ادبی ہو یا نہ ہو معنی تو بے ادب ہی ہیں نا۔
plagiarism میرے خیال میں تو نہایت ہی گھٹیا فعل ہے اور جو کوئی اس کا ارتکاب کرے اس کی میری نظر میں کوئی قدر نہیں رہتی۔
اور فیض پر اتنے بڑے الزام کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ فیض جو کہ ساری عمر غریبوں کو ان کی عزت دلانے کی بات کرتے رہے اور خود ان کی عزت نفس کا یہ معیار ہے کہ چوریاں کرتے پھر رہے ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ یہ بات کسی طور ماننے کی لائق نہیں ہے۔
جہاں تک عروضی غلطیوں کی بات ہے، تو وہ اتنی بڑی بات نہیں ہے حالانکہ عروضیوں کے لئے تو اس سے بڑی کوئی برائی نہیں ہے۔
اور سرقہ والی بات بھی بہت ہی arbitrary ہے۔ یہ کون بتائے کہ کہ کس شعر کا معیار کس شعر سے بہتر ہے۔ کوئی بھی شاعر یا پھر دنیا کے کسی علم (سائنس وغیرہ) میں بھی 100 فی صد اپنی تخلیقات نہیں کرتا۔ کہیں نہ کہیں سے خیالات لیتا ہے اور کچھ اپنے خیلات بھی اس میں ہوتے ہیں۔ تو یہ بات تو بہت ہی عجیب ہے کہ اس طرح کی چیزوں کو قزاقی وغیرہ کہا جائے۔ اگر ہم یہی تعریف قزاقی کی لیں تو پھر تو دنیا میں کوئی بھی اس الزام سے بری نہیں ہے۔