قران کے نسخے کن ہاتھوں سے ہمارے ہاتھوں تک پہنچے؟ ابتدائی قرآن کی کتابت کی تاریخ

یہ سوال آپ کو بہت سے حلقوں سے ملے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں‌ مکمل لکھا ہوا قرآن موجود نہیں تھا۔ اس پیغام میں‌آپ کو وہ تمام روایات مل جائیں گی جو قرآن کے پہلے دو نسخوں‌کی تدوین کے بارے میں‌ہیں۔ اگر کوئی دوست ان روایات کا اردو اور عربی ترجمہ بھی فراہم کرسکیں‌تو لنک اور متن دونوں‌ذیل میں‌کٹ پیسٹ کردیں۔

معاف کیجئے گا محترم اگر آپ کے نزدیک احادیث کو انسانی اسناد لگا کر مستند بنا کر پیش کیا جاتا ہے تو کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ قرآن کونسی الہامی (یعنی غیر انسانی )اسناد کے زریعے آپ تک پہنچا ہے؟

بہت خوب آبی ٹو کول ! یہی سوال میں نے ذرا تفصیل سے یہاں واضح کیا تھا۔
لیکن اب بہتر یہی ہے کہ محترم فاروق صاحب آپ کے اس مختصر سوال کا مختصر جواب ہی عنایت فرمائیں۔

برادران: آبی ٹو کول اور باذوق ، سب سے پہلے ایک بہترین سوال کرنے کا شکریہ۔ میں‌اس جواب میں صرف اور صرف قرآن کے کتابت شدہ نسخہ تک محدود رہا ہوں۔ جب آپ لوگ اس پر متفق ہوجائیں گے تو پھر کتب روایات کی بات کریں‌گے۔

قران کسی کی سنی سنائی اسناد سے آپ تک نہیں پہنچا۔ یہ رسول اللہ صلعم پر نازل ہوا، خود ان کے ہاتھوں‌ لکھایا گیا۔ ہر آیت -- لکھی ہوئی -- کم از کم دو اصحابہ کے پاس ملی، جس سے مصحف عثمانی ترتیب دیا گیا۔ اس بات کا ثبوت آُپ کو کئی مرتبہ پہنچا چکا ہوں۔ گو کہ میں اس پر اپنی ذاتی ریسرچ کر چکا ہوں لیکن اس ریسرچ کے بغیر بھی میں ‌اس پر یقین رکھتا ہوں اور یہ میرا ایمان ہے۔ کہ

"قرآن اپنے نزول کے ساتھ ساتھ لکھا جاتا رہا۔ حفاظ‌ نے اس کو ذاتی طور پر یاد بھی رکھا لیکن لکھا ہوا ہمیشہ موجود تھا اور وہ مصحف عثمانی جس کی ہر آٰیت کم از کم دو اصحابہ کو یاد تھی اور ساتھ ساتھ لکھی ہوئی بھی تھی، اس مصحف ّعثمانی کی کم از کم 3 کاپیاں میری ریسرچ کے مطابق موجود ہیں اور ایک سے زائید آزاد تحقیق کے مطابق اس کا عربی مواد لفظ بہ لفظ موجودہ قرآن سے ملتا ہے۔ "‌ میری استدعا ہے کہ آپ اس موضوع پر ذاتی ریسرچ کیجئے۔ اس کو پڑھنے میں وقت لگے گا، اور حوالہ جات کو پڑھنے میں‌بھی وقت لگے گا۔ آپ اس کو پڑھ کر اپنے عقائد کے مطابق اس کی تائید یا اس پر تنقید کیجئے۔

گواہیوں کے لنک نیچے فراہم فراہم کررہا ہوں۔ یہ گواہیاں‌تاریخی امور ہیں نہ کہ رسول اکرم کے فرمان مبارک۔ مجھ پر پوری کتب روایات پر ایمان لانے کا سوال نہ اٹھائیے۔ اس پر ہماری آُپ کی الگ بحث چل رہی ہے۔ صرف یہاں‌دیکھ کر یہ بتائیے کہ آپ کس امر سے متفق نہیں‌ہیں تاکہ آگے بات چلے۔

1۔ اصحابہ کرام سے منسوب روایتوں‌ میں درج ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ترتیب دیا ہوا قران، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس رہا اور اس کے بعد حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس رہا۔ اس قرآن سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے ترتیب کرائے ہوئے قرآن کا موازنہ کیا گیا۔
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/060.sbt.html#006.060.201

قرآن کی ان کاپیوں‌کا لنک جو آج بھی موجود ہیں :
‌وہ قرآن جو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ شہادت کے وقت پڑھ رہے تھے۔ توپ کاپی میں
http://pictures.care2.com/view/2/472565356

مصحف عثمانی کی ایک اور کاپی ازبکستان - تاشقند میں
http://www.islamicity.com/articles/Articles.asp?ref=BB0601-2875
http://news.bbc.co.uk/2/hi/asia-pacific/4581684.stm

کویتی کاپی مصحف عثمانی کی
http://www.kuwaittimes.net/read_news.php?newsid=ODAzMDAyMzEz

قاہرہ مصر کی کاپی مصحف عثمانی کی
http://www.islamic-awareness.org/Quran/Text/Mss/hussein.html


ابتدائی قرآن کی کتابت کی تاریخ:
قرآن کا اولیں نسخہ:
1۔ حضرت محمد صلی اللہ و علیہ وسلم ، قرآن اپنی نگرانی میں‌لکھواتے تھے اور حفاظ اس کو یاد بھی کرلیتے تھے۔ رسول اکرم صلعم کی موجودگی میں ان لکھوائے ہوئے اوراق کی مدد سے اور حفاظ کرام کی مدد سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے پہلا نسخہ زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کی نگرانی میں ترتیب دلوایا، کہ زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو رسول اکرم خود لکھوایا کرتے تھے (‌حوالہ نیچے)۔ اور ایک مزید نسخہ بعد میں‌ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے انہی شرائط پر دوبارہ ترتیب دلوایا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اس نسخہ کا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے نسخے کو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس سے منگوا کر موازنہ کروایا ( گواہی کا حوالہ نیچے دیکھئے)

2۔ حضرت حفصہ بنت عمر الخطاب رضی اللہ تعالی عنہا ، رسول اکرم کی ازواج مطہرات میں سے ہیں۔ قرآن کا ایک نسخہ ان کے پاس موجود تھا۔ (حوالہ نیچے دیکھیں) یہ نسخہ جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے کاغذ پر لکھے ہوئے کی مدد سے اور حفاظ کرام کی مدد سے سے لکھوایا تھا، یہ کام زید بن ثابت نے کیا ۔ یہ نسخہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچا اور پھر حضرت حفصہ بنت عمر کے پاس پہنچا۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن کا ایک دوسرا نسخہ ترتیب دلوایا ۔ یہ نسخہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ تعالی عنہ ، سعید بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ اور عبدالرحمان بن حارث بن ہاشم کی مدد سے ترتیب دیا گیا۔

اس ترتیب دینے کی شرائط یہ تھیں۔
1۔ ہر وہ شخص‌جسے قرآن کی ایک بھی آٰیت یاد تھی ، وہ زید بن ثابت کے پاس آیا اور وہ آٰیت دہرائی۔
2۔ جس کسی نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کوئی آیت لکھی تھی وہ زید بن ثابت کے پاس لے کر آیا
3۔ زید بن ثابت نے کوئی بھی ایسی آیت قبول نہیں‌کی جو رسول اکرم کی موجودگی میں‌ نہیں لکھی گئی تھی۔
4۔ صرف یاد کئے ہوئے یا صرف لکھے ہوئے پر بھروسہ نہیں‌کیا گیا بلکہ لکھے ہوئے کا موازنہ یاد کئے ہوئے سے کیا گیا۔
5۔ جناب زید بن ثابت نے کوئی آیسی آیت قبول نہیں‌کی جس کے گواہ دو حفاظ نہیں‌تھے۔ زیدبن ثابت خود ایک گواہ تھے، اس طرح ہر آیت پر تین گواہیاں بن گئیں
6۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جنابہ حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس سے جناب ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ترتیب دیا ہوا قرآن منگوایا اور ان دونوں‌قرانوں‌ کا آپس میں‌ موازنہ کیا گیا۔

اس قرآن کی متعدد کاپیاں‌بنوائی گئیں ، جن میں‌کم از کم 3 عدد مستند مقامات پر موجود ہیں۔

جب مجھے (فاروق سرور خان )‌ کو یہ قرآن پڑھوایا گیا تو مندرجہ بالاء میں سے کچھ بھی نہیں‌بتایا گیا تھا۔ میں‌ اس قرآن پر اپنی مرضی اور اپنے والدین کی ہدایت پر ایمان لایا۔ اگر مٰیں‌ یہ سب کچھ نہ بھی پڑھتا تو بھی میرا ایمان ایسے ہی پختہ ہوتا۔ کہ اس کو اللہ تعالی نے نازل کیا ہے اور وہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

اس کے برعکس روایات صرف یاد رکھی جاتی رہیں، ان کی کوئی باقاعدہ کتاب 1600 ء سے پہلے کی نہیں‌ملتی ہیں۔ اگر آپ لکھی ہوئی کتب مہیا کرسکیں یا آُپ میری طرح‌ واضح گواہی دے سکیں تو فرمائیے یا لنک فراہم کیجئے۔


حوالہ جات:
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کی گواہی کہ قرآن کو رسول اکرم کے سامنے لکھے ہوئے سے لکھا گیا، صرف زبانی حفظ سے کام نہیں چلایا گیا
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/052.sbt.html#004.052.062

قرآن کا املا کرایا جارہا ہے ، ایک اور گواہی:
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/052.sbt.html#004.052.085

مزید صحابہ کی گواہی کہ اس وقت تک کا مکمل لکھا ہو قرآن رسول اکرم کی زندگی میں موجود تھا:
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/058.sbt.html#005.058.155

املا لکھانے کی ایک اور مثال:
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/060.sbt.html#006.060.116

جو قرآن ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کی مدد سے ترتیب دلوایا وہ کاپی عثمان رضی اللہ تعالی عنہ تک پہنچی، یہ تمام کا تمام قرآن لکھے ہوئے قرآن سے اور حفاظ‌ کی گواہی سے ترتیب دیا گیا۔ اس کی گواہی
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/060.sbt.html#006.060.201

لکھے ہوئے سے جمع کرنے کی ایک اور گواہی:
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/bukhari/060.sbt.html#006.060.307

نوٹ: جب باذوق ، برادر قسیم حیدر اور آبی ٹو کول اپنی معلومات کے مطابق اس کی تصدیق کردیں تو میرا ارداہ ‌اسے ایک علیحدہ موضوع میں‌ منتقل کرنے کا ہے تاکہ قرآن مجید کے ترتیب دئے جانے پر جو سوالات اٹھائے جاتے ہیں ان کا ایک مکمل جواب موجود ہو۔

نوٹ: میں نے یہ معلومات کتب روایات سے فراہم کی ہیں۔
میں نے سوچا کہ ان معلومات پر مشتمل کچھ مزید لنک بھی ہونے چاہئیے۔

ملتی جلتی معلومات پر مشتمل ایک اور لنک،
-
یہ لنک میں نے بعد میں ڈھونڈھا۔ کوئی بھی مماثلت اتفاقیہ ہے۔
تھوڑی سے مختلف معلومات پر مشتمل ایک اور لنک
 

ابو کاشان

محفلین
السلام و علیكم !
فاروق بھائی آپ کی معلومات فراہم کرنے کا بہت بہت شکریہ۔

یہ تو وہ شواہد ہیں جن پر کسی طور شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔
اللہ نے اپنے کلام کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے۔ ایک مسلمان کے ایمان کے لیئے یہی کافی ہے۔ پھر اعتراض کرنے والوں کے جواب کے لیئےاللہ نے اس کی حفاظت کے تمام دنیاوی اسباب کو بھی محفوظ کر دیا۔ اب کسی بات کی گنجائش ہی نہیں ہے۔

میری ناقص‌ رائے میں اس مفید معلوماتی موضوع پر بحث ہو ہی نہیں سکتی۔ اس دھاگے کو یہیں مقفّل ہو جانا چاہیئے۔
 

دوست

محفلین
حدیث کو کبھی بھی قرآن کے برابر نہیں رکھا جاسکتا۔ قرآن افضل ہے اور حدیث رسول ﷺ دوسرے نمبر پر۔
حدیث رسول ﷺ قرآنی باتوں کی تفصیل بیان کرتی ہے جس کی بدولت دین سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔
لیکن اختلاف تب پیدا ہوتا ہے جب ایک چیز قرآن میں نہیں ہے اور حدیث رسول ﷺ میں موجود ہے اور علم الحدیث کی رو سے صحیح یا حسن ہے یعنی اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے اور وہ وضاحت یا حکم یا بات موجودہ زمانے یا عقلی لحاظ سے درست نہیں لگتی۔ بس یہاں فاروق سرور خان اور ان جیسے مسلمانوں اور روایتی علماء کے راستے الگ ہوجاتے ہیں۔
اول الذکر کتب احادیث کو کتب روایات کا نام دیتے ہیں اور ان پر مذکورہ بالا اعتراضات کرتے ہیں اور موخر الذکر ان کا دفاع کرتے ہیں، ایمان کا حصہ کہتے ہیں اور آخر میں منکر حدیث کا لیبل لگا دیتے ہیں۔
میری تو سمجھ میں اس بات کا کوئی حل نہیں کہ اس مسئلے کا کیا حل ہو۔۔
 
سلام،

آپ نے درست فرمایا کہ یہ معلومات ہے اور ہم سب کے خیال میں‌درست معلومات ہے۔ اس پر بحث مقصد نہیں۔ البتہ آپ میں سے کوئی صاحب اگر اس کی انگریزی روایات پر عربی اور اردو کی روایات لگا دیں‌تو بہت ہی اچھا ہو۔ اس دھاگہ کا مقصد قطعاً‌ کوئی بھث نہیں تو مقفل کرنے کی درخواست کرنے کی درخواست کی وجہ سمجھ نہیں‌آئی۔

توٹ: قرآن اور حدیث کے بارے میں بات چیت ایک جگہ چل رہی ہے ، وہیں‌بات کیجئے تو بہتر ہے، استدعا یہ ہے کہ یہاں اسی موضوع پر رہئیے کہ قرآن کن ہاتھوں‌سے ہم تک پہنچا۔ اچھی بات جو بھی کرے اس کو دعا۔
 

ابو کاشان

محفلین
مقفّل کرنے کی درخواست کسی ممکنہ بحث و مباحثہ کے شروع ہو جانے کے پیشِ نظر کی گئی تھی کیونکہ معلومات کو معلومات ہی رہنا چاہیئے۔
 

وجی

لائبریرین
السلام علیکم میری ناقص معلومات کے مطابق حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے کاایک قرآن لندن میوزیم میں بھی ہے
اور یہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی نے جب قرآن کو کتابی شکل دی تو اس کے اصول کچھ اس طرح تھے

1- دو گواہ جنہوں نے کتابت خود کی ہو یا جن کے سامنے کتابت کی گئی ہو
2- دو گواہ جن کے سامنے یا جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیات سنائیں یا انہوں نے سنی ہو

اور سورہ توبہٰ کی آخری دو آیات وہ ہیں جن کے لئے ایک صحابی کی ہی گواہی مانی گئی وہ حضرت خضیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے

حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قرآن کی نقلیں بنوائیں تھیں انکی دوبارہ تصدیق نہیں کروائی تھی کیا ان کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ ،حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت زید بن ثانت رضی اللہ تعالٰی عنہ پر یقین نہیں تھا ؟؟
 

ابو کاشان

محفلین
السلام علیکم میری ناقص معلومات کے مطابق حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے کاایک قرآن لندن میوزیم میں بھی ہے
اور یہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی نے جب قرآن کو کتابی شکل دی تو اس کے اصول کچھ اس طرح تھے

1- دو گواہ جنہوں نے کتابت خود کی ہو یا جن کے سامنے کتابت کی گئی ہو
2- دو گواہ جن کے سامنے یا جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیات سنائیں یا انہوں نے سنی ہو

اور سورہ توبہٰ کی آخری دو آیات وہ ہیں جن کے لئے ایک صحابی کی ہی گواہی مانی گئی وہ حضرت خضیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے

حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قرآن کی نقلیں بنوائیں تھیں انکی دوبارہ تصدیق نہیں کروائی تھی کیا ان کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ ،حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت زید بن ثانت رضی اللہ تعالٰی عنہ پر یقین نہیں تھا ؟؟

ان صحابی رضی اللہ عنہ کے بارے میں شاید ایک حدیث یا روایت بھی ہے جس میں ہے کہ (کسی واقعے کے بعد) ان کی ایک گواہی کو دو مانا جائے۔ کوئی صاحب اس کا حوالہ فراہم کر دیں تو بات مستعد ہو جائے۔
 
اقتباس:
حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قرآن کی نقلیں بنوائیں تھیں انکی دوبارہ تصدیق نہیں کروائی تھی کیا ان کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ ،حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت زید بن ثانت رضی اللہ تعالٰی عنہ پر یقین نہیں تھا ؟؟


جی اور اس کا بیان کا بھی مستند حوالہ فراہم کردیجئے۔ تقریباً تمام کتب روایات آن لائین ہیں۔
 

وجی

لائبریرین
وہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ
ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے مضافات میں تھے تو ادھر سے کسی بدھو کا گزر ہوا اس کے پاس کوئی جانور تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اس جانور کا سودا کیا اور وہ مان گیا آپ کے پاس اس وقت رقم نہیں تھی تو اس کو ساتھ لے کر شہر آئے شہر میں آتے ہی کسی نے اس بدھو سے جانور کی خریدنے کے لئے اس کی قیمت پوچھی تو اسنے زیادہ رقم بتائی اور وہ شخص مان گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو آگے چل رہے تھے پیچھے جاکر اس سے کہا کہ تم یہ جانور مجھےبیچ چکے ہو پھر اس کا سودا کیسے کر سکتے ہو تو اس بدھو نے کہا کہ آپ کوئی گواہی دے دیں کہ یہ جانور میں نے آپ کو بیچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے کہ اس جگہ کوئی اور موجود نہیں تھا تو حضرت خضیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ جو قریب ہی موجود تھے نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ جانور تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بیچا تھا تو وہ مان گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلوبہ رقم اس شخص کو دی اور پھر حضرت خضیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا کہ تم کہاں کھڑے تھے اس جگہ تو انہوں نے کہا کہ میں وہاں موجود نہیں تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پورا یقین ہے کہ آپ جھوٹ نہیں بول رہے میں اس بات پر ایمان لایا کہ آپ کے پاس فرشتے آتے ہیں میں نے کوئی فرشتہ نہیں دیکھا ، میں نے جنت نہیں دیکھی لیکن ایمان لایا آپ کی بات پر، میں نے جہنم نہیں دیکھی لیکن آپ کی بات پر ایمان لایا تو اس چھوٹی سی بات پر کیوں ایمان نا لاؤں کے آپ نے اس جانور کا سودا کیا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج سے حضرت خضیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کی گواہی دو کے برابر ہوگی
اور بھائی تاریخ میں صرف وہ ایک ہی موقعہ ایسا آیا تھا جب آپ کی ایک گواہی دو کے برابر مانی گئی تھی اور وہ موقعہ قرآن کا نسخہ بناتے ہوئے آیا
 
فاروق صاحب میں نے آپ سے سوال کیا تھا اس بارے میں

لندن والے قران کا کوئی حوالہ فراہم کردیجئے۔

آپ کے سوال کو میں آپ کا بیان سمجھا تھا۔ میری اپنی معلومات اس ضمن میں‌صفر ہیں بھائی۔ قرآن پر ایمان صرف اور صرف اپنے ایمان کے باعث ہے نا کہ کسی شہادت پر۔

آپ کے سوال کا جواب، ان روایات میں کہاں‌ہے؟:
دونوں‌مرتبہ جو طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ ان روایتوں میں درج ہے جن کا حوالہ فراہم کیا گیا۔ ان روایتوں سے یہ پتہ چلتاہے کہ دونوں مرتبہ قرآن کی تدوین الگ الگ مکمل آزادی اور مکمل گواہی سے کی گئی۔ دوسری بار پہلے قران سے نئے قران کو ملا کر دیکھا بھی گیا۔ پھر اسکی نقول بنوا کر مختلف جگہوں پر بھجوائی گئیں۔

اللہ بہتر جانتا ہے۔
 

دوست

محفلین
وہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ
ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے مضافات میں تھے تو ادھر سے کسی بدھو کا گزر ہوا اس کے پاس کوئی جانور تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اس جانور کا سودا کیا اور وہ مان گیا آپ کے پاس اس وقت رقم نہیں تھی تو اس کو ساتھ لے کر شہر آئے شہر میں آتے ہی کسی نے اس بدھو سے جانور کی خریدنے کے لئے اس کی قیمت پوچھی تو اسنے زیادہ رقم بتائی اور وہ شخص مان گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو آگے چل رہے تھے پیچھے جاکر اس سے کہا کہ تم یہ جانور مجھےبیچ چکے ہو پھر اس کا سودا کیسے کر سکتے ہو تو اس بدھو نے کہا کہ آپ کوئی گواہی دے دیں کہ یہ جانور میں نے آپ کو بیچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے کہ اس جگہ کوئی اور موجود نہیں تھا تو حضرت خضیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ جو قریب ہی موجود تھے نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ جانور تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بیچا تھا تو وہ مان گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلوبہ رقم اس شخص کو دی اور پھر حضرت خضیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا کہ تم کہاں کھڑے تھے اس جگہ تو انہوں نے کہا کہ میں وہاں موجود نہیں تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پورا یقین ہے کہ آپ جھوٹ نہیں بول رہے میں اس بات پر ایمان لایا کہ آپ کے پاس فرشتے آتے ہیں میں نے کوئی فرشتہ نہیں دیکھا ، میں نے جنت نہیں دیکھی لیکن ایمان لایا آپ کی بات پر، میں نے جہنم نہیں دیکھی لیکن آپ کی بات پر ایمان لایا تو اس چھوٹی سی بات پر کیوں ایمان نا لاؤں کے آپ نے اس جانور کا سودا کیا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج سے حضرت خضیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کی گواہی دو کے برابر ہوگی
اور بھائی تاریخ میں صرف وہ ایک ہی موقعہ ایسا آیا تھا جب آپ کی ایک گواہی دو کے برابر مانی گئی تھی اور وہ موقعہ قرآن کا نسخہ بناتے ہوئے آیا
لفظ بدّو ہوتا ہے۔ بدھو اردو میں بے وقوف یا بے عقل کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
 
بھائی وجی، سلام۔

میں اس روایت کے بارے میں سوچتا رہا اور پڑھتا بھی رہا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے یہ روایت کسی نہ کسی کتاب میں پڑھی ہوگی، آپ کا کوئی قصور نہیں ہے۔ عرصہ ہوا مسلمانوں نے اپنی عقیدت میں سوچنا چھوڑ دیا ہے ۔

ہمارے پاس اس روایت کے درست ہونے کا صرف یہ ثبوت ہے کہ کسی کتاب میں‌چھپی ہے۔ آیا یہ واقعہ رسول اللہ کے ساتھ پیش آیا ، ہم دیکھتے ہیں۔

1۔ مستقبل کے وعدہ کا سودا ہونا:
ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے مضافات میں تھے تو ادھر سے کسی بدھو کا گزر ہوا اس کے پاس کوئی جانور تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اس جانور کا سودا کیا اور وہ مان گیا آپ کے پاس اس وقت رقم نہیں تھی تو اس کو ساتھ لے کر شہر آئے

2۔ بدو کا وعدے سے پھر جانا:
شہر میں آتے ہی کسی نے اس بدھو سے جانور کی خریدنے کے لئے اس کی قیمت پوچھی تو اسنے زیادہ رقم بتائی اور وہ شخص مان گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو آگے چل رہے تھے پیچھے جاکر اس سے کہا کہ تم یہ جانور مجھےبیچ چکے ہو پھر اس کا سودا کیسے کر سکتے ہو

3۔ بدو کا گواہی طلب کرنا:
تو اس بدھو نے کہا کہ آپ کوئی گواہی دے دیں کہ یہ جانور میں نے آپ کو بیچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے کہ اس جگہ کوئی اور موجود نہیں تھا تو

4۔ کسی بد نیت کا ایک صحابی سے پیچ دار گواہی دینے کا منسوب کرنا:
حضرت خضیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ جو قریب ہی موجود تھے نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ جانور تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بیچا تھا تو وہ مان گیا

5۔ کسی بد نیت کا نبی اکرم سے منسوب کرنا کہ انہوں نے جھوٹی گواہی کی تائید کیا اور ہمت افزائی کی:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلوبہ رقم اس شخص کو دی اور پھر حضرت خضیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا کہ تم کہاں کھڑے تھے اس جگہ تو انہوں نے کہا کہ میں وہاں موجود نہیں تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پورا یقین ہے کہ آپ جھوٹ نہیں بول رہے میں

6۔ تمام صحابہ درج ذیل پر ایمان لائے تھے جس کے لئے انہوں نے اپنی جانیں دیں اور زخم کھائے:
اس بات پر ایمان لایا کہ آپ کے پاس فرشتے آتے ہیں میں نے کوئی فرشتہ نہیں دیکھا ، میں نے جنت نہیں دیکھی لیکن ایمان لایا آپ کی بات پر، میں نے جہنم نہیں دیکھی لیکن آپ کی بات پر ایمان لایا تو اس چھوٹی سی بات پر کیوں ایمان نا لاؤں کے آپ نے اس جانور کا سودا کیا تھا تو

7۔ کہانی میں مزید زور پیدا کرنے کے لئے رسول اکرم سے قرآن کے دو گواہوں‌ کے واضح‌حکم کو نظرانداز کرنا منسوب کیا جارہا ہے۔ کسی بد طینتی کی ایک اور مثال۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج سے حضرت خضیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کی گواہی دو کے برابر ہوگی اور بھائی تاریخ میں صرف وہ ایک ہی موقعہ ایسا آیا تھا جب آپ کی ایک گواہی دو کے برابر مانی گئی تھی اور وہ موقعہ قرآن کا نسخہ بناتے ہوئے آیا

یہ روایات اگر دیکھئے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ اصل واقعہ کچھ اور ہے۔ اب دیکھتے ہیں‌کہ قران کے کس کس حکم کی خلاف ورزی کی گئی

1۔ مستقبل کے وعدہ کا سودا ہونا یا قرض‌لینا دینا - دو گواہی کا اصول، منسوب کرنے والے نے رسول اکرم سے منسوب کیا کہ انہوں نے کوئی گواہ نہیں ٹھیرایا:

[ayah]2:282 [/ayah] اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور تمہارے درمیان جو لکھنے والا ہو اسے چاہئے کہ انصاف کے ساتھ لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اﷲ نے لکھنا سکھایا ہے، پس وہ لکھ دے (یعنی شرع اور ملکی دستور کے مطابق وثیقہ نویسی کا حق پوری دیانت سے ادا کرے)، اور مضمون وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق (یعنی قرض) ہو اور اسے چاہئے کہ اﷲ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اور اس (زرِ قرض) میں سے (لکھواتے وقت) کچھ بھی کمی نہ کرے، پھر اگر وہ شخص جس کے ذمہ حق واجب ہوا ہے ناسمجھ یا ناتواں ہو یا خود مضمون لکھوانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس کے کارندے کو چاہئے کہ وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے، اور اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو، پھر اگر دونوں مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں (یہ) ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرتے ہو (یعنی قابلِ اعتماد سمجھتے ہو) تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے، اور گواہوں کو جب بھی (گواہی کے لئے) بلایا جائے وہ انکار نہ کریں، اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اپنی میعاد تک لکھ رکھنے میں اکتایا نہ کرو، یہ تمہارا دستاویز تیار کر لینا اﷲ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف ہے اور گواہی کے لئے مضبوط تر اور یہ اس کے بھی قریب تر ہے کہ تم شک میں مبتلا نہ ہو سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں، اور جب بھی آپس میں خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو، اور نہ لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے اور نہ گواہ کو، اور اگر تم نے ایسا کیا تو یہ تمہاری حکم شکنی ہوگی، اور اﷲ سے ڈرتے رہو، اور اﷲ تمہیں (معاملات کی) تعلیم دیتا ہے اور اﷲ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے

رسول اللہ سے منسوب کیا جارہا ہے کہ انہوں نے باقبضہ رہن نہیں رکھوایا، اور جب بدو نے گواہی طلب کی توگواہ سے کچھ نہیں پوچھا۔ یہ آیت دیکھئے کیا حکم دے رہی ہے؟

[ayah]2:283[/ayah] اور اگر تم سفر پر ہو اور کوئی لکھنے والا نہ پاؤ تو باقبضہ رہن رکھ لیا کرو، پھر اگر تم میں سے ایک کو دوسرے پر اعتماد ہو تو جس کی دیانت پر اعتماد کیا گیا اسے چاہئے کہ اپنی امانت ادا کر دے اور وہ اﷲ سے ڈرتا رہے جو اس کا پالنے والا ہے، اور تم گواہی کو چُھپایا نہ کرو، اور جو شخص گواہی چُھپاتا ہے تو یقینا اس کا دل گنہگار ہے، اور اﷲ تمہارے اعمال کو خوب جاننے والا ہے

4۔ کسی بد نیت کا ایک صحابی سے پیچ دار گواہی دینے کا منسوب کرنا، جبکہ قرآن ایسی گواہی کو منع کررہا ہے:
[ayah]4:135[/ayah] اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مال دار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ (گے)، اور اگر تم (گواہی میں) پیچ دار بات کرو گے یا (حق سے) پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے


5۔ کسی بد نیت کا نبی اکرم سے منسوب کرنا کہ انہوں نے جھوٹی گواہی کی تائید کیا اور ہمت افزائی کی، جبکہ جھوٹی گواہی دینا گناہ ہے اور رسول اللہ کو اسی عدلیہ نظام کے فروغ کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا تھا:
[ayah]5:107[/ayah] پھر اگر اس (بات) کی اطلاع ہو جائے کہ وہ دونوں (صحیح گواہی چھپانے کے باعث) گناہ کے سزاوار ہو گئے ہیں تو ان کی جگہ دو اور (گواہ) ان لوگوں میں سے کھڑے ہو جائیں جن کا حق پہلے دو (گواہوں) نے دبایا ہے (وہ میت کے زیادہ قرابت دار ہوں) پھر وہ اللہ کی قَسم کھائیں کہ بیشک ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ سچی ہے اور ہم (حق سے) تجاوز نہیں کر رہے، (اگر ایسا کریں تو) ہم اسی وقت ظالموں میں سے ہو جائیں گے

16:105 بیشک جھوٹی افترا پردازی (بھی) وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اور وہی لوگ جھوٹے ہیں

اس انفارمیشن اور معلومات کے بعد ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ --- کیا ایسا ممکن ہے کہ -- رحمت للعالمین کے لئے ایک گدھے کے لئے ، اس نگراں رسول نے اپنی یہ سنت پیش کی کہ

1۔ قانون تجارت توڑ دیا۔
2۔ رہن با قبضہ نہیں رکھوایا اور اصرار کیا کہ یہ تجارت ہوگئی۔
3۔ صحابی کی پیچ دار گواہی قبول کرلی، جبک جھوٹ بولنا ایمان کھونے کی نشانی ہے۔
4۔ پیچ دار گواہی قبول کرلی جبکہ عدل کرنے کے لئے اس کی ممانعت ہے۔

پھر اہم بات یہ ہے کہ رسول اکرم سے منسوب کیا جارہا ہے کہ قرآن جس کی سنت ہے وہی قرآن کے اصولوں کو توڑتا نظر آ رہا ہے۔ ، ایک معمولی گدھے کے لئے۔

کیا یہ سب آپ کے دل کو لگتا ہے؟ ایک ایسی روایت جس کے درست ہونے کی کوئی قرآنی گواہی نہیں ہے۔ صرف اس لئے کہ ایک غیر مستند کتاب میں لکھی ہے۔

اب دیکھئے کہ جب ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ اگر رسول اللہ نے فرمایا ہے تو درست ہوگا تو قرآن کی آیت نازل ہوگئی

لیکن اتنا بڑا واقعہ ہوا کہ قانون شہادت توڑ دیا گیا ، اصول صدق توڑ دیا گیا ، اصول تجارت کی ایک سے زیادہ شق توڑ‌دی گئی اور اللہ تعالی کے طرف سے اس امر کی توثیق کا اشارہ تک قرآن میں نہیں ملتا؟

جن اصحابہ نے اپنے بدن پر زخم کھائے اور اعتقاد ، ایمان و یقین کی بلند ترین منزلوں‌سے گذر گئے ان کے لئے رسول اکرم نے قانون شہادت میں نرمی نہیں کی تو کیا ایک گدھے کی خریدکے لئے کیا رسول اکرم ایسا کرسکتے تھے؟ ناممکن، رسول اکرم کا کردار مبارک اور ان کے صحابہ کا کردار مبارک اگر ایسا ہوتا تو اسلام آج دنیا بھر میں‌ نہ پھیلا ہوتا۔ جو اصحابہ کرام رسالت پر ایمان لائے اور ساتھ ہجرت فرمائی ، ان کے لئے کوئی نرمی نہیں۔ جن کو رسالت کے بعد خلافت ملی ، ان کو یہ اعزاز نہیں حاصل ہوا کہ ان کی گواہی دو کے برابر ہو اور ایک گدھے کے سودے پر پیچ دار گواہی دینے پر کئی قوانین توڑ دئے جائیں، ایسا ہمارے رسول اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم سے کیسے ممکن ہے؟

کیا یہ سراسر توہین رسالت و اصحاب نہیں؟
اس روایت میں‌ کافی کجی ہے بھائی۔ دل سے دیکھئے ایک بار پھر۔ کیا ہمارے علماء ایسے واقعات پر اعتراض نہیں کرتے ، جن میں ایسے دو دھاری واقعات کی مدد سے جن میں‌ مسلمانوں کی عقیدت سے فائیدہ اٹھا کر ، خلاف قرآن واقعات پر یقین دلایا جاتا ہے۔ اور دوسری طرف (نعوذ باللہ) مذاق اڑایا جاتا ہے کہ مسلمانوں کا رسول ایک گدھے کے سودے کی خاطر ، اللہ کے اصول و قانون توڑ دیتا تھا؟

والسلام
 

dxbgraphics

محفلین
بھائی وجی، سلام۔

میں اس روایت کے بارے میں سوچتا رہا اور پڑھتا بھی رہا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے یہ روایت کسی نہ کسی کتاب میں پڑھی ہوگی، آپ کا کوئی قصور نہیں ہے۔ عرصہ ہوا مسلمانوں نے اپنی عقیدت میں سوچنا چھوڑ دیا ہے ۔

ہمارے پاس اس روایت کے درست ہونے کا صرف یہ ثبوت ہے کہ کسی کتاب میں‌چھپی ہے۔ آیا یہ واقعہ رسول اللہ کے ساتھ پیش آیا ، ہم دیکھتے ہیں۔

1۔ مستقبل کے وعدہ کا سودا ہونا:
ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے مضافات میں تھے تو ادھر سے کسی بدھو کا گزر ہوا اس کے پاس کوئی جانور تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اس جانور کا سودا کیا اور وہ مان گیا آپ کے پاس اس وقت رقم نہیں تھی تو اس کو ساتھ لے کر شہر آئے

2۔ بدو کا وعدے سے پھر جانا:
شہر میں آتے ہی کسی نے اس بدھو سے جانور کی خریدنے کے لئے اس کی قیمت پوچھی تو اسنے زیادہ رقم بتائی اور وہ شخص مان گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو آگے چل رہے تھے پیچھے جاکر اس سے کہا کہ تم یہ جانور مجھےبیچ چکے ہو پھر اس کا سودا کیسے کر سکتے ہو

3۔ بدو کا گواہی طلب کرنا:
تو اس بدھو نے کہا کہ آپ کوئی گواہی دے دیں کہ یہ جانور میں نے آپ کو بیچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے کہ اس جگہ کوئی اور موجود نہیں تھا تو

4۔ کسی بد نیت کا ایک صحابی سے پیچ دار گواہی دینے کا منسوب کرنا:
حضرت خضیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ جو قریب ہی موجود تھے نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ جانور تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بیچا تھا تو وہ مان گیا

5۔ کسی بد نیت کا نبی اکرم سے منسوب کرنا کہ انہوں نے جھوٹی گواہی کی تائید کیا اور ہمت افزائی کی:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلوبہ رقم اس شخص کو دی اور پھر حضرت خضیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا کہ تم کہاں کھڑے تھے اس جگہ تو انہوں نے کہا کہ میں وہاں موجود نہیں تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پورا یقین ہے کہ آپ جھوٹ نہیں بول رہے میں

6۔ تمام صحابہ درج ذیل پر ایمان لائے تھے جس کے لئے انہوں نے اپنی جانیں دیں اور زخم کھائے:
اس بات پر ایمان لایا کہ آپ کے پاس فرشتے آتے ہیں میں نے کوئی فرشتہ نہیں دیکھا ، میں نے جنت نہیں دیکھی لیکن ایمان لایا آپ کی بات پر، میں نے جہنم نہیں دیکھی لیکن آپ کی بات پر ایمان لایا تو اس چھوٹی سی بات پر کیوں ایمان نا لاؤں کے آپ نے اس جانور کا سودا کیا تھا تو

7۔ کہانی میں مزید زور پیدا کرنے کے لئے رسول اکرم سے قرآن کے دو گواہوں‌ کے واضح‌حکم کو نظرانداز کرنا منسوب کیا جارہا ہے۔ کسی بد طینتی کی ایک اور مثال۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج سے حضرت خضیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کی گواہی دو کے برابر ہوگی اور بھائی تاریخ میں صرف وہ ایک ہی موقعہ ایسا آیا تھا جب آپ کی ایک گواہی دو کے برابر مانی گئی تھی اور وہ موقعہ قرآن کا نسخہ بناتے ہوئے آیا

یہ روایات اگر دیکھئے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ اصل واقعہ کچھ اور ہے۔ اب دیکھتے ہیں‌کہ قران کے کس کس حکم کی خلاف ورزی کی گئی

1۔ مستقبل کے وعدہ کا سودا ہونا یا قرض‌لینا دینا - دو گواہی کا اصول، منسوب کرنے والے نے رسول اکرم سے منسوب کیا کہ انہوں نے کوئی گواہ نہیں ٹھیرایا:

[ayah]2:282 [/ayah] اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور تمہارے درمیان جو لکھنے والا ہو اسے چاہئے کہ انصاف کے ساتھ لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اﷲ نے لکھنا سکھایا ہے، پس وہ لکھ دے (یعنی شرع اور ملکی دستور کے مطابق وثیقہ نویسی کا حق پوری دیانت سے ادا کرے)، اور مضمون وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق (یعنی قرض) ہو اور اسے چاہئے کہ اﷲ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اور اس (زرِ قرض) میں سے (لکھواتے وقت) کچھ بھی کمی نہ کرے، پھر اگر وہ شخص جس کے ذمہ حق واجب ہوا ہے ناسمجھ یا ناتواں ہو یا خود مضمون لکھوانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس کے کارندے کو چاہئے کہ وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے، اور اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو، پھر اگر دونوں مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں (یہ) ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرتے ہو (یعنی قابلِ اعتماد سمجھتے ہو) تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے، اور گواہوں کو جب بھی (گواہی کے لئے) بلایا جائے وہ انکار نہ کریں، اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اپنی میعاد تک لکھ رکھنے میں اکتایا نہ کرو، یہ تمہارا دستاویز تیار کر لینا اﷲ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف ہے اور گواہی کے لئے مضبوط تر اور یہ اس کے بھی قریب تر ہے کہ تم شک میں مبتلا نہ ہو سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں، اور جب بھی آپس میں خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو، اور نہ لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے اور نہ گواہ کو، اور اگر تم نے ایسا کیا تو یہ تمہاری حکم شکنی ہوگی، اور اﷲ سے ڈرتے رہو، اور اﷲ تمہیں (معاملات کی) تعلیم دیتا ہے اور اﷲ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے

رسول اللہ سے منسوب کیا جارہا ہے کہ انہوں نے باقبضہ رہن نہیں رکھوایا، اور جب بدو نے گواہی طلب کی توگواہ سے کچھ نہیں پوچھا۔ یہ آیت دیکھئے کیا حکم دے رہی ہے؟

[ayah]2:283[/ayah] اور اگر تم سفر پر ہو اور کوئی لکھنے والا نہ پاؤ تو باقبضہ رہن رکھ لیا کرو، پھر اگر تم میں سے ایک کو دوسرے پر اعتماد ہو تو جس کی دیانت پر اعتماد کیا گیا اسے چاہئے کہ اپنی امانت ادا کر دے اور وہ اﷲ سے ڈرتا رہے جو اس کا پالنے والا ہے، اور تم گواہی کو چُھپایا نہ کرو، اور جو شخص گواہی چُھپاتا ہے تو یقینا اس کا دل گنہگار ہے، اور اﷲ تمہارے اعمال کو خوب جاننے والا ہے

4۔ کسی بد نیت کا ایک صحابی سے پیچ دار گواہی دینے کا منسوب کرنا، جبکہ قرآن ایسی گواہی کو منع کررہا ہے:
[ayah]4:135[/ayah] اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مال دار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ (گے)، اور اگر تم (گواہی میں) پیچ دار بات کرو گے یا (حق سے) پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے


5۔ کسی بد نیت کا نبی اکرم سے منسوب کرنا کہ انہوں نے جھوٹی گواہی کی تائید کیا اور ہمت افزائی کی، جبکہ جھوٹی گواہی دینا گناہ ہے اور رسول اللہ کو اسی عدلیہ نظام کے فروغ کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا تھا:
[ayah]5:107[/ayah] پھر اگر اس (بات) کی اطلاع ہو جائے کہ وہ دونوں (صحیح گواہی چھپانے کے باعث) گناہ کے سزاوار ہو گئے ہیں تو ان کی جگہ دو اور (گواہ) ان لوگوں میں سے کھڑے ہو جائیں جن کا حق پہلے دو (گواہوں) نے دبایا ہے (وہ میت کے زیادہ قرابت دار ہوں) پھر وہ اللہ کی قَسم کھائیں کہ بیشک ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ سچی ہے اور ہم (حق سے) تجاوز نہیں کر رہے، (اگر ایسا کریں تو) ہم اسی وقت ظالموں میں سے ہو جائیں گے

16:105 بیشک جھوٹی افترا پردازی (بھی) وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اور وہی لوگ جھوٹے ہیں

اس انفارمیشن اور معلومات کے بعد ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ --- کیا ایسا ممکن ہے کہ -- رحمت للعالمین کے لئے ایک گدھے کے لئے ، اس نگراں رسول نے اپنی یہ سنت پیش کی کہ

1۔ قانون تجارت توڑ دیا۔
2۔ رہن با قبضہ نہیں رکھوایا اور اصرار کیا کہ یہ تجارت ہوگئی۔
3۔ صحابی کی پیچ دار گواہی قبول کرلی، جبک جھوٹ بولنا ایمان کھونے کی نشانی ہے۔
4۔ پیچ دار گواہی قبول کرلی جبکہ عدل کرنے کے لئے اس کی ممانعت ہے۔

پھر اہم بات یہ ہے کہ رسول اکرم سے منسوب کیا جارہا ہے کہ قرآن جس کی سنت ہے وہی قرآن کے اصولوں کو توڑتا نظر آ رہا ہے۔ ، ایک معمولی گدھے کے لئے۔

کیا یہ سب آپ کے دل کو لگتا ہے؟ ایک ایسی روایت جس کے درست ہونے کی کوئی قرآنی گواہی نہیں ہے۔ صرف اس لئے کہ ایک غیر مستند کتاب میں لکھی ہے۔

اب دیکھئے کہ جب ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ اگر رسول اللہ نے فرمایا ہے تو درست ہوگا تو قرآن کی آیت نازل ہوگئی

لیکن اتنا بڑا واقعہ ہوا کہ قانون شہادت توڑ دیا گیا ، اصول صدق توڑ دیا گیا ، اصول تجارت کی ایک سے زیادہ شق توڑ‌دی گئی اور اللہ تعالی کے طرف سے اس امر کی توثیق کا اشارہ تک قرآن میں نہیں ملتا؟

جن اصحابہ نے اپنے بدن پر زخم کھائے اور اعتقاد ، ایمان و یقین کی بلند ترین منزلوں‌سے گذر گئے ان کے لئے رسول اکرم نے قانون شہادت میں نرمی نہیں کی تو کیا ایک گدھے کی خریدکے لئے کیا رسول اکرم ایسا کرسکتے تھے؟ ناممکن، رسول اکرم کا کردار مبارک اور ان کے صحابہ کا کردار مبارک اگر ایسا ہوتا تو اسلام آج دنیا بھر میں‌ نہ پھیلا ہوتا۔ جو اصحابہ کرام رسالت پر ایمان لائے اور ساتھ ہجرت فرمائی ، ان کے لئے کوئی نرمی نہیں۔ جن کو رسالت کے بعد خلافت ملی ، ان کو یہ اعزاز نہیں حاصل ہوا کہ ان کی گواہی دو کے برابر ہو اور ایک گدھے کے سودے پر پیچ دار گواہی دینے پر کئی قوانین توڑ دئے جائیں، ایسا ہمارے رسول اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم سے کیسے ممکن ہے؟

کیا یہ سراسر توہین رسالت و اصحاب نہیں؟
اس روایت میں‌ کافی کجی ہے بھائی۔ دل سے دیکھئے ایک بار پھر۔ کیا ہمارے علماء ایسے واقعات پر اعتراض نہیں کرتے ، جن میں ایسے دو دھاری واقعات کی مدد سے جن میں‌ مسلمانوں کی عقیدت سے فائیدہ اٹھا کر ، خلاف قرآن واقعات پر یقین دلایا جاتا ہے۔ اور دوسری طرف (نعوذ باللہ) مذاق اڑایا جاتا ہے کہ مسلمانوں کا رسول ایک گدھے کے سودے کی خاطر ، اللہ کے اصول و قانون توڑ دیتا تھا؟

والسلام

فرض کریں ایسا واقعہ پیش نہ آیا ہوتا تو کیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان صحابی کی گواہی کو دو کے برابر درجہ دیتے۔
 

dxbgraphics

محفلین
حدیث کو کبھی بھی قرآن کے برابر نہیں رکھا جاسکتا۔ قرآن افضل ہے اور حدیث رسول ﷺ دوسرے نمبر پر۔
حدیث رسول ﷺ قرآنی باتوں کی تفصیل بیان کرتی ہے جس کی بدولت دین سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔
لیکن اختلاف تب پیدا ہوتا ہے جب ایک چیز قرآن میں نہیں ہے اور حدیث رسول ﷺ میں موجود ہے اور علم الحدیث کی رو سے صحیح یا حسن ہے یعنی اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے اور وہ وضاحت یا حکم یا بات موجودہ زمانے یا عقلی لحاظ سے درست نہیں لگتی۔ بس یہاں فاروق سرور خان اور ان جیسے مسلمانوں اور روایتی علماء کے راستے الگ ہوجاتے ہیں۔
اول الذکر کتب احادیث کو کتب روایات کا نام دیتے ہیں اور ان پر مذکورہ بالا اعتراضات کرتے ہیں اور موخر الذکر ان کا دفاع کرتے ہیں، ایمان کا حصہ کہتے ہیں اور آخر میں منکر حدیث کا لیبل لگا دیتے ہیں۔
میری تو سمجھ میں اس بات کا کوئی حل نہیں کہ اس مسئلے کا کیا حل ہو۔۔

آپ عالم ہیں جو حدیث میں تکرار کریں گے۔ یا تو آپ کو مرزا عارف کریم بھائی کی ہوا لگ گئی ہے
 

arifkarim

معطل
ہاں حدیث میں‌تکرار عالمین کے علاوہ کون کر سکتا ہے؟ عام لوگوں کا تو کام ہی عالمین کی اطاعت کرنا ہے! :)
 
Top