قرۃ العین حیدر کا انتقال

قیصرانی

لائبریرین
گیان چند کے انتقال کے بعد اردو کو ایک اور صدمہ۔ قرۃ العین حیدر نئی دہلی میں انتقال کر گئیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

up08.gif
 

F@rzana

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون

اردو ادب میں خواتین کی نمائندگی کرنے والا ایک معتبر نام، ان کے انتقال پر ملال پر تعزیت کا اظہار کرتی ہوں،
محترمہ سے میری ملاقات لندن میں ہونے والی عالمی اردو کانفرنس میں ہوئی تھی بیحد محبت سے پیش آئی تھیں اور میری تحریر پر بہت حوصلہ افزائی فرمائی تھی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یاد رھے کہ قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں سکونت اختیار کرلی تھی مگر شائد پاکستان پسند نیہں ایا اور واپس ھندوستان تشریف لے گی۔وھاں پر پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
Dilkash مجھے کافی عجیب سا لگ رہا ہے کہ جونہی کسی مشہور لکھاری کے مرنے کی خبر مشہور ہوئی، آپ اس کی کردار کشی کے لئے آن پہنچے۔۔۔ براہ کرم تھوڑا سا تو خیال کیجئے
 

Dilkash

محفلین
Dilkash مجھے کافی عجیب سا لگ رہا ہے کہ جونہی کسی مشہور لکھاری کے مرنے کی خبر مشہور ہوئی، آپ اس کی کردار کشی کے لئے آن پہنچے۔۔۔ براہ کرم تھوڑا سا تو خیال کیجئے

برادرم
میں نے تو ایسا کچھ نیہں لکھا!!!
پتہ نہیں اپ کو کیوں عجیب لگ رھا ھے؟
کوئی اور بات ھو تو بتاؤ
 

نبیل

تکنیکی معاون
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ قرۃ العین حیدر کی کتاب آگ کا دریا کے ایک حصے پر شدید تنقید کے باعث وہ دلبرداشتہ ہو کر ہندوستان منتقل ہوگئیں۔ واللہ اعلم۔
 

محمد وارث

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون


مجھے انتہائی دکھ ہوا ہے یہ خبر پڑھ کر۔ مرحومہ اردو ادب کا ایک درخشندہ ستارہ تھیں اور "تقسیم" کے وقت کی نوجوان نسل کی نمائندہ ادیب۔

انکا ناول "آگ کا دریا" اردو ناولوں٘ کے چند بہترین ناولوں میں سے ایک ہے، میں نے جب پہلی دفعہ یہ ناول پڑھا، کہ میرے لڑکپن کا زمانہ تھا اور نیا نیا اردو ادب پڑھنا شروع کیا تھا، تو کئی ماہ تک اس کے سحر میں گم رہا اور پھر اسے بار بار پڑھا۔ اور اب بھی جب اسے پڑھتا ہوں تو یہی لگتا ہے کہ پہلی بار پڑھ رہا ہوں۔

ہندوستان کی ہزاروں سالوں پر محیط تاریخ کے پس منظر میں لکھا ہوا یہ ناول کم از کم میرے لیے اردو ناولوں میں ایک معیار کا درجہ رکھتا ہے، اس جیسے ناول اردو میں کم ہی لکھے گئے ہیں۔ اور اگر کوئی اردو ناول اسے سے ٹکر کھا سکتا ہے تو عبداللہ حسین کا "اداس نسلیں" ہے۔ اس ناول نے بعد کے "سنیجیدہ" ناول نگاروں کو کافی متاثر کیا ہے، جیسے مستنصر حسین تارڑ کا "بہاؤ"۔

مرحومہ کی خود نوشت "کارِ جہاں دراز ہے" بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

اللہ تعالٰی مرحومہ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دیں، آمین یا رب العالمین۔

۔

 

فاتح

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون ہ​
اردو ادب کے لیے محترمہ کی خدمات لائقِ تحسین ہیں۔

وارث صاحب نے انتہائی عمدہ مضمون لکھا ہے محترمہ کے بارے میں۔ شکریہ وارث

دلکش صاحب! آپ ایک قرآنی آیت کی املا غلط کر گئے ہیں۔ "انا للہ و انا الیہ راجعون" لکھتے ہوئے "انّا الیہ" کو " انّا الہ" لکھ گئے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ "یقیناً ہم معبود ہیں"۔ براہِ کرم اسے درست فرما لیجیے۔ شکریہ
 
مجھے بہت حیرت ہوئی یہ خبر پڑھ کر اور اپنی لاعلمی کا شدت سے اندازہ بھی ہوا ، میں انہیں مرحومین میں سمجھتا تھا جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کبھی ان کا کوئی بیان یا انٹرویو نظر سے نہیں گزرا۔ اتنی بڑی ادیبہ اور میڈیا نے انہیں یکسر نظر انداز کر رکھا تھا ، انتہائی حیرت کی بات ہے۔

آگ کا دریا کے بارے میں بہت کچھ سنا اور پڑھا ہے مگر خود ابھی تک پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا ، ان کی ایک کتاب آخری شب کے مسافر کچھ پڑھی ہے اور اندازہ ہوتا ہے ان کی عمدہ تحریر کا۔ مجھے ابھی تک حیرت ہے کہ اتنی بڑی اردو کی ادیبہ اور میڈیا والوں نے اسی طرح نظر انداز کر رکھا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
افسوس ناک خبر ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ مرحومہ پر اپنی بہترین رحمتیں نازل فرمائے۔
 

رضوان

محفلین
ایک اور زندہ لیجنڈ رخصت ہوا۔
خدا ان کی روح کو امن میں رکھے۔
مجھے انکی تخلیقات کے مطالعہ کا زیادہ موقع نہیں ملا مگر آگ کا دریا نے میری سوچوں کو وسعت دی اس ناول نے مجھے نئے زاویے دیے چیزوں کو دیکھنے اور سوچنے کے۔
دلرُبا (اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو) صنفی امتیاز پر شاندار تحریر ہے۔
 

رضوان

محفلین
نبیل نے لکھا
"میں نے کہیں پڑھا تھا کہ قرۃ العین حیدر کی کتاب آگ کا دریا کے ایک حصے پر شدید تنقید کے باعث وہ دلبرداشتہ ہو کر ہندوستان منتقل ہوگئیں۔ واللہ اعلم۔"

نبیل
محترمہ قرۃ العین حیدر سید سجاد حیدر یلدرم کی بیٹی تھیں اور 1958 میں ایوب خان کے مارشل لاء کے بعد احتجاجاً واپس انڈیا چلی گئیں تھیں جو حالات ترقی پسند مصنفین کیخلاف پیدا کیے جاچکے تھے اُسی کے تحت انہوں نے یہ قدم اٹھایا تھا۔ ان دنوں یہ لطیفہ خاصا مقبول تھا
" ایک ادیب کے گھر پولیس کا چھاپہ پڑا اور انہیں پولیس پکڑ کر لیجانے لگی کہ تم کمیونسٹ ہو تو وہ صاحب گھگیائے قسم لے لیجیے میں تو اینٹی کمیونسٹ ہوں تھانیدار نے گرفتار کرتے ہوئے کہا ہمیں ہر قسم کے کمیونسٹ پکڑنے کا آرڈر ہے۔"
رہ گئی ایوارڈ والی بات تو حضرت قرۃ العین حیدر کے مرتبے میں پدم شری ایوارڈ ملانے یا گھٹانے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔
وصیت والی بات ابتک کسی کو یاد نہیں آئی ( کچھ سنگ اس حوالے سے بھی۔۔۔۔۔)
 

نبیل

تکنیکی معاون
رضوان، میں نے دراصل یہ نوائے وقت کے ادبی ایڈیشن میں پڑھا تھا جو کہ ڈاکٹر انورسدید نے تحریر کیا تھا۔ یہ گزشتہ سال کی بات ہے۔ وہ بھی اداس نسلیں اور آگ کا دریا پر بات کر رہے تھے۔ عجیب بات ہے کہ عام طور پر دونوں کتابوں کا اکٹھا ذکر ہوتا ہے۔ پاکستان سے آتے ہوئے میں اداس نسلیں اور نادار لوگ (عبداللہ حسین کا دوسرا ناول) ساتھ لیتا آیا تھا لیکن ابھی تک پڑھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔

ایوب خان کے زمانے میں کمیونسٹوں پر سختی کے ذکر پار یاد آیا کہ میرے والد صاحب اس زمانے میں ایک رسالہ چین باتصویر خریدتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ یہ رسالہ بہت سستا ملتا تھا اور اس میں بہت اچھے معیار کا کاغذ استعمال ہوتا تھا اور اس سے کتابوں کے کور بہت اچھے بنتے تھے۔ :) بس اسی بات پر ایک دن پولیس والوں نے ہمارے گھر آ کر والد صاحب سے انٹیروگیشن شروع کر دی کہ آپ یہ رسالہ کیوں خریدتے ہیں۔ یعنی صرف یہ رسالہ خریدنے پر کمیونسٹوں سے روابط کا شبہ ہو گیا تھا۔ :confused:
 

الف عین

لائبریرین
آگ کا دریا کے علاوہ مرحومہ کے اس سے پہلے کے ناول بھی بہت خوب تھے۔ میری ذاتی پسند میں ’میرے بھی صنم خانے‘ بھی شامل ہے۔ اور دوسرے دو ناولٹ۔ ہاوسنگ سوسائٹی اور سیتا ہرن۔
عینی آپا عرصے سے فعال نہیں تھین بلکہ گوشہ نشین۔ دہلی میں پچھلے سال ناول پر ایک سیمنار ہوا تھا تو محترمہ خصوصی مہمان تھیں اور جو وہاں تقریر کی تھی وہ میں نے سمت کے نسائی اور تانیثی ادب میں شامل کی تھی۔ کافی بے ساختہ باتیں کی تھیں لیکن غور طلب۔ ان کی نثر کا جادو وہ ہے جو ایک عرصے تک سر چڑھ کر بولتا رہا ہے۔ خود میرے ناولٹ مائل بکرم راتیں ایک لحاظ سے آگ کا دریا کا ایکسٹینشن ہے کہ اس میں بنگلہ دیش تک کی تاریخ آ گئی ہے۔ موضوع سے ہٹ کر یہ بھی بتا دوں کہ تین چار دن پہلے ہی یہ ناول بھی مکمل ٹائپ ہو گیا ہے اور جلد ہی مکمل مہیا کروں گا۔
 
بہت شکریہ اعجاز صاحب ۔

کسی مصنف یا شاعر کو خراج تحسین پیش کرنے یا اسے یاد کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہوتا ہے کہ اس کے کام کو سراہا جائے اور اسے یاد رکھا جائے۔ قرتہ العین حیدر کی تخلیقات کو ویب پر ڈھونڈتے ہوئے یہ ہاتھ لگا تو سوچا کہ پوسٹ‌کر دوں۔


آئینہ جہاں (جلد اوّل
مرتب:جمیل اختر
صفحات:600، قیمت 266.006 روپئے

ناشر:قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، ویسٹ بلاک:1¡ وِنگ:6¡ نئی دہلی-110066

قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے اردو کے کلاسیکی سرمایے کی بازیافت اور صحت متن کے ساتھ انھیں شائع کرنے کا جو جامع منصوبہ بنایا ہے قرة العین حیدر کا یہ کلیات اسی کا حصہ ہے۔ اس سلسلے کی پہلی جلد ہمارے پیش نظر ہے جس میں ان کے افسانوں کو یکجاکیا گیا ہے اس کی ترتیب و تصحیح کا کام جمیل اختر نے انجام دیا ہے اس کلیات کا نام عام ڈگر سے ہٹ کر ”آئینہ ¿ جہاں“ رکھا گیا ہے۔ پہلی جلد میں کل 35افسانے شامل ہیں جمیل اختر کے مطابق یہ افسانے ابتدا سے 1960تک کے تحریر کردہ ہیں۔
مرتب نے قرة العین حیدر کے افسانوی سفر کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے جس میں پہلا دور ابتدا سے تقسیم ہند یعنی 1947 تک کا ہے۔ یہ قرة العین حیدر کی طالب علمی کا دور ہے چنانچہ مرتب کے بقول اس دور کی افسانہ نگاری میں طالب علمانہ زندگی کی ہنگامہ آرائیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
دوسرا 1948 سے 1960 تک محیط ہے جو مرتب کے بقول انسانی رشتوں کے انہدام اور اپنے ملک کی تہذیبی ثقافت سے کٹ کر ایک نئے ملک میں جینے اور زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنے کا زمانہ ہے۔
تیسرا دور۔ پاکستان سے واپسی اور قیام ممبئی یعنی 1960 سے 1970 کا زمانہ اور چوتھا دور۔ ملازمت سے سبکدوشی اور قیام دلی (1970-1990) پر مشتمل ہے۔اس کلیات میں شامل جملہ افسانے مصنفہ کے نصف تخلیقی سفر کا احاطہ کرتے ہیں مشمولہ 35 افسانوں میں گیارہ افسانے یعنی ”ایک شام“، ”ارادے“، ”خوابوں کے محل“، ”دھندلکوں کے پیچھے“، ”میری گلی میں ایک پردیسی“،”زندگی کا سفر“، ”دوسرا کنارہ“، ”شیشے کے گھر جو ٹوٹ گئے“، ”پچھلے برسوں کی برف“، ”وہی زمانہ وہی فسانہ“، ”رام یہ کیسا گورکھ دھندا ہے“شائع شدہ ہونے کے باوجود اس سے پہلے قرة العین حیدر کے کسی بھی مجموعے میں شامل نہیں تھے۔ جس کا اعتراف قرة العین حیدر نے اپنے پیش لفظ میں بھی اس طرح کیا ہے:
”اس جلد میں 35افسانے شامل ہیں جن میں بہت سے افسانے ایسے ہیں جو اس سے قبل کسی مجموعے میں شامل نہیں ہوئے تھے البتہ رسائل میں شائع ہوچکے تھے اس کتاب کے مرتب جناب ڈاکٹر جمیل اختر صاحب نے انھیں تلاش بسیار کے بعد مختلف رسائل سے حاصل کیا ہے ....چنانچہ میں سمجھتی ہوں کہ فاضل مرتب نے یہ کام بڑی محنت اور جستجو کے ساتھ کیا ہے۔
 

رضوان

محفلین
شمشاد بھائی
تعجب ہے ابھی تک انکی کوئی تحریر ہم نے برقیائی بھی نہیں ہے۔ کیوں نہ اب انہی کا کوئی ناول چاہے مختصر ہی برقیا لیا جائے؟
 

الف عین

لائبریرین
مجھے اب تک محض ایک افسانہ ملا تھا ’نظارہ درمیاں ہے‘ جسے ماواراء نے کہیں ’نظارہ‘ کے نام سے پوسٹ کیا تھا۔ اس کی تدوین کر کے میں سمت کے شاید شمارہ 2 میں دے چکا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
ہاں، یاد آیا۔ کتاب گھر ڈاٹ کام کے اردو کے مشہور افسانے میں ’ستاروں سے آگے‘ بھی ہے۔
 
Top