رضا
معطل
السلام علیکم
عیدالاضحی قریب آرہی ہے تو اس حوالے سے یہ آرٹیکل پیش خدمت ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلوٰۃ وَالسَّلَامُ عَلیٰ سَیِّدِ الْمُرسَلِیْنَ اَمّا بَعْدُ فَاَ عُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّ حِیْم ط
’’قربانی واجب ہے‘‘کے بارہ حروف کی نسبت سے قربانی کے 12مدنی پھول
ماخوذ از رسالہ ’’اَبْلَق گھوڑے سوار‘‘
تصنیف:شیخِ طریقت ،امیرِ اَہلسنّت ،بانیء دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطارقادِری رضَوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَّہ
1- ہر عاقل،بالغ مقیم مسلمان مردو عورت مالکِ نصاب پر قربانی واجب ہے(فتاوٰی عالمگیری ج 5 ص292 کوئٹہ)
2-عام طور پر یہ رَواج ہے کہ پورے گھر کی طرف سے ایک بکرا قربان کر دیا جا تا ہے حالانکہ صاحبِ نصاب ہونے کی بناء پر گھر کے کئی افراد پر قُربانی واجب ہوتی ہے ان سب کی طرف سے الگ الگ قُربانی کی جائے (از افادات:فتاوٰی رضویہ جدید ج20ص304)
3-گائے(بھینس) اور اُونٹ میں سات قربانیاں ہو سکتی ہیں ۔(فتاوٰی عالمگیری ج5 ص304 کوئٹہ)
4-نابالغ کی طرف سے اگرچہ واجب نہیں مگر کر دینا بہتر ہے اور اجازت بھی ضروری نہیں ۔بالغ اولاد یا زَوجہ کی طرف سے قُربانی کرنا چاہے تو اُن سے اجازت طلب کرے اگر اُن سے اجازت لیے بغیر کر دی تو ان کی طرف سے واجب ادا نہیں ہو گا (فتاوٰی عالمگیری ج5ص304کوئٹہ،بہارِ شریعت حصہ15ص134مدینۃ المرشد بریلی شریف)اجازت دو طرح سے ہوتی ہے (1)صراحتہً مَثَلاً ان میں سے کوئی واضح طور پر کہہ دے کہ میری طرف سے قُربانی کر دو(2) دَلالۃً یعنی انڈر اِسٹُوڈ ہو مَثَلاً یہ اپنی زَوجہ یا اولاد کی طرف سے قُربانی کرتا ہے اور انہیں اس کا علم ہے اور وہ راضی ہیں۔(فتاوٰی اہلسنت غیر مطبوعہ)
5-قُربانی کے وقْت میں قُربانی کرنا ہی لازِ م ہے کوئی دُوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہو سکتی مَثَلاً بجائے قُربانی کے بکرا یا اس کی قیمت صَدَقہ کر دی جائے یہ ناکافی ہے (فتاوٰی عالمگیری ج5ص293)
6-قربانی کے جانور کی عمر:اُونٹ پانچ سال کا ،گائے دو سال کی ،بکرا (اس میں بکری ،دُنبہ، دُنبی،بھیڑ اور بھیڑی شامل ہیں )ایک سال کا ۔اس سے کم عمر ہو تو قربانی جائز نہیں ،زیادہ ہو تو جائز بلکہ افضل ہے ۔ہاں دُنبہ یا بھیڑ کا چھ مہینے کا بچہ اگر اتنا بڑا ہو کہ دُور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے (دُرِّ مختار ج9ص533 دارالمعرفۃ بیروت) یاد رکھیے!مطلقاً چھ ماہ کے دُنبے کی قربانی جائز نہیں اُس کا اتنا فربہ اور قد آور ہونا ضروری ہے کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا لگے ۔اگر6ماہ بلکہ سال میں ایک دن بھی کم عمر کا دُنبے یا بھیڑ کا بچہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا نہیں لگتا تو اُس کی قربانی نہیں ہو گی۔
7-قربانی کا جانور بے عیب ہونا ضروری ہے اگر تھوڑا سا عیب ہو(مثلاً کان چِرا ہو ا ہو یا کان میں سوراخ ہو)تو قربانی مکروہ ہو گی اور زیادہ عیب ہو تو قربانی نہیں ہو گی ۔(دُرِّ مختار مَعَہ رَدُّ المحتار ج9ص536،بہارِ شریعت حصہ15ص140)
8-جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں اُس کی قربانی جائز ہے اور اگر پیدائشی کان نہ ہوں یا ایک کان نہ ہو ،اُس کی قربانی ناجائز ہے ۔(فتاوٰی عالمگیری ج5ص297 کوئٹہ)
9-ایسا پاگل جانورجو چَرتا نہ ہو ،اتنا کمزور کہ ہڈّیوں میں مغز نہ رہا،اندھا یا ایسا کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو ،ایسا بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو ،ایسا لنگڑا جو خود اپنے پاؤں سے قربان گاہ تک نہ جا سکے،کان،دُم یا چکّی ایک تہائی(3/1)سے زیادہ کٹے ہوئے ہوں ،ناک کٹی ہوئی ہو،دانت نہ ہوں،تھن کٹے ہوئے ہوں ان سب کی قربانی ناجائز ہے بکری میں ایک تھن کا خشک ہونا اور گائے ،بھینس میں دو کا خشک ہونا ناجائز ہونے کے لیے کافی ہے ۔ (دُرِّ مختار مَعَہ رَدُّ المحتار ج9ص535،بہارِ شریعت حصہ15 ص140)
10-بہتر یہ ہے کہ اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے کرے جبکہ اچھی طرح ذبح کرنا جانتاہواوراگر اچھی طرح نہ جانتا ہو تو دوسرے کو ذبح کرنے کا حکم دے مگر اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ وقت قربانی وہاں حاضر ہو۔(فتاوٰی عالمگیری ج5ص300 کوئٹہ)
11-قربانی کی اور اس کے پیٹ میں سے زندہ بچہ نکلا تو اسے بھی ذَبح کر دے اور اسے کھایا جا سکتا ہے اور مَرا ہوا بچہ ہوا ہو تو اسے پھینک دے کہ مُردار ہے ۔(بہارِ شریعت حصہ15 ص146 مدینۃ المرشد بریلی شریف)(مرا ہوا بچہ نکلا تب بھی قربانی ہو گئی اور گوشت میں بھی کسی قسم کی کراہیت نہیں)
12- دوسرے سے ذَبح کروایا اور خود اپنا ہاتھ بھی چھری پر رکھ دیا کہ دونوں نے مل کر ذَبح کیا تو دونوں پر بِسْمِ اللّٰہ کہنا واجب ہے ۔ایک نے بھی جان بوُجھ کر اللّٰہ کا نام ترک کیا یا یہ خیال کر کے چھوڑ دیا کہ دوسرے نے کہہ لیا ہے مجھے کہنے کی ضرورت نہیں دونوں صورتوں میں جانور حلال نہ ہوا۔(در مختار ج9ص551دار لمعرفۃ بیروت)
قربانی کا طریقہ:
(چاہے قربانی ہو یا ویسے ہی ذَبح کرنا ہو )سنّت یہ چلی آ رہی ہے کہ ذَبْح کرنے والا اور جانور دونوں قبلہ ُرو ہوں،ہمارے عَلاقہ (یعنی پاک و ہند) میں قبلہ مغرب میں ہے ،اس لیے سرِ ذَبیحہ(جانور کا سر)جنوب کی طرف ہونا چاہیے تاکہ جانور بائیں(اُلٹے )پہلو لیٹا ہو اور اس کی پیٹھ مشرق کی طرف ہو تاکہ اس کامنہ قبلہ کی طرف ہو جائے ،اور ذَبح کرنے والا اپنا دایا ں پاؤںجانور کی گردن کے دائیں(یعنی سیدھی طرف کے ساتھ والے )حصہ پر رکھے اور ذَبح کرے اور خود اپنا یا جانور کا منہ قبلہ کی طرف کرنا ترک کیا تو مکروہ ہے ۔(فتاوٰی رضویہ ج20ص216،217 رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاہور)
قربانی کا جانور ذَبح کرنے سے پہلے یہ دُعا پڑھی جائے :
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ(79) اِن صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(162) لَاشَرِیْکَ لَہ وَبِذٰلِک اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ(163) 1
اور جانور کے پہلو پر اپنا سیدھا پاؤں رکھ کر
اَللّٰھُمَّ لَکَ وَ مِنْکَ بِسْمِ اللّٰہ اللّٰہُ اکْبَرْ۔ 2
پڑھ کر تیز چھری سے جلد ذبح کر دیجئے۔
قربانی اپنی طرف سے ہو تو ذَبح کے بعدیہ دُعا پڑھے:
اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسَلَّم۔ 3
اگر دُوسرے کی طرف سے قربانی کریں تو مِنِّی کے بجائے مِنْ کہہ کر اس کا نام لیجئے ۔(بوقتِ ذَبح پیٹ پر پاؤ ں نہ رکھے کہ اس طرح بعض اوقات خون کے علاوہ غذا بھی نکلنے لگتی ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1:ترجمۂ کنز الایمان :میں نے اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان اور زمین بنائے ایک اُسی کا ہو کر اور میں مشرکوں میں نہیں۔بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللّٰہ کے لیے ہے جو رب سارے جہان کا ،اس کا کوئی شریک نہیں مجھے یہی حکم ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں(الانعام79،162،163)
2:اے اللہ تیرے ہی لئے اور تیری دی ہوئی توفیق سے،اللہ کے نام سے شروع اللہ سب سے بڑا ہے۔
3:اے اللہ میری طرف سے قبول فرما ،جس طرح تُو نے اپنے خلیل اِبرَاہِیم علیہ الصلوۃ والسلام اور اپنے حبیب مُحَمَّدصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسَلَّم کی طرف سے قبول فرمائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عیدالاضحی قریب آرہی ہے تو اس حوالے سے یہ آرٹیکل پیش خدمت ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلوٰۃ وَالسَّلَامُ عَلیٰ سَیِّدِ الْمُرسَلِیْنَ اَمّا بَعْدُ فَاَ عُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّ حِیْم ط
’’قربانی واجب ہے‘‘کے بارہ حروف کی نسبت سے قربانی کے 12مدنی پھول
ماخوذ از رسالہ ’’اَبْلَق گھوڑے سوار‘‘
تصنیف:شیخِ طریقت ،امیرِ اَہلسنّت ،بانیء دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطارقادِری رضَوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَّہ
1- ہر عاقل،بالغ مقیم مسلمان مردو عورت مالکِ نصاب پر قربانی واجب ہے(فتاوٰی عالمگیری ج 5 ص292 کوئٹہ)
2-عام طور پر یہ رَواج ہے کہ پورے گھر کی طرف سے ایک بکرا قربان کر دیا جا تا ہے حالانکہ صاحبِ نصاب ہونے کی بناء پر گھر کے کئی افراد پر قُربانی واجب ہوتی ہے ان سب کی طرف سے الگ الگ قُربانی کی جائے (از افادات:فتاوٰی رضویہ جدید ج20ص304)
3-گائے(بھینس) اور اُونٹ میں سات قربانیاں ہو سکتی ہیں ۔(فتاوٰی عالمگیری ج5 ص304 کوئٹہ)
4-نابالغ کی طرف سے اگرچہ واجب نہیں مگر کر دینا بہتر ہے اور اجازت بھی ضروری نہیں ۔بالغ اولاد یا زَوجہ کی طرف سے قُربانی کرنا چاہے تو اُن سے اجازت طلب کرے اگر اُن سے اجازت لیے بغیر کر دی تو ان کی طرف سے واجب ادا نہیں ہو گا (فتاوٰی عالمگیری ج5ص304کوئٹہ،بہارِ شریعت حصہ15ص134مدینۃ المرشد بریلی شریف)اجازت دو طرح سے ہوتی ہے (1)صراحتہً مَثَلاً ان میں سے کوئی واضح طور پر کہہ دے کہ میری طرف سے قُربانی کر دو(2) دَلالۃً یعنی انڈر اِسٹُوڈ ہو مَثَلاً یہ اپنی زَوجہ یا اولاد کی طرف سے قُربانی کرتا ہے اور انہیں اس کا علم ہے اور وہ راضی ہیں۔(فتاوٰی اہلسنت غیر مطبوعہ)
5-قُربانی کے وقْت میں قُربانی کرنا ہی لازِ م ہے کوئی دُوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہو سکتی مَثَلاً بجائے قُربانی کے بکرا یا اس کی قیمت صَدَقہ کر دی جائے یہ ناکافی ہے (فتاوٰی عالمگیری ج5ص293)
6-قربانی کے جانور کی عمر:اُونٹ پانچ سال کا ،گائے دو سال کی ،بکرا (اس میں بکری ،دُنبہ، دُنبی،بھیڑ اور بھیڑی شامل ہیں )ایک سال کا ۔اس سے کم عمر ہو تو قربانی جائز نہیں ،زیادہ ہو تو جائز بلکہ افضل ہے ۔ہاں دُنبہ یا بھیڑ کا چھ مہینے کا بچہ اگر اتنا بڑا ہو کہ دُور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے (دُرِّ مختار ج9ص533 دارالمعرفۃ بیروت) یاد رکھیے!مطلقاً چھ ماہ کے دُنبے کی قربانی جائز نہیں اُس کا اتنا فربہ اور قد آور ہونا ضروری ہے کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا لگے ۔اگر6ماہ بلکہ سال میں ایک دن بھی کم عمر کا دُنبے یا بھیڑ کا بچہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا نہیں لگتا تو اُس کی قربانی نہیں ہو گی۔
7-قربانی کا جانور بے عیب ہونا ضروری ہے اگر تھوڑا سا عیب ہو(مثلاً کان چِرا ہو ا ہو یا کان میں سوراخ ہو)تو قربانی مکروہ ہو گی اور زیادہ عیب ہو تو قربانی نہیں ہو گی ۔(دُرِّ مختار مَعَہ رَدُّ المحتار ج9ص536،بہارِ شریعت حصہ15ص140)
8-جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں اُس کی قربانی جائز ہے اور اگر پیدائشی کان نہ ہوں یا ایک کان نہ ہو ،اُس کی قربانی ناجائز ہے ۔(فتاوٰی عالمگیری ج5ص297 کوئٹہ)
9-ایسا پاگل جانورجو چَرتا نہ ہو ،اتنا کمزور کہ ہڈّیوں میں مغز نہ رہا،اندھا یا ایسا کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو ،ایسا بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو ،ایسا لنگڑا جو خود اپنے پاؤں سے قربان گاہ تک نہ جا سکے،کان،دُم یا چکّی ایک تہائی(3/1)سے زیادہ کٹے ہوئے ہوں ،ناک کٹی ہوئی ہو،دانت نہ ہوں،تھن کٹے ہوئے ہوں ان سب کی قربانی ناجائز ہے بکری میں ایک تھن کا خشک ہونا اور گائے ،بھینس میں دو کا خشک ہونا ناجائز ہونے کے لیے کافی ہے ۔ (دُرِّ مختار مَعَہ رَدُّ المحتار ج9ص535،بہارِ شریعت حصہ15 ص140)
10-بہتر یہ ہے کہ اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے کرے جبکہ اچھی طرح ذبح کرنا جانتاہواوراگر اچھی طرح نہ جانتا ہو تو دوسرے کو ذبح کرنے کا حکم دے مگر اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ وقت قربانی وہاں حاضر ہو۔(فتاوٰی عالمگیری ج5ص300 کوئٹہ)
11-قربانی کی اور اس کے پیٹ میں سے زندہ بچہ نکلا تو اسے بھی ذَبح کر دے اور اسے کھایا جا سکتا ہے اور مَرا ہوا بچہ ہوا ہو تو اسے پھینک دے کہ مُردار ہے ۔(بہارِ شریعت حصہ15 ص146 مدینۃ المرشد بریلی شریف)(مرا ہوا بچہ نکلا تب بھی قربانی ہو گئی اور گوشت میں بھی کسی قسم کی کراہیت نہیں)
12- دوسرے سے ذَبح کروایا اور خود اپنا ہاتھ بھی چھری پر رکھ دیا کہ دونوں نے مل کر ذَبح کیا تو دونوں پر بِسْمِ اللّٰہ کہنا واجب ہے ۔ایک نے بھی جان بوُجھ کر اللّٰہ کا نام ترک کیا یا یہ خیال کر کے چھوڑ دیا کہ دوسرے نے کہہ لیا ہے مجھے کہنے کی ضرورت نہیں دونوں صورتوں میں جانور حلال نہ ہوا۔(در مختار ج9ص551دار لمعرفۃ بیروت)
قربانی کا طریقہ:
(چاہے قربانی ہو یا ویسے ہی ذَبح کرنا ہو )سنّت یہ چلی آ رہی ہے کہ ذَبْح کرنے والا اور جانور دونوں قبلہ ُرو ہوں،ہمارے عَلاقہ (یعنی پاک و ہند) میں قبلہ مغرب میں ہے ،اس لیے سرِ ذَبیحہ(جانور کا سر)جنوب کی طرف ہونا چاہیے تاکہ جانور بائیں(اُلٹے )پہلو لیٹا ہو اور اس کی پیٹھ مشرق کی طرف ہو تاکہ اس کامنہ قبلہ کی طرف ہو جائے ،اور ذَبح کرنے والا اپنا دایا ں پاؤںجانور کی گردن کے دائیں(یعنی سیدھی طرف کے ساتھ والے )حصہ پر رکھے اور ذَبح کرے اور خود اپنا یا جانور کا منہ قبلہ کی طرف کرنا ترک کیا تو مکروہ ہے ۔(فتاوٰی رضویہ ج20ص216،217 رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاہور)
قربانی کا جانور ذَبح کرنے سے پہلے یہ دُعا پڑھی جائے :
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ(79) اِن صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(162) لَاشَرِیْکَ لَہ وَبِذٰلِک اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ(163) 1
اور جانور کے پہلو پر اپنا سیدھا پاؤں رکھ کر
اَللّٰھُمَّ لَکَ وَ مِنْکَ بِسْمِ اللّٰہ اللّٰہُ اکْبَرْ۔ 2
پڑھ کر تیز چھری سے جلد ذبح کر دیجئے۔
قربانی اپنی طرف سے ہو تو ذَبح کے بعدیہ دُعا پڑھے:
اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسَلَّم۔ 3
اگر دُوسرے کی طرف سے قربانی کریں تو مِنِّی کے بجائے مِنْ کہہ کر اس کا نام لیجئے ۔(بوقتِ ذَبح پیٹ پر پاؤ ں نہ رکھے کہ اس طرح بعض اوقات خون کے علاوہ غذا بھی نکلنے لگتی ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1:ترجمۂ کنز الایمان :میں نے اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان اور زمین بنائے ایک اُسی کا ہو کر اور میں مشرکوں میں نہیں۔بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللّٰہ کے لیے ہے جو رب سارے جہان کا ،اس کا کوئی شریک نہیں مجھے یہی حکم ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں(الانعام79،162،163)
2:اے اللہ تیرے ہی لئے اور تیری دی ہوئی توفیق سے،اللہ کے نام سے شروع اللہ سب سے بڑا ہے۔
3:اے اللہ میری طرف سے قبول فرما ،جس طرح تُو نے اپنے خلیل اِبرَاہِیم علیہ الصلوۃ والسلام اور اپنے حبیب مُحَمَّدصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسَلَّم کی طرف سے قبول فرمائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔