جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنت مبارکہ پر ایمان رکھنے والوں کے لیے کافی ہے ،
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ ((((( إنَّ الله خَلَقَ الرَّحْمَةَ يَوْمَ خَلَقَها مِائَةَ رَحْمَةٍ فأمْسَكَ عِنْدَهُ تِسْعاً وتِسْعِينَ رَحْمَةً وأرْسَلَ في خَلْقِهِ كُلِّهِمْ رَحْمَةً واحِدَةً فَلَوْ يَعْلَمُ الكافِرُ بِكُلِّ الّذِي عِنْدَ الله مِنَ الرَّحْمَةِ لَمْ يَيْأسْ مِنَ الجَنَّةِ ولَوْ يَعْلَمُ المُؤْمِنُ بِكُلِّ الَّذِي عِنَدَ الله مِنَ العَذَابِ لَمْ يَأْمَنْ مِنَ النَّارِ ::: اللہ نے جس دِن رحمت تخلیق فرمائی تو ایک سو رحمت تخلیق فرمائی اور اپنے پاس ننانوے رحمت روک لِیں اور ایک (رحمت) اپنی تمام تر مخلوق میں بھیجی پس اللہ کے پاس جو رحمت ہے اگر کافر وہ ساری کی ساری رحمت جان لے تو کبھی اللہ کی جنّت (کے حصول) سے مایوس نہ ہو اور اللہ کے پاس کتنا عذاب ہے اگر ایمان والا وہ سارے کا سارا عذاب جان لے تو جان لے تو کبھی اللہ کی جہنم سے خود کو محفوط نہ سمجھے ))))) صحیح البُخاری /حدیث 6104 / کتاب الرقاق / باب 19 ،
پس اللہ کی رحمت کی وسعت کے ساتھ ساتھ اس کے عذاب کو بھی یاد رکھنا چاہیے تا کہ خوش فہمی کی لڑکھڑاہٹ میں ہمارے قدم کہیں اللہ کے عذاب والی راہوں پر گامزن نہ ہوں ،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو محسنین میں سے بنائے اور ہر گمراہی سے محفوظ رکھے ۔

آخر میں یہ گذارش کرنا چاہتا ہوں اگر کسی کو کوئی علمی اعتراض ہو تو کسی علمی حجت کے ساتھ اس کا اظہار کرے ، خود ساختہ فلسفوں اور لا علمی کی بنا پر موضوع کو خراب نہ کرے ۔
و السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ۔
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
اللہ تعالیٰ آپ کو بھی بہترین اجر سے نوازے فرخ بھائی ، پسندیدگی پر شکریہ ، و السلام علیکم۔
 
عادل صاحب ۔ سلام علیکم،

اللہ تعالی آپ کو اس محنت کا اجر عطا فرمائیں۔
ان احادیث نبوی میں موجود اس نظریہ کی توثیق اللہ تعالی خود اپنے الفاظ میں اس طرح فرماتے ہیں۔

[ayah]7:156[/ayah] [arabic]وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَ۔ذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَ۔ا إِلَيْكَ قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَ۔اةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ[/arabic]

اور لکھدے ہمارے لیے اس دُنیا میں بھی، بھلائی اور آخرت میں بھی۔ بے شک ہم نے رجوع کیا تیری طرف۔ ارشاد ہُوا: مَیں سزا دیتا ہُوں جس کو چاہوں لیکن میری رحمت چھائی ہے ہرچیزپر۔ سو اُسے میں لکھّے دیتا ہُوں اُن لوگوں کے لیے جو ڈرتے رہیں گے اور ادا کریں گے ذکوٰۃ ان لوگوں کے لیے جو میری آیات پر ایمان لائیں گے۔

والسلام
 
سوال یہ ہے کہ یقیناّ آیت کی رُو سے "اللہ کی رحمت ہر شئے پر چھائی ہوئی ہے" یر شئے پر اسکی رحمت محیط ہے۔
شیطان بھی ایک شئے ہے۔
رحمت شیطان پر بھی محیط ہوئی۔ ۔ ۔اس بات کو آپ کس تناظر میں دیکھیں گے؟:)
 
سوال یہ ہے کہ یقیناّ آیت کی رُو سے "اللہ کی رحمت ہر شئے پر چھائی ہوئی ہے" یر شئے پر اسکی رحمت محیط ہے۔
شیطان بھی ایک شئے ہے۔
رحمت شیطان پر بھی محیط ہوئی۔ ۔ ۔اس بات کو آپ کس تناظر میں دیکھیں گے؟:)
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ خیرا ، آپ نے صرف ایک ہی چیز کا نام لیا ہے ،
غزنوی بھائی ، آپ بھی فاروق سرور صاحب کی """ خلاف قران """ قران فہمی کو پہچاننے والوں میں ہیں ، ماشاء اللہ تبارک اللہ ،
فاروق صاحب سرچ انجنز میں ایک لفظ ڈال کر آیات نکالتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ اُن کی """ قران فہمی """ کے راز ان کے ہی ہاتھوں کھلواتا ہے ، و لہ الحمد و المنۃ، و السلام علیکم۔
 
کیا بات ہے، فاروق صاحب --- غلطی سے قرآن حکیم پڑھ لیتے ہیں۔ یہ ان کی بہت ہی بڑی غلطی ہے۔ کبھی سرچ انجن سے پڑھتے ہیں۔ کبھی کمپیوٹر پر پڑھتے ہیں۔ کبھی اس کی ڈیٹا بیس بناتے ہیں۔ کبھی الفاظ کے معانی ڈکشنری سے دیکھ کر لکھتے ہیں۔ کبھی تصریف کی کتب سے استفادہ کرتے ہیں ۔ کبھی لین لیکسی کان دیکھتے ہیں اور کبھی دوسروں‌کے کئے ہوئے تراجم۔۔۔۔
صاحب ایک طالب علم اور کیا کرے گا قرآن حکیم کو پڑھنے کے لئے؟

معاف کیجئے گا کہ ذاتی عناد کی بو آتی ہے۔
 
سوال یہ ہے کہ یقیناّ آیت کی رُو سے "اللہ کی رحمت ہر شئے پر چھائی ہوئی ہے" یر شئے پر اسکی رحمت محیط ہے۔
شیطان بھی ایک شئے ہے۔
رحمت شیطان پر بھی محیط ہوئی۔ ۔ ۔اس بات کو آپ کس تناظر میں دیکھیں گے؟:)

بہت شکریہ اور سلام۔ جواب کے لئے سرخ‌ حصہ دیکھئے :)

اور لکھدے ہمارے لیے اس دُنیا میں بھی، بھلائی اور آخرت میں بھی۔ بے شک ہم نے رجوع کیا تیری طرف۔ ارشاد ہُوا: مَیں سزا دیتا ہُوں جس کو چاہوں لیکن میری رحمت چھائی ہے ہرچیزپر۔ سو اُسے میں لکھّے دیتا ہُوں اُن لوگوں کے لیے جو ڈرتے رہیں گے اور ادا کریں گے ذکوٰۃ ان لوگوں کے لیے جو میری آیات پر ایمان لائیں گے۔


والسلام
 
سوال تو پھر بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ اگر شیطان ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنمی ہے اور اسی طرح کفار و مشرکین بھی تو بظاہر تو اس سے یہ مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ اسکی رحمت شیطان اور کفار و مشرکین کو چھوڑ کر باقی سب اشیاء کو محیط ہے لیکن شیطان، کفار و مشرکین کے حق میں اسکا غضب اسکی رحمت سے بڑھ گیا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟یہ اشکال کیسے رفع ہو؟:)
 
اللہ تعالی شیطان پر غضب ناک ضرور ہیں لیکن قیامت تک شیطان کو چھوٹ، قیامت تک کیا ہے؟
السلام علی مَن یتبع الھُدیٰ ،
(((((
قَالَ فَٱخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ * وَإِنَّ عَلَيْكَ ٱللَّعْنَةَ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلدينِ * قَالَ رَب فَأَنظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ * قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ ٱلْمُنظَرِينَ * إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْوَقْتِ ٱلْمَعْلُومِ * قَالَ رَب بِمَآ أَغْوَيْتَنِي لأُزَينَنَّ لَهُمْ فِي ٱلأَرْضِ وَلأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ * إِلاَّ عِبَادَكَ مِنْهُمُ ٱلْمُخْلَصِينَ * قَالَ هَذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ * إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلاَّ مَنِ ٱتَّبَعَكَ مِنَ ٱلْغَاوِينَ * وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ * لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ لِكُل بَابٍ منْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُومٌ ))))) سورت الحجر ،
ترجمہ فرما دیجیے ، پیشگی شکریہ بھی قبول فرمایے و السلام علی مَن یتبع الھدیٰ ۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
سوال یہ ہے کہ یقیناّ آیت کی رُو سے "اللہ کی رحمت ہر شئے پر چھائی ہوئی ہے" یر شئے پر اسکی رحمت محیط ہے۔
شیطان بھی ایک شئے ہے۔
رحمت شیطان پر بھی محیط ہوئی۔ ۔ ۔اس بات کو آپ کس تناظر میں دیکھیں گے؟:)

میرا تو خیال ہے‌ ابلیس نے جو اللہ سبحان و تعالیٰ سے مانگا وہ اسے مل گیا اور چونکہ یہی اس کی خواہش اور چاہت تھی تو‌اس کےحق میں‌‌ رحمت کا تقآضا بھی یہی تھا کہ اس کی چاہت پوری کی جائے اور اللہ سبحان و تعالیٰ‌‌ نے اس کی مراد پوری کر دی۔

قَالَ اَنۡظِرۡنِیۡۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ
بولا کہ مجھے مہلت دے اس دن تک کہ لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں
قَالَ اِنَّکَ مِنَ الۡمُنۡظَرِیۡنَ
فرمایا تجھ کو مہلت دی گئ

سورۃ اعراف ایت 14، 15

قَالَ اَرَءَیۡتَکَ ہٰذَا الَّذِیۡ کَرَّمۡتَ عَلَیَّ ۫ لَئِنۡ اَخَّرۡتَنِ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ لَاَحۡتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہ اِلَّا قَلِیۡلًا
اور ازراہ طنز کہنے لگا کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے اگر تو مجھ کو قیامت کے دن تک کی مہلت دے تو میں تھوڑے سے شخصوں کے سوا اسکی تمام اولاد کی جڑ کاٹتا رہوں گا۔

سورۃ بنی اسرائیل آیت 62

اور دوسری طرف جنہوں حضرت آدم و حوا علیہ السلام نے جو مانگا وہ انہیں‌ مل‌ گیا۔

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا وَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ
بولے وہ دونوں اے رب ہمارے ظلم کیا ہم نے اپنی جان پر اور اگر تو ہم کو نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور ہو جائیں گے تباہ
سورۃ اعراف آیت 23

اگر ابلیس کی مانگ پوری کی گئی تو دوسری طرف حضرت انسان کے لیے اللہ نے اپنی بے پایاں رحمت کا اعلان کیا۔

قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا اِنَّہ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ
کہہ دے اے بندو میرے جنہوں نے کہ زیادتی کہ ہے اپنی جان پر آس مت توڑو اللہ کی مہربانی سے بیشک اللہ بخشتا ہے سب گناہ وہ جو ہے وہی ہے گناہ معاف کرنے والا مہربان

وَ اَنِیۡبُوۡۤا اِلٰی رَبِّکُمۡ وَ اَسۡلِمُوۡا لَہ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمُ الۡعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنۡصَرُوۡنَ
اور رجوع ہو جاؤ اپنے رب کی طرف اور اسکی حکمبرداری کرو پہلے اس سے کہ آئے تم پر عذاب پھر کوئی تمہاری مدد کو نہ آئے گا

سورۃ زمر آیت 53،54

تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ لکھتے ہیں۔

اللہ کی بے پایاں رحمت کا اعلان:

یہ آیت ارحم الراحمین کی رحمت بے پایاں اور عفو و درگذر کی شان عظیم کا اعلان کرتی ہے اور سخت سے سخت مایوس العلاج مریضوں کے حق میں اکسیر شفا کا حکم رکھتی ہے۔ مشرک، ملحد، زندیق، مرتد، یہودی، نصرانی، مجوسی، بدعتی، بدمعاش، فاسق، فاجر کوئی ہو آیت ہذا کو سننے کے بعد خدا کی رحمت سے بالکلیہ مایوس ہو جانے اور آس توڑ کر بیٹھ جانے کی اس کے لئے کوئی وجہ نہیں۔ کیونکہ اللہ جس کے چاہے سب گناہ معاف کر سکتا ہے کوئی اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا۔ پھر بندہ ناامید کیوں ہو ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کے دوسرے اعلانات میں تصریح کر دی گئ کہ کفر و شرک کا جرم بدون توبہ کے معاف نہیں کرے گا۔ لہذا اِنَّ اللہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِیْعًا کو لِمَنْ یشاُء کے ساتھ مقید سمجھنا ضروری ہے کما قال تعالیٰ اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُمَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ (نساء رکوع۱۸) اس تقلید سے یہ لازم نہیں آتا کہ بدون توبہ کے اللہ تعالیٰ کوئی چھوٹا بڑا قصور معاف ہی نہ کر سکے اور نہ یہ مطلب ہوا کہ کسی جرم کے لئے توبہ کی ضرورت ہی نہیں بدون توبہ کے سب گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ قید صرف مشیت کی ہے اور مشیت کے متعلق دوسری آیات میں بتلا دیا گیا کہ وہ کفر و شرک سے بدون توبہ کے متعلق نہ ہو گی۔ چنانچہ آیہ ہذا کی شان نزول بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ جیسا کہ اگلی آیت کے فائدے سے معلوم ہو گا۔

مغفرت کی امید دلا کر یہاں سے توبہ کی طرف متوجہ فرمایا۔ یعنی گذشتہ غلطیوں پر نادم ہو کر اللہ کے بے پایاں جودوکرم سے شرما کر کفر و عصیان کی راہ چھوڑو، اور اس رب کریم کی طرف رجوع ہو کر اپنے کو بالکلیہ اسی کے سپرد کر دو۔ اس کے احکام کے سامنے نہایت عجز و اخلاص کے ساتھ گردن ڈالدو۔ اور خوب سمجھ لو کہ حقیقت میں نجات محض اسکے فضل سے ممکن ہے۔ ہمارا رجوع و انابت بھی بدون اس کے فضل و کرم کے میسر نہیں ہو سکتا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کیا۔ جو کفار دشمنی میں لگے رہے تھے سمجھے کہ لاریب اس طرف اللہ ہے۔ یہ سمجھ کر اپنی غلطیوں پر پچتائے لیکن شرمندگی سے مسلمان نہ ہوئے کہ اب ہماری مسلمانی کیا قبول ہو گی۔ دشمنی کی، لڑائیاں لڑے اور کتنے خدا پرستوں کے خون کئے تب اللہ نے یہ فرمایا کہ ایسا گناہ کوئی نہیں جس کی توبہ اللہ قبول نہ کرے، ناامید مت ہو، توبہ کرو اور رجوع ہو، بخشے جاؤ گے مگر جب سر پر عذاب آیا یا موت نظر آنے لگی اس وقت کی توبہ قبول نہیں۔ نہ اس وقت کوئی مدد کو پہنچ سکتا ہے۔
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
خوش آمدید بھائی شوکت کریم صاحب ،
آپ نے سورت الاعراف کی دو آیات پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کی خواہش کو جو پورا کیا تو وہ اللہ کی رحمت تھی ،
بھائی دو باتوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں ،
پہلی بات یہ کہ اللہ کی رحمت کسی ایک کی خواہش پوری کرتے ہوئے ہزاروں لاکھوں بلکہ کڑوڑوں اربوں لوگوں کا نقصان کرنے والی نہیں ، یہ تو اللہ کے عدل و انصاف پر نقص لگانے والی بات ہے ،
دوسری بات یہ کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ ایک واقعہ میں سے ایک جز پیش کر دیا، اور اس جز سے آپ نے کچھ سمجھا اور جو کچھ سمجھانے کی کوشش کی ہے ، میرے محترم بھائی وہ پورا واقعہ اس کا خلاف ہے ،
اللہ تعالیٰ نے یہ واقعہ سورت الاعراف میں ، جس میں سے آپ نے صرف دو آیات پیش کی ہیں ، اس طرح بیان فرمایا گیا ہے :::

((((( وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلاۤئِكَةِ ٱسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُوۤاْ إِلاَّ إِبْلِيسَ لَمْ يَكُنْ مِّنَ ٱلسَّاجِدِينَ o قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلاَّ تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ قَالَ أَنَاْ خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ o قَالَ فَٱهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَٱخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ ٱلصَّاغِرِينَ o قَالَ أَنظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ o قَالَ إِنَّكَ مِنَ المُنظَرِينَ o قَالَ فَبِمَآ أَغْوَيْتَنِي لأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ ٱلْمُسْتَقِيمَ o ثُمَّ لآتِيَنَّهُمْ من بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَآئِلِهِمْ وَلاَ تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ o قَالَ ٱخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُوماً مَّدْحُوراً لَّمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ لأَمْلأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكُمْ أَجْمَعِينَ o )))))
بھائی شوکت کریم سورت الاعراف میں بیان کردہ واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے کچھ اور سورتوں میں بھی کچھ اور الفاظ میں بیان فرمایا ہے ،
دیکھیے سورت الحجر میں :::

((((( قَالَ فَٱخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ o وَإِنَّ عَلَيْكَ ٱللَّعْنَةَ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلدينِ o قَالَ رَب فَأَنظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ o قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ ٱلْمُنظَرِينَ o إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْوَقْتِ ٱلْمَعْلُومِ o قَالَ رَب بِمَآ أَغْوَيْتَنِي لأُزَينَنَّ لَهُمْ فِي ٱلأَرْضِ وَلأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ o إِلاَّ عِبَادَكَ مِنْهُمُ ٱلْمُخْلَصِينَ o قَالَ هَذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ o إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلاَّ مَنِ ٱتَّبَعَكَ مِنَ ٱلْغَاوِينَ o وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ o ))))) آیات ۳۴ یا ۴۳ ،
سورت ص میں فرمایا ((((( قَالَ فَٱخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ * وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِيۤ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلدينِ o قَالَ رَب فَأَنظِرْنِيۤ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ o قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ ٱلْمُنظَرِينَ o إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْوَقْتِ ٱلْمَعْلُومِ o قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ o إِلاَّ عِبَادَكَ مِنْهُمُ ٱلْمُخْلَصِينَ o قَالَ فَٱلْحَقُّ وَٱلْحَقَّ أَقُولُ o لأَمْلأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكَ وَمِمَّن تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ o ))))) آیات ۷۷ تا ۸۵ ،
اس کے علاوہ آپ نے سورت الاسراء (بنی اسرائیل) میں سے بھی اسی طرح اس واقعہ کے بیان میں سے ایک جز پیش کیا ، جبکہ وہاں بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے بڑی وضاحت سے یہ فرمایا ہے ((((( وَ إِذْ قُلْنَا لِلْمَلاۤئِكَةِ ٱسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إَلاَّ إِبْلِيسَ قَالَ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِيناً o قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَ۔ٰذَا ٱلَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَامَةِ لأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إَلاَّ قَلِيلاً o قَالَ ٱذْهَبْ فَمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَآؤُكُمْ جَزَاءً مَّوْفُوراً ))))) آیات ۶۱ تا ۶۳ ،
بھائی شوکت کریم ، اس اللہ تعالیٰ اور شیطان کے درمیان ہونے والی گفتگو جو اللہ کےالفاظ مبارک میں ہی میں نے اوپر ذکر کی ہے ، اس کا ترجمہ تو کر دیجیے ، اور خاص طور پر سرخ رنگ میں لکھے ہوئی عبارات کا ، اور پھر ہمیں سمجھایے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ایسی باتیں کہی ہوں اور جس کے جنہمی ہونے کا فیصلہ صادر فرما دیا ہو اور یہ سب کچھ وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہی یقیناً اللہ کے علم میں تھا ، قیامت تک اس کو لعنتی قرار دینے کے بعد اس پر اللہ نے اپنی کو نسی رحمت کر کے اس کی خواہش پوری کی ، اور اس طرح پوری کی اس رحمت کے نتیجے میں دائمی جہنمی ہونے کی خوشخبری دی ؟؟؟
و السلام علیکم۔
 
Top