قران کا مطالعہ ایک رکوع روزانہ

باسم

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ایک نیا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے جس میں ہر رکن قران مجید کا ایک رکوع روزانہ مطالعہ کرکے اس سے متعلق تفسیر، حدیث، اور جو کچھ وہ ان آیت سے سمجھا ہے بیان کرے گا۔
کیونکہ قران کی تلاوت کی ابتدا تعوذ سے کی جاتی ہے اس لیے پہلے اس سے بات شروع کرلیتے ہیں۔

اعوذ اللہ من الشیطٰن الرجیم
ترجمہ : اللہ کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے۔

اے اللہ میں عبدالرحمٰن بننا چاہتا ہوں عبد الشیطان نہیں اور عبدالرحمٰن بننے کا راستہ آپ نے اپنا یہ کلام دے کر عطا فرما دیا ہے لہذا اسے سمجھنے میں شیطان کے بہکاوے سے میری حفاظت فرمائیے اور مھجے اپنی پناہ میں لے لیجیے۔
تلاوت سے پہلے ایسا کرنے کا حکم آپ نے خود قران میں دیا ہے
[AYAH] فَإِذَا قَرَأْتَ ٱلْقُرْآنَ فَٱسْتَعِذْ بِٱللَّهِ مِنَ ٱلشَّيْطَانِ ٱلرَّجِيمِ[/AYAH] [16:98]
ترجمہ : اور جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے پناہ مانگ لیا کرو (٩٨)
لہذا میں تلاوت سے پہلے شیطان سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔
 
[ayah]1:1[/ayah] شروع اللہ کے نام سے جو بڑا نہایت رحم کرنے والا ہے۔
[ayah]1:2[/ayah] سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں، جو رب ہے سب جہانوں کا
[ayah]1:3[/ayah] بڑا مہربان، نہایت رحم والا
[ayah]1:4[/ayah] مالکِ روزِ جزا کا
[ayah]1:5[/ayah] تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں
[ayah]1:6[/ayah] دکھا ہم کو راستہ سیدھا
[ayah]1:7[/ayah] راستہ ان لوگوں کا کہ انعام فرمایا تو نے ان پر ، نہ وہ جن پر غضب ہوا (تیرا) اور نہ بھٹکنے والے

مفسرین کے مطابق : اللہ تعالی نے ان سات خوبصورت آیات کو گویا ایک تحفہ قرار دیا ہے ، یہ آٰیات ِ مقدسہ نماز کی ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں۔ نماز کے علاوہ، دکھ پریشانی اور تلاش معاش کے دوران ان آیات کو پڑھنے سے انسان اللہ تعالی پر انحصار کا اعادہ کرتا ہے اور اللہ کا انعام مانگتا ہے اور اس کے غضب سے ڈرتا ہے۔

[AYAH]15:87[/AYAH] اور بیشک ہم نے آپ کو بار بار دہرائی جانے والی سات آیتیں (یعنی سورۃ الفاتحہ) اور بڑی عظمت والا قرآن عطا فرمایا ہے
 

خرم

محفلین
سورۃ فاتحہ سے پہلے آتی ہے تسمیہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا

روایات میں آیا ہے کہ اللہ تعالٰی کے تین ہزار اسماء ہیں اور جس نے بسم اللہ پڑھی گویا اس نے اللہ کو ان تین ہزار اسماء الحسنٰی کے ساتھ یاد کیا۔ شب معراج نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دودھ، پانی، شہد اور شراب کی چار نہریں دیکھیں۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے دریافت فرمایا کہ یہ کہاں سے آتی ہیں۔ انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صل اللہ علیک وسلم جاتی تو حوضِ کوثر میں ہیں آتی کہاں سے ہیں اس کے بارے میں اپنے رب سے عرض کیجئے۔ آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے دعا کی تو ایک فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کی آپ صل اللہ علیک وسلم اپنی آنکھیں بند کیجئے۔ نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنکھیں بند کیں۔ پھر اس نے عرض کی کہ اب آنکھیں کھولیئے۔ آنکھیں کھولنے پر نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ ایک سفید موتی کا قبہ (گنبد) اتنا بڑا ہے کہ اگر ساری دنیا کے جن و انس اس پر بیٹھے ہوں‌تو ایسے معلوم ہوں جیسے پہاڑ پر پرندے بیٹھے ہیں اور اس کا دروازہ مقفل تھا۔ چاروں نہریں اس قبہ میں سے آ رہی تھیں۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دیکھ کر واپس پلٹے تو فرشتہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صل اللہ علیک وسلم اندر تشریف کیوں نہیں لے جاتے؟ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا دروازہ مقفل ہے۔ فرشتہ نے عرض کی کہ اس کی چابی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہے۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بسم اللہ شریف پڑھی تو دروازہ کھل گیا۔ اندر جاکر نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ چار ستون ہیں جن پر بسم اللہ لکھی ہے اور ان چاروں میں سے ہر نہر کسی ایک ستون سے جاری ہے۔
نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم قسم کھا کر حضرت جبرئیل علیہ السلام سے وہ قسم کھا کر حضرت میکائیل علیہ السلام سے، وہ قسم کھا کر حضرت اسرافیل علیہ السلام سے اور وہ قسم کھا کر اللہ تعالٰی سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ جس نے بسم اللہ کو سورۃ الفاتحہ کے ساتھ ملا کر پڑھا میں نے اسے بخش دیا۔
 

خرم

محفلین
سورۃ الفاتحہ کی محاسن و خوبی کو بیان کرنے کے لئے تو ایک الگ دفتر درکار ہے۔ مختصراَ اس کی عظمت کے لئے اتنا عرض کردینا مناسب ہوگا کہ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک کو اپنے حکم سے ترتیب دیا اور اس ترتیب میں سورۃ الفاتحہ کو سب سے پہلے رکھا۔ اسی لئے اسے ام القرآن بھی کہا جاتا ہے۔ روایات میں ہے کہ ابلیس ملعون سات دفعہ چیخ مار کر رویا۔ ان میں سے ایک دفعہ اس وقت جب سورۃ الفاتحہ امتِ محمدی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کی گئی۔ اس سورۃ پاک کی اتنی فضیلت ہے کہ اسے ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھنا واجب ہے اور اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ ان سات آیات میں‌اللہ تبارک وتعالٰی نے تمام انسانی زندگی و ایمان کا خلاصہ بیان فرما دیا ہے۔
اس کی آیات کی فضیلت و تشریح انشاء اللہ بعد میں۔۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
تفسیر سورہ فاتحہ

سورت کی اہمیت اور خصوصیات

یہ قراٰں کی سب سے پہلی سورت ہے، اس لیے فاتحتہ الکتاب کے نام سے پکاری جاتی ہے۔ جو بات زیادہ اہم ہوتی ہے قدرتی طور پر پہلی اور نمایاں جگہ پاتی ہے۔ یہ سورت قراٰن کی تمام سورتوں میں خاص اہمیت رکھتی تھی، اس لیے قدرتی طور پر اس کی موزوں جگہ قراٰن کے پہلے صفحے پر ہی قرار پائی۔ چنانچہ قراٰن نے خود اس کا ذکر ایسے لفظوں میں کیا ہےجس سے اس کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔

ولقد اٰتینک سبعا من المثانی والقراٰن العظیم (١٥؛٨٧)
اے پیغمبر یہ واقعہ ہے کہ ہم نے تمہیں سات دہرائی جانے والی چیزیں عطا فرمائیں اور قراٰن عظیم

احادیث اور آثار سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اس آیت میں “سات دہرائی جانے والی چیزوں“ سے مقصود یہی سورت ہے کیونکہ یہ سات آیتوں کا مجموعہ ہے اور ہمیشہ نماز میں دہرائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورت کو السبع المثانی بھی کہتے ہیں (٦)۔

مزید پڑھیں: ترجمان القرآن (مولانا ابولکلام آزاد)
 
ان آیات پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان آیات کو پڑھ کر ہم 1۔ اللہ تعالی کے مبارک نام سے شروع کرتے ہیں ، 2۔ اللہ تعالی کو دونوں جہانوں‌کا رب مانتے ہیں، گویا ایک سے زیادہ جہانوں کو مانتے ہیں اور اس بناء‌پر اللہ تعالی کو قابل تعریف جانتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالی کو مہربان، رحم کرنے والا اور روز جزا یعنی قیامت کے دن کا مالک مان کر اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ ہم سب اٹھائے جائیں گے۔ 4۔ اللہ تعالی کو قابل عبادت مان کر اس کی اطاعت کے وعدے کا اعادہ کرتے ہیں۔ 5۔ اللہ تعالی سے مدد مانگتے ہیں اور ایک بہتر راہ جو دینی و دنیاوی فائیدہ کی راہ ہو، اس کی طرف اللہ تعالی سے ہدایت و مدد مانگتے ہیں گویا یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہدایت و مدد اور سیدھی راہ کا دکھانے والی اللہ تعالی ہی ہے۔ 6۔ دعا کرتے ہیں کہ ہم انعام پانے والوں میں سے ہوں نا کہ بھٹکنے والوں میں سے۔ گویا یہ مانتے ہیں کہ انعام و اکرام دینے والا اللہ تعالی ہے۔

یہ چھوٹی سی سورۃ‌گویا دعاؤں کے سمندر کو کوزہ میں‌بند کرنے کے مترادف ہے۔ میں اس سورۃ کا ترجمہ متعدد بار غیر مسلموں اور غیر عربی دانوں کے سامنے پڑھ چکا ہوں۔ وہ اس خوبصورت دعا سے بہت متاثر ہوتے ہیں ، اکثر یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسی دعا نا تو پڑھی نا ہی سنی۔
 
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا نہایت رحم کرنے والا ہے۔
[ayah]2:1[/ayah] الف ، لام، میم
[ayah]2:2[/ayah] یہ اللہ کی کتاب ہے، نہیں کوئی شک اس کے کتاب الٰہی ہونے) میں ہدایت ہے (اللہ سے) ڈرنے والوں کے لیے۔
[ayah]2:3[/ayah] جو ایمان لاتے ہیں غیب پر اور قائم کرتے ہیں نماز اور اس میں سے جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے خرچ کرتے ہیں۔
[ayah]2:4[/ayah] اور وہ جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو نازل کیا گیا تم پر اور اس پر جو نازل کیا گیا تم سے پہلے اور آخرت پر بھی وہ یقین رکھتے ہیں۔
[ayah]2:5[/ayah] یہی لوگ ہیں ہدایت پر اپنے رب کی اور یہی ہیں فلاح پانے والے۔
[ayah]2:6[/ayah] بیشک وہ لوگ جنہوں نے (ان باتوں کو ماننے سے) انکار کردیا یکساں ہے ان کے لیے خواہ تم خبردار کرو انہیں یا نہ کرو وہ ایمان نہ لائیں گے۔
[ayah]2:7[/ayah] مہر لگادی ہے اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر (پڑ گیا ہے) پردہ اور ان کے لیے ہے عذاب عظیم۔
[ayah]2:8[/ayah] اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایمان لائے ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر، حالانکہ نہیں ہیں وہ مومن۔
[ayah]2:9[/ayah] دھوکہ بازی کررہے ہیں وہ اللہ سے اور ایمان والوں سے جب کہ نہیں دھوکا دے رہے مگر اپنے آپ ہی کو لیکن انہیں (اس کا) شعور نہیں۔
[ayah]2:10[/ayah] ان کے دلوں میں ہے ایک بیماری لہذا اور بڑھا دیا ان کا اللہ نے مرض اور ان کے لیے ہے درد ناک عذاب، بسبب اس جھوٹ کے جو وہ بولتے ہیں۔
 
قرآن حکیم کی ابتداء سورۃ‌الفاتحہ کے دعائیہ کلمات سے ہوتی ہے، البقرۃ کی ابتداء ‌بہت ہی غیر معمولی ہے، دیکھئے اس کا عظیم الشان دعویٰ کے اس کتاب میں کوئی شک نہیں۔ یہ دعویٰ کوئی دوسری کتاب آج تک نہیں‌کرتی۔ یہی سورۃ، یہ بھی طے کرتی ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جن کے لئے یہ کتاب اتاری گئی ہے اور اس طرح ان شرائط پر پورے اترنے والے لوگوں کو فلاح پانے والوں کی خوشخبری دیتی ہے۔ یہ ابتدائی آیات، اس کو ماننے والوں، نا ماننے والوں اور ظاہراً‌ ماننے والوں کو واضح‌طور پر الگ الگ کردیتی ہیں۔ قرآن کی یہ خوبی ہے کہ آپ اس کو پڑھتے ہوئے محسوس کریں گے کہ یہ آپ سے مخاطب ہے، اس سورۃ کی بیشتر آیات اس طرح نازل ہوئی ہیں کہ پڑھتے ہوئے جونہی آپ کے ذہن میں کوئی سوال ابھرتا ہے، اس سوال کا جواب پیش کیا جاتا ہے۔ اس منظقی جواب کی ایک عمومی خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ نکتہ جو متعلقہ ہو اور جس کے بارے میں آپ نے یہ آیات پڑھنے سے پہلے سوچا بھی نا ہو، وہ بھی پیش کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ آیات آپ کی دانشمندی میں اضافہ فرماتی ہیں۔
 

باسم

محفلین
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
ترجمہ : اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بے حد مہربان نہایت رحم والا ہے۔
اللہ آپ کے بابرکت نام سے برکت اور آپ کی ذات سے مدد حاصل کرتے ہوئے شروع کرتا ہوں کہ آپ کی ذات ہی برکت دینے والی ہے

وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۖ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَىٰ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا ۖ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ ﴿١٣٧﴾

ترجمہ : اور جو لوگ کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو زمین (شام) کے مشرق ومغرب کا جس میں ہم نے برکت دی تھی وارث کردیا اور بنی اسرائیل کے بارے میں ان کے صبر کی وجہ سے تمہارے پروردگار کا وعدہٴ نیک پورا ہوا اور فرعون اور قوم فرعون جو (محل) بناتے اور (انگور کے باغ) جو چھتریوں پر چڑھاتے تھے سب کو ہم نے تباہ کردیا (١٣٧)

اور آپ کی ذات ہی مدد کرنے والی ہے

وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ۚ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ ﴿١٨﴾

ترجمہ : اور ان کے کرتے پر جھوٹ موٹ کا لہو بھی لگا لائے۔ یعقوب نے کہا (کہ حقیقت حال یوں نہیں ہے) بلکہ تم اپنے دل سے (یہ) بات بنا لائے ہو۔ اچھا صبر (کہ وہی) خوب (ہے) اور جو تم بیان کرتے ہو اس کے بارے میں خدا ہی سے مدد مطلوب ہے (١٨)
 

باسم

محفلین
[arabic]
سورة الفاتحة
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ﴿١﴾
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾
الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٣﴾
مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾
صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾[/arabic]​
ترجمہ
[AYAH]1:1[/AYAH] شروع اللہ کے نام سے جو بڑا نہایت رحم کرنے والا ہے۔
[AYAH]1:2[/AYAH] سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں، جو رب ہے سب جہانوں کا
[AYAH]1:3[/AYAH] بڑا مہربان، نہایت رحم والا
[AYAH]1:4[/AYAH] مالکِ روزِ جزا کا
[AYAH]1:5[/AYAH] تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں
[AYAH]1:6[/AYAH] دکھا ہم کو راستہ سیدھا
[AYAH]1:7[/AYAH] راستہ ان لوگوں کا کہ انعام فرمایا تو نے ان پر ، نہ وہ جن پر غضب ہوا (تیرا) اور نہ بھٹکنے والے

اللہ وہ سب تعریفیں آپ ہی کیلیے ہیں جو کسی معبود کی ہوسکتی ہیں
آپ ہی تو سب جہانوں کے پالنے والے ہیں بڑے مہربان ہیں نہایت ہی رحم کرنے والی ذات ہیں آپ کی ملکیت کی بڑائی کے کیا کہنے ہیں کہ آپ حساب کے دن جیسے بڑے دن کے مالک ہیں جب ایسی عمدہ صفات آپ کی ہیں تو میری عبادت بھی آپ کیلیے ہے اور میری مدد کی فریاد بھی آپ سے ہے آپ ہمیں سیدھے راستہ پر چلائیے اپنے ان نیک بندوں کا راستہ جن پر آپ نے انعام فرمایا ہے
جیسا کہ آپ نے اپنے کلام میں ذکر فرمایا ہے

[ARABIC]وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا ﴿٦٩﴾ [/ARABIC]

ترجمہ : [AYAH]4:69[/AYAH] اور جس نے اطاعت کی اللہ کی اور رسول کی سو یہی ہیں جو (ہوں گے) ساتھ ان لوگوں کے کہ انعام کیا ہے اللہ نے ان پر (یعنی) انبیا اور صدّیقین اور شہدا اور صالحین (کے) اور بہت اچھّے ہیں یہ لوگ بطور رفیق کے۔

اور مجھے ان میں شامل فرمادیجیے اور ان لوگوں کے راستے سے بچائے رکھیے جن پر آپ کا غضب ہوا

[ARABIC]قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذَٰلِكَ مَثُوبَةً عِنْدَ اللَّهِ ۚ مَنْ لَعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ ۚ أُولَٰئِكَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضَلُّ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ ﴿٦٠﴾[/ARABIC]

ترجمہ : [AYAH]5:60[/AYAH] کہو کیا مین بتاؤں تم کو کہ کون زیادہ بُرے ہیں اُن سے بھی انجام کے لحاظ سے، اللہ کے نزدیک، وہ جن پر لعنت کی اللہ نے اور غضب ٹوٹا (اس کا) اُن پر اور بنادیا اُن میں سے بعض کو بندر اور سؤر اور جنہوں نے بندگی کی طاغوت کی یہی لوگ بدتر ہیں درجہ میں اور زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں سیدھے راستے سے۔

اور جو گمراہ ہوئے

[ARABIC]قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ ﴿٧٧﴾ [/ARABIC]

ترجمہ : [AYAH]5:77[/AYAH] کہو اے اہلِ کتاب! مت حد سے بڑھا ہُوا مبالغہ کرو اپنے دین کے معاملہ میں ناحق اور مت پیروی کرو ان لوگوں کے خواہشاتِ نفس کی جو خود بھی گمراہ ہُوئے تم سے پہلے اور گمراہ کر گئے بہت سو ں کو اور بھٹک گئے سیدھی راہ سے۔
 
مزید بیس آیات سورۃ‌ البقرہ سے پیش خدمت ہیں۔ ان آیات میں اللہ تعالی نے اصلاح کے نام پر زمیں میں فساد برپا کرنے والوں کو شناخت کیا ہے، اللہ تعالی کی عبادت اور اس کے پیغام کو ماننے کی اہمیت کو اجاگر فرمایا ہے۔ اور بنیادی فلسفہ حیات، عبادت، تخلیق انسانی پر روشنی ڈالی ہے۔ خود اللہ تعالی کے الفاظ میں پڑھئے:

[ayah]2:11[/ayah] اور جب کہا جاتا ہے ان سے کہ نہ برپا کرو فساد زمین میں تو کہتے ہیں کہ ہم ہی تو ہیں اصلاح کرنے والے۔
[ayah]2:12[/ayah] خبردار! حقیقت میں یہی لوگ ہیں فساد برپا کرنے والے، مگر انہیں شعور نہیں۔
[ayah]2:13[/ayah] اور جب کہا جاتا ہے ان سے کہ ایمان لائو جس طرح ایمان لائے اور لوگ تو کہتے ہیں کہ کیا ایمان لائیں ہم جس طرح ایمان لائے بیوقوف، خبردار ! حقیقت میں یہی لوگ ہیں بیوقوف، لیکن جانتے نہیں۔
[ayah]2:14[/ayah] اور جب ملتے ہیں اہل ایمان سے تو کہتے ہیں ایمان لائے ہم اور جب ملتے ہیں علحدگی میں اپنے شیطانوں سے تو کہتے ہیں ہم تو تمہارے ہی ساتھ ہیں، اصل میں ہم تو (ان کے ساتھ) محض مذاق کررہے ہیں۔
[ayah]2:15[/ayah] (جبکہ) اللہ مذاق کررہااُن سے کہ مہلت دیے جارہا ہے انہیں کہ وہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرھ بھٹک رہے ہیں۔۔
[ayah]2:16[/ayah] یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خریدی ہے گمراہی بدلے میں ہدایت کے، سو نہ تو نفع دیا ان کی تجارت ہی نے اور نہ ہوئے وہ ہدایت پانے والے۔
[ayah]2:17[/ayah] ان کی مثال اس شخص کی ہے جس نے جلائی آگ (روشنی کے لیے) پھر جب روشن کردیا آگ نے اس کے گرد و نواح کو تو سلب کرلیا اللہ نے ان کا نُور اور چھوڑ دیا ان کو اندھیروں میں کہ کچھ نہیں دیکھ پاتے۔
[ayah]2:18[/ayah] بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، لٰہذا یہ (اب نہ لوٹیں گے (سیدھے راستے کی طرف)۔
[ayah]2:19[/ayah] یا (پھر ان کی مثال ایسی ہے) جیسے زور کی بارش ہو رہی ہے آسمان سے، اس کے ساتھ ہیں اندھیری گھٹائیں، کڑک اور چمک، ٹھونس لیتے ہیں اپنی انگلیاں کانوں میں اپنے، بسبب بجلی کی کڑک کے، موت کے ڈر سے، اور اللہ ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہے ان منکرین حق کو۔
[ayah]2:20[/ayah] قریب ہے کہ یہ بجلی اچک لے جائے بصارت ان کی، جب ذرا بجلی چمکی تو چلنے لگتے ہیں اس (کی روشنی) میں اور جونہی اندھیرا چھا جاتا ہے، ان پر تو کھڑے ہوجاتے ہیں حالانکہ اگر چاہتا اللہ تو سلب کرلیتا ان کی سماعت اور بصارت ہی کو۔ یقیناً اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
[ayah]2:21[/ayah] اے انسانو! عبادت کرو اپنے رب کی جس نے پیدا کیا تم کو اور ان کو بھی جو (ہو گزرے) تم سے پہلے تاکہ تم بچ جاؤ (عذاب سے)
[ayah]2:22[/ayah] جس نے بنایا تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت اور برسایا آسمان سے پانی، پھر نکالا اس کے ذریعہ سے ہر طرح کی پیداوار کو بطور رزق تمہارے لیے، پس نہ ٹھہراؤ اللہ کا ہمسر (کسی کو) در آنحالیکہ تم (یہ باتیں) جانتے ہو۔
[ayah]2:23[/ayah] اور اگر ہے تم کو شک اس (کتاب) کے بارے میں جو ہم نے نازل کی اپنے بندے پر، تو بنالاؤ ایک ہی سورت اس کی مانند اور بلالو اپنے سب حمائیتیوں کو بھی اللہ کے سوا، اگر ہو تم سچے۔
[ayah]2:24[/ayah] لیکن اگر تم (ایسا) نہ کرسکو اور ہر گز نہ کرسکو گے تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن ہیں انسان اور پتّھر، جوتیّار کی گئی ہے منکرین حق کے لیے۔
[ayah]2:25[/ayah] اور خوشخبری دے دو ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور کیے جنہوں نے نیک عمل کہ بے شک ان کے لیے ہیں باغ، بہتی ہوں گی جن کے نیچے نہریں، جب بھی دیا جائے گا انہیں ان باغوں میں سے کوئی پھل کھانے کے لیے تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جو مل چکا ہے ہمیں اس سے پہلے کیونکہ دیا ہی جائے گا انہیں پھل ملتا جُلتا۔ اور اُن کے لیے وہاں بیویاں ہوں گی پاکیزہ اور وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔
[ayah]2:26[/ayah] بلاشبہ اللہ ہرگز نہیں شرماتا اس سے کہ بیان کرے تمثیل کسی قسم کی، مچھر کی یا اس سے بھی حقیر تر چیز کی۔ اب وہ لوگ جو ایمان والے ہیں، وہ تو جانتے ہیں کہ یہی حق ہے اُن کے رب کی طرف سے (آیا) ہے، لیکن وہ لوگ جو ماننے والے نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ آخر کیا مُراد ہے اللہ کی ایسی تمثیلوں سے؟ گمراہی میں مبتلا کرتا ہے اللہ ایسی باتوں سے بہتوں کو اور راہِ راست دکھاتا ہے ان کے ذریعہ سے بہتوں کو۔ اور نہیں گمراہ کرتا اس سے مگر نافرمانوں کو۔
[ayah]2:27[/ayah] جو توڑ دیتے ہیں اللہ کے عہد کو مضبوط کرنے کے بعد اور قطع کرتے ہیں اُن (رشتوں) کو کہ حُکم دیا ہے اللہ نے جن کے جوڑنے کا اور فساد برپا کرتے ہیں زمین میں۔ یہی لوگ ہیں حقیقت میں نقصان اُٹھانے والے۔
[ayah]2:28[/ayah] کیسے کفر کا رویہّ اختیار کرتے ہو تم اللہ کے ساتھ حالانکہ تھے تم بے جان پھر زندگی عطا کی اس نے تمہیں پھر وہی موت دے گا تمہیں، پھر وہی زندہ کرے گا تمہیں، پھر اُسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے تم۔
[ayah]2:29[/ayah] وہی تو ہے جس نی پیدا کیا تمہاری خاطر وہ کچھ جو زمین میں ہے، سب، پھر توجّہ فرمائی آسمان کی طرف اور استوار کردیے سات آسمان۔ اور وہ تو ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے
[ayah]2:30[/ayah] اور (یاد کرو)جب کہا تیرے رب نے فرشتوں سےکہ یقینًامیں بنانے والا ہوں زمین میں ایک خلیفہ تو انہوں نے کہا تو مقّررکرے گا زمین میں (خلیفہ) اس کو جو فساد برپاکرے گا اس میں اور خونریزیاں کرے گا جبکہ ہم تسبیح کرتے ہیں تیری حمد وثناکے ساتھ اور تقدیس کرتے ہیں تیری۔اللہ نے فرمایا: یقینًامیں جانتا ہوں وہ کچھ جو تم نہیں جانتے۔
 

باسم

محفلین
سورة البقرة

سورۃ الفاتحۃ میں اللہ تعالی بندے کی زبان سے کہلوا رہے تھے
یہاں خود بیان فرما رہے ہیں
فاتحۃ میں صاحبِ کتاب (اللہ تعالٰی) کا تعارف تھا
یہاں کتاب کا تعارف ہے

[arabic]
سورة البقرة​
[/arabic]
[arabic] الم ﴿١﴾[/arabic]
[ayah]2:1[/ayah] الف ، لام، میم۔

ان الفاظ کی حقیقی مراد اللہ تعالٰی ہی جانتے ہیں اور ہم ان پر ایمان لاتے ہیں

[arabic] ذَٟلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾[/arabic]
[AYAH]2:2[/AYAH] یہ اللہ کی کتاب ہے، نہیں کوئی شک اس (کے کتاب الٰہی ہونے) میں ہدایت ہے (اللہ سے) ڈرنے والوں کے لیے۔

عقل اور انصاف سے کام لینے والا اس میں شک نہیں کرسکتا اور قران کو تقوٰی والوں کیلیے ہدایت فرمایا کہ حقیقت میں اس سے نفع وہی اٹھاتے ہیں ورنہ قران کے مخاطب سب انسان ہیں

[arabic] الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ ﴿٣﴾[/arabic]
[ayah]2:3[/ayah] جو ایمان لاتے ہیں غیب پر اور قائم کرتے ہیں نماز اور اس میں سے جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے خرچ کرتے ہیں۔

تقوٰی والوں کی صفات بیان فرمائی ہیں

[arabic] وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ﴿٤﴾[/arabic]
[ayah]2:4[/ayah] اور وہ جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو نازل کیا گیا تم پر اور اس پر جو نازل کیا گیا تم سے پہلے اور آخرت پر بھی وہ یقین رکھتے ہیں۔


[arabic] أُولَٟئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ ۖ وَأُولَٟئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٥﴾[/arabic]
[ayah]2:5[/ayah] یہی لوگ ہیں ہدایت پر اپنے رب کی اور یہی ہیں فلاح پانے والے۔

ان صفات کو اپنانا ہدایت اور کامیابی ہے

[arabic] إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٦﴾[/arabic]
[ayah]2:6[/ayah] بیشک وہ لوگ جنہوں نے (ان باتوں کو ماننے سے) انکار کردیا یکساں ہے ان کے لیے خواہ تم خبردار کرو انہیں یا نہ کرو وہ ایمان نہ لائیں گے۔

ایمان لانے والوں کے بعد ایمان نہ لانے والوں کا حال بیان فرمایا کہ یہ اپنی ضد اور عناد کی وجہ سے اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ آپ کی دعوت ان کو کچھ نفع نہیں پہنچا سکتی

[arabic] خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿٧﴾ [/arabic]
[ayah]2:7[/ayah] مہر لگادی ہے اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر (پڑ گیا ہے) پردہ اور ان کے لیے ہے عذاب عظیم۔

ان کے انکار کا انجام بیان فرمایا کہ دنیا میں حق کو سمجھنے سننے اور دیکھنے سے محروم ہیں اور آخرت میں بڑے عذاب کے مستحق ہیں۔
 

باسم

محفلین
سورة البقرة آیت 8 تا 12

ایمان والوں اور کافروں کے مختصر تذکرہ کے بعد منافقین کا ذکر جو درحقیقت تو کافر ہیں مگر اپنی زبانوں سے مومن ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں، تفصیل سے فرمارہے ہیں تاکہ مسلمان انہیں پہچان سکیں اور ان کے فساد سے بچ سکیں

[arabic] وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ ﴿٨﴾[/arabic]
[ayah]2:8[/ayah] اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایمان لائے ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر، حالانکہ نہیں ہیں وہ مومن۔

زبان سے ایمان کا اقرار کرتے ہیں مگر دل میں کفر رکھتے ہیں

[arabic] يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ ﴿٩﴾[/arabic]
[ayah]2:9[/ayah] دھوکہ بازی کررہے ہیں وہ اللہ سے اور ایمان والوں سے جب کہ نہیں دھوکا دے رہے مگر اپنے آپ ہی کو لیکن انہیں (اس کا) شعور نہیں۔

اپنے اقرار سے ایمان والوں کو دھوکہ دے رہے ہیں تاکہ اس کے ذریعے ہر دو جانب سے دنیاوی فوائد سمیٹ سکیں جبکہ ان کو دھوکہ دینا ایسا ہے جیسے نعوذ باللہ اللہ کو دھوکہ دینا، حقیقت یہ ہے اللہ کی ذات خوب باخبر ہے ان کے احوال سے اور جو باخبر ہو اسے دھوکہ نہیں دیا جاسکتا لہذا وہ اپنے اس گمان کے ذریعے خود کو دھوکہ دے رہے ہیں

[arabic] فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ﴿١٠﴾[/arabic]
[ayah]2:10[/ayah] ان کے دلوں میں ہے ایک بیماری لہذا اور بڑھا دیا ان کا اللہ نے مرض اور ان کے لیے ہے درد ناک عذاب، بسبب اس جھوٹ کے جو وہ بولتے ہیں۔

اپنی اس دھوکہ دہی کی وجہ سے اپنے نفاق میں مزید آگے بڑھ رہے ہیں اور ایمان کے جھوٹی اقرار کی وجہ سے دردناک ّذاب میں مبتلا ہونگے۔

[arabic] وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ﴿١١﴾[/arabic]
[ayah]2:11[/ayah] اور جب کہا جاتا ہے ان سے کہ نہ برپا کرو فساد زمین میں تو کہتے ہیں کہ ہم ہی تو ہیں اصلاح کرنے والے۔

اللہ کی نافرمانی کے ذریعے زمین میں فساد پھیلانے سے منع کیا جاتا ہے تو غرور کی وجہ سے کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں

[arabic] أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَٰكِنْ لَا يَشْعُرُونَ ﴿١٢﴾[/arabic][ayah]2:12
[/ayah] خبردار! حقیقت میں یہی لوگ ہیں فساد برپا کرنے والے، مگر انہیں شعور نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ وہ فسادی ہیں مگر اپنے اس فعل پر سوچ و بچار نہیں کرتے ہیں کہ اس کا انجام کیا ہوگا
 

باسم

محفلین
سورة البقرة آیت 13 تا 16

ایمان والوں کو منافقین کیسے دھوکہ دیتے ہیں اسے بیان فرمایا ہے اور ساتھ ہی اس کا انجام بھی۔
[ARABIC] وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِنْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿١٣﴾[/ARABIC]
[AYAH]2:13[/AYAH] اور جب کہا جاتا ہے ان سے کہ ایمان لائو جس طرح ایمان لائے اور لوگ تو کہتے ہیں کہ کیا ایمان لائیں ہم جس طرح ایمان لائے بیوقوف، خبردار ! حقیقت میں یہی لوگ ہیں بیوقوف، لیکن جانتے نہیں۔

پکے مسلمانوں کی طرح دل سے ایمان لانے کا کہا جاتا ہے تو ان مسلمانوں کو بیوقوف کہتے ہیں اللہ تعالٰی نے فرمایا اصل میں بیوقوف تو خود ہیں اور ایسے بیوقوف کہ اپنی بیوقوفی کا بھی علم نہیں

[ARABIC]وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ ﴿١٤﴾[/ARABIC]
[AYAH]2:14[/AYAH] اور جب ملتے ہیں اہل ایمان سے تو کہتے ہیں ایمان لائے ہم اور جب ملتے ہیں علحدگی میں اپنے شیطانوں سے تو کہتے ہیں ہم تو تمہارے ہی ساتھ ہیں، اصل میں ہم تو (ان کے ساتھ) محض مذاق کررہے ہیں۔

مسلمانوں سے کہتے ہیں ہم بھی تمہاری طرح ایمان اور اعتقاد میں پکے ہیں مگر اپنے سرداروں کے پاس جاکر جو ان سے بھی نفاق اور شر میں بڑھے ہوئے ہیں کہتے ہیں کہ ہم دل سے تمہارے ساتھ ہیں مسلمانوں سے تو ایمان کا اظہار تو ایک مذاق ہے۔

[ARABIC]اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ ﴿١٥﴾[/ARABIC]
[AYAH]2:15[/AYAH] (جبکہ) اللہ مذاق کررہا اُن سے کہ مہلت دیے جارہا ہے انہیں کہ وہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرھ بھٹک رہے ہیں۔۔

اللہ انہیں ان کے مذاق کا بدلہ دے رہا ہے کہ پہلے انہیں ڈھیل دے رہا ہے اور پھر انہیں عذاب میں گرفتار کرلے گا، عذاب کو مذاق سے تعبیر کیا کہ یہ مذاق ہی اس عذاب کا سبب ہے۔

[ARABIC]أُولَٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ﴿١٦﴾[/ARABIC]
[AYAH]2:16[/AYAH] یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خریدی ہے گمراہی بدلے میں ہدایت کے، سو نہ تو نفع دیا ان کی تجارت ہی نے اور نہ ہوئے وہ ہدایت پانے والے۔

ہدایت دے کر گمراہی خرید لی لہذا اتفاق سے تفرقہ کی طرف ، امن سے خوف کی طرف اور سنت سے بدعت کی طرف چلے گئے۔ ان کی مثال اس تاجر کی ہے جو تجارت میں اپنا مال لگائے اور منافع کے بجائے اصل رقم سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے
 

باسم

محفلین
سورة البقرة آیت 17 تا 20

منافقین کی بری صفات بیان فرمانے کے بعد ان کے حال کو دو مثالوں کے ذریعے مزید واضح فرمارہے ہیں۔

[ARABIC] مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَا يُبْصِرُونَ ﴿١٧﴾[/ARABIC]
[ayah]2:17[/ayah] ان کی مثال اس شخص کی ہے جس نے جلائی آگ (روشنی کے لیے) پھر جب روشن کردیا آگ نے اس کے گرد و نواح کو تو سلب کرلیا اللہ نے ان کا نُور اور چھوڑ دیا ان کو اندھیروں میں کہ کچھ نہیں دیکھ پاتے۔

منافقین ظاہری ایمان کی روشنی وجہ سے دنیا میں فوائد حاصل کرتے رہتے ہیں لیکن جب اللہ تعالٰی انہیں موت دے دینگے تو ظاہری ایمان کی روشنی انہیں آگے کے مراحل میں کچھ کام نہیں دے گی بلکہ شک، کفر اور نفاق کے اندھیرے باقی رہ جائیں گے۔

[ARABIC] صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ ﴿١٨﴾[/ARABIC]
[ayah]2:18[/ayah] بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، لٰہذا یہ (اب نہ لوٹیں گے (سیدھے راستے کی طرف)۔

کان، زبان اور آنکھوں سے درست فائدہ نہیں اٹھاتے کہ حق کو سنیں، بولیں اور دیکھ کر عبرت پکڑیں تو گویا یہ ان اعضاء سے محروم ہیں لہذا سیدھی راہ کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔

[ARABIC] أَوْ كَصَيِّبٍ مِنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ مِنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ ۚ وَاللَّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ ﴿١٩﴾[/ARABIC]
[ayah]2:19[/ayah] یا (پھر ان کی مثال ایسی ہے) جیسے زور کی بارش ہو رہی ہے آسمان سے، اس کے ساتھ ہیں اندھیری گھٹائیں، کڑک اور چمک، ٹھونس لیتے ہیں اپنی انگلیاں کانوں میں اپنے، بسبب بجلی کی کڑک کے، موت کے ڈر سے، اور اللہ ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہے ان منکرین حق کو۔

آسمان سے قران اترتا ہے جس میں کفر اور اس کی ظلمتوں،عذاب کی مختلف صورتوں اور ایمان اور اس کے نور کا ذکر ہے جب قران پڑھا جاتا ہے تو اس سے اعراض کرتے ہیں یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ اعراض انہیں موت سے بچالے گا حالانکہ اللہ نے انہیں اپنے علم اور قدرت سے گھیرے میں لے رکھا ہے

[ARABIC] يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ ۖ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿٢٠﴾[/ARABIC]
[ayah]2:20[/ayah] قریب ہے کہ یہ بجلی اچک لے جائے بصارت ان کی، جب ذرا بجلی چمکی تو چلنے لگتے ہیں اس (کی روشنی) میں اور جونہی اندھیرا چھا جاتا ہے، ان پر تو کھڑے ہوجاتے ہیں حالانکہ اگر چاہتا اللہ تو سلب کرلیتا ان کی سماعت اور بصارت ہی کو۔ یقیناً اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔

قریب ہے کہ ایمان کا نور ان کی بصارتیں ہی اچک لے۔ ایسے آیات پر عمل کرتے ہیں جن سے دنیا کا فائدہ حاصل ہوتا ہے اور ایسی آیات کو چھوڑ بیٹھتے ہیں جن پر عمل سے دنیا کا نقصان ہوتا ہے۔
حق کو پہچاننے کے بعد بھی اس سے اعراض کرنے کی وجہ سے قریب ہے کہ ان کی سماعتیں اور بصارتیں ہی سلب ہوجائیں تو پھر دنیا کی نعمتوں سے کیا فوائد حاصل کرسکیں گے اللہ ہر چیز پر قادر ہے تو ایسا کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔
 
Top